یقین ۔

محمد بلال اعظم

لائبریرین
آپ جب اپنے آپ کو اس طرح لکھتے ہو تو دل سے تکلیف ہوتی ہے ۔ آپ سے گزارش کرتی ہوں کہ اپنے آپ کو اچھا کہا کرو ۔ سچ میں تکلیف ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔جس سمندر کی بات کررہے ہیں اس میں داخل تو ہیں اندازہ کرنا مشکل ہے ۔۔موتی تو ہیں جس کا باطن اتنا اچھا ہو وہ موتی سے بڑھ کے ہوتا ہے ۔ اللہ آپ کو موتی سے بڑھنے کی توفیق دے
اللہ آپ کا حسنِ ظن سلامت رکھے :) :) :)
 
بہت عمدہ اندازِ بیاں۔۔۔۔۔۔
گو کہ قاری اور راقم کے 'حالات' مختلف رہے۔۔۔۔۔
مگر 'حالتیں' ایک سی رہیں۔۔۔۔۔۔۔
"میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے"

اور اب حالت یہ ہے کہ اسکا خیال ایک لمحہ بھی سرزمین دل سے محو ہوتا نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈھیروں دعائیں
 
یہ شاید آپ کی پہلی تحریر ہے جو میرے لیے قدرے قابلِ فہم ہے۔ پسند بھی آئی اسی لیے۔
کلاسیکی طب میں لوگوں کے چار مزاج متعین ہیں۔ سوداوی، صفراوی، بلغمی اور دموی۔ آپ غالباً سوداوی ہیں۔ اور اگر آپ کو سردی بھی زیادہ لگتی ہے تو یقیناً۔ ان لوگوں کی ذہنی قوت سونامی کی طرح بے نہایت اور بے لگام ہوتی ہے۔ سمت مل گئی تو نابغے، نہ ملی تو دنیا کے بے کار ترین خبطی۔ نوعِ انسانی کو ناقابلِ تصور فائدے پہنچانے والوں سے لے کر نبوت کے جھوٹے دعوے داروں تک آپ کو سوداوی ہی سوداوی ملیں گے۔
ایک خواہش ہے میری آپ کے لیے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ آپ زندگی کی ایک سمت طے کر لیں۔ رکیں یا چلیں، رخ وہی رہے۔ آپ کے مزاج کے لوگوں کو اس میں دقت یہ ہوتی ہے کہ احساسِ رائیگانی دم نہیں لینے دیتا۔ کوئی بھی راہ طے کر لیں تو اس سے بہتر راہ کوئی اور معلوم ہونے لگتی ہے۔ اس طرف کو چلیں تو احساس ہوتا ہے، نہیں، یہ بھی نہیں۔ رفتہ رفتہ مرض کو ترقی ہوتی ہے اور خیال ہوتا ہے کہ شاید دنیا میں کوئی منزل ہے ہی نہیں۔ بھٹکتے بھٹکتے رستوں سے اعتبار اٹھ جاتا ہے۔ میرا ایک شعر اس کیفیت کی شاید بہتر ترجمانی کر سکے:
راہوں میں ٹھہر جاؤں---منزل سے گزر جاؤں
کچھ اور بھٹک لوں میں، حسرت میں نہ مر جاؤں​
یہ کیفیت جزوی طور پر حقیقت ہی بیان کرتی ہے۔ حق ہے کہ دنیا میں کوئی منزل حتمی نہیں۔ لیکن یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جس طرف کو نکل جائیں اس طرف کائنات اپنی بھرپور رعنائیوں کے ساتھ موجود ہے۔ اللہ قرآن میں کہتا ہے کہ تم اس کی سلطنت سے باہر نہیں نکل سکتے۔ پھر فرماتا ہے کہ تم جس طرف رخ کرو گے اس طرف اللہ کا رخ پاؤ گے۔ یعنی ہر طرف جایا جا سکتا ہے۔ مگر فانی انسان کہاں کہاں جائے؟ مصلحت اسی میں ہے کہ ایک سمت طے کی جائے اور یہ سمجھ لیا جائے کہ اس سمت میں بھی اللہ کی سلطنت اسی طرح قائم ہے اور اس کا رخ اسی طرح جلوہ سامان ہے جیسے ہر کہیں اور۔
سمت طے ہونے کا سوداویوں کو فائدہ یہ ہے کہ اس وہ انتشار کا شکار ہو کر کفران کرنے کی بجائے مرتکز ہو کر اپنی شکر گزاری اور دوسروں کی منفعت کا وسیلہ بنتے ہیں۔ آپ میں بہت قوت ہے۔ عظیم اور تباہ کن۔ اس کے پاس ہر قوت کی طرح دو ہی راستے ہیں۔ تعمیر یا تخریب۔ تعمیر کی صورت ارتکاز میں ہے اور تخریب کی انتشار میں۔ زیادہ حدِ ادب!
 

