زیک
مسافر
یقین کے بعد کتنا وقفہ کرنا ہے؟
حق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ الصمد ۔۔۔۔۔۔۔۔
ان محدود چند تحاریر میں اک اور تحریر کا اضافہ
جو میری لفاظی کو یک لخت گونگے پن میں بدل دیتی ہیں ۔
بہت دعائیں
زبردست تحریر نور بہنا !
اپنی قلبی واردات کو جس پیرائے میں بیان کیا ہے یہ بھی کسی کسی کے نصیب میں ہوتا ہے ۔
اور
اسی ٹاپک پر ایک دفعہ کچھ لکھنے کی کوشش بھی کی تھی جو آپ کی اس خودبیتی کا حاصل ہے لیکن بھول گیا بس ابتدا ہی یاد ہے
خدا تب یاد آتا ہے
امیدیں ٹوٹ جائیں جب
اچها توراقم ذہنی طور کافر بهی رہا ہے۔
گو مجهے ہمیشہ کی طرح تهوڑی بہت ہی سمجھ آئی ہے۔ لیکن نور نے کچھ لکها ہے تو یقیناً اچها ہو گا۔
جن پر تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگےیا حیرت چوہدری صاحب یہ تو کمال ہو گیا ویسے میرے پلے تو کچھ بھی نہیں پڑا
بشکریہ تعریفی کلمات کا ۔۔ سفینہ میسر آجائے کیا یہی خوش نصیبی نہیں۔اپنی سوچ کو لفظوں کے قالب میں ڈھالنا خوب آتا ہے آپ کو .... بہرحال ...مبارک ہو ...آپ کے سفینے کو ساحل میسر آیا ....
اس سے بڑھ کے بات کیا ہو۔۔ الحمد اللہجزاکہ اللہ خیر۔۔۔
لاجواب شعر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کمال تبصرہ ۔۔۔۔۔۔بہت درست پہنچیں ۔۔۔ اعلی ۔۔۔۔۔۔یقین محکم عمل پیہم ' محبّت فاتح عالم ؛
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
پتا نہیں اقبال نے صرف مردوں کی شمشیریں کیوں کہا ہے جبکہ عورت بھی اتنی ہی پر عزم اور با ہمت ہو سکتی ہے ۔۔
بہت پر اثر تحریر ہے ۔۔۔
ارادے ٹوٹنا اور بننا اسی بات کی علامت ہے کہ ایمان کی دولت موجود ہے اور بلاشبہ شیطان ایمان کی دولت پر ہی ڈاکہ مارتا ہے۔
بہت عمدہ انداز میں ذہنی کشمکش کو اجاگر کیا ہے آپ نے۔ لگ بھگ ہر صاحب ایمان اسی کشمکش سے گزرتا ہے بس اس کی شدت میں کم بیشی ہوتی ہے۔
اسی جملے میں پورے مضمون کا نچوڑ ہے۔ اور اسی لئے استادوں کی قدم بہ قدم رہنمائی ضروری ہوتی ہے۔ استاد کو یوں ہی تو روحانی باپ کا درجہ نہیں دیا جاتا۔
اللہ عزوجل ہم سب کو استقامت عطا فرمائے۔۔۔آمین۔
جتنا چاہے وقفہ کر لیں میرے محترم بھائییقین کے بعد کتنا وقفہ کرنا ہے؟
اگر خود کو دیکھوں تو مجھے طاقت حاصل کرنے کا جُنون رہا ہے مگر ایسا ذریعہ جو میرا اپنا ایجاد کردہ ہو ۔ طاقت کا جُنون مجھے دنیا کی تسخیر کی طرف لے جانے کی طرف مجبور کرتا اور اللہ کی جانب سے اسی شدت سے میں واپس بلا لی جاتی تھی ۔
نہیں یار سعدیہ سچ کہ رہی ہوں اتنی گہری باتیں لکھی ہیں سمجھنے کے لیے بہت بڑا دماغ چاہیے اور میں بڑی سطحی کی لڑکی ہوںجن پر تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
اور اگر نہیں آئی تو محفل پر ملحدین کے ٹولے میں شامل ہو کر ثوابِ دارین حاصل کریں۔امید ہے کہ آپ کی سوچ میں تبدیلی آئی ہو گی اور اب آپ اللہ تعالیٰ کے وجود کی منکر نہیں ہوں گی۔
آپ کی غزلیں تو پڑھ چکی ہوں ۔تحاریر نظر سے نہیں گزریں مگر میں یہی سوچا کرتا تھی کہ یہاں تو بڑے بڑے لوگ ہیں میں تو ایک قطرہ بھی نہیں اس سمندر میں ۔ آپ تو ماشاء اللہ موتی ہیں ۔۔
بات آپ کی تحریر کے نا قابلَ فہم ہونے کی نہیں بلکہ اپنی کم مائیگی کی ہے کہ جس کا احساس لمحہ بہ لمحہ تیز تر ہو رہا ہے۔
یقین کے بعد کتنا وقفہ کرنا ہے؟
یعنی یقین کے بعد موت یقینی ہے؟آخری وقفہ ۔۔۔۔۔۔۔موت
ایس لیے تو آپ یقین نہیں کرتےیعنی یقین کے بعد موت یقینی ہے؟
میں آپ کے الفاظ کی دل سے قدر کرتا ہوں مگر شاید موتی بننے تک کا سفر اتنا آسان نہیں۔۔۔ ابھی تو بہت مراحل آئیں گے۔۔۔ ابھی تو اُس سمندر میں داخلے کی اجازت بھی نہیں ملی۔۔۔ چہ جائے کہ موتیآپ کی غزلیں تو پڑھ چکی ہوں ۔تحاریر نظر سے نہیں گزریں مگر میں یہی سوچا کرتا تھی کہ یہاں تو بڑے بڑے لوگ ہیں میں تو ایک قطرہ بھی نہیں اس سمندر میں ۔ آپ تو ماشاء اللہ موتی ہیں ۔۔
حضرت علی علیہ السلام کا قول ہے ۔” میں نے اپنے رب کو اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا“.
میں نے اللہ سبحانہ کو پہچانا ارادوں کے ٹوٹ جانے, نیتوں کے بدل جانے, اور ہمتوں کے پست ہوجانے سے .
ہم سب کی زندگی میں ایسا ایک بار نہیں بلکہ کتنی بار ہوتا ہے کہ ہم اپنی خواہش کے مطابق اپنے ارادے کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچاسکتے اور جو کچھ ہمارے بس میں ہے وہ سب کچھ ایمانداری سے کرنے کے باوجود بظاہر جیسے ہار سے جاتے ہیں۔
اور یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہمارے ارادے اور اختیار کے باوجود کوئی ایسی غالب اور دانا قوت ہے جو اپنے فیصلے کرتی اور ہمارے ارادوں کو ناکام بنا دیتی ہے ۔ یہاں اس مقام پر اک سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ
ہم سب کے ارادوں کے ٹوٹنے کے باوجود یہ بات ہم سب کی سمجھ میں کیوں نہیں آتی۔ کیوں؟
کسی کو ارادے کا ٹوٹنا اللہ سوہنے کے مزید نزدیک کر دیتا ہے اور کوئی اپنا ارادہ ٹوٹتا دیکھ مزید بغاوت کا شکار ہو جاتا ہے۔
دراصل یہی تو یقین اور اسکے درجات کا کھیل ہے۔
انسان دو قسم کے ہیں ایک تووہ جو راضی بہ رضا ہوتے ہیں۔ اپنے تمام معاملات اللہ کے ہاتھ میں ہونے بارے پر یقین ہوتے ہیں۔
یقین رکھتے ہیں کہ وہ پاک ہستی ہر پل ان کی نگرانی کر تی ہے۔ اور ان کی بھلائی اللہ کی نگاہ و علم میں ہوتی ہے ۔
اور اگر ان کی اپنی ذات کسی ایسے ارادے میں مبتلا ہو جائے جو ان کے لیے نفح بخش نہ ہو ۔
یا اللہ کی مشیت کے خلاف ہو تو وہ پورا نہیں ہو پاتا کسی بھی سبب سے ناکام ہو جاتا ہے ۔
ارادے کی ناکامی و کامیابی کے احساس سے بے نیاز رہتے یہ ہمیشہ شکر گذار رہتے ہیں ۔
ان کا ارادہ پورا ہو جائے تو بھی خوش اور نہ ہو تو بھی خوش مگر وہ اپنی سعی جا ری رکھتے ہیں ۔
کبھی کبھی اللہ اپنے بندے کو اس کی حیثیت سے زیادہ نواز کر اس کا عمل اور شکر کی ادا دیکھتا ہے ۔
اور کبھی اسے اس کی حیثیت سے کم دے کر اس کا صبر دیکھتا ہے ۔
اور جو یہ صبر کے امتحان میں پاس ٹھہرے ۔ تسلیم و رضا کا پیکر ثابت ہوتے اس کی خوشنودی پہ خوش ہو۔۔۔
بلاشک وہی تو کامیاب ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
جو ارادے کے ٹوٹنے اور مقصود حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہوئے بھی اپنے صبر اور شکر میں محو رہتا ہے۔
گویا آزمائیش میں کامیاب ہوتے رو حانی امتحان ضرورپاس کر لیتا ہے
رہا یہ سوال یہ کہ اسے اپنے ارادے کی پختگی اور شدید محنت کے بعد بھی کامیابی کیو ں حاصل نہ ہوئی ؟
شہر علم سے یہ جواب ملتا ہے
“ ہر کام کے لیئے ایک وقت اور ہر وقت کے لیئے ایک کام معین ہے“
جب ہم سمجھتے ہیں کہ ہم عقل کُل ہیں ، ہم رب کے نائب ہیں ، بااختیار ہیں ،
اور اسی اختیار کے نشے میں ہم دوسروں کے ارادے توڑ دیتے ہیں ،
اس صورت دوسرا تو شاید اپنے ارادوں کے ٹوٹنے پر اپنے رب کو جان لیتا ہے ،
مگر ہم اپنی فرعونیت اور انا کے نشے میں اپنے رب کو کیا ، خود کو بھی نہیں جان پاتے ۔ ۔۔
