زیک
مسافر
پھر کیا ملا؟ڈی ایم جی اب نہیں رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کی جگہ ایڈمنسٹریشن گروپ آگیا ہے ۔ بس غور اس لیے نہیں ہو سکا ہوگا
پھر کیا ملا؟ڈی ایم جی اب نہیں رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کی جگہ ایڈمنسٹریشن گروپ آگیا ہے ۔ بس غور اس لیے نہیں ہو سکا ہوگا
اللہ آپ کا حسنِ ظن سلامت رکھےآپ جب اپنے آپ کو اس طرح لکھتے ہو تو دل سے تکلیف ہوتی ہے ۔ آپ سے گزارش کرتی ہوں کہ اپنے آپ کو اچھا کہا کرو ۔ سچ میں تکلیف ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔جس سمندر کی بات کررہے ہیں اس میں داخل تو ہیں اندازہ کرنا مشکل ہے ۔۔موتی تو ہیں جس کا باطن اتنا اچھا ہو وہ موتی سے بڑھ کے ہوتا ہے ۔ اللہ آپ کو موتی سے بڑھنے کی توفیق دے
آپ اتنے بے خُوف کیسے ہوئے ۔وہیں پر ان شخصیت کو آگ میں دھکیل دینا چاہیئے تھا۔
جو آپ کو دِکھاپھر کیا ملا؟
اللہ آپ کو ہمیشہ کامیاب و کامران رکھے ۔آمیناللہ آپ کا حسنِ ظن سلامت رکھے
حضرت علی علیہ السلام کا قول ہے ۔
میں نے اللہ سبحانہ کو پہچانا ارادوں کے ٹوٹ جانے, نیتوں کے بدل جانے, اور ہمتوں کے پست ہوجانے سے .
اچھی بات ہے ۔۔۔۔۔ بس یقین کے چپو نہ چھوٹنے پائیں ...بشکریہ تعریفی کلمات کا ۔۔ سفینہ میسر آجائے کیا یہی خوش نصیبی نہیں۔
اچھی بات ہے ۔۔۔۔۔ بس یقین کے چپو نہ چھوٹنے پائیں ...
فاروقی صاحب خوب یہ ہنر بھی کھلا آپ کا ویسے مطب کہاں ہے آپ کا ...کلاسیکی طب میں لوگوں کے چار مزاج متعین ہیں۔ سوداوی، صفراوی، بلغمی اور دموی۔ آپ غالباً سوداوی ہیں۔ اور اگر آپ کو سردی بھی زیادہ لگتی ہے تو یقیناً۔ ان لوگوں کی ذہنی قوت سونامی کی طرح بے نہایت اور بے لگام ہوتی ہے۔ سمت مل گئی تو نابغے، نہ ملی تو دنیا کے بے کار ترین خبطی۔ نوعِ انسانی کو ناقابلِ تصور فائدے پہنچانے والوں سے لے کر نبوت کے جھوٹے دعوے داروں تک آپ کو سوداوی ہی سوداوی ملیں گے۔
اس کا جواب میں نے بھی دیا ہے کے بس یقین کے چپو سمبھالے رکھیں اور اپنی ناؤ اسی سے کھیدیں ۔۔ایک خواہش ہے میری آپ کے لیے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ آپ زندگی کی ایک سمت طے کر لیں۔ رکیں یا چلیں، رخ وہی رہے۔ آپ کے مزاج کے لوگوں کو اس میں دقت یہ ہوتی ہے کہ احساسِ رائیگانی دم نہیں لینے دیتا۔ کوئی بھی راہ طے کر لیں تو اس سے بہتر راہ کوئی اور معلوم ہونے لگتی ہے۔ اس طرف کو چلیں تو احساس ہوتا ہے، نہیں، یہ بھی نہیں۔ رفتہ رفتہ مرض کو ترقی ہوتی ہے اور خیال ہوتا ہے کہ شاید دنیا میں کوئی منزل ہے ہی نہیں۔ بھٹکتے بھٹکتے رستوں سے اعتبار اٹھ جاتا ہے۔ میرا ایک شعر اس کیفیت کی شاید بہتر ترجمانی کر سکے:
راہوں میں ٹھہر جاؤں---منزل سے گزر جاؤں
کچھ اور بھٹک لوں میں، حسرت میں نہ مر جاؤں
اس پر تو یہی کہا جاسکتا ہے کے ایک تیری مرضی ایک میری مرضی ہونا وہی ہے جو تیری مرضی تو کیوں نہ اپنی مرضی تیری مرضی سے ملا دوں پھر وہی ہوگا جو میری مرضی ..یہ کیفیت جزوی طور پر حقیقت ہی بیان کرتی ہے۔ حق ہے کہ دنیا میں کوئی منزل حتمی نہیں۔ لیکن یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جس طرف کو نکل جائیں اس طرف کائنات اپنی بھرپور رعنائیوں کے ساتھ موجود ہے۔ اللہ قرآن میں کہتا ہے کہ تم اس کی سلطنت سے باہر نہیں نکل سکتے۔ پھر فرماتا ہے کہ تم جس طرف رخ کرو گے اس طرف اللہ کا رخ پاؤ گے۔ یعنی ہر طرف جایا جا سکتا ہے۔ مگر فانی انسان کہاں کہاں جائے؟ مصلحت اسی میں ہے کہ ایک سمت طے کی جائے اور یہ سمجھ لیا جائے کہ اس سمت میں بھی اللہ کی سلطنت اسی طرح قائم ہے اور اس کا رخ اسی طرح جلوہ سامان ہے جیسے ہر کہیں اور۔
بہت عمدہ اندازِ بیاں۔۔۔۔۔۔
گو کہ قاری اور راقم کے 'حالات' مختلف رہے۔۔۔۔۔
مگر 'حالتیں' ایک سی رہیں۔۔۔۔۔۔۔
"میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے"
اور اب حالت یہ ہے کہ اسکا خیال ایک لمحہ بھی سرزمین دل سے محو ہوتا نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈھیروں دعائیں
سعدی بہنا۔ بہت خوبصورت تحریر
یہ شاید آپ کی پہلی تحریر ہے جو میرے لیے قدرے قابلِ فہم ہے۔ پسند بھی آئی اسی لیے۔
کلاسیکی طب میں لوگوں کے چار مزاج متعین ہیں۔ سوداوی، صفراوی، بلغمی اور دموی۔ آپ غالباً سوداوی ہیں۔ اور اگر آپ کو سردی بھی زیادہ لگتی ہے تو یقیناً۔ ان لوگوں کی ذہنی قوت سونامی کی طرح بے نہایت اور بے لگام ہوتی ہے۔ سمت مل گئی تو نابغے، نہ ملی تو دنیا کے بے کار ترین خبطی۔ نوعِ انسانی کو ناقابلِ تصور فائدے پہنچانے والوں سے لے کر نبوت کے جھوٹے دعوے داروں تک آپ کو سوداوی ہی سوداوی ملیں گے۔
ایک خواہش ہے میری آپ کے لیے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ آپ زندگی کی ایک سمت طے کر لیں۔ رکیں یا چلیں، رخ وہی رہے۔ آپ کے مزاج کے لوگوں کو اس میں دقت یہ ہوتی ہے کہ احساسِ رائیگانی دم نہیں لینے دیتا۔ کوئی بھی راہ طے کر لیں تو اس سے بہتر راہ کوئی اور معلوم ہونے لگتی ہے۔ اس طرف کو چلیں تو احساس ہوتا ہے، نہیں، یہ بھی نہیں۔ رفتہ رفتہ مرض کو ترقی ہوتی ہے اور خیال ہوتا ہے کہ شاید دنیا میں کوئی منزل ہے ہی نہیں۔ بھٹکتے بھٹکتے رستوں سے اعتبار اٹھ جاتا ہے۔ میرا ایک شعر اس کیفیت کی شاید بہتر ترجمانی کر سکے:
راہوں میں ٹھہر جاؤں---منزل سے گزر جاؤںیہ کیفیت جزوی طور پر حقیقت ہی بیان کرتی ہے۔ حق ہے کہ دنیا میں کوئی منزل حتمی نہیں۔ لیکن یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جس طرف کو نکل جائیں اس طرف کائنات اپنی بھرپور رعنائیوں کے ساتھ موجود ہے۔ اللہ قرآن میں کہتا ہے کہ تم اس کی سلطنت سے باہر نہیں نکل سکتے۔ پھر فرماتا ہے کہ تم جس طرف رخ کرو گے اس طرف اللہ کا رخ پاؤ گے۔ یعنی ہر طرف جایا جا سکتا ہے۔ مگر فانی انسان کہاں کہاں جائے؟ مصلحت اسی میں ہے کہ ایک سمت طے کی جائے اور یہ سمجھ لیا جائے کہ اس سمت میں بھی اللہ کی سلطنت اسی طرح قائم ہے اور اس کا رخ اسی طرح جلوہ سامان ہے جیسے ہر کہیں اور۔
کچھ اور بھٹک لوں میں، حسرت میں نہ مر جاؤں
سمت طے ہونے کا سوداویوں کو فائدہ یہ ہے کہ اس وہ انتشار کا شکار ہو کر کفران کرنے کی بجائے مرتکز ہو کر اپنی شکر گزاری اور دوسروں کی منفعت کا وسیلہ بنتے ہیں۔ آپ میں بہت قوت ہے۔ عظیم اور تباہ کن۔ اس کے پاس ہر قوت کی طرح دو ہی راستے ہیں۔ تعمیر یا تخریب۔ تعمیر کی صورت ارتکاز میں ہے اور تخریب کی انتشار میں۔ زیادہ حدِ ادب!
نوازش بھائی ۔۔۔۔۔۔آپ کو پسند آئی اس کے لیے سپاس گزار ہوںنور صاحبہ۔ اچھی نثر لکھتی ہو بھئی
شرنک!!یہ شاید آپ کی پہلی تحریر ہے جو میرے لیے قدرے قابلِ فہم ہے۔ پسند بھی آئی اسی لیے۔
کلاسیکی طب میں لوگوں کے چار مزاج متعین ہیں۔ سوداوی، صفراوی، بلغمی اور دموی۔ آپ غالباً سوداوی ہیں۔ اور اگر آپ کو سردی بھی زیادہ لگتی ہے تو یقیناً۔ ان لوگوں کی ذہنی قوت سونامی کی طرح بے نہایت اور بے لگام ہوتی ہے۔ سمت مل گئی تو نابغے، نہ ملی تو دنیا کے بے کار ترین خبطی۔ نوعِ انسانی کو ناقابلِ تصور فائدے پہنچانے والوں سے لے کر نبوت کے جھوٹے دعوے داروں تک آپ کو سوداوی ہی سوداوی ملیں گے۔
ایک خواہش ہے میری آپ کے لیے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ آپ زندگی کی ایک سمت طے کر لیں۔ رکیں یا چلیں، رخ وہی رہے۔ آپ کے مزاج کے لوگوں کو اس میں دقت یہ ہوتی ہے کہ احساسِ رائیگانی دم نہیں لینے دیتا۔ کوئی بھی راہ طے کر لیں تو اس سے بہتر راہ کوئی اور معلوم ہونے لگتی ہے۔ اس طرف کو چلیں تو احساس ہوتا ہے، نہیں، یہ بھی نہیں۔ رفتہ رفتہ مرض کو ترقی ہوتی ہے اور خیال ہوتا ہے کہ شاید دنیا میں کوئی منزل ہے ہی نہیں۔ بھٹکتے بھٹکتے رستوں سے اعتبار اٹھ جاتا ہے۔ میرا ایک شعر اس کیفیت کی شاید بہتر ترجمانی کر سکے:
راہوں میں ٹھہر جاؤں---منزل سے گزر جاؤںیہ کیفیت جزوی طور پر حقیقت ہی بیان کرتی ہے۔ حق ہے کہ دنیا میں کوئی منزل حتمی نہیں۔ لیکن یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جس طرف کو نکل جائیں اس طرف کائنات اپنی بھرپور رعنائیوں کے ساتھ موجود ہے۔ اللہ قرآن میں کہتا ہے کہ تم اس کی سلطنت سے باہر نہیں نکل سکتے۔ پھر فرماتا ہے کہ تم جس طرف رخ کرو گے اس طرف اللہ کا رخ پاؤ گے۔ یعنی ہر طرف جایا جا سکتا ہے۔ مگر فانی انسان کہاں کہاں جائے؟ مصلحت اسی میں ہے کہ ایک سمت طے کی جائے اور یہ سمجھ لیا جائے کہ اس سمت میں بھی اللہ کی سلطنت اسی طرح قائم ہے اور اس کا رخ اسی طرح جلوہ سامان ہے جیسے ہر کہیں اور۔
کچھ اور بھٹک لوں میں، حسرت میں نہ مر جاؤں
سمت طے ہونے کا سوداویوں کو فائدہ یہ ہے کہ اس وہ انتشار کا شکار ہو کر کفران کرنے کی بجائے مرتکز ہو کر اپنی شکر گزاری اور دوسروں کی منفعت کا وسیلہ بنتے ہیں۔ آپ میں بہت قوت ہے۔ عظیم اور تباہ کن۔ اس کے پاس ہر قوت کی طرح دو ہی راستے ہیں۔ تعمیر یا تخریب۔ تعمیر کی صورت ارتکاز میں ہے اور تخریب کی انتشار میں۔ زیادہ حدِ ادب!
بہت زبردست فارمولا بتایا آپ نے ، میں بھی اس کوعدیم الفرصتی کے باعث ملتوی کررہا ہوں ، اس لئے کہ ان کی تحاریر کافی معلوماتی اور غور طلب ہوتی ہیں ،دقیق الفاظ ، ثقیل تراکیب ، اور عمدہ محاورات سے مزین ہوتی ہیں !کم از کم ایک مرتبہ میں سمجھ لینا میرے بس کا روگ تو نہیں ہے ،چھٹی والے دن پڑھوں گا وقت نکال کر۔ کمنٹ اس لئے کر دیا کہ ڈھونڈنے میں آسانی ہو۔
بہت زبردست فارمولا بتایا آپ نے ، میں بھی اس کوعدیم الفرصتی کے باعث ملتوی کررہا ہوں ، اس لئے کہ ان کی تحاریر کافی معلوماتی اور غور طلب ہوتی ہیں ،دقیق الفاظ ، ثقیل تراکیب ، اور عمدہ محاورات سے مزین ہوتی ہیں !کم از کم ایک مرتبہ میں سمجھ لینا میرے بس کا روگ تو نہیں ہے ،
میرا یہ فارمولا عدیم الفرصتی کی باعث نہیں ہے، بلکہ ذرا زیادہ توجہ سے پڑھنے لائق چیز کو اس وقت کے لیے رکھ لیتا ہوں، جب ساتھ کوئی اور کام نہ ہو.بہت زبردست فارمولا بتایا آپ نے ، میں بھی اس کوعدیم الفرصتی کے باعث ملتوی کررہا ہوں ، اس لئے کہ ان کی تحاریر کافی معلوماتی اور غور طلب ہوتی ہیں ،دقیق الفاظ ، ثقیل تراکیب ، اور عمدہ محاورات سے مزین ہوتی ہیں !کم از کم ایک مرتبہ میں سمجھ لینا میرے بس کا روگ تو نہیں ہے ،