اکمل زیدی

محفلین
کلاسیکی طب میں لوگوں کے چار مزاج متعین ہیں۔ سوداوی، صفراوی، بلغمی اور دموی۔ آپ غالباً سوداوی ہیں۔ اور اگر آپ کو سردی بھی زیادہ لگتی ہے تو یقیناً۔ ان لوگوں کی ذہنی قوت سونامی کی طرح بے نہایت اور بے لگام ہوتی ہے۔ سمت مل گئی تو نابغے، نہ ملی تو دنیا کے بے کار ترین خبطی۔ نوعِ انسانی کو ناقابلِ تصور فائدے پہنچانے والوں سے لے کر نبوت کے جھوٹے دعوے داروں تک آپ کو سوداوی ہی سوداوی ملیں گے۔
فاروقی صاحب خوب یہ ہنر بھی کھلا آپ کا ویسے مطب کہاں ہے آپ کا ... :)
ایک خواہش ہے میری آپ کے لیے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ آپ زندگی کی ایک سمت طے کر لیں۔ رکیں یا چلیں، رخ وہی رہے۔ آپ کے مزاج کے لوگوں کو اس میں دقت یہ ہوتی ہے کہ احساسِ رائیگانی دم نہیں لینے دیتا۔ کوئی بھی راہ طے کر لیں تو اس سے بہتر راہ کوئی اور معلوم ہونے لگتی ہے۔ اس طرف کو چلیں تو احساس ہوتا ہے، نہیں، یہ بھی نہیں۔ رفتہ رفتہ مرض کو ترقی ہوتی ہے اور خیال ہوتا ہے کہ شاید دنیا میں کوئی منزل ہے ہی نہیں۔ بھٹکتے بھٹکتے رستوں سے اعتبار اٹھ جاتا ہے۔ میرا ایک شعر اس کیفیت کی شاید بہتر ترجمانی کر سکے:
راہوں میں ٹھہر جاؤں---منزل سے گزر جاؤں
کچھ اور بھٹک لوں میں، حسرت میں نہ مر جاؤں​
اس کا جواب میں نے بھی دیا ہے کے بس یقین کے چپو سمبھالے رکھیں اور اپنی ناؤ اسی سے کھیدیں ۔۔
یہ کیفیت جزوی طور پر حقیقت ہی بیان کرتی ہے۔ حق ہے کہ دنیا میں کوئی منزل حتمی نہیں۔ لیکن یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جس طرف کو نکل جائیں اس طرف کائنات اپنی بھرپور رعنائیوں کے ساتھ موجود ہے۔ اللہ قرآن میں کہتا ہے کہ تم اس کی سلطنت سے باہر نہیں نکل سکتے۔ پھر فرماتا ہے کہ تم جس طرف رخ کرو گے اس طرف اللہ کا رخ پاؤ گے۔ یعنی ہر طرف جایا جا سکتا ہے۔ مگر فانی انسان کہاں کہاں جائے؟ مصلحت اسی میں ہے کہ ایک سمت طے کی جائے اور یہ سمجھ لیا جائے کہ اس سمت میں بھی اللہ کی سلطنت اسی طرح قائم ہے اور اس کا رخ اسی طرح جلوہ سامان ہے جیسے ہر کہیں اور۔
اس پر تو یہی کہا جاسکتا ہے کے ایک تیری مرضی ایک میری مرضی ہونا وہی ہے جو تیری مرضی تو کیوں نہ اپنی مرضی تیری مرضی سے ملا دوں پھر وہی ہوگا جو میری مرضی ..
 

نور وجدان

لائبریرین
بہت عمدہ اندازِ بیاں۔۔۔۔۔۔
گو کہ قاری اور راقم کے 'حالات' مختلف رہے۔۔۔۔۔
مگر 'حالتیں' ایک سی رہیں۔۔۔۔۔۔۔
"میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے"

اور اب حالت یہ ہے کہ اسکا خیال ایک لمحہ بھی سرزمین دل سے محو ہوتا نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈھیروں دعائیں

انسان ہم ۔۔۔۔۔اسی گردش ماہ و سال سے گزرتے ہیں مگر اپنے مدار میں رواں ، اپنے مشاہدات و تجربات کے بعد خیال جو بنتے ہیں وہ یکساں ہو جائیں تو سمجھیں مزاج ملتے ہیں

