یا مجھے افسرِ شاہانہ بنایا ہوتا
یا مرا تاج گدایانہ بنایا ہوتا
اپنا دیوانہ مجھے بنایا ہوتا تُونے
کیوں خردمند بنایا، نہ بنایا ہوتا
خاکساری کے لیئے گرچہ بنایا تھا مجھے
کاش!!!! سنگِ درِ جاناں بنایا ہوتا
نشہءِ عشق کا گر ظرف دیا تھا مجھ کو
عمر کا تنگ نہ پیمانہ بنایا ہوتا
دلِ صد چاک بنایا، تو بلا سے، لیکن
زلفِ مُشکیں کا تری، شانہ بنایا ہوتا
صوفیوں کے جو نہ تھا لائقِ صحبت تو مجھے
قابلِ جلسہءِ رِندانہ بنایا ہوتا
تھا جلانا ہی اگر دوریءِ ساقی سے مجھے
تو چراغِ درِ جاناں بنایا ہوتا
روز معمورہِ دُنیا میں خرابی ہے "ظفر"
ایسی بستی سے تو ویرانہ بنایا ہوتا
(بہادر شاہ ظفر)