قرآن میں خواتین کا ذکر اور مرد مترجم اور مفسر
23/03/2021 آمنہ ظہیر
جب رسول اللہ کی زندگی کا دور پڑھا تو معاشرتی سطح پر گھر سے باہر خواتین کی ایک واضح موجودگی نظر آئی۔ نماز پنجگانہ اور عید کی نمازوں کی ادائیگی کے لے مردوں کے ہمراہ مسجد کے ایک ہی احاطے میں نماز ادا کرتی خواتین، دین خدا کو سمجھنے کے لیے مردوں کے ساتھ پیغمبر خدا ﷺ سے سوال جواب کرتی خواتین، جنگوں میں نرسنگ کرتی اور لڑتی خواتین، اپنے حق کے لے مجادلہ کرتی خواتین۔ رسول اللہ ﷺ کے دور کی تاریخ پڑھنے کے بعد کچھ ایسا ہی خاکہ ابھرا جس میں نامساعد حالات میں بھی مرد و زن کے مہذب میل جول سے پروان چڑھتے ایک معاشرے کی تصویر نظر آئی۔ جہاں مرد و زن کے لئے علیحدہ، علیحدہ قید خانے اور غیر انسانی پابندیاں نہیں بلکہ میل جول کے مہذب اصول وضع کیے گئے۔ اپنے نفس کو تابع رکھنے کے لے سخت احکام دیے گئے تاکہ انسانی اور جنگلی معاشرے میں تفریق کی جا سکے۔
پھر بعد کی تاریخ پڑھی تو ایسا لگا کہ جیسے رسول خدا ﷺ کے رخصت ہونے کے بعد خواتین کے ساتھ ویسا ہی سلوک ہوا جیسا ماں یا باپ کے رخصت ہونے کے بعد یتیموں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ ذہنوں کو سلانے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ وہ ماں باپ کی دور والی زندگی کو اپنا انسانی حق سمجھ کر اس کامطالبہ نہ کریں۔ وجود کو زندہ رکھا جاتا ہے، اس کا پیٹ بھرا جاتا ہے، تن ڈھانکا جاتا ہے۔ مقصد صرف اسے زندہ رکھنا ہوتا ہے نہ کہ ان کی نشوونما اور ذہنی پرورش کرنا تاکہ زمانے کی نظر میں پالنے والا ظالم نہ کہلائے۔
اور پھر اسی طرح خواتین کو صرف زندہ رکھنے کا دور شروع ہوا، اور اسی پر شکرگزاراور اکتفا کرنے کا درس گھول کر پلایا گیا۔ آہستہ آہستہ مسجد، کتاب، منبر، قلم سب پر مرد حضرات قابض ہوتے گئے اور خواتین کو کبھی کے پردے کے حکم کی آڑ میں اور کبھی فتنے کے خوف سے گھروں تک محدود رکھنے کا رواج پکڑنا شروع ہوا۔ پردے کو invisibility سے موسوم کر دیا گیا نہ کہ وقار اور حیاء سے۔ رسول خدا کے دور کی سب آزادیاں سلب کر لی گئیں۔ ہر آزادی یہ کہہ کر رد کر دی گئی کہ یہ پردے سے پہلے کی تھیں۔ جیسے پردے سے پہلے کے سب کام غلط اور ممنوع تھے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ سیدہ عائشہؓ کے بعد کسی خاتون کو قابل قبول معلمہ کے عہدے کے لیے نہ تیار کیا گیا اور نہ ہی قبول کیا گیا۔
اور پھر اس کا فائدہ یہ ہوا کہ دین کا علم مرد کی وساطت سے عورت تک پہنچنا شروع ہوا۔
اور پھر تفاسیر اور تراجم میں بھی اسی کو زیادہ پرزور طریقہ سے پیش کیا گیا جو مرد کی حاکمیت کے بیانیے کو تقویت دے۔ یہاں تک کہ بعد کے خلفاءؓ کی قائم کردہ معاشرت کو رسول اللہ ﷺ کے قائم کردہ معاشرت پر ترجیح دی گئی کیونکہ وہ قبائلی معاشرت کے لئے زیادہ زود ہضم تھی۔
اب آتے ہیں اس طرز فکر کی طرف جس کا استعمال قرآنی تفاسیر اور ترجمہ میں جانے یا انجانے میں شامل کیا گیا۔ شاید بیان کرنے والے کا مقصد کچھ اور ہو مگر پڑھنے والے نے کچھ اور لیا ہو۔ تمام احتمال موجود ہیں۔ سو مقصد ان کو غلط ثابت کرنا نہیں بلکہ اس فوکس اور غیر متوازن emphasis کی طرف توجہ دلانا ہے جو ان مختلف تفاسیر اور تراجم سے پیدا ہوئی۔ اور ایسے بہت سے مقامات ہیں مگر طوالت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس مضمون میں صرف چند کا ذکر کروں گی۔
ایسا لگتا ہے کہ جب کوئی آیت عورت کے بارے میں ہوتی ہے، وہاں کسی ایک لفظ یا چیز پر اتنا فوکس کیا جاتا ہے کہ باقی آیت نظرانداز ہوتی نظر آتی ہے، یا کبھی آیت کو تفصیلی طور پر واضح کرنے سے گریز کیا جاتا ہے، کوئی ضعیف حدیث اس کی نفی میں لگا دی جاتی ہے یا پردے کی تاویلیں استعمال کی جاتی ہیں۔ اگر تاریخ میں کہیں علماء اپنا کردار دیانت داری سے نبھاتے نظر آتے ہیں تو درس سننے والے بہرحال مرد ہی ہیں جو گھر وہی پیغام لے کر جاتے ہیں جو ان کے فائدے کا ہو۔
اور یوں اس جانبدارانہ زاویۂ نظر کی بدولت دنیا میں خداداد اور تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کے لئے ماحول صرف مرد کے لئے سازگار پایا گیا اور ایک مسلمان عورت کی کامیابی محض اپنے جسم کی حفاظت قرار پائی۔ پھر اس بیانیے کی ترویج کے لئے عورت کے لئے گھر سے باہر کی دنیا انتہائی غیرمحفوظ نہ صرف دکھائی گئی بلکہ رکھی بھی گئی، تاکہ وہ باہر نکلنے کے تصور سے ہی گھبرائے۔ حالانکہ ایک سچے مسلمان مرد سے یا ایک مسلم معاشرے میں تو عورت کو اتنا محفوظ ہونا چاہیے کہ وہ غیر مسلم معاشرے کا سوچ کر ہی گھبرائے۔
سورۂ احزاب کی وہ آیات جو خواتین کے پردے کے حکم سے تعبیر کی جاتی ہیں، اصل میں ایک ہدایت بھی ہیں اور ایسے غیر اخلاقی ماحول میں سے گزرنے کی تدبیر بھی ہیں، کوئی معاشرتی اصول نہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے اب تا ابد ماسک اورمسجد کی صفوں میں فاصلہ مرد و عورت کے لیے لازم کر دیا جائے کہ بہرحال خطرہ تو ہمیشہ رہے گا۔ یہاں ہرگز پردے کی اہمیت سے انکار نہیں بلکہ مقصد اس پرتشدد سوچ اور جبر کے رویے کو اجاگر کرنا ہے جہاں ایک صنف دوسری صنف پر اپنی وضع کردہ تشریحات اور بے جا پابندیوں کو حق اور جائز قرار دیتی ہے۔ قرآن کا اعجاز ہے کہ جہاں معاشرتی اصول کی بات ہو وہاں مرد اور خاتون دونوں مخاطب ہیں جیسے سورۂ نور یا سورۃ النساء میں۔ مگر احزاب کی آن آیات میں تو مرد خود ایذاء رساں گروپ کا حصہ ہیں، تو یہ آیات معاشرتی اصول کیسے بنیں۔ اس کے لیے کچھ تفصیل میں جانا پڑے گا۔
سورۂ احزاب کی آیت نمبر 57، 58 اور 59 میں ا، ذ، ی (کے مادے یعنی اذیت دینا) سے بننے والے الفاظ ہیں یؤذون اور یؤذین۔ آیت 57 میں یہ لفظ اللہ اور رسول کو اذیت دینے والوں کے لیے ہے، آیت 58 میں مومن مرد اور خواتین دونوں کو اذیت دینے والوں کے لئے اور 59 میں صرف خواتین کو اذیت دینے والوں کے لیے۔ ( یہی لفظ اذی حیض کی اذیت اور تکلیف کے لئے بھی استعمال ہوا ہے کہ بے شک درد کسی بھی تخلیقی عمل کا ناگزیر حصہ ہے، مگر ہمارے مترجم حضرات نے لفظ ناپاکی کو استعمال کرنا زیادہ مناسب سمجھا، جو عورت کی تکلیف سے توجہ ہٹا کر اسے کراہت کی طرف لے جاتا ہے۔ )
بہرحال مذکورہ آیات میں یہ ایک ہی گروہ ہے جو ان تمام کے لیے آزار کا باعث ہے، صرف راہ چلتی مسلم مہذب خواتین کے لیے نہیں۔ ان آیات میں ا، ذ، ی سے بننے والے الفاظ اللہ، رسولﷺ، مومن مرد اور خواتین سب کو connect کرتے ہیں بالمقابل اس گروپ کے جو منافق اور شرپسند ہیں اور اپنی لاعلمی اور جہالت کی وجہ سے یا تو رسول اللہ ﷺ اور مومن مرد اور عورتوں کو ناحق ذہنی اور جسمانی ایذا دیتے ہیں یا اللہ کے ساتھ شرک کرتے اور غلط گمان رکھتے ہیں اور جن کو ملعونین کہا گیا ہے۔
آیت 59 کی تفسیر کچھ یوں کی جاتی ہے کہ سارا emphasis عورت کے پردے پر ڈالا جاتا ہے۔ آیت نمبر 57 اور 58 کو تو تاریخی پس منظر میں بیان کیا جاتا ہے مگر اس آیت 59 کو یک دم ایک عمومی معاشرتی اصول بنا دیا جاتا ہے۔ اور اگلی آیت 60 کو پھر تاریخ سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ تو یہاں سے ایک غیرمتوازن سوچ پروان چڑھتی نظر آتی ہے۔ جب ہر طرف اخلاقی پستی کی دلدل ہو اور بہتان تراشی اور کردار کشی کا طوفان ہو تو ڈھکنے اور چھپنے کا ہی مشورہ دیا جا سکتا ہے جب تک کہ طوفان اور خطرہ ٹل نہ جانے۔
مگر صد افسوس کہ مسلم معاشرے کے قیام کے بعد بھی ہم نے نہ اس بد اخلاقی کی دلدل کو پاٹا اور نہ ہی باہر نکلنے والی عورت کی کردار کشی اور بہتان تراشی کے طوفان کو کسی صورت ٹلنے دیا۔ اور آج بھی مسلم کے بجائے فخریہ طور پر ملعونین کی معاشرت زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے کہ ہماری شریعت میں عورت کی کردار کشی کبیرہ گناہ ہے۔ میں نے بہت عالم فاضل مرد اور خواتین کے دروس اور تفاسیر سنی اور پڑھیں، دو، تین گھنٹوں کے خطاب میں بات جلباب کے سائز اور یدنین (جلباب لپیٹنے کے طریقے ) سے آگے نہیں بڑھتی۔
کبھی کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ ’یؤذین‘ سے مراد کون ہیں۔ آخر کس سے ستائی جانے کا خطرہ ہے۔ کیا یہ مان لیا جائے کہ تمام مرد برادری کی فطرت میں لباس کی بنیاد پہ عورت کو اذیت دینا ہے اور عورت کا لباس ہی مرد کو یہ تعین کرنے میں مدد دیتا ہے کہ کسے اذیت دی جائے اور کسے بخش دیا جائے۔ سو عورت کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ صرف لباس کے انتخاب کے ذریعہ سے ہی بچ کے رہے۔ یا پھر اگر اکثریت نہیں کچھ چند مرد ایسے ہیں جو راہ چلتی عورت کو ایذا دیتے ہیں، تو کیا ایسی صورت میں زیادہ تعداد والے مومن مرد ان چند ملعونین کو لگام نہیں ڈال سکتے، اور کیا یہ انصاف ہے کہ ان چند ملعونین کو روکنے کے بجائے تمام عورت برادری کو ہمیشہ کے لئے ایک ہی مخصوص لباس کا پابند کر دیا جائے یا گھروں میں مقید رکھا جائے۔
اگر ملعونین کی معاشرت کے غیر اخلاقی ماحول کو ہی دوام دینا تھا جہاں عورت کو ہراساں کرنا اور گھر سے باہر ستائے جانے کا خطرہ رہے تو مسلم معاشرے کا کیا فخر، کیا جواز اور کیسی برتری؟ ظاہر ہے یہاں اشارہ مشرک و کفار کے منافق مرد کی طرف ہے اورامہات المومنین کو بھی گھروں میں ٹکنے کا، حجاب کے پیچھے سے بات کی ہدایت اسی ایذا رساں گروپ سے بچنے کے لئے دی جا رہی ہے، تاوقتیکہ اللہ کا قانون نافذ ہو جائے جہاں ہر انسان کی جان، مال، آبرو کی حفاظت یقینی بنائی جا سکے گی۔
اس لئے اگر یہاں کفار سے خطرہ ہے تو مومن مرد سے بالکل خطرہ نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ مشرک کلام اللہ نہیں سنتے، ان پر مسلم اخلاقی قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ مگر ایک مومن مرد جو کلام اللہ سنتا ہے۔ خدا کا خوف رکھتا ہو گا، باپردہ یا بے پردہ کو ہراساں کرنے کے تصور سے ہی کانپ اٹھے گا۔ مگر ہم نے گھر سے نکلنے والی، باپردہ یا بے پردہ کو تنگ کرنا نہ صرف جائز ٹھہرا دیا بلکہ خاموشی سے اسے معاشرتی اصول کا درجہ بھی دے دیا، صرف یہ باور کروا کر، کبھی واضح طور پہ اور کبھی اشارتاً کہ خود خدا کی کتاب نعوذ باللہ کہتی ہے کہ پردے کے بغیر ستایا جانا لازم اور ملزوم ہے۔
اور یوں وہ جن کے دلوں میں بیماری تھی، جن کو گھر کے اندر اور باہر کی دنیا پر حاکمیت جتانے کا جنون تھا، انہوں نے مسلم مرد کے لئے ہراسانی اور اذیت کو ایک بے پردہ عورت کے لیے خاموش یا کھلی رضامندی کے ذریعہ ایک جائز آلہ بنا دیا کہ وہ عورت کو ہراساں کرے تاکہ وہ گھر لوٹ جائے یا پردے میں لپٹ جائے۔ اور یہ ’مصلحون‘ اس اذیت کو اللہ کا حکم نافذ کرنا کہتے ہیں۔ ہونا تو چاہے تھا کہ پردہ نہ کرنے پر قرآن میں عورتوں کو سخت وعید دی جاتی کہ آخر اسی سے معاشرے میں بے راہ روی پھیلتی ہے مگر عورت کو کہا گیا کہ اللہ غفور و رحیم ہے، جانتا ہے پردہ عورت کے کسی قصور کی بناء پر نہیں بلکہ اصل میں منافق مرد کی کمزوری پر پردہ ہے۔
تو بھول چوک پر تمھیں معافی ہے ہاں مگر ستانے والوں کے لیے اگلی ہی آیات میں سخت وعید ہے کہ وہ معاشرے کا اخلاقی ڈھانچہ درہم برہم کرتے ہیں۔ مگر وہاں تک کوئی جاتا ہی نہیں کیونکہ پھر تو سارا پدرسری معاشرہ ہی ’ملعونین‘ کی زد میں آنے کا خطرہ ہے تو فوکس اس ایک آیت کے چند الفاظ پر رکھا جاتا ہے۔ اور اسی غیر متوازن اپروچ سے مسائل جنم لیتے ہیں۔ ایک طرف تربیت اور پابندیوں کا انبار اور دوسری طرف ہراسانی پر مرد کو بے قصوراور معصوم کہہ کر کھلی معافی کا اعلان ہے۔
وہ جس کی بھول چوک پر خدا غفور و رحیم ہے، اس پر معاشرہ سخت ہے مگر جس کی ایذا رسانی پر خدا کی لعنت ہے اسے معاشرے کی آشیرباد حاصل ہے۔ اسی ضمن میں چند سال پہلے کا واقعہ یاد آ گیا۔ ایک صبح اکیلے ویسٹریج راولپنڈی کے ایک اندرون بازار جانے کی ضرورت پیش آئی، اندرون میں چونکہ ایک خاص مذہبی فکر کا طبقہ ہوتا ہے اور ’ستائے‘ جانے کا ذرا زیادہ خطرہ ہوتا ہے تو عبایہ کے ساتھ نقاب بھی پہن لیا۔ گلی میں داخل ہوئی تو دور کاندھے پر سعودی شماغ ڈالے، ٹخنوں سے اونچے پائنچے رکھے، مہندی سے رنگے باریش ایک صاحب مسواک کرتے دکھائی دیے۔ ان کی نگاہیں دور سے ہی جائزہ لیتی محسوس ہوئیں، میرے پاس سے گزرنے تک وہ گردن موڑتے گھورنے کے اس عمل میں مصروف رہے تو میں نے اخلاقاً یاد دلایا ’مولوی صاحب نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم ہے‘ ، تو بغیر ندامت اور شرمندگی سے بڑی بے نیازی سے مسواک تھوکتے ہوئے جھٹ بولے تمھارا پردہ بھی تو ٹھیک نہیں۔
میرے انتہائی حیرت زدہ استفسار پر فرمایا ’تمہاری آنکھیں صاف نظر آ رہی ہیں ان پر بھی پٹی لگاؤ۔‘ اس کے بعد ہائی بلڈ پریشر کے ساتھ جو میں نے انہیں مختصراور جامع درس دیا وہ تو یاد نہیں، البتہ اتنا یاد ہے کہ وہ ہاتھ جوڑ کر فرمانے لگے کہ جاؤ بی بی اپنا کام کرو۔ اس واقعے میں تدبر کے باقی پہلوؤں کو طوالت کے پیش نظر پڑھنے والوں پر چھوڑتی ہوں۔
قرآن میں ’یقنت‘ کا لفظ بھی بہت بار استعمال ہوا ہے۔ اور یہ جب ہی آیا ہے اس سے مراد اللہ کی مکمل فرمانبرداری ہے۔ ظاہر ہے جو اللہ کا فرماں بردار ہے، وہ انصاف بھی کرتا ہے اور تمام رشتوں کو ان کا حق دینے کی بھی کوشش کرتا ہے لہٰذا اسے انسان کی فرمانبرداری سے جوڑنا بہت غیر مناسب ہے۔ رسول اللہﷺ کے لئے بھی اطاعت کا لفظ استعمال ہوا ہے جس میں choice کا option موجود ہے۔ مگر سورۂ نساء میں ہمارے مفسرین نے اسے بھی شوہر کی مکمل فرمانبرداری سے جوڑ دیا ہے۔
جبکہ یہی لفظ سیدہ مریم کے لئے بھی سورہ تحریم کی آخری آیت میں استعمال ہوا ہے جن کا کوئی شوہر نہیں تھا۔ جہاں یہود میں اور بہت سی اخلاقی بیماریاں تھیں وہاں ایک فرعونی حد تک مردانہ برتری کا زعم بھی تھا (یہودیوں کے ایک کٹر طبقے میں اب بھی اس مردانہ احساس برتری میں کوئی خاص کمی نہیں آئی، اور کچھ محققین کا مسلمانوں میں کئی پدر سری اور misogynistic خیالات کا ماخذ بھی ایران اور عراق میں مسلمانوں اور یہود کا اختلاط مانا جاتا ہے ) عیسیٰ علیہ السلام کو بغیر باپ کے پیدا کرنے کا معجزہ اس مردانگی کے زعم پر بھی ایک بہت بڑی زک تھا۔
آدم علیہ سلام کی پیدائش بغیر باپ کے تو بتائی گئی مگر یہ معجزہ یہود نے اپنی آنکھوں سے دیکھا مگر اپنی انا پرستی کی وجہ سے یہود نے اس سب کو اور خود عیسیٰ علیہ سلام کو ماننے سے انکار کر دیا۔ حسرت ہی رہی کہ کوئی مسلم مفسر یا مبلغ اس طرف بھی توجہ دلائے کہ دیکھو عورت کی عزت کرو، اللہ چاہتا تو صرف عورتوں سے ہی دنیا آباد کر سکتا تھا، دنیا کو آباد تو وہ قادر عورت کے بغیر بھی کر سکتا تھا مگر بہرحال خدا کی حکمت کہ انسانوں کو معجزہ دکھانے کے لئے اس نے مرد کو ہی exclude کرنے کا انتخاب کیا۔ بچہ جننے کے انتہائی تکلیف دہ عمل میں بھی سیدہ مریم تنہا ہوتی ہیں، نہ کوئی قوام مرد ہے نہ ہی کوئی مدد گارعورت جو دلاسا دے۔
اللہ نے اگر عورت کو مرد کا ساتھ دیا ہے تو اس کا مقصد اس کے لئے یہ تخلیق اور تربیت کے مشکل مراحل آسان کرنا ہے، اس پر حکومت کرنا نہیں، عورت کو تخلیق کا مشکل کام دیا گیا ہے اور گو کہ انتہائی مشکل ہی سہی عورت تنہا بچہ پیدا بھی کر سکتی ہے اور پال بھی سکتی ہے۔ اگر آپ سنت رسول کی پیروی کرتے ہوئے اس کے کام میں اس کے لئے آسانی پیدا کریں گے اور اس کے مددگار ہوں گے تو یہ قوام، یعنی ذمہ دار مرد کا فرض ہے۔ قوام کا ترجمہ بھی حاکم یا نگران کیا گیا جو چوکیداری اور حاکمیت کے بیانیے کو تقویت دیتا ہے نہ کہ احساس ذمہ داری کو۔ قرآن نے میاں بیوی کو لباس کہا ہے، اس رشتے کے لئے اس سے خوبصورت اور کیا استعارہ ہو سکتا ہے، میاں بیوی کے درمیان یہ مودت اس کی رحمت ہے، اور ایک حاکمیت اور برتری رکھنے والا مائنڈ سیٹ چاہے عورت کا ہو یا مرد کا اس خوبصورت رشتے کی خوشبو اور شیرینی سے محروم کر دیا جاتا ہے۔
پھر سورۃ المجادلہ پڑھی تو امید تھی کہ ہاں کسی نے تو لکھا ہو گا کہ مسلمان عورتو دیکھو کس طرح ایک عورت ایک معاشرتی غلط قانون پر آواز اٹھا رہی ہے۔ اگر ہزاروں عورتوں کی طرح یہ ایک عورت بھی معاشرے کے وضع کردہ قانون کے آگے سر تسلیم خم کر دیتی تو کیا ہو جاتا، یا طلاق کے قانون کے ساتھ ظہار کو بھی ختم کرنے کا حکم دے دیا جا سکتا تھا مگر اس قبیح رسم کو ایک واقعے سے جہاں عورت کو نا انصافی پر آواز اٹھانے کا موقع دیا جاتا ہے، سے منسوب کر کے ختم کرنے میں تدبر کرنے والوں کے لئے حکمت پوشیدہ ہے۔
آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ صحابیہؓ مطالبہ کرتی رہیں جب تک سنی نہ گئیں۔ کسی مفسر نے کہیں نہیں لکھا کہ عورت اپنے جائز حق کے لئے آواز اٹھائے، خاموشی سے ناحق اور ناجائز ظلم سہنا کوئی ثواب اور صبر کے زمرے میں نہیں آتا۔ مگر زیادہ تر تفاسیر میں تمام تر توجہ ظہار کا قانون سمجھانے میں لگائی گئی ہے۔ کوئی سبق اخذ کر کے نہیں دکھایا گیا کہ دیکھو کس طرح سیدہ خولہ بنت ثعلبہؓ اپنے حق کے لئے اٹھیں اور اس بہادری کے عوض سیدنا عمرؓ کے سامنے بھی قابل عزت کہلائیں کہ اللہ نے خود ان کی داد رسی کی۔
قرآن میں طلاق کے قانون کے کئی مدارج ہیں۔ یک دم رشتہ ختم کرنے کا حکم قرآن کے مزاج کے خلاف جاتا، جو ہر معاملے میں تدریج، سوچ بچار اور مشاورت سے چلنے کا درس دیتا ہے۔ اور اگرچہ ظہار کا قانون ختم کیا گیا جو آن کی آن میں عورت کی بنی بنائی دنیا چھین لیتا ہے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ بعد کے زمانوں میں طلاق کا اطلاق بھی کم و بیش ظہار کی طرح کر دیا گیا جو قبائلی مزاج اور رواج کے زیادہ قریب تھا۔ جہاں تین درجوں کو ایک ہی وقت میں نافذ کر دیا گیا۔ قرآن کا حکم سامنے ہوتے ہوئے بھی کبھی کسی ایک واقعہ اور کبھی لایعنی تاویلات کا انبار لگا کر یکلخت رشتے کو توڑنے کا عمل مقبول عام کیا گیا، اور اس قانون نے کیا بربادی ڈھائی اور ڈھا رہی ہے یہ کسی سے چھپی نہیں۔
چونکہ ہم نے مرد اور عورت کے اختلاط میں discipline سے زیادہ avoidance اور negation کو ترجیح دی ہے، اس لئے مہذب اصولوں اور تہذیب کی کمی اس کا ایک لازمی نتیجہ ہے۔ سورۃ القصص میں موسیٰ علیہ السلام کی ہونے والی بیوی اس دور کی ایک ورکنگ وومن تھیں، انھوں نے موسیٰ علیہ سلام کو خود پسند کیا، باپ نے پسندیدگی کو بھانپ لیا۔ پھر ایک بہت چھوٹی سی تفصیل جو میری نظر میں بہت اہم ہے مگر شاید مرد مفسرین نے اسے بہت زیادہ توجہ دینا مناسب نہیں سمجھا۔
وہ یہ کہ پھر ان کے والد نے دو کے بجائے اسی ایک لڑکی کو بھیجا کہ موسیٰ علیہ السلام کو بلا کر لائے۔ یعنی پہلے بکریاں چرانے دو گئیں مگر موسیٰ علیہ السلام کو بلانے ایک۔ جوان لڑکی کو تنہا بھیجنا ایک جوان اجنبی کو بلانے۔ کیا یہ تفصیل دینی ضروری تھی۔ اس کے بغیر بھی قصہ بیان ہو سکتا تھا۔ مگر کہیں بھی پڑھ لیں مفسرین کی توجہ کا مرکز صرف دو الفاظ ہیں، کہ وہ شرماتی اور لجاتی آئی، شاید سر سے پیر تک پردے میں ملبوس۔
اور پھر اس سب واقعہ کو ایک خاص رنگ دینے کے لئے عجیب و غریب تاویلیں۔ کیا یہ موقع نہیں تھا کہ ہم بتاتے کہ ایک مرد اور عورت کی ملاقات کے لئے مہذب اور حیاء کے دائرے میں رہتے ہوئے بھی قانون وضع کیے جا سکتے ہیں، ہم یہ بتاتے کہ جب ماں باپ صحیح تربیت کریں تو اولاد پر اعتماد کر سکتے ہیں جیسے یہاں بی بی صفوراً کے والد (جو خیال کیا جاتا ہے کہ شعیب علیہ السلام تھے ) نے کیا۔ ان کی پسند کو اہمیت دیں جیسے شعیب علیہ السلام نے کیا، غیرت کے نام پر اندھے ہو کر قتل و غارت پر نہ اتر آئیں۔
اگر وہ ملنا چاہیں تو انہیں مہذب اور باحیاء طریقے سے ملنے کے اصول بتائیں۔ میرا تجربہ ہے جب آپ اولاد پر اعتماد کرتے ہیں تو وہ آپ کو مایوس نہیں کرتے اور آپ کے اصولوں کی پاسداری بھی کرتے ہیں۔ مگر ہم نے سب کو بے لگام جانور سمجھ رکھا ہے۔ قرآنی واقعات کو پس پشت ڈال کر رسول اللہ ﷺ کے بعد کی تاریخ (جس کے جھوٹ، سچ ہونے کی کوئی سند نہیں ) پر معاشرتی اصول بنا ڈالے۔ ایک سڑک پر گاڑی، سائیکل، ٹرک، پیدل، گھوڑا گاڑی سب ٹکراؤ سے بچتے ہوئے محفوظ طریقے سے منزل تک پہنچ سکتے ہیں اگر منزل اور اصول واضح ہوں، یعنی اپنے آپ کو اور دوسروں کو محفوظ رکھنا، ٹکراؤ سے بچنا، فاصلہ رکھنا، سب کا سڑک پر سے گزرنے کے مساوی حق کو تسلیم کرنا۔
کیا ہم اپنی اولاد کو صنفی امتیاز کے بغیر زندگی کی اس سڑک پر باقی لوگوں کے ساتھ چلنے کے آداب نہیں دے سکتے، انہیں خطرے کی علامات سے آگاہ نہیں کر سکتے۔ ان کے لیے حدود کا تعین اور اس کی پاسداری یقینی نہیں بنا سکتے یا ہمارا خیال کہ ان کو ڈربے میں بند کر کے ہی محفوظ رکھا جا سکتا ہے اور یہی ایک کارگر ذریعہ ہے۔ اور یہ ڈربہ صرف شادی کے دن ہی کھولا جا سکتا ہے۔ تو یہی طریقہ کار تو جانوروں کو بھی ایک دوسرے کی ایذا سے محفوظ رکھنے کے لئے چڑیا گھر میں بھی استعمال ہوتا ہے تو ہم میں اور ان میں کیا فرق رہ گیا۔
کیا ہر وقت مغرب کے ماڈل سے مقابلہ بازی اور اس کو لعن طعن کر کے خود کو خالی خولی احساس برتری میں مبتلا رکھنے کے بجائے کیا ہم مغرب کو ایک باحیاء اور مہذب ماڈل نہیں دکھا سکتے۔ جہاں اختلاط تہذیب کے دائرے میں بھی ممکن ہو سکتا ہے۔ آج کے نوجوانوں کے اپنے دین اور معاشرے سے بدظن ہونے کی یہ بھی ایک وجہ ہے کہ انہیں مغرب کے مقابلے میں کوئی قابل عمل (practical) ماڈل نہیں دیا گیا۔
بات احساس اور انصاف کی ہے، مہذب اقوام سب کو ساتھ لے کر چلتی ہیں۔ کمزور، معذور، ذہنی پسماندہ، بچے سب کو زندگی کی سڑک پر چلنے کی جگہ دیتی ہیں، کہیں ان کے لئے علیحدہ راستے بنا کر، کہیں محفوظ راستے دے کر، اور کہیں چلنے والے اپنی رفتار آہستہ کر کے دوسروں کے گزرنے کا انتظارکرتے ہیں، نہ کہ جن کو خطرہ ہے، جو کمزور ہیں انہیں گھروں میں قید کر دیں۔ ہمارے بے حسی، نا انصافی اور انسانیت سے عاری ماڈل سے تو ہم خود خوش نہیں ہیں تو کوئی اور قوم اس کو پیروی کے قابل کیسے سمجھے۔
ہماری اسی غیر متوازن مذہبی فکر نے ہمارے مزاج میں تدریجی ترقی اورشخصیت کی تعمیر و تربیت کے لیے ارتقائی منازل طے کرنے کا شعور پیدا کرنے کے بجائے معجزاتی طور پر فوری نتائج اور کامیابی حاصل کرنے کے مائنڈ سیٹ کو زیادہ مقبول عام کیا ہے کیونکہ اس سوچ میں کامیابی کا انحصارعمل سے زیادہ وظائف اور چلوں پر ہے۔
انقلاب چند افراد شروع کرتے ہیں مگر اس کو نتیجہ خیز کرنے کے لئے سب کو حصہ ڈالنا پڑتا۔ تاریخ اقوام نے عورت کو تعلیم سے دور کر کے خود آج کے دور کی ترقی میں تاخیر کی۔ اب عورت تعلیم یافتہ ہو رہی ہے، ظاہر ہے سوچنے سمجھنے والے دماغ دوگنے ہو گئے ہیں تو ترقی کی رفتار بھی تیز ہے۔ پہلے ایک آدھ مادام کیوری ہوتی تھی، اب لاتعداد ہیں۔
دین کے معاملے میں بھی ایک متوازن سوچ کو پروان چڑھانے میں عورت کی تشریح کو بھی اہمیت دینی ہو گی جو اس کے سوالوں کے تسلی بخش جواب دے نہ کہ اسے محض خاموشی اور صبر سے ہر نا انصافی سہنے کا درس دے۔ مرد کی تشریح پر مبنی عورت کے کردار کو خواتین کم و بیش نبھاتی آئی ہیں، اصول مردوں نے وضع تو کیے پر خود ان پر عمل نہیں کیا۔ اب خواتین کے دین کو خود سمجھنے سے نئی تشریحات پیدا ہو رہی ہیں۔ اب مرد کی باری ہے کہ وہ اپنا کردار نبھائے اپنے اعمال کی ذمہ داری قبول کرے اور نگاہ کو قابو میں رکھے۔
اب عورت کو دین کی تعلیم بہشتی زیور سے نہیں مل رہی خود قرآن کے مطالعے سے مل رہی ہے اور وہ اس اسلامی معاشرے کے لئے آواز اٹھاتی رہے گی، جہاں صرف اس کی invisibility اور گمنامی کی زندگی کو جنت کا ٹکٹ نہ سمجھا جائے بلکہ اسے اس دارالعمل میں visible ہو کر وقار اورعزت سے ایک باشعور اور تعلیم یافتہ انسان کی حیثیت سے جینے دیا جائے، جہاں اس کی تمام تر کوششوں کا محور محض ملعونین کے ستانے اور ایذا رسانی سے بچنا نہ ہو بلکہ اپنی شخصیت کی تعمیر و ترقی ہو۔ جہاں وہ بے خوف ہو کر خطرے کے بغیر گھر کے باہر قدم رکھ سکے۔ ایسے ’مسلمان‘ معاشرے کا مطالبہ کرتے رہنا اس کا حق ہے۔