سعدی بہنا۔ بہت خوبصورت تحریر

سعید بھیا آپ کا بے حد شکریہ ۔
 

نور وجدان

لائبریرین
یہ شاید آپ کی پہلی تحریر ہے جو میرے لیے قدرے قابلِ فہم ہے۔ پسند بھی آئی اسی لیے۔
کلاسیکی طب میں لوگوں کے چار مزاج متعین ہیں۔ سوداوی، صفراوی، بلغمی اور دموی۔ آپ غالباً سوداوی ہیں۔ اور اگر آپ کو سردی بھی زیادہ لگتی ہے تو یقیناً۔ ان لوگوں کی ذہنی قوت سونامی کی طرح بے نہایت اور بے لگام ہوتی ہے۔ سمت مل گئی تو نابغے، نہ ملی تو دنیا کے بے کار ترین خبطی۔ نوعِ انسانی کو ناقابلِ تصور فائدے پہنچانے والوں سے لے کر نبوت کے جھوٹے دعوے داروں تک آپ کو سوداوی ہی سوداوی ملیں گے۔
ایک خواہش ہے میری آپ کے لیے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ آپ زندگی کی ایک سمت طے کر لیں۔ رکیں یا چلیں، رخ وہی رہے۔ آپ کے مزاج کے لوگوں کو اس میں دقت یہ ہوتی ہے کہ احساسِ رائیگانی دم نہیں لینے دیتا۔ کوئی بھی راہ طے کر لیں تو اس سے بہتر راہ کوئی اور معلوم ہونے لگتی ہے۔ اس طرف کو چلیں تو احساس ہوتا ہے، نہیں، یہ بھی نہیں۔ رفتہ رفتہ مرض کو ترقی ہوتی ہے اور خیال ہوتا ہے کہ شاید دنیا میں کوئی منزل ہے ہی نہیں۔ بھٹکتے بھٹکتے رستوں سے اعتبار اٹھ جاتا ہے۔ میرا ایک شعر اس کیفیت کی شاید بہتر ترجمانی کر سکے:
راہوں میں ٹھہر جاؤں---منزل سے گزر جاؤں
کچھ اور بھٹک لوں میں، حسرت میں نہ مر جاؤں​
یہ کیفیت جزوی طور پر حقیقت ہی بیان کرتی ہے۔ حق ہے کہ دنیا میں کوئی منزل حتمی نہیں۔ لیکن یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جس طرف کو نکل جائیں اس طرف کائنات اپنی بھرپور رعنائیوں کے ساتھ موجود ہے۔ اللہ قرآن میں کہتا ہے کہ تم اس کی سلطنت سے باہر نہیں نکل سکتے۔ پھر فرماتا ہے کہ تم جس طرف رخ کرو گے اس طرف اللہ کا رخ پاؤ گے۔ یعنی ہر طرف جایا جا سکتا ہے۔ مگر فانی انسان کہاں کہاں جائے؟ مصلحت اسی میں ہے کہ ایک سمت طے کی جائے اور یہ سمجھ لیا جائے کہ اس سمت میں بھی اللہ کی سلطنت اسی طرح قائم ہے اور اس کا رخ اسی طرح جلوہ سامان ہے جیسے ہر کہیں اور۔
سمت طے ہونے کا سوداویوں کو فائدہ یہ ہے کہ اس وہ انتشار کا شکار ہو کر کفران کرنے کی بجائے مرتکز ہو کر اپنی شکر گزاری اور دوسروں کی منفعت کا وسیلہ بنتے ہیں۔ آپ میں بہت قوت ہے۔ عظیم اور تباہ کن۔ اس کے پاس ہر قوت کی طرح دو ہی راستے ہیں۔ تعمیر یا تخریب۔ تعمیر کی صورت ارتکاز میں ہے اور تخریب کی انتشار میں۔ زیادہ حدِ ادب!

