شعیب صفدر
محفلین
ہمارا دل ہے یوں قصر جہاں میں
وہ پتھر۔ جو کہیں لگتا نہیں ہے
×××××××××××
کبھی یوں بھی ہوں رہے روبرو،میں نظر ملا کر کہہ سکوں
میری حسرتوں کا شمار کر، مری خوہشوں کا حساب دے
××××××××××××
اپنی اپنی کشتی لے کر یوں دریا میں کود پڑے
جیسے صرف جہاز ہی اس طوفان میں ڈوبنے والا تھا
××××××××××××
یوں تو ہر رات چمکتے ہیں ستارے لیکن
وصل کی رات بہت صبح کا شتارہ چمکا
×××××××××××××××
اسے گماں ہی نہ تھا جیسے میرے ہونے کا
مرے قریب سے یوں بے خبر گیا کوئی
××××××××××××××××××
یوں تو دن دہاڑے بھی، لوگ لوٹ لیتے ہیں
لیکن ان نگاہوں کی، اور ہی سیاست تھی
وہ پتھر۔ جو کہیں لگتا نہیں ہے
×××××××××××
کبھی یوں بھی ہوں رہے روبرو،میں نظر ملا کر کہہ سکوں
میری حسرتوں کا شمار کر، مری خوہشوں کا حساب دے
××××××××××××
اپنی اپنی کشتی لے کر یوں دریا میں کود پڑے
جیسے صرف جہاز ہی اس طوفان میں ڈوبنے والا تھا
××××××××××××
یوں تو ہر رات چمکتے ہیں ستارے لیکن
وصل کی رات بہت صبح کا شتارہ چمکا
×××××××××××××××
اسے گماں ہی نہ تھا جیسے میرے ہونے کا
مرے قریب سے یوں بے خبر گیا کوئی
××××××××××××××××××
یوں تو دن دہاڑے بھی، لوگ لوٹ لیتے ہیں
لیکن ان نگاہوں کی، اور ہی سیاست تھی