ہم اکثر اپنی زندگیوں میں خود کو (نعوذباللہ) رب سمجھ کر فیصلے بھی کر گزرتے ہیں ،
اپنی انا اور فرعونیت میں مبتلا ہوتے وہ کچھ کر گزرتے ہیں جو دوسرے کی زندگی کو اجیرن بنا دیتا ہے ،
ہمیں نہ محبت کا سلیقہ ہوتا ہے نہ نفرت نبھانا آتا ہے ۔
ایسے میں ارادے ٹوٹتے نہیں توڑتے جاتے ہیں ،
بہت دعائیں
بشکریہ
تلخیص از اردو لنک چیٹ روم پر ہوئی اک بحث
میرا یہ ماننا ہے کہ کون کہتا ہے کہ اللہ نظر نہیں آتا، ایک وہی تو نظر آتا ہے جب کچھ نظر نہیں آتا.. آزمائشیں انسان کو اللہ تعالیٰ کے اور نزدیک لے جاتی ہیں۔
مشکلات ہر انسان کی زندگی میں آتی ہیں لیکن شاید انسان اپنے حالات اور کیفیات کے مطابق ری ایکٹ کرتا ہے۔
خوب لکھا نور سعدیہ!! امید ہے کہ آپ کی سوچ میں تبدیلی آئی ہو گی اور اب آپ اللہ تعالیٰ کے وجود کی منکر نہیں ہوں گی۔
دو سال؟ مضمون سے تو ایسا لگا تھا جیسے دہائیاں بیت گئی ہوں۔وہی انسان نادان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھ جیسے ۔۔۔۔۔ میری سوچ شاید تبدیل ہے کافی یہ تو دو سال پرانی بات ہے اب تو کافی بدل چکی ہوں ۔۔۔۔۔
اس پر تو غور ہی نہیں کیا۔ ڈی ایم جی مل گئی کیا؟نئی ایلوکیشن کی مبارک ہو۔
نہیں یار سعدیہ سچ کہ رہی ہوں اتنی گہری باتیں لکھی ہیں سمجھنے کے لیے بہت بڑا دماغ چاہیے اور میں بڑی سطحی کی لڑکی ہوں
پھر بھی یار تحریر بہت عمدہ ہے ماشاءاللہ مزا آ جاتا ہے تمہاری تحریر پڑھنے کا
جی ۔۔۔۔۔۔۔۔'' انا کی موت'' اور خودی میں ڈوبنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بیک وقت ساتھ ہوتا ہے۔یہی حقیقی موت ہےیعنی یقین کے بعد موت یقینی ہے؟
میں آپ کے الفاظ کی دل سے قدر کرتا ہوں مگر شاید موتی بننے تک کا سفر اتنا آسان نہیں۔۔۔ ابھی تو بہت مراحل آئیں گے۔۔۔ ابھی تو اُس سمندر میں داخلے کی اجازت بھی نہیں ملی۔۔۔ چہ جائے کہ موتی
جب اس محفل میں آنے سے کچھ ماہ قبل یعنی چار یا پانچ ماہ کی بات ہے۔ کس وجہ سے ایسے لگا معلوم نہیں ہو سکا۔دو سال؟ مضمون سے تو ایسا لگا تھا جیسے دہائیاں بیت گئی ہوں۔
علم الیقین سے حق الیقین تک کے سفر میں اندھیر گھاٹیاں اصل میں شارٹ کٹ کا کام دیتی ہیں۔ نئی ایلوکیشن کی مبارک ہو۔
ڈی ایم جی اب نہیں رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کی جگہ ایڈمنسٹریشن گروپ آگیا ہے ۔ بس غور اس لیے نہیں ہو سکا ہوگااس پر تو غور ہی نہیں کیا۔ ڈی ایم جی مل گئی کیا؟
بہت اچھی تحریر ہے۔
الله پاک مصیبتوں اور مشکلات کے وقت اپ کو(اورہم سب کو ) صبر کی توفیق عطا فرماے ۔ (آمین)
وہیں پر ان شخصیت کو آگ میں دھکیل دینا چاہیئے تھا۔ایک پروگرام دیکھ رہی تھی جو کہ ڈان نیوز کا تھا۔ ان میں مہمان جانی پہچانی شخصیت تھے اور وہی بتارہے تھے ان کی طالب علم آگ پر چلی ہے اور اس کے پاؤں سلامت رہے یعنی جلے نہیں اور وہ بتا رہے تھے ہمارے پاؤں خوف جلاتا ہے نا کہ انگارے