یہی فرق تو اہل محبت کو اہل عشق سے منفرد کیا کرتا ہے کہ وہ کسی خلل کے باعث مجنون نہیں ہوا کرتے ۔۔۔ ۔۔۔
جس کا دماغ خراب ہو، جس کی عقل میں فتور ہو یا خلل زدہ دماغ کے حامل کو اور کیا کہا جاتا ہے؟اسے کیا کہیے گا کہ
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
اور
بیکاریِ جنوں کو ہے سر پیٹنے کا شغل
جب ہاتھ ٹوٹ جائیں تو پھر کیا کرے کوئی
یا اسے کہ
"زبسکہ مشقِ تماشا جنوں علامت ہے"
دراصل ایک جانب غالب کے مندرجہ بالا اشعار اور ذیل کا شعر ہے کہ جس کا ہم نے حوالہ دیا یعنی
بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل
کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا
جب کہ دوسری جانب سلیم کوثر کا شعر ہے جس میں پیش کردہ نظریے کو آپ نے اپنے مراسلے میں شامل کیا یعنی
عالمِ ذات میں درویش بنا دیتا ہے
عشق انسان کو پاگل نہیں ہونے دیتا
ہم سلیم کوثر کے گرویدہ یقیناً ہیں لیکن بیعت ہم نے غالب کی ہی کی ہے اور جب دو نظریات میں سے ایک کے انتخاب کا مرحلہ آ جائے تو ہندوستان کی مقدس کتاب دیوان غالب ہی ہمارا مسلک ٹھہرتا ہے لہٰذا عشق کرنےو الے دماغ کو فتور یا خلل زدہ مانتے ہیں۔
بہرحال۔۔۔
محبت تھی چمن سے لیکن اب یہ بے دماغی ہے
کہ موجِ بوئے گل سے ناک میں آتا ہے دم میرا