آپ سے تو پہلے ہی رشک اور جلن تھا کہ بندہ فارسی تک میں قادر الکلام ہے مگر اس کے ساتھ جو تفسیر بیاں کی ہے اس نے مجھے سرچ کرنے پر مجبور کردیا۔ میں یہ تو نہیں جانتی مجھے سردی لگتی ہے کہ نہیں ۔ اتنا پتا ہے کہ مجھے گرمی کم لگتی ہے ۔ اس تبصرے کی تعریف کیا ہو جو مکمل کشمکش کی کیفییات کی توضیح لیے ہو۔ انگلش میں ایسی شخصیات کو میلان کلسٹ کہتے ہیں ۔کیٹس بھی اسی میلانکلی کی شکار تھا اور انشاء جی بھی اسی مزاج کے حامل تھے ، یہاں تک کہ رابرٹ فراسٹ ہو یا شیکسپئر ۔۔۔۔۔۔۔ ہارڈی ہو یا جارج ایلیٹ ۔۔۔۔۔۔۔۔سبھی میلان کلسٹ تھے ۔۔۔ورجینیا وولف بھی ایسی تھی مگر میں نے کبھی خود کو کسی ملایا نہیں ۔ باوجود ناقابل فہم تحریر کے ایک اوبجیکٹو تجزیہ آپ کی شخصیت کی بھرپور عکاسی کیے ہوئے ۔ میں نے اپنی زندگی کا رُخ تعین کیا تھا وہ ناقابل تسخیر دنیا کو مسخر کرنا۔۔۔۔۔۔۔۔اس کی طرف جانے کا راستہ غلط اختیار کیا تھا جبکہ اب لگتا ہے کہ میں مطمئن ہوں ۔۔۔یاسیت جب بے انتہا ہوجائے تو اردو میں مالیخولیا اور انگریزی میں میلانکلی بن جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے بعد میں نے ایک بات پہلے بھی کہی تھی اب پھر کہے دیتی ہوں ۔۔۔۔شیلے ہو یا کیٰٹس، ورجینیا ہو شیکسپئر۔۔۔۔۔۔۔۔ ہارڈی ہو یا ایلیٹ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ خودکشی کرکے مرگئے اور کچھ بیماری سے مرگئے ۔۔۔۔۔۔اور اس لیے اسلام میں تمام لوگوں کے لیے رہنمائی حق موجود ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔میری ساری سمتیں ۔۔سبھی منزلیں ۔۔۔۔۔۔۔ایک ہی شجر کا منبع ہے اور وہ شجر زیتون کی درخت کی مانند ہے جس کا چراغ کی لو نہ شرقی ہے نہ غربی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ استقامت سے نوازے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چو چلے تو جاں سے گزر گئے ، جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم
 

زیک

مسافر
یہ شاید آپ کی پہلی تحریر ہے جو میرے لیے قدرے قابلِ فہم ہے۔ پسند بھی آئی اسی لیے۔
کلاسیکی طب میں لوگوں کے چار مزاج متعین ہیں۔ سوداوی، صفراوی، بلغمی اور دموی۔ آپ غالباً سوداوی ہیں۔ اور اگر آپ کو سردی بھی زیادہ لگتی ہے تو یقیناً۔ ان لوگوں کی ذہنی قوت سونامی کی طرح بے نہایت اور بے لگام ہوتی ہے۔ سمت مل گئی تو نابغے، نہ ملی تو دنیا کے بے کار ترین خبطی۔ نوعِ انسانی کو ناقابلِ تصور فائدے پہنچانے والوں سے لے کر نبوت کے جھوٹے دعوے داروں تک آپ کو سوداوی ہی سوداوی ملیں گے۔
ایک خواہش ہے میری آپ کے لیے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ آپ زندگی کی ایک سمت طے کر لیں۔ رکیں یا چلیں، رخ وہی رہے۔ آپ کے مزاج کے لوگوں کو اس میں دقت یہ ہوتی ہے کہ احساسِ رائیگانی دم نہیں لینے دیتا۔ کوئی بھی راہ طے کر لیں تو اس سے بہتر راہ کوئی اور معلوم ہونے لگتی ہے۔ اس طرف کو چلیں تو احساس ہوتا ہے، نہیں، یہ بھی نہیں۔ رفتہ رفتہ مرض کو ترقی ہوتی ہے اور خیال ہوتا ہے کہ شاید دنیا میں کوئی منزل ہے ہی نہیں۔ بھٹکتے بھٹکتے رستوں سے اعتبار اٹھ جاتا ہے۔ میرا ایک شعر اس کیفیت کی شاید بہتر ترجمانی کر سکے:
راہوں میں ٹھہر جاؤں---منزل سے گزر جاؤں
کچھ اور بھٹک لوں میں، حسرت میں نہ مر جاؤں​
یہ کیفیت جزوی طور پر حقیقت ہی بیان کرتی ہے۔ حق ہے کہ دنیا میں کوئی منزل حتمی نہیں۔ لیکن یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جس طرف کو نکل جائیں اس طرف کائنات اپنی بھرپور رعنائیوں کے ساتھ موجود ہے۔ اللہ قرآن میں کہتا ہے کہ تم اس کی سلطنت سے باہر نہیں نکل سکتے۔ پھر فرماتا ہے کہ تم جس طرف رخ کرو گے اس طرف اللہ کا رخ پاؤ گے۔ یعنی ہر طرف جایا جا سکتا ہے۔ مگر فانی انسان کہاں کہاں جائے؟ مصلحت اسی میں ہے کہ ایک سمت طے کی جائے اور یہ سمجھ لیا جائے کہ اس سمت میں بھی اللہ کی سلطنت اسی طرح قائم ہے اور اس کا رخ اسی طرح جلوہ سامان ہے جیسے ہر کہیں اور۔
سمت طے ہونے کا سوداویوں کو فائدہ یہ ہے کہ اس وہ انتشار کا شکار ہو کر کفران کرنے کی بجائے مرتکز ہو کر اپنی شکر گزاری اور دوسروں کی منفعت کا وسیلہ بنتے ہیں۔ آپ میں بہت قوت ہے۔ عظیم اور تباہ کن۔ اس کے پاس ہر قوت کی طرح دو ہی راستے ہیں۔ تعمیر یا تخریب۔ تعمیر کی صورت ارتکاز میں ہے اور تخریب کی انتشار میں۔ زیادہ حدِ ادب!
شرنک!!
 

کاشف اختر

لائبریرین
چھٹی والے دن پڑھوں گا وقت نکال کر۔ کمنٹ اس لئے کر دیا کہ ڈھونڈنے میں آسانی ہو۔
بہت زبردست فارمولا بتایا آپ نے ، میں بھی اس کوعدیم الفرصتی کے باعث ملتوی کررہا ہوں ، اس لئے کہ ان کی تحاریر کافی معلوماتی اور غور طلب ہوتی ہیں ،دقیق الفاظ ، ثقیل تراکیب ، اور عمدہ محاورات سے مزین ہوتی ہیں !کم از کم ایک مرتبہ میں سمجھ لینا میرے بس کا روگ تو نہیں ہے ،
 

نور وجدان

لائبریرین
بہت زبردست فارمولا بتایا آپ نے ، میں بھی اس کوعدیم الفرصتی کے باعث ملتوی کررہا ہوں ، اس لئے کہ ان کی تحاریر کافی معلوماتی اور غور طلب ہوتی ہیں ،دقیق الفاظ ، ثقیل تراکیب ، اور عمدہ محاورات سے مزین ہوتی ہیں !کم از کم ایک مرتبہ میں سمجھ لینا میرے بس کا روگ تو نہیں ہے ،

آپ کے لیے تحریر مشکل ہے ۔ آپ بے شک اس کو نہ پڑھیں ۔ اور مناسب سمجھیں جہاں دقیق الفاظ ، ثقیل تراکیب ہیں ، معلومات کا کوہ گراں ہے ، اس کو واضح کردیں گوکہ اس کو لکھنے سے پہلے ہی معذرت اس مضمون میں مزین ہے مگر پھر بھی آپ کی گرانی نے محسوس کی ہے ۔ ہم جیسوں کو آپ جیسے راہنمائی دے سکتے ہیں ۔ کچھ سکھا دیں تاکہ فہم ہوسکے
 
بہت زبردست فارمولا بتایا آپ نے ، میں بھی اس کوعدیم الفرصتی کے باعث ملتوی کررہا ہوں ، اس لئے کہ ان کی تحاریر کافی معلوماتی اور غور طلب ہوتی ہیں ،دقیق الفاظ ، ثقیل تراکیب ، اور عمدہ محاورات سے مزین ہوتی ہیں !کم از کم ایک مرتبہ میں سمجھ لینا میرے بس کا روگ تو نہیں ہے ،
میرا یہ فارمولا عدیم الفرصتی کی باعث نہیں ہے، بلکہ ذرا زیادہ توجہ سے پڑھنے لائق چیز کو اس وقت کے لیے رکھ لیتا ہوں، جب ساتھ کوئی اور کام نہ ہو.
محفل پر موجود بہت سا مواد میری ٹو ڈو لسٹ میں موجود ہے، اور وقتاً فوقتاً اس کا مطالعہ کرتا رہتا ہوں.

ہلکی پھلکی تحریریں اور شاعری وغیرہ دوسرے بوجھل کاموں کے ساتھ دھیان بٹانے کے لیے ساتھ ساتھ ہی پڑھ لیتا ہوں.
مگر غور و فکر مانگتی یا زیادہ لمبی تحاریر کو چھٹی کے دن کے لیے رکھ لیتا ہوں. :)
 
Top