مبارکباد یومِ محبت (ویلنٹائن ڈے) مبارک

ارے زیادتی کیسی؟ جس کے دماغ میں خلل وقوع پذیر ہو جائے کیا اسے بے وقوف یا پاگل نہ کہا جائے گا؟ اور قابلِ صد احترام حضرت غالب فرما گئے ہیں کہ "کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا"۔
یہی فرق تو اہل محبت کو اہل عشق سے منفرد کیا کرتا ہے کہ وہ کسی خلل کے باعث مجنون نہیں ہوا کرتے ۔۔۔۔۔۔
 

فاتح

لائبریرین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرنگی زبان میں بات نہ کریں آپ کے مشیر خاص کو پسند نہیں ( یا پھر وہ خصوصی ترمیم بھی صرف ھمارے لیے تھی شائد )
وہ ترمیم تو نہیں لیکن یہ ترمیم یعنی بین الواوین (بِٹوین دا بریکٹس) اضافہ ہم نے خصوصی آپ کے لیے کیا ہے کہ کہیں آپ "بالوسطہ" یا "بین الواوین" کو فارسی یا عربی اصطلاحات نہ کہہ دیں۔
 

صائمہ شاہ

محفلین
وہ ترمیم تو نہیں لیکن یہ ترمیم یعنی بین الواوین (بِٹوین دا بریکٹس) اضافہ ہم نے خصوصی آپ کے لیے کیا ہے کہ کہیں آپ "بالوسطہ" یا "بین الواوین" کو فارسی یا عربی اصطلاحات نہ کہہ دیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب اتنی کند زہن بھی نہیں ھوں پھر بھی بالوسطہ عزت افزائی کا شکریہ
 

فاتح

لائبریرین
یہی فرق تو اہل محبت کو اہل عشق سے منفرد کیا کرتا ہے کہ وہ کسی خلل کے باعث مجنون نہیں ہوا کرتے ۔۔۔ ۔۔۔
جس کا دماغ خراب ہو، جس کی عقل میں فتور ہو یا خلل زدہ دماغ کے حامل کو اور کیا کہا جاتا ہے؟اسے کیا کہیے گا کہ
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ​
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی​
اور​
بیکاریِ جنوں کو ہے سر پیٹنے کا شغل​
جب ہاتھ ٹوٹ جائیں تو پھر کیا کرے کوئی​
یا اسے کہ
"زبسکہ مشقِ تماشا جنوں علامت ہے"​

دراصل ایک جانب غالب کے مندرجہ بالا اشعار اور ذیل کا شعر ہے کہ جس کا ہم نے حوالہ دیا یعنی
بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل​
کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا

جب کہ دوسری جانب سلیم کوثر کا شعر ہے جس میں پیش کردہ نظریے کو آپ نے اپنے مراسلے میں شامل کیا یعنی
عالمِ ذات میں درویش بنا دیتا ہے​
عشق انسان کو پاگل نہیں ہونے دیتا
ہم سلیم کوثر کے گرویدہ یقیناً ہیں لیکن بیعت ہم نے غالب کی ہی کی ہے اور جب دو نظریات میں سے ایک کے انتخاب کا مرحلہ آ جائے تو ہندوستان کی مقدس کتاب دیوان غالب ہی ہمارا مسلک ٹھہرتا ہے لہٰذا عشق کرنےو الے دماغ کو فتور یا خلل زدہ مانتے ہیں۔
بہرحال۔۔۔
محبت تھی چمن سے لیکن اب یہ بے دماغی ہے​
کہ موجِ بوئے گل سے ناک میں آتا ہے دم میرا​
 

فاتح

لائبریرین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ آپکی شدت پسند شاعری انہیں راتوں کا ثمر ھے کیا؟
یہ رات اُس درد کا شجر ہے
جو مجھ سے، تجھ سے عظیم تر ہے

وہ غم جو "محفل کے ایک دھاگے"
کے گلستاں میں‌ سلگ رہا ہے
(وہ غم، جو اس رات کا ثمر ہے)

یہ غم جو اس رات نے دیا ہے
یہ غم سحر کا یقیں بنا ہے
یقیں جو غم سے کریم تر ہے
سحر جو شب سے عظیم تر ہے​
لیکن فیض بے چارے نے اس یقینِ سحر میں موت کو گلے لگا لیا یعنی سحر تو نہ آئی مگر موت آ گئی۔۔۔ یہی انجام ہمارا بھی ہو گا​
 

فاتح

لائبریرین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب اتنی کند زہن بھی نہیں ھوں پھر بھی بالوسطہ عزت افزائی کا شکریہ
حوصلہ! حوصلہ! یعنی حوصلہ افزائی کہیے اسے عزت افزائی مت کہیے۔
ویسے "اتنی" کا لاحقہ شامل کر کے آپ نے ہم پر فکر کے نئے در وا کر دیے ہیں۔
 
اس سوال کا جواب پھر دیتا ہوں پہلے یہ تو فرماؤ کہ مجھ سے گفتگو کے دوران تو تم نے گیارہ مرتبہ دن بھر کی مشقت سے بدن ٹوٹنے کا عذر پیش کر کے نیند کی امان چاہی تھی۔ یہ اچانک نیند اڑنچھو کیسے ہو گئی؟
بھئی تم سے بات کرنے کے 30-40 منٹ کے اندر ہی سو گیا تھا ایسی تھکن طاری تھی جیسے برسوں کی مشقت جمع ہو گئی ہو۔

ایک دوست سے بس اور بات ہوئی مختصر سی۔
 
تم ہمارے مشیر خاص ہو چیلے اور ہمارے سفرِ خصوصی میں تمھیں ہماری راہ نمائی کا شرف حاصل رہا ہے لہٰذا تمھاری سفارش پر دس رعایتی نمبر حوصلہ افزائی کے عطا کیے جاتے ہیں بلکہ مرحمت فرمائے جاتے ہیں۔

واہ واہ

مشیر خاص ، چیلے

مبتدی اور مقتدی رہ گیا غالبا

یار کیوں لوگوں کو گمراہ کر رہے ہو ، وہ بھی سر عام اور سر راہ۔

محترمہ صائمہ شاہ کو صرف دس رعایتی نمبر حالانکہ محنت تو انہوں نے کم از کم بیس نمبروں کی ہے۔

میں کیا آج سے تمہیں "گرو" کہنا شروع کر دوں ویسے انگریزی میں بنی فلم تو تم نے دیکھی ہی ہو گی
 

صائمہ شاہ

محفلین
واہ واہ

مشیر خاص ، چیلے

مبتدی اور مقتدی رہ گیا غالبا

یار کیوں لوگوں کو گمراہ کر رہے ہو ، وہ بھی سر عام اور سر راہ۔

محترمہ صائمہ شاہ کو صرف دس رعایتی نمبر حالانکہ محنت تو انہوں نے کم از کم بیس نمبروں کی ہے۔

میں کیا آج سے تمہیں "گرو" کہنا شروع کر دوں ویسے انگریزی میں بنی فلم تو تم نے دیکھی ہی ہو گی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ٖقابلیت کی قائل ھوں رعایتی نمبروں کی کبھی ضرورت نہیں پڑی وہ رعایتی نمبر اپنے گرو جی کو دے دیں محنت تو انکی ھے خود کو مفتوح محبت سے منکر محبت ثابت کرنے میں
 
اہل محبت کی کتاب میں تو ہمیشہ یہی لکھا جاتا ہے کہ
"محبت فاتح عالم "
یہ اہل محبت کو بے وقوفوں کی صف میں شامل کیا جانا۔۔۔ کچھ ذیادتی نہیں ہوگئی ؟

فاتح کو اس وقت چھیڑنا قطعی مناسب نہیں کیونکہ صائمہ شاہ پر کرم کرتے کرتے رخ میری طرف اور اب کوئی نیا ٹارگٹ ڈھونڈا جا رہا ہے۔

اہل محبت سے دو سال سے خار کھائے بیٹھا ہے فاتح۔
 

فاتح

لائبریرین
واہ واہ
مشیر خاص ، چیلے
مبتدی اور مقتدی رہ گیا غالبا
یار کیوں لوگوں کو گمراہ کر رہے ہو ، وہ بھی سر عام اور سر راہ۔
بجائے دنیوی و اخروی زندگیوں میں فلاح کا ذریعہ بننے والے ان خطابات پر ممنون احسان ہونے کے الٹا بنی نوع انسان کی گمراہی کا موجب ٹھہراتے ہو ہمیں۔ حدِّ ادب! اگر ہم حد درجہ سخی اور دیالو نہ ہوتے تو ابھی یہ مراتب و اعزازات واپس لے لیتے مگر اپنی طبع کی بے نیازی سے مجبور ہیں۔
محترمہ صائمہ شاہ کو صرف دس رعایتی نمبر حالانکہ محنت تو انہوں نے کم از کم بیس نمبروں کی ہے۔
خصوصی نمبروں کا ایک اضافی کوٹہ ہم نے تمھیں بھی مرحمت فرما رکھا ہے، ان میں سے بقایا دس تم دے دو۔
میں کیا آج سے تمہیں "گرو" کہنا شروع کر دوں ویسے انگریزی میں بنی فلم تو تم نے دیکھی ہی ہو گی
مجھے نہیں معلوم کہ اس فلم میں گرو کا لقب کس مفہوم میں استعمال ہوا ہے لیکن اگر ٹورنٹ کا لنک مجھے دے سکو تو میں ڈاؤن لوڈ کر کے دیکھ لیتا ہوں یا فون پر صرف سٹوری ہی بتا دینا۔
 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ٖقابلیت کی قائل ھوں رعایتی نمبروں کی کبھی ضرورت نہیں پڑی وہ رعایتی نمبر اپنے گرو جی کو دے دیں محنت تو انکی ھے خود کو مفتوح محبت سے منکر محبت ثابت کرنے میں

پہلی بات تو یہ کہ گرو کا لفظ واوین میں ہے اس لیے اسے طنزا پڑھنا لازم ٹھہرتا ہے اور فاتح آجکل فصیل محبت سے کہیں آگے نکل گیا ہے۔

مفتوح تو وہ کبھی ہوتا ہی نہیں منکرین سے البتہ اسے خاص شغف رہتا ہے۔

قابلیت کا قائل ہونا تو بہت اچھی بات ہے ویسے آپ کی طرح میں بھی وضاحت کا طلبگار ہوں کہ آپ کی قابلیت کن مضامین اور شعبوں میں ہے تاکہ فاتح کے تابڑ توڑ حملوں کا تدارک کیا جا سکے۔
 

ظفری

لائبریرین
موجودہ بحث سے قطعہِ نظر موضوع کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اسی محفل پر میری ایک پرانی پوسٹ آپ سب کی نظر ۔

پہلے ہم ہندوستان آئے تو ہندوؤں کی بہت سی چیزیں ہماری ثقافت اور تہذیبوں میں داخل ہوگئیں ۔اب چونکہ دنیا ایک گلوبل وولیج بن گئی ہے ۔ چناچہ اب دوسرے ملکوں‌سے بھی بہت سی چیزیں ہمارے ملک میں آرہیں ہیں ۔ پہلے ہمارے ہاں سالگرہ کا تہورار اس طریقے سے نہیں منایا جاتا تھا ۔ اب گھر گھر میں سالگرہ کی تقریب ہوتی ہے ۔ کیک کاٹے جاتے ہیں ۔ ہپی برتھ ڈے کیا جاتا ہے بلکہ گایا جاتا ہے ۔ اس میں مذہبی علماء بھی شامل ہیں ۔ اس میں سیاست دان بھی شامل ہیں ۔ اب سب اس طرح کی تقریبات منقعد کرتے ہیں ۔ ایسا معاملہ اب اس تہوار کیساتھ بھی ہو رہا ہے ۔ ظاہر ہے جب ہم مغربی تہذیب کیساتھ متعلق ہو رہے ہیں تو بہت سے ان کے تہوار بھی آرہے ہیں ۔ اس تہوار کی اگر آپ اصل پر غور کریں تو اس میں کوئی ایسی بیہودگی نہیں تھی ۔ بلکہ یہ شادی کے رشتے کے تقدس کو قائم رکھنے کے لیئے ایک تہوار تھا جو لوگوں نے قائم کیا ۔ ہماری تہذیب کو ویسے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ ہمارے ہا ں‌نہ تو رباعینت رہی ہے جو عیسائیوں کے ہاں‌ تھی ۔ نہ شادی کوئی اس نوعیت کا مسئلہ رہی ہے ۔ اس وجہ سے ہمارے معاشرے میں اس تہوار کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہونی چاہیئے ۔ لیکن جب تہذیبوں‌کا باہمی تعلق قائم ہونے لگتا ہے تو اس میں لوگ منانے لگ جاتے ہیں ۔ ذاتی طور پر مجھے یہ تہوار پسند نہیں ہے ۔ کیونکہ اس میں کچھ غیر اخلاقی چیزوں کے آنے کا بھی خدشہ ہے ۔کیونکہ اب یہ معاملہ شادی شدہ جوڑوں کے درمیان ہی نہیں رہا ۔ اس میں کچھ حدود سے باہر بھی چھلانگ لگائی گئی ہے ۔ اس وجہ سے لوگوں کو اس سے انحراف کا مشورہ دیا جائے تو اچھی بات ہے ۔

تہوار اسی طرح قوموں میں اٹھتے ہیں ۔ اور دوسری قومیں آہستہ آہستہ اپنے باہمی تعلق کی وجہ سے ان تہواروں ‌کو قبول کرلیتیں ہیں ۔ ہوسکتا ہے اس تہوار میں بھی ہمارا معاشرہ اسی طرح آہستہ آہستہ کچھ ایسی بعض تبدیلیاں کرلے ۔ جو ہماری معاشرت ، ہماری ثقافت ، ہماری تہذیب ، ہماری اخلاقی روایات اور اقدار پر مبنی ہو ۔ یہ ممکن ہے ۔ مگر ہم زیادہ سے زیادہ کیا کرسکتے ہیں ۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب کوئی تہوار لوگ منانا شروع کریں تو دیکھیں کہ اس تہوار میں نقص کیا ہے ۔ کوئی چیز غیر اخلاقی تو نہیں ہے ۔ کوئی چیز مذہبی نوعیت کی تو نہیں ہے ۔ اس میں کوئی ایسی چیز تو نہیں ہے جس سے ہماری اقدار ممانعیت کا حکم لگاتی ہو ۔ ہمیں اس زاویے سے چیزوں‌کا دیکھنا چاہیئے ۔ ہر چیز ہم غیروں کی قرار دیدیں اور رد کرنا شروع کردیں تو یہ کوئی مثبت عمل نہیں ہے ۔ میرا اپنا نقطہ ِ نظر یہ ہے کہ کچھ دیر بعد ہماری یہ ممانعیت رد ہوجائے گی اور لوگ اس چیز کو نہیں چھوڑیں گے ۔

سالگرہ کیساتھ بھی یہی ہوا ۔ دیکھئے کہ ایک گھر میں اب یہ تصور کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ بچوں یا بڑوں کی سالگرہ نہیں منائی جائے گی ۔ حالانکہ خود ہماری تہذیب میں اس کی کوئی روایت نہیں تھی ۔ ہم بچوں کی آمین کراتے تھے ۔ بچوں کا عقیقہ کرتے تھے ۔ لیکن اس طریقے کی کوئی تقریب ہمارے ہاں منقعد نہیں ہوتی تھی ۔ لیکن اب ہر گھر میں ہوتی ہے اور ظاہر یہ باہر سے آئی ہے ۔ ویلنٹائن ڈے کا بھی یہی معاملہ ہے کہ اگر ا سمیں کوئی غیر اخلاقی پہلو نہیں ہے ۔ اور لوگ اسلامی اقدار کا لحاظ رکھتے ہیں ۔ اور ہماری تہذیب کے اندر اسے کوئی صورت دیدتے ہیں تو پھر کوئی بات کہی جا سکتی ہے ۔ اسلام کا اپروچ یہ ہے کہ سارے انسانوں کو وہ آدم کی اولاد سمجھتا ہے ۔ ساری تہذیبوں کا انسانیت کا ورثہ سمجھتا ہے ۔ وہ صرف یہ دیکھے گا کہ کوئی مشرکانہ چیز تو اس میں شامل نہیں ہے ۔ کوئی غیر اخلاقی پہلو تو نہیں نکلتا ۔ اگر ایسا نہیں ہے تو وہ کسی تہوار کا دشمن نہیں ہے ۔

رہی بات غیر شدہ مرد اور عورت کے آپس کے معاملات تو یہ ہمارے اقدار کے خلاف ہیں ۔ یہ اچھا ہوگا کہ ایسا نہ ہو ۔ یہ بات بھی صحیح ہے کہ یہ تہوار کسی دوسری تہذیب میں کسی اور ہی تصور سے پیش ہوا ۔ لیکن اگر ہم اس تہوار کو اپنی اقدار سے تھوڑا ہم آہنگ کرلیں ۔ تو اس تہوار کو بھی ہم اپنے اقدار اور اپنی تہذیب کے مطابق ڈھال سکتے ہیں ۔ یعنی کسی تہوار کو اسلامی ہی بنانا ضروری نہیں ہے ۔ اس میں اخلاقی پہلو آجانا چاہیئے ۔اگر کوئی غیر شادی مر و عورت اس طرح اس تہوار میں ملوث ہوتے ہیں تو ہم انہیں سمجھاسکتے ہیں جو ہم عام زندگی میں بھی کرتے ہیں ۔ تہوار یا اس قسم کی چیزیں دوسری قوموں میں جب منتقل ہوتیں ہیں تو اس میں تبدیلیاں بھی آجاتیں ہیں ۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ان کی تاریخ ہی کو گڑھے مُردوں کی طرح اکھاڑا جائے ۔ ان تہواروں میں قومیں آہستہ آہستہ اپنے مزاج اور اقدار کے لحاظ سے بتدریج تبدیلیاں لاتے رہتے ہیں ۔ قیصرانی نے بھی ایک ایسی ہی تبدیلی کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں اب دوست و احباب ایک دوسرے کیساتھ اس تہوار کو منارہے ہیں ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکہ " ایک دوسروں کو تحفے و تحائف دیا کرو" ۔ کیوں نا ہم اس تہوار کو اس حدیث کے تناظر میں رکھ کر اس کو اپنی تہذیب و اقدار اور مذہب کے مطابق ڈھال لیں ۔ ہماری اپروچ بس ایسی ہونی چاہیئے کہ ہر حال میں اخلاقی حدود کو ہم بالاتر رکھیں گے ۔
 
Top