آوازِ دوست
محفلین
شعلوں پہ آشیاں ہے، یوں بے خبر نہ ہو
وہ اہلِ دِل ہی کیا جو صاحبِ نظر نہ ہو
جو نِکلے نہ کوئی سورج میری آہِ نیم شب سے
پھر جو کبھی سحر ہو مجھے ایسی سحر نہ ہو
دشتِ جُنوں میں کھِلتے ہیں گُل اہلِ جُنوں کے واسطے
بھلے راہیں لہو لہو ہوں اور کوئی شجر نہ ہو
ہر سو مقتل کو لیے جائے ہے راہِ زندگی یہاں
تیری یاد کے سائے ہوں میرے ہمدم، تو مگر نہ ہو
آج گردوں نے گِرائے ہیں رِندوں میں تیرے زاہد
تیری بات میں ہی واعظ شائد اثر نہ ہو
وہ اہلِ دِل ہی کیا جو صاحبِ نظر نہ ہو
جو نِکلے نہ کوئی سورج میری آہِ نیم شب سے
پھر جو کبھی سحر ہو مجھے ایسی سحر نہ ہو
دشتِ جُنوں میں کھِلتے ہیں گُل اہلِ جُنوں کے واسطے
بھلے راہیں لہو لہو ہوں اور کوئی شجر نہ ہو
ہر سو مقتل کو لیے جائے ہے راہِ زندگی یہاں
تیری یاد کے سائے ہوں میرے ہمدم، تو مگر نہ ہو
آج گردوں نے گِرائے ہیں رِندوں میں تیرے زاہد
تیری بات میں ہی واعظ شائد اثر نہ ہو