نور وجدان
لائبریرین
مسافتیں قدم قدم ساتھ رہتی ہیں اور ہمارے یقین سے کھیلتی ہیں ۔ زندگی کے گُزرے ماہ و سال نے میرے یقین کو پایہ یقین تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ وہ یقین جو سوچ سے شروع ہوتا ہماری سوچ ختم کردیتا ہے ، وہ یقین جو فہم و ادراک سے ہوتا ہمیں ناقابل ِ فہم اشیاء کی طرف لے جاتا ہے یا سادہ الفاظ سے وراء سے ماوراء کا سفر کرا دیتا ہے ۔ بے یقینی نے میرے یقین کو دھندلا کیا اور میں نے اللہ سے ضد شُروع کردی ۔ انسان اللہ سے ضد کرے اور اللہ پھر اس کو اپنی طرف کھینچے یعنی کہ ہم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے نہیں تھامتے بلکہ اس کی رسی ہمیں ایسا جھنجھوڑتی ہے کہ ہماری رگ رگ اس کی حمد و تسبیح کرتی ہے ۔ اس یقین و بے یقینی کے سفر کو کچھ سطور پر مربوط کرتے آپ سب کے سامنے رکھ رہی کہ ہونا وہی جو اللہ کی چاہت ہے ۔ آدم و حوا لاکھ چاہیں اس کے مخالفت کریں وہ کر نہ سکیں اگر اللہ نہ چاہے اور لاکھ چاہیں ۔میں نے اسی سفر کو عہد الست میں دہرایا تھا اور یہ جو لکھا ہے شاید اس کو پہلے سے لکھ چکی ہوں ، میں آپ کے سامنے ناقابل فہم تحاریر رکھے دیتی ہوں اور آپ لوگوں کا حسن ظن ہے کہ اس کو پڑھے جاتے ہیں کہ میں ایک مسافر ہوں جس نے زندگی میں یقین کے مدارج سیکنڈز میں طے کرنے ہیں اس لیے میری تشنگی کو سمجھنے والے کوئی کوئی ہیں ۔میرا دل سوختگی و شکستگی کے باوجود کسی بھی مکمل انسان سے بہتر ہے کہ میں نامکمل اس لیے ہوں کہ جان چکی ہوں اللہ کا گھر شکستہ دلوں میں جلد بن جاتا ہے۔ یہ دل کثرت کے جتنے جام پیے جاتے ہیں اتنے ہی اس کے قریب ہوتے جاتے ہیں کہ جتنی چاندنی دنیا میں بکھری ہیں وہ اپنی جگہ مکمل ہوتے ہوئے بھی نا مکمل ہے ، جیسے چاند رات کے بغیر اور دن سورج کے بغیر ادھورا ہے ۔ پہاڑ ، سمندر، زمین ،صحرا ، جنگل سبھی مظاہر ایک دوسرے کے بھروسے پر قانون قدرت کے نظام کو رواں دواں کیے ہوئے ہیں ۔
میں سائنس دان بننا چاہتی تھی اس لیے فزکس میرا پسندیدہ مضمون ہوا کرتا تھا۔ بچپن میں خوابوں کی دنیا میں اپنی تجربہ گاہ سجائی ہوئی تھی اور میں اپنے خیالوں میں مختلف تجربات کیا کرتی تھی ۔ میں نے سوچا تھا میں ایسا ڈیوائس یا آلہ بناؤں گی جس سے میں مختلف رنگوں کی شعاعوں کو آپس میں ملا کے طاقت حاصل کرسکوں ۔ یوں اگر خود کو دیکھوں تو مجھے طاقت حاصل کرنے کا جُنون رہا ہے مگر ایسا ذریعہ جو میرا اپنا ایجاد کردہ ہو ۔ طاقت کا جُنون مجھے دنیا کی تسخیر کی طرف لے جانے کی طرف مجبور کرتا اور اللہ کی جانب سے اسی شدت سے میں واپس بلا لی جاتی تھی ۔ یونہی میں ایک محفلِ نعت پر بلا لی گئی ۔حمد و ثناء کی محفل میں فلک سے عرش تک نور کی برسات تھی یوں کہ عالم روشنی میں نہا گیا ہو اور میں اس کیف میں مبتلا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔، جب رات اس ذکر میں گُزری تو علی الصبح میں نے پڑھنے سے انکار کردیا اور علی الا علان قرانِ پاک کے حفظ کا ارادہ کیا۔قرانَ پاک کُھول کُھول کے ہمیں کہاں بتایا جاتا ہے ۔ ہمیں اپنے محبوب کا کلام رٹا لگوانے کے لیے دیا گیا ہے ؟ اس کو سوچتی رہی کہ مجھے دنیا سے کیا لینا دینا ، مجھے تو سب اس کتاب سے ملنا ہے ۔ میرے دل پر رقت طاری رہی تھی ۔مجھے لگا میرا دل کسی موم کی مانند ہے اور وہ گھُل گیا ہے۔ چاک سینہ ، چاک جگر ۔۔۔۔یہ الفاظ اس کیفیت کو بیان کرنے سے قاصر ہوں کہ میری آنکھ سے آنسو بہت کم نکلا کرتے تھے کُجا کہ پورا دن روتے روتے گُزار دوں ۔ درحقیقت مجھے خُدا یاد آگیا تھا ، اپنے ہونے کا مقصد مجھی دنیا سے دور لے جاتا مگر دنیا مجھے اپنی طرف کھینچتی ۔میں نے رسی کا توازن بگاڑ دیا۔ دنیا میں بھی رہتی اور اس کی فکر میں بھی ۔ میرا یقین بھی منتہی کو پُہنچ کے بے یقینی کی بُلندیوں میں غرق ہوگیا۔ اس غرقابی سے مجھے نکال کے دوبارہ یقین پر استوار کردیا گیا اور یہ ذات وہی ذات ہے جو انسان پر رحم کرتی ہے ورنہ انسان کس قابل ہے ۔
ایف ایس سی سے قبل راقم نے ارادہ کیا کہ پاکستان اٹامک نیوکلیئر انرجی کمیشن میں بحثیت سائنس دان کے کام کرنا ہے مگر معاشی حالات نے گھر سے نکلنے پر مجبور کردیا ۔ میں پڑھنا چاہتی تھی اور جو خواب بُن چکی تھی ان کا پایہ تکمیل تک پُہنچانا چاہتی تھی ۔ میرا اس اصول پر یقین رہا تھا کہ انسان حالات کو اپنے اختیار میں لاتا مفتوح کرتا خود فاتح ہوتا ہے اور وہ کمزور انسان ہوتے ہیں جو حالات کے مفتوح ہوجاتے ہیں ۔ اس لیے ہر وہ کام جو مشکل ہوتا میں وہ جان کے اختیار کرتی کہ آسان تو ہر کوئی کرتا ہے مگر مشکل کوئی کوئی کرتا ہے ۔زندگی مشکل نبھاتے نبھاتے گُزرتی رہی اور یقین کے بخشے حوصلے سے ضُو پاتی رہی ۔ اپنی فیلڈ بدل کے بیوروکریٹ بننا خواب یا جُنون رہا ہے ۔یا یوں کہے لیں کہ طاقت حاصل کرنا میرا جُنون رہا ہے اور میں وہ مجنوں جس نے دُنیا کو لیلی بنائے رکھا ۔م چونکہ گھر بھی خود چلانا پڑا اور پڑھائی کے لیے پیسے نہیں تھے اس لیے بنا وقت ضائع کیے پرائیویٹ امتحان دینا شروع کیے ۔ یہاں پر میری زندگی کا مقصد جس کا بچپن سے خواب بُنا تھا ، وہ مجھے دور جاتا محسوس ہوا میں نے پناہ اختیار کرتے مذہب میں امان دھونڈتا شروع کردی ۔
ا
میٹرک میں شہاب نامہ پڑھا رکھا تھا ۔ اس کا اثر اس مقصد کے ٹوٹ جانے یعنی یقین کے ختم ہونے کے بعد'' نیا یقین'' بیدار ہونے پرا ہوا اور میں نے سوچا مجھے ''سی ایس ایس'' کرکے اعلی عہدے پر تعینات ہونا ہے ۔ یقین جب ٹوٹ جائے تو کبھی کبھی اس کا سفر مخالف سمت میں شروع ہوجاتا ہے ۔ میں نے اللہ سے ضد لگانا شروع کردی ۔ہر وہ کام کرتی جو مجھے لگتا اللہ کا ناپسند ہوسکتا ہے ۔ خاندان والے شیعہ ،سنی ،وہابی کے اختلاف میں پھنسے رہتے میں نے ہر فرقے سے لا تعلقی اختیار کرلی ۔ نماز جو ساری زندگی کبھی قضا نہیں کرتی تھی میں نے پڑھنا چھوڑ دی اور وہ قران پاک جس کی سب سے بڑی سورۃ کی سحر کے وقت بیٹھ کے تلاوت کرتی تھی اسی کو ہاتھ لگانا چھوڑ دیا اور جب مجھے کہا جاتا نماز پڑھو تو صاف انکار کرکے کہے دیتی کہ مجھے اللہ نماز میں نہیں ملتا ۔وہ کہتی دُعا مانگ لیا کر اپنے لیے کہ اللہ محنت سے زیادہ دعا پر نواز دیتا ہے مگر میرا کہنا تھا کہ دعا کچھ بھی نہیں ہوتی سب کچھ انسان کی اپنی جستجو ہوتی ہے ۔ انسان کی اپنی جستجو ہی سب کچھ ہوتی ہے چاہے وہ ضد سے چاہے وہ اس کی سمت میں ہو مگر جو اس'' ضد اور سمت'' یعنی نفی اور اثبات کے درمیاں ہوتے ہیں وہ نہ ادھر کے ہوتے ہیں نہ اُدھر کے ہوتے ہیں میں اپنی دہریت میں ہر مذہبی تعلیم کو رد کرچکی تھی ۔
راقم نے بیک وقت صبح ، شام نوکری کے ساتھ اپنے تعلیمی ادراے کی کلاسز لیتے زندگی کی صبح میں تیز دھوپ کا سامنا کیا ہے ۔ یوں تعلیم کا ماخد کتاب نہیں بن سکا اور پہلا چانس بنا پڑھے دے آئی جس میں چھ مضامیں چھوڑ دیے اس بے یقینی پر کہ میں پڑھے بغیر کچھ نہیں ہوں ۔ نتائج نے ثابت کیا کہ میں بنا پڑھے سب کچھ ہُوں کہ مستقبل قریب شاندار نتیجہ لاتا اور امید سحر کی جانب لے گیا ۔ ہر ماہ کچھ کتابیں خریدتے وقت پڑھ لیا کرتی ۔ اس طرح ایم اے انگلش کی کلاسز پڑھانا شُروع کردیں اور ساتھ سی ایس ایس کے کلاسز ملتان کے سب سے بڑے ادارے میں دنیا شُروع کردیں کہ مری قابلیت کے اساتذہ معترف تھے اور نتیجے سے پہلے مجھے اپنے ادارے میں پڑھانے کی پیش کش کردی ۔ جُوں جُوں وقت گزرتا رہا ، وقت نے حالات بدلے اور نئے سلسلے بھی شُروع ہوگئے ۔ مظہر سے جُڑنا گویا حقیقت سے ملنا ہے اور یہی سلسلہ بھی ساتھ ساتھ چلا ۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ جو منکرین محبت تھے ان کو اقرار محبت کرنا پڑا اور یوں وقت کے ستم ظریفی کہ یقین کے بعد بے یقینی کا سفر شُروع کردیا گیا ۔ اسی سفر کی بے یقینی اور بڑھا دی گئی جب راقم نے اگزامز میں پاس ہونے کے بعد ایلوکیشن میں مشکلات کا سامنا پایا ۔ ایسی مایوسی ہوئی کہ کتابیں جلا دیں اور کچھ کسی کو دے دیں کہ بھلا ہوجائے گا اور کچھ ردی کے مول پر اور کچھ بک شاپس پر بیچ ڈالی ۔ جس بات نے مجھے ضرب لگائی میں نے اسی سے کنارا کرنا شروع کردیا ۔ میں نے اللہ کی مکمل نفی کر دی اور کہ دیا کہ اللہ تو کہیں بھی نہیں دکھتا اور اگر دکھتا تو مجھے ایسے رُسوا نہیں کرتا ۔مجھ پر کُفر کے فتوی بھی لگے اور کسی نے کہا دوبارہ کلمہ شہادت پڑھو ۔ یوں شہادت دیتے اس کی ذات کی گواہی دیتے دوبارہ سے یقین کی جانب سفر شُروع ہوا۔
میں نے اس کی جناب میں گستاخی کر ڈالی ، اس کے موجودگی سے انکار ڈالا مگر اس نے اپنی رحمت کی ٹھنڈی آغوش میں لے لیا باکل ایسے جیسے ایک ماں اپنی بچے کو لوری اور تھپکی دے کے سلاتی ہے ۔میں اب اللہ سے انکار نہیں کرتی اور نہ ہی اس کو للکارتی ہوں ۔ جب انسان اس کو للکارتا ہے تو وہ منہ کے بل گرتا ہے اور جب اس سے التجائیں کرتا ہے تو اس کو اپنی آغوش میں چھپا لیتا ہے ۔میں نے اب جو جو چاہا یوں لگ رہا ہے کہ بنا سوال کے یا بن مانگے مل رہا ہے ۔میں نے جو ارادے اس کی ضد میں یا اپنی ''خدائی'' میں بنائے، وہ ٹوٹتے رہے اور وہ جو اس نے لوح َ ازل پر قلم کر رکھا ہے وہ پورا ہوتا رہا ہے اور بے شک اسی کو پورا ہونا ہے۔ اسی کو ہم ''کن فیکون'' کی تکوین کہتے ہے کہ ا نسان اپنے اصل کی طرف لوٹتا ہے ۔میں اب کسی پر کفر کا لیبل نہیں لگاتی کہ اللہ جسے چاہے نواز دیتا ہے اور جسے چاہے اوج ثریا سے زمین و کھائیوں میں پہنچا دیتا ہے ۔ اس تحریر کا مقصد اتنا ہی کہ میں نے اپنے ارادے کے ٹوٹنے اور بننے سے اللہ کو پہچانا ہے کہ میں خدا نہیں بلکہ خدا تو عرش کی رفعتوں پر مکین مجھے بڑے پیار سے دیکھ کے مسکراتا ہوگا کہ یہ میری بندی بڑی نادان ہے میرے خلاف جاتی ہے جبکہ اس کو لوٹنا میری طرف ہے ۔
میں سائنس دان بننا چاہتی تھی اس لیے فزکس میرا پسندیدہ مضمون ہوا کرتا تھا۔ بچپن میں خوابوں کی دنیا میں اپنی تجربہ گاہ سجائی ہوئی تھی اور میں اپنے خیالوں میں مختلف تجربات کیا کرتی تھی ۔ میں نے سوچا تھا میں ایسا ڈیوائس یا آلہ بناؤں گی جس سے میں مختلف رنگوں کی شعاعوں کو آپس میں ملا کے طاقت حاصل کرسکوں ۔ یوں اگر خود کو دیکھوں تو مجھے طاقت حاصل کرنے کا جُنون رہا ہے مگر ایسا ذریعہ جو میرا اپنا ایجاد کردہ ہو ۔ طاقت کا جُنون مجھے دنیا کی تسخیر کی طرف لے جانے کی طرف مجبور کرتا اور اللہ کی جانب سے اسی شدت سے میں واپس بلا لی جاتی تھی ۔ یونہی میں ایک محفلِ نعت پر بلا لی گئی ۔حمد و ثناء کی محفل میں فلک سے عرش تک نور کی برسات تھی یوں کہ عالم روشنی میں نہا گیا ہو اور میں اس کیف میں مبتلا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔، جب رات اس ذکر میں گُزری تو علی الصبح میں نے پڑھنے سے انکار کردیا اور علی الا علان قرانِ پاک کے حفظ کا ارادہ کیا۔قرانَ پاک کُھول کُھول کے ہمیں کہاں بتایا جاتا ہے ۔ ہمیں اپنے محبوب کا کلام رٹا لگوانے کے لیے دیا گیا ہے ؟ اس کو سوچتی رہی کہ مجھے دنیا سے کیا لینا دینا ، مجھے تو سب اس کتاب سے ملنا ہے ۔ میرے دل پر رقت طاری رہی تھی ۔مجھے لگا میرا دل کسی موم کی مانند ہے اور وہ گھُل گیا ہے۔ چاک سینہ ، چاک جگر ۔۔۔۔یہ الفاظ اس کیفیت کو بیان کرنے سے قاصر ہوں کہ میری آنکھ سے آنسو بہت کم نکلا کرتے تھے کُجا کہ پورا دن روتے روتے گُزار دوں ۔ درحقیقت مجھے خُدا یاد آگیا تھا ، اپنے ہونے کا مقصد مجھی دنیا سے دور لے جاتا مگر دنیا مجھے اپنی طرف کھینچتی ۔میں نے رسی کا توازن بگاڑ دیا۔ دنیا میں بھی رہتی اور اس کی فکر میں بھی ۔ میرا یقین بھی منتہی کو پُہنچ کے بے یقینی کی بُلندیوں میں غرق ہوگیا۔ اس غرقابی سے مجھے نکال کے دوبارہ یقین پر استوار کردیا گیا اور یہ ذات وہی ذات ہے جو انسان پر رحم کرتی ہے ورنہ انسان کس قابل ہے ۔
ایف ایس سی سے قبل راقم نے ارادہ کیا کہ پاکستان اٹامک نیوکلیئر انرجی کمیشن میں بحثیت سائنس دان کے کام کرنا ہے مگر معاشی حالات نے گھر سے نکلنے پر مجبور کردیا ۔ میں پڑھنا چاہتی تھی اور جو خواب بُن چکی تھی ان کا پایہ تکمیل تک پُہنچانا چاہتی تھی ۔ میرا اس اصول پر یقین رہا تھا کہ انسان حالات کو اپنے اختیار میں لاتا مفتوح کرتا خود فاتح ہوتا ہے اور وہ کمزور انسان ہوتے ہیں جو حالات کے مفتوح ہوجاتے ہیں ۔ اس لیے ہر وہ کام جو مشکل ہوتا میں وہ جان کے اختیار کرتی کہ آسان تو ہر کوئی کرتا ہے مگر مشکل کوئی کوئی کرتا ہے ۔زندگی مشکل نبھاتے نبھاتے گُزرتی رہی اور یقین کے بخشے حوصلے سے ضُو پاتی رہی ۔ اپنی فیلڈ بدل کے بیوروکریٹ بننا خواب یا جُنون رہا ہے ۔یا یوں کہے لیں کہ طاقت حاصل کرنا میرا جُنون رہا ہے اور میں وہ مجنوں جس نے دُنیا کو لیلی بنائے رکھا ۔م چونکہ گھر بھی خود چلانا پڑا اور پڑھائی کے لیے پیسے نہیں تھے اس لیے بنا وقت ضائع کیے پرائیویٹ امتحان دینا شروع کیے ۔ یہاں پر میری زندگی کا مقصد جس کا بچپن سے خواب بُنا تھا ، وہ مجھے دور جاتا محسوس ہوا میں نے پناہ اختیار کرتے مذہب میں امان دھونڈتا شروع کردی ۔
ا
میٹرک میں شہاب نامہ پڑھا رکھا تھا ۔ اس کا اثر اس مقصد کے ٹوٹ جانے یعنی یقین کے ختم ہونے کے بعد'' نیا یقین'' بیدار ہونے پرا ہوا اور میں نے سوچا مجھے ''سی ایس ایس'' کرکے اعلی عہدے پر تعینات ہونا ہے ۔ یقین جب ٹوٹ جائے تو کبھی کبھی اس کا سفر مخالف سمت میں شروع ہوجاتا ہے ۔ میں نے اللہ سے ضد لگانا شروع کردی ۔ہر وہ کام کرتی جو مجھے لگتا اللہ کا ناپسند ہوسکتا ہے ۔ خاندان والے شیعہ ،سنی ،وہابی کے اختلاف میں پھنسے رہتے میں نے ہر فرقے سے لا تعلقی اختیار کرلی ۔ نماز جو ساری زندگی کبھی قضا نہیں کرتی تھی میں نے پڑھنا چھوڑ دی اور وہ قران پاک جس کی سب سے بڑی سورۃ کی سحر کے وقت بیٹھ کے تلاوت کرتی تھی اسی کو ہاتھ لگانا چھوڑ دیا اور جب مجھے کہا جاتا نماز پڑھو تو صاف انکار کرکے کہے دیتی کہ مجھے اللہ نماز میں نہیں ملتا ۔وہ کہتی دُعا مانگ لیا کر اپنے لیے کہ اللہ محنت سے زیادہ دعا پر نواز دیتا ہے مگر میرا کہنا تھا کہ دعا کچھ بھی نہیں ہوتی سب کچھ انسان کی اپنی جستجو ہوتی ہے ۔ انسان کی اپنی جستجو ہی سب کچھ ہوتی ہے چاہے وہ ضد سے چاہے وہ اس کی سمت میں ہو مگر جو اس'' ضد اور سمت'' یعنی نفی اور اثبات کے درمیاں ہوتے ہیں وہ نہ ادھر کے ہوتے ہیں نہ اُدھر کے ہوتے ہیں میں اپنی دہریت میں ہر مذہبی تعلیم کو رد کرچکی تھی ۔
راقم نے بیک وقت صبح ، شام نوکری کے ساتھ اپنے تعلیمی ادراے کی کلاسز لیتے زندگی کی صبح میں تیز دھوپ کا سامنا کیا ہے ۔ یوں تعلیم کا ماخد کتاب نہیں بن سکا اور پہلا چانس بنا پڑھے دے آئی جس میں چھ مضامیں چھوڑ دیے اس بے یقینی پر کہ میں پڑھے بغیر کچھ نہیں ہوں ۔ نتائج نے ثابت کیا کہ میں بنا پڑھے سب کچھ ہُوں کہ مستقبل قریب شاندار نتیجہ لاتا اور امید سحر کی جانب لے گیا ۔ ہر ماہ کچھ کتابیں خریدتے وقت پڑھ لیا کرتی ۔ اس طرح ایم اے انگلش کی کلاسز پڑھانا شُروع کردیں اور ساتھ سی ایس ایس کے کلاسز ملتان کے سب سے بڑے ادارے میں دنیا شُروع کردیں کہ مری قابلیت کے اساتذہ معترف تھے اور نتیجے سے پہلے مجھے اپنے ادارے میں پڑھانے کی پیش کش کردی ۔ جُوں جُوں وقت گزرتا رہا ، وقت نے حالات بدلے اور نئے سلسلے بھی شُروع ہوگئے ۔ مظہر سے جُڑنا گویا حقیقت سے ملنا ہے اور یہی سلسلہ بھی ساتھ ساتھ چلا ۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ جو منکرین محبت تھے ان کو اقرار محبت کرنا پڑا اور یوں وقت کے ستم ظریفی کہ یقین کے بعد بے یقینی کا سفر شُروع کردیا گیا ۔ اسی سفر کی بے یقینی اور بڑھا دی گئی جب راقم نے اگزامز میں پاس ہونے کے بعد ایلوکیشن میں مشکلات کا سامنا پایا ۔ ایسی مایوسی ہوئی کہ کتابیں جلا دیں اور کچھ کسی کو دے دیں کہ بھلا ہوجائے گا اور کچھ ردی کے مول پر اور کچھ بک شاپس پر بیچ ڈالی ۔ جس بات نے مجھے ضرب لگائی میں نے اسی سے کنارا کرنا شروع کردیا ۔ میں نے اللہ کی مکمل نفی کر دی اور کہ دیا کہ اللہ تو کہیں بھی نہیں دکھتا اور اگر دکھتا تو مجھے ایسے رُسوا نہیں کرتا ۔مجھ پر کُفر کے فتوی بھی لگے اور کسی نے کہا دوبارہ کلمہ شہادت پڑھو ۔ یوں شہادت دیتے اس کی ذات کی گواہی دیتے دوبارہ سے یقین کی جانب سفر شُروع ہوا۔
میں نے اس کی جناب میں گستاخی کر ڈالی ، اس کے موجودگی سے انکار ڈالا مگر اس نے اپنی رحمت کی ٹھنڈی آغوش میں لے لیا باکل ایسے جیسے ایک ماں اپنی بچے کو لوری اور تھپکی دے کے سلاتی ہے ۔میں اب اللہ سے انکار نہیں کرتی اور نہ ہی اس کو للکارتی ہوں ۔ جب انسان اس کو للکارتا ہے تو وہ منہ کے بل گرتا ہے اور جب اس سے التجائیں کرتا ہے تو اس کو اپنی آغوش میں چھپا لیتا ہے ۔میں نے اب جو جو چاہا یوں لگ رہا ہے کہ بنا سوال کے یا بن مانگے مل رہا ہے ۔میں نے جو ارادے اس کی ضد میں یا اپنی ''خدائی'' میں بنائے، وہ ٹوٹتے رہے اور وہ جو اس نے لوح َ ازل پر قلم کر رکھا ہے وہ پورا ہوتا رہا ہے اور بے شک اسی کو پورا ہونا ہے۔ اسی کو ہم ''کن فیکون'' کی تکوین کہتے ہے کہ ا نسان اپنے اصل کی طرف لوٹتا ہے ۔میں اب کسی پر کفر کا لیبل نہیں لگاتی کہ اللہ جسے چاہے نواز دیتا ہے اور جسے چاہے اوج ثریا سے زمین و کھائیوں میں پہنچا دیتا ہے ۔ اس تحریر کا مقصد اتنا ہی کہ میں نے اپنے ارادے کے ٹوٹنے اور بننے سے اللہ کو پہچانا ہے کہ میں خدا نہیں بلکہ خدا تو عرش کی رفعتوں پر مکین مجھے بڑے پیار سے دیکھ کے مسکراتا ہوگا کہ یہ میری بندی بڑی نادان ہے میرے خلاف جاتی ہے جبکہ اس کو لوٹنا میری طرف ہے ۔
آخری تدوین: