الف نظامی
لائبریرین
یو ایس بائیولوجیکل وار
عوامی جمہوریہ چین کے شہرووہان سے شروع ہونے والا کورونا وائرس اپنے ساتھ جہاں خوف اور دہشت کی نہ ختم ہونی والی جو نت نئی کہانیاں لے کرآیا ہے‘ وہیں یہ دو بڑی عالمی قوتوں کی باہمی سیا ست اور ایک دوسرے کو زیر کرنے کے نت نئے منصوبوں کے متعلق افواہوں کو بھی جنم دے رہا ہے۔ مغرب کے نقطۂ نظر کے مطا بق ‘سوشل میڈیا پر یہ کہانی پھیلائی جا رہی ہے کہ کورونا وائرس کے جراثیم پھیلانے میں کسی دوسرے ملک کا ہاتھ نہیں‘ بلکہ یہ چین کا اپنا پیدا کردہ ہے‘ جس نے اس بھونچال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دنیا کو دھوکے میں رکھ کر اب تک بیس ارب ڈالر کما لیے ہیں اور تیس فیصد سے زائد سٹاک ایکسچینج کی وہ ادائیگیاں‘ جو ایسی کمپنیوں اورا داروں کے کھاتوں سے یورپی یونین اور امریکیوں کو ادا کی جانی تھیں‘ محفوظ کر لی ہیں۔
مذکورہ بالا اس کہانی کو تقویت دینے کیلئے کہا جا رہا ہے کہ کورونا وائرس سے جس تیزی سے چینی یوان نیچے کی جانب گرنا شروع ہو ا‘ اسے سب دیکھ رہے تھے‘ لیکن حیران کن طور پر چین کے سنٹرل بینک نے اپنی کرنسی کی گراوٹ کی جانب رتی بھر بھی توجہ دینے کی کوشش نہ کی‘ بلکہ یہ تک سننے میں آرہا ہے کہ چین کے پاس تو کورونا وائرس سے بچائو کیلئے ماسک بھی ضرورت کے مطا بق‘ موجود نہیں تھے اور یوان کے گرنے سے سٹاک ایکسچینج کی وہ ا دائیگیاں‘جو چین کا دردسر تھیں‘ وہ چینی کرنسی گرنے سے اس حد تک سمٹ کر رہ گئیں کہ الٹا اسے فائدہ پہنچنا شروع ہو گیا‘ جبکہ روس کے کچھ اشاعتی ادارے یہ تاثر دینے میں مصروف ہیں کہ یہ بائیولوجیکل وار امریکی پلان کا حصہ ہے ‘جس سے اس نے چند دنوں میں چین کی معیشت اور دنیا بھر سے امڈنے والے سیاحتی طوفان کو منجمد کرکے اب تک چین کو پانچ ارب ڈالر سے محروم کر دیا ہے ۔
اگر امریکا پر اٹھنے والے شکوک سامنے رکھیں تو اس وقت یہ شک اس لئے بھی پختہ ہو جاتا ہے کہ گزشتہ چھ ماہ سے امریکا اور چین کے باہمی تجارتی حجم سے امریکی پریشان ہو چکے تھے اور امریکی صدر ٹرمپ نت نئی پابندیوں کا سہارا لینے کے با وجود اپنے مقاصد حاصل نہیں پا رہے تھے ۔ دریں اثناء بڑی چالاکی سے یہ تاثر دیاجا رہا ہے کہ کیمیکل و بائیولوجیکل وار فیئر میں امریکا کی قوت اور صلاحیت باقی دنیا سے بہت کم ہے۔ اگر امریکا میں بائیولوجیکل وار فیئر کا کھوج لگایا جائے اور امریکی رپورٹس اور مشہور محقق Larry Romanoff کے اس تناظر میں پیش کئے تجزیئے کو سامنے رکھیں تو تمام شکوک و شبہات اسی طرف اشارہ کرتے ہیں‘ کیونکہ امریکا کے سرکاری اداروں‘ یونیورسٹیوں اور اس کے بہت سے دیگر تعلیمی ا داروں میں کئی دہائیوں سے بائیولوجیکل ہتھیاروں کیلئے مسلسل کوششیں کی جارہی ہیں اور اس کیلئےRace-Specific pathogens پر سب سے زیا دہ توجہ سی جا رہی ہے اور مسلسل کام کیا جا رہا ہے۔
1956ء میں امریکی افواج کو ان کے کسی بھی جنگی پلان کیلئے واضح اور غیر مبہم حکم کے ذریعے بتا دیا گیا تھاکہ بائیولوجیکل اور کیمیکل وار کو مستقبل کی کسی بھی جنگ کا بنیادی جزو سمجھا جائے اور اس کیلئے کسی بھی قسم کی مزید تشریح یا احکامات کی ضرورت نہیں‘ یہاں تک کہ کانگریس نے امریکی افواج کو First strikeکی اجا زت دے دی‘ پھر شاید کانگریس کے نئے آنے والے ارکان کو کچھ احساس ہوا اور1959ء میں اس نے فرسٹ سٹرائیک کیپشن ختم کرنے کی کوشش کی‘ لیکن وائٹ ہائوس نے اس کی ایک نہ چلنے دی اور اس وقت کے امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے پینٹاگان کو بائیولوجیکل ہتھیاروں کیلئے مختص کئے گئے فنڈز75 ملین ڈالرسے بڑھا کر سالانہ350 ملین ڈال کر دئیے‘ جو دنیا بھر کے دفاعی ماہرین کیلئے حیران کن تھا۔اس سے قبل 1948 ء میں پینٹاگان کمیٹی کی پیش کی جانے والی رپورٹ میں تجویز کیا گیا کہ اگر امریکا کسی بھی جگہ کوئی میزائل یا راکٹ وغیرہ گراتا ہے‘ تو اس کا صاف پتا چل سکتاہے کہ یہ کہاں سے اور کس نے پھینکا ہے ‘ لیکن اگر راکٹ اور میزائل حملوں کی بجائے کسی شہر میں اچانک وبائی امراض پھوٹ پڑیں تو کسی کا بھی دھیان نہیں جا سکتا کہ یہ کسی دوسرے کی وجہ سے پھیلی ہے اور یہ پیراگراف اس ڈی کلاسیفائیڈ رپورٹ کا حصہ ہے‘ جس میں بتایا گیا کہ امریکاNon-Fatal Viruses کیلئے کام کر رہا ہے۔
امریکی وزیر دفاع رابرٹ میکنا مارا نے1960ء کی دہائی کے آخر اوراوائل1970ء میں ایک سو پچاس سے زائد انتہائی خفیہ بائیولوجیکل ہتھیارتیار کرتے ہوئے ان کے تجربات کئے‘ جن میں کