یوں

الف نظامی

لائبریرین
لو جی لکھیے شعر جس میں “یوں“ آتا ہو۔ کہاں کی کوئی قید نہیں

پوچھتے کیا ہو عرش پر یوں گئے مصطفی کہ یوں
کیف کے پر جہاں جلیں کوئی بتائے کیا کہ یوں
از شاہ احمد رضا خان
 

الف نظامی

لائبریرین
یوں حرمِ جمال میں قربِ حبیب تھا کہ یوں
ان کی عطا سے پوچھیئے بولے گی خود عطا کہ یوں
از حافظ مظہر الدین مظہر
 

الف نظامی

لائبریرین
باغ میں شکر وصل تھا ہجر میں ہائے ہائے گل
اے میں فدا لگا کر ایک ٹھوکر اسے بتا کہ یوں
از شاہ احمد رضا خان
 

تیشہ

محفلین
یوں ہی ختم ہجر کا باب ہو نئے سال میں
کوئی خوابہی تیراخواب ہونئے سال میں

کبھی یوں بھی ہو کسی شب تو مجھ سے آ ملے
گئے رتجگوں کا حساب ہو نئے سال میں
 

الف نظامی

لائبریرین
مجھ کو یہ فکر تھی کہ میں پہنچوں گا طیبہ کس طرح
باغ جہاں کے صحن میں چلنے لگی ہوا کہ یوں
از حافظ مظہر الدین مظہر
 

الف نظامی

لائبریرین
قصر دنی کے راز میں عقلیں تو گم ہیں جیسی ہیں
روح قدس سے پوچھیے تم نے بھی کچھ سنا کہ یوں

میں نے کہا کہ جلوہ اصل میں کس طرح گمیں
صبح نے نورِ مہر میں مٹ کے دکھا دیا کہ یوں
از شاہ احمد رضا خاں
 

فریب

محفلین
میں نے کہا کہ “ بزمِ ناز چاہیے غیر سے تہی“
سُن کر ستم ظریف نے مجھ کو اُٹھا دیا کہ یُوں
 

شمشاد

لائبریرین
یوں ان کی بزمِ خاموشیوں نے کام کیا
سب نے میری محبت کا احترام کیا

ہمارا نام بھی لینے لگے وفا والے
ہمیں بھی آ کے فرشتوں نے اب سلام کیا
(سعید راہی)
 

شمشاد

لائبریرین
یوں تیری رہگذر سے دیوانہ وار گزرے
کاندھے پے اپنے رکھ کے اپنا مزار گزرے

تُو نے بھی ہم کو دیکھا، ہم نے بھی تجھکو دیکھا
تُو دل ہی ہار گزرا، ہم جان ہار گزرے
(میناکماری ناز)
 

شمشاد

لائبریرین
یوں نہ مل مجھ سے خفا ہو جیسے
ساتھ چل موجِ صبا ہو جیسے

لوگ یوں دیکھ کر ہنس دیتے ہیں
تُو مجھے بھول گیا ہو جیسے
(احسان دانش)
 

شمشاد

لائبریرین
عشق کو شرک کی حد تک نہ بڑھا
یوں نہ مل ہم سے خدا ہو جیسے

موت بھی آئی تو اس ناز کا ساتھ
مجھ پے احسان کیا ہو جیسے
(احسان دانش)
 

فریب

محفلین
غنچہء ناشگفتہ کو دور سے مت دکھا، کہ یُوں
بوسے کو پُوچھتا ہوں مَیں، منہ سے بتا کہ یُوں
پُرسشِ طرزِ دلبری کیجئے کیا کہ بن کہے
اُس کے ہر اک اشارے سے نکے ہے یہ ادا کہ یُوں
رات کے وقت مَے پیے ساتھ رقیب کو لیے
آئے وہ یاں خدا کرے، پر نہ خدا کرے کہ یُوں
“غیر سے رات کیا بنی“ یہ جو کہا تو دیکھیے
سامنے آن بیٹھنا، اور یہ دیکھنا کہ یُوں
بزم میں اُس کے روبرو کیوں نہ خموش بیٹھیے
اُس کی تو خامشی میں بھی ہے یہی مدّعا کہ یُوں
میں نے کہا کہ “ بزمِ ناز چاہیے غیر سے تہی“
سُن کر ستم ظریف نے مجھ کو اُٹھا دیا کہ یُوں
مجھ سے کہا جو یار نے “جاتے ہیں ہوش کس طرح“
دیکھ کے میری بیخودی چلنے لگی ہوا کہ یُوں
کب مجھے کوئے یار میں رہنے کی وضع یاد تھی
آئینہ دار بن گئی حیرتِ نقشِ پا کہ یُوں
گر ترے دل میں ہو خیال، وصل میں شوق کا زوال
موجِ محیطِ آب میں مارے ہے دست و پا کہ یُوں
جو یہ کہے کہ ریختہ کیوں کر ہو رشکِ فارسی
گفتہء غالب ایک بار پڑھ کے اُسے سُنا کہ یُوں
 
Top