محمد وارث

لائبریرین
آپ سب دوستوں کو ایک قصہ سناتا ہوں۔ کہتے ہیں ایران کے ایک علاقے کے سردار کا چھوٹا سا بیٹا ایک دن اخروٹ کھیل رہا تھا، ایک بار اُس نے اخروٹ پھینکا تو وہ لڑھکتا لڑھکتا آخر سوراخ میں چلا ہی گیا، اِس پر خوش ہو کر اُس لڑکے نے بے اختیار ایک جملہ کہا، باپ اور اُس کے مصاحب سُن رہے تھے، اُن کو یہ جملہ کچھ مترنم سا محسوس ہوا، انہوں نے غور کیا تو وہ ایک بحر میں موزوں ہو رہا تھا، وہیں ایک شاعر نے اُس جملے پر تین مصرعے بڑھائے اور اُسے بامعنی نظم بنا دیا۔

کہتے ہیں یوں رُباعی ایجاد ہوئی۔ مجھے یہ کہانی گھڑی ہوئی لگتی تھی کہ چند سال قبل میری بیٹی نے، جس کی عمر اُس وقت چار پانچ سال تھی، میری کسی بات پر خوش ہو کر بے اختیار ایک جملہ بار بار کہنا شروع کر دیا جیسے کہ بچے کرتے ہیں، میں نے اُس پر غور کیا تو وہ بھی ایک بحر میں وزن پر پورا اُتر رہا تھا۔ اُس دن مجھے اوپر والی کہانی پر یقین آ گیا۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ طبعِ موزوں والے لوگ اکثر بات چیت بھی کرتے ہیں تو وہ جملے کچھ بحروں میں جا پڑتے ہیں۔

اور اِس قصے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ بحریں اتنی زیادہ ہیں کہ اکثر ہماری بات چیت کے جملے بھی موزوں ہوتے ہیں۔

اور یہی باوزن شاعری کی حقیقت ہے کہ تھوڑے سے تردد اور غور و فکر کے ساتھ اکثر کلام موزوں ہو سکتا ہے۔ شاعروں کو ماہرِ علمِ عروض نہیں بننا ہوتا بلکہ اِس "جناتی" علم کا صرف "ورکنگ نالج" چاہیئے ہوتا ہے جس کو حاصل کرنا بہت آسان ہے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
بجا فرمایا آپ نے ۔۔۔۔ پیارے وارث بھائی نے میری ایک غزل کو کیا رنگ دیا ۔ ذرا ملاحظہ فرمایئے گا ۔ ( آوازِ دوست سے معذرت کیساتھ کہ یہ ان کا دھاگہ ہے)
دے ذوقِ آگہی یا پھر جنوں عطا کر دے
مجھی میں مجھ کو تُو رہنے دے یا جدا کر دے

ہم اپنی راہ پہ چل تو پڑے ہیں لیکن دیکھ
غبار میں اٹے ہیں، کوئی معجزہ کر دے

جو ایک لمحہ کی تاخیر کی تھی میں نے کبھی
اُس ایک لمحے کو تُو عمر کی سزا کر دے

نہ دیکھ پایا میں تاریکیوں میں یہ طوفاں
خدا جو ساتھ نہیں، کوئٰی ناخدا کر دے

تمام عمر بہاروں کو ترسا ہوں میں ظفر
رہی ہے برق نصیبوں میں اب صبا کر دے
اتنا اچھا خیال ہے۔۔آپ کی اور شاعری کہاں ہے۔۔۔!!! آپ کی غزل اور محترم وارث صاحب کا رنگ نمایاں نمایاں ہے

میں نے اس لیے تو اعتراف کیا تھا یہاں کے اساتذہ میں اور ادھر ادھر کے اساتذہ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
آواز دوست ۔۔بھائی۔۔محترم وارث صاحب کا بلاگ ہے۔۔۔وہاں بہت اچھی طرح تقطیع کرکے اصول بتائے گئے۔۔میں نے کچھ قواعد وہاں سے لیے ۔۔علم قافیہ کے لیے مزمل بسمل شیخ کا بلاگ دیکھ لیں ۔۔۔۔ اور عروض کی سائیٹ پر محترم آسی صاحب کی کتب ہیں جن کو میں نے خود مکمل نہیں پڑھا۔۔۔ وہاں پر مضامین ہیں ۔۔ان کو دیکھ لیں ۔۔
 

ابن رضا

لائبریرین
بہت خوب آپ وزن کے لیے پریشان نہ ہوں. اپنا کلام aruuz ڈاٹ کام میں اصلاح کے سیکشن میں پیسٹ کریں باقی کام اس کا۔ مزید یہ کہ آپ اس کے مضامین سیکشن میں جایں اور وہاں موجود مواد کا مطالعہ کریں
 

ظفری

لائبریرین
اتنا اچھا خیال ہے۔۔آپ کی اور شاعری کہاں ہے۔۔۔!!! آپ کی غزل اور محترم وارث صاحب کا رنگ نمایاں نمایاں ہے

میں نے اس لیے تو اعتراف کیا تھا یہاں کے اساتذہ میں اور ادھر ادھر کے اساتذہ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
آواز دوست ۔۔بھائی۔۔محترم وارث صاحب کا بلاگ ہے۔۔۔وہاں بہت اچھی طرح تقطیع کرکے اصول بتائے گئے۔۔میں نے کچھ قواعد وہاں سے لیے ۔۔علم قافیہ کے لیے مزمل بسمل شیخ کا بلاگ دیکھ لیں ۔۔۔۔ اور عروض کی سائیٹ پر محترم آسی صاحب کی کتب ہیں جن کو میں نے خود مکمل نہیں پڑھا۔۔۔ وہاں پر مضامین ہیں ۔۔ان کو دیکھ لیں ۔۔

میں نے اب تک جو بھی لکھا ہے ۔ وہ یہیں اس محفل پر بکھرا پڑا ہے ۔ غزلیں ہوں،افسانے ہوں یا پھر مزاح ۔۔۔۔ اور مجھ میں یہ لکھنے کی تحریک بھی اسی محفل کی بدولت ہے ۔ پھردوستوں اور استادوں نے بھی بھرپور پذیرائی کی ۔ آپ کی بات واقعی درست ہے کہ یہاں کے اساتذہ اور ادھر ادھر کے اساتذہ میں بہت فرق ہے ۔مگر کافی عرصے سے لکھنے کا سلسلہ موقوف ہے ۔ سنا ہے پیر و مرشد مشتاق احمد یوسفی بھی لکھنے میں بڑے وقفے کو بہت اہمیت دیتے ہیں ۔:)
 

آوازِ دوست

محفلین

آوازِ دوست

محفلین
بہت خوب آپ وزن کے لیے پریشان نہ ہوں. اپنا کلام aruuz ڈاٹ کام میں اصلاح کے سیکشن میں پیسٹ کریں باقی کام اس کا۔ مزید یہ کہ آپ اس کے مضامین سیکشن میں جایں اور وہاں موجود مواد کا مطالعہ کریں
چلیں یہ تو آثار نظر آ رہے ہیں کہ وزن اتنا بڑا مسئلہ بھی نہیں ہے جیسا کہ کبھی سمجھا جاتا تھا :)
 

آوازِ دوست

محفلین
میں نے اب تک جو بھی لکھا ہے ۔ وہ یہیں اس محفل پر بکھرا پڑا ہے ۔ غزلیں ہوں،افسانے ہوں یا پھر مزاح ۔۔۔۔ اور مجھ میں یہ لکھنے کی تحریک بھی اسی محفل کی بدولت ہے ۔ پھردوستوں اور استادوں نے بھی بھرپور پذیرائی کی ۔ آپ کی بات واقعی درست ہے کہ یہاں کے اساتذہ اور ادھر ادھر کے اساتذہ میں بہت فرق ہے ۔مگر کافی عرصے سے لکھنے کا سلسلہ موقوف ہے ۔ سنا ہے پیر و مرشد مشتاق احمد یوسفی بھی لکھنے میں بڑے وقفے کو بہت اہمیت دیتے ہیں ۔:)
کوئی لنک مِل سکےتو ہمیں ڈھونڈنے میں آسانی رہے گی :)
 

نور وجدان

لائبریرین
میں نے اب تک جو بھی لکھا ہے ۔ وہ یہیں اس محفل پر بکھرا پڑا ہے ۔ غزلیں ہوں،افسانے ہوں یا پھر مزاح ۔۔۔۔ اور مجھ میں یہ لکھنے کی تحریک بھی اسی محفل کی بدولت ہے ۔ پھردوستوں اور استادوں نے بھی بھرپور پذیرائی کی ۔ آپ کی بات واقعی درست ہے کہ یہاں کے اساتذہ اور ادھر ادھر کے اساتذہ میں بہت فرق ہے ۔مگر کافی عرصے سے لکھنے کا سلسلہ موقوف ہے ۔ سنا ہے پیر و مرشد مشتاق احمد یوسفی بھی لکھنے میں بڑے وقفے کو بہت اہمیت دیتے ہیں ۔:)

آپ کی غزلیں اور تحریریں میں شوق سے پڑھوں گی ۔۔۔۔اس بات کا اعتراف ''اردو محفل کے مجھ پر اثرات '' میں پہلے ہی کرچکی ہوں ۔۔۔ اس لیے اساتذہ کی بات کو ڈانٹ کو اس طرح لیتی ہوں جس طرح پیار کو لیا جاتا ہے ۔۔۔۔ یہ اور بات ہے دل ہے ننھا سا۔۔۔:)
۔''بڑے وقفے'' ہا ہا ۔کہیں یہ پیرو مرشد آپ خود تو نہیں ہیں :)
 

محمد وارث

لائبریرین
وارث بھائی لگتا ہے کہ ایک ہم ہی محروم ہیں فیض کے اِس رواں دواں دھارے سے :)

دیکھیے آپ کی غزل ایک بحر کے بہت قریب ہے معمولی سے رد و بدل سے یہ باقاعدہ موزوں ہو جاتی ہے۔

آپ کی غزل دیکھ کر جو بحر بنتی ہے وہ مفعول فاعلاتن دو بار کے وزن پر ہے، اور

شعلوں پہ آشیاں ہے، یوں بے خبر نہ ہو
وہ اہلِ دِل ہی کیا جو صاحبِ نظر نہ ہو

شعلوں پہ آشیاں ہے، یہ ٹکڑا بالکل مفعول فاعلاتن پر ہے، دوسرا ٹکڑا اگر یوں کر لیں ، "کیوں باخبر نہیں ہے" تو موزوں ہو جاتا ہے مگر ردیف تھوڑی بدل جاتی ہے، یعنی

شعلوں پہ آشیاں ہے، کیوں باخبر نہیں ہے؟

دوسرا مصرع

وہ اہلِ دل ہی کیا جو، بالکل موزوں ہے

صاحبِ نظر میں اضافت وزن کو تنگ کر رہی ہے لیکن اصول یہ کہ صاحب کا ساتھ اضافت کے بغیر بھی ترکیب درست ہے جیسے اقبال کا شعر

خرد کی گتھیاں سلجھا چکا میں
مرے مولا مجھے صاحب جنوں کر

اِس شعر میں صاحبِ جنوں نہیں بلکہ زیر (اضافت) کے بٖغیر صاحب جنوں ہے سو آپ کے شعر میں صاحب نظر بالکل درست ہوگا سو

وہ اہلِ دل ہی کیا جو، صاحب نظر نہیں ہے۔

اس طرح شعر کی شکل کچھ یوں بنے گی

شعلوں پہ آشیاں ہے، کیوں باخبر نہیں ہے؟
وہ اہلِ دل ہی کیا جو، صاحب نظر نہیں ہے

میں نے کوشش کی ہے کہ آپ کے خیال کو بالکل نہ چھیڑوں، ردیف میں تھوڑی تبدیلی ہو گئی وہ مجبوری تھی لیکن اِس سے خیال پر، میری نظر میں، فرق نہیں پڑا :)
 

ظفری

لائبریرین
کوئی لنک مِل سکےتو ہمیں ڈھونڈنے میں آسانی رہے گی :)

اردو محفل کی سالگرہ کے حوالے سے تھوڑا بہت لکھا تھا ۔
اردو محفل کی سالگرہ

اور ایک ناکام سیریز چل رہی ہے ۔ اس کو بھی ملاحظہ فرمایئے ۔ ;)

وقفے پر مت جایئے گا ۔:)

چند حسینوں کے خطوط، چند تصویرِ بُتاں

اور بھی بہت کچھ ہے ۔ ان شاء اللہ اسے بھی شئیر کروں گا ۔
 

آوازِ دوست

محفلین
دیکھیے آپ کی غزل ایک بحر کے بہت قریب ہے معمولی سے رد و بدل سے یہ باقاعدہ موزوں ہو جاتی ہے۔

آپ کی غزل دیکھ کر جو بحر بنتی ہے وہ مفعول فاعلاتن دو بار کے وزن پر ہے، اور

شعلوں پہ آشیاں ہے، یوں بے خبر نہ ہو
وہ اہلِ دِل ہی کیا جو صاحبِ نظر نہ ہو

شعلوں پہ آشیاں ہے، یہ ٹکڑا بالکل مفعول فاعلاتن پر ہے، دوسرا ٹکڑا اگر یوں کر لیں ، "کیوں باخبر نہیں ہے" تو موزوں ہو جاتا ہے مگر ردیف تھوڑی بدل جاتی ہے، یعنی

شعلوں پہ آشیاں ہے، کیوں باخبر نہیں ہے؟

دوسرا مصرع

وہ اہلِ دل ہی کیا جو، بالکل موزوں ہے

صاحبِ نظر میں اضافت وزن کو تنگ کر رہی ہے لیکن اصول یہ کہ صاحب کا ساتھ اضافت کے بغیر بھی ترکیب درست ہے جیسے اقبال کا شعر

خرد کی گتھیاں سلجھا چکا میں
مرے مولا مجھے صاحب جنوں کر

اِس شعر میں صاحبِ جنوں نہیں بلکہ زیر (اضافت) کے بٖغیر صاحب جنوں ہے سو آپ کے شعر میں صاحب نظر بالکل درست ہوگا سو

وہ اہلِ دل ہی کیا جو، صاحب نظر نہیں ہے۔

اس طرح شعر کی شکل کچھ یوں بنے گی

شعلوں پہ آشیاں ہے، کیوں باخبر نہیں ہے؟
وہ اہلِ دل ہی کیا جو، صاحب نظر نہیں ہے

میں نے کوشش کی ہے کہ آپ کے خیال کو بالکل نہ چھیڑوں، ردیف میں تھوڑی تبدیلی ہو گئی وہ مجبوری تھی لیکن اِس سے خیال پر، میری نظر میں، فرق نہیں پڑا :)
بہت خوب ! اگر ہو سکے تو مجھے مفعول، فاعلاتن وغیرہ جیسی جناتی گردانوں کے بارے میں بھی بتائیں تاکہ میں وزن کی کمی بیشی کا خود بھی تخمینہ لگا سکوں :)
 

محمد وارث

لائبریرین
دیکھیے مفعول اصل میں مف عُو ل ہے۔ دو ایسے حرف مف اور عو جو کسی حرکت سے آپس میں جڑے ہیں، اور ل اکیلا ہے۔ اگر ہم وہ حرف جو جڑے ہیں ان کو 2 کہیں اور اکیلے کو ا تو مفعول ہوگا

مف 2
عو 2
ل ا

ای طرح فاعلاتن، فا ع لا تن یعنی
فا - 2
ع -1
لا -2
تن- 2

اب اگر اکھٹا لکھیں تو

مف عو ل ،فا ع لا تن
2 2 1، 2 ا 2 2

اوراسی کو ڈبل کر لیں تو بحر بن جائے گی

مف عو ل، فا ع لا تن ۔۔۔ مف عو ل، فا ع لا تن
2 2 1، 2 ا 2 2۔۔۔۔۔۔2 2 1، 2 1 2 2

اور کرنا یہ ہے کہ جہاں پر 2 ہے وہاں پر شعر میں بھی ایسالفظ آئے جو 2 جیسا ہے یعنی کسی حرکت سے جڑا ہو اور جہاں 1 ہے وہاں ایسا حرف آئے جو بغیر حرکت کے اکیلا ہو، جسیے

شعلوں پہ آشیاں ہے، کیوں باخبر نہیں ہے

شع ۔ 2 یا مف
لو ۔2 یا عو (اصول جہاں نون غنہ ہو اسے بھول جائیں اور چھوڑ دیں)
پ - ا یا ل (اصول، پہ یا نہ وغیرہ میں جو ہ اُسے بھول جائیں اور چھوڑ دیں)
آ - 2 یا فا (اصول، الف مد آ میں دو الف ہوتے ہیں سو یہ 2 ہے)
ش - ا یا ع
یا - 2 یا لا
ہے -2 - تن

آپ دیکھیں کے جس ترتیب میں سانچے میں یا بحر میں 1 اور 2 آ رہے ہیں اسی ترتیب میں آپ کے شعر میں بھی۔

دوسرے ٹکڑے کو اگر آپ اسی طرح خود لکھ سکیں یعنی

کیوں با خبر نہیں ہے

تو مجھے خوشی ہوگی اور مجھ سے زیادہ آپ کو :)

ایک اصول یہ کہ لفظ کیوں کو ہمیشہ "کو" یا 2 سمجھا جاتا ہے، تفصیل کو ابھی اچھوڑ دیتے ہیں بس اسے 2 یا مفعول کا مف سمجھیے۔
 

ظفری

لائبریرین
آپ کی غزلیں اور تحریریں میں شوق سے پڑھوں گی ۔۔۔۔اس بات کا اعتراف ''اردو محفل کے مجھ پر اثرات '' میں پہلے ہی کرچکی ہوں ۔۔۔ اس لیے اساتذہ کی بات کو ڈانٹ کو اس طرح لیتی ہوں جس طرح پیار کو لیا جاتا ہے ۔۔۔۔ یہ اور بات ہے دل ہے ننھا سا۔۔۔:)
۔''بڑے وقفے'' ہا ہا ۔کہیں یہ پیرو مرشد آپ خود تو نہیں ہیں :)

بلکل نہیں ۔۔۔ میں اس عہدے کے لیئے متحمل ہو ہی نہیں سکتا ۔ بقول شاعر

میرےدل کے کسی کونے میں اک معصوم سا بچہ
بڑوں کی دیکھ کر دنیا ، بڑا ہونے سے ڈرتا ہے ۔
 

آوازِ دوست

محفلین
دیکھیے مفعول اصل میں مف عُو ل ہے۔ دو ایسے حرف مف اور عو جو کسی حرکت سے آپس میں جڑے ہیں، اور ل اکیلا ہے۔ اگر ہم وہ حرف جو جڑے ہیں ان کو 2 کہیں اور اکیلے کو ا تو مفعول ہوگا

مف 2
عو 2
ل ا

ای طرح فاعلاتن، فا ع لا تن یعنی
فا - 2
ع -1
لا -2
تن- 2

اب اگر اکھٹا لکھیں تو

مف عو ل ،فا ع لا تن
2 2 1، 2 ا 2 2

اوراسی کو ڈبل کر لیں تو بحر بن جائے گی

مف عو ل، فا ع لا تن ۔۔۔ مف عو ل، فا ع لا تن
2 2 1، 2 ا 2 2۔۔۔۔۔۔2 2 1، 2 1 2 2

اور کرنا یہ ہے کہ جہاں پر 2 ہے وہاں پر شعر میں بھی ایسالفظ آئے جو 2 جیسا ہے یعنی کسی حرکت سے جڑا ہو اور جہاں 1 ہے وہاں ایسا حرف آئے جو بغیر حرکت کے اکیلا ہو، جسیے

شعلوں پہ آشیاں ہے، کیوں باخبر نہیں ہے

شع ۔ 2 یا مف
لو ۔2 یا عو (اصول جہاں نون غنہ ہو اسے بھول جائیں اور چھوڑ دیں)
پ - ا یا ل (اصول، پہ یا نہ وغیرہ میں جو ہ اُسے بھول جائیں اور چھوڑ دیں)
آ - 2 یا فا (اصول، الف مد آ میں دو الف ہوتے ہیں سو یہ 2 ہے)
ش - ا یا ع
یا - 2 یا لا
ہے -2 - تن

آپ دیکھیں کے جس ترتیب میں سانچے میں یا بحر میں 1 اور 2 آ رہے ہیں اسی ترتیب میں آپ کے شعر میں بھی۔

دوسرے ٹکڑے کو اگر آپ اسی طرح خود لکھ سکیں یعنی

کیوں با خبر نہیں ہے

تو مجھے خوشی ہوگی اور مجھ سے زیادہ آپ کو :)

ایک اصول یہ کہ لفظ کیوں کو ہمیشہ "کو" یا 2 سمجھا جاتا ہے، تفصیل کو ابھی اچھوڑ دیتے ہیں بس اسے 2 یا مفعول کا مف سمجھیے۔
وارث بھائی اللہ خوش رکھے آپ کو کم از کم سمجھانے میں آپ کوئی کمی نہیں کر رہے۔ باقی میری حنیف صاحب کے ساتھ عارف امین بلے صاحب کے بتانے پر جو نصف گھنٹے پر محیط پہلی اور آخری کلاس ہوئی تھی اُس میں اُنہوں نے مجھے اقبال کا ایک شعر کاغذ پر لکھ کر دیا گردان کے ساتھ "ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں" "ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں" اور فرمایا کہ اَب اِس بحر کے مطابق شعر موزوں کروں۔ میں ہکا بکا ، حیران پریشان اُنہیں ایسے دیکھنے لگا جیسے وہ یہ سب کُچھ مجھے غائب دماغی میں کہہ رہے ہیں۔ جب وہ سنجیدہ ہی نظرآئے تو میرےتصورات کی دُنیا میں شدید بھونچال آگیا! یہ شاعر لوگ کیا ایسے ہی شاعری گھڑتے ہیں؟ کیا یہ سمجھتے ہیں کہ شاعرانہ ترنگ کےلطیف خُمارکو غیرضروری قواعد کی بیساکھیوں سے باندھ کرحُسنِ کلام میں اضافہ کیا جا سکتا ہے؟ الغرض میرا داخلی ردِّعمل اُس وقت انتہائی شدید تھا سو آسی صاحب کےالفاظ میں ہم نے سلام پیش کیااور گھر آگئےنیزآئندہ کبھی ایسی حماقت نہ کرنے کا پُختہ ارداہ بھی کر لیا گیا۔
کل اور آج میں اتنا فرق ہے کہ اَب میں اجتماعی دانش کی حقانیت کو سمجھتا ہوں کہ اتنے نامور اہلِ ہُنر اگر ایک اُصول پر اصرار کرتے ہیں تو یہ ٹھیک ہی ہو گا مگر اپنے تخیّل کی قُربانی مُجھے آج بھی اُتنی ہی نا منظور ہے تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ "قواعد" اور "اصل خیال" ایک دوسرے کے ساتھ ہر جگہ نباہ کر لیتے ہیں؟ اور اگر کہیں ایسا نہ ہو سکے تو کیا قُربانی ہمیشہ "اصل خیال" کی ہی بنتی ہے؟
معاملہ کُچھ بھی ہویہ علم تو اَب سیکھنا ہی ہےکیونکہ ہمیں اجنبی تصورات پر اپنی سوچ کے دروازے بند نہیں کرنے چاہییں :)
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
قبلہ یہ ساری پریشانی تب تک ہے جب تک جن قابو میں نہیں آتا، جب ورکنگ نالج مل جاتا ہے تو پھر دھیان میں صرف تخیل ہوتا ہے اور اس طرف دھیان جاتا بھی نہیں، تجربے کی بات بتا رہا ہوں، سات آٹھ سال پہلے میری بھی یہی کیفیات تھیں، اب نہیں ہیں۔
 
مگر بعد میں استادِ محترم محمد یعقوب آسی صاحب آئے ( معذرت کیساتھ ) ۔ انہوں نے اصلاح میں طالبانی اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے، نومولودوں کی جو درگت بنائی تو اس کے بعد سے بندہ تائب ہے کہ کوئی ایسا کلام اب پیش کرنے کی جسارت نہیں کرے گا ۔ جو علمِ عروض کے قواعد کی پیروی نہیں کرتا ۔
بھئی واہ! کیا کہنے! کیا بے مثل نکتہ آفرینی فرمائی ہے حضور نے! اَش اَش، عَش عَش سب ناکافی ٹھہرے، عَیش عَیش سے بھی آگے معاملہ اَیش اَیش تک جا پہنچا۔

ہم سے فروگزاشت یہ ہوئی کہ ہم نے طالبان کے لُغوی معانی لئے: چاہنے والے۔ ہمارے فرشتوں کو بھی خبر نہ تھی کہ یہاں سیاسی، نظریاتی اور پتہ نہیں کیا کیا معانی ایسے رائج ہیں کہ لُغوی کی لام تو کب کی "فتحہ" ہو چکی۔ پہلے تو ہم حیران ہوئے کہ ایک مدت کے بعد: از کجا می آید این "آوازِ دوست" ۔ وہ تو حبسِ استطاعت غور فرمایا تو کچھ کچھ کھلا کہ طالبان (طلبائے علم) تو کب کے نیستند و نابودند ہو چکے اور ایک فوجِ ظفر موج ہے کہ ابھی تک ان کے سایوں سے لڑ رہی ہے۔

بات تو غزل کی ہونی چاہئے تھی، راہوار "کلیدی تختہ" ایسا بگٹٹ بھاگا کہ کہیں کا کہیں جا نکلا۔ خود کو طالبِ علم کے مقام پر رکھتے ہوئے اول اول تو احباب سے یہ گزارش کی کہ
صاحبو! علم دھماکے کرنے سے نہیں ملا کرتا۔ وہ تو تب خبر ہوئی جب عین ہمارے سرِ نیاز کے اوپر ایک دھماکہ چھٹی جماعت کا ہو گیا اور بہتوں کی ادب دوستی کے پرخچے اڑتے دیکھ کر اپنے بھی ہوش اُڑ گئے۔ وہ دن آج کا دن، یہ فقیر اپنے گرد حصار کھینچ کر ایسا چُپکا ہو بیٹھا ہے کہ "کھوٹی دمڑی" کا سوال بھی ترک کر دیا۔

اب کے راکھ کے اس ڈھیر کو ہوا دی تو بھی کیا ہو گا! یہی کہ راکھ طالبان کی طرح بکھر جائے گی اور فوجِ ظفر موج ذروں کے پیچھے بھاگتی رہے گی بھاگتی رہے گی، تا آنکہ راکھ اور گرد کا فرق مٹ جائے گا۔ اس خاکستر میں تو اب کوئی چنگاری بھی نہیں۔ ہوا کس کو دیجئے گا؟!
 
مجھے ایک شعر تنگ کر رہا ہے ذرا اس پر اساتذہ نظر ڈال کر فرمائیں کہ یہ ٹھیک ہے یا نہیں،
اتنے سخت گرمیوں کے موسم میں
شاعری کی خواری کرتے ہیں​
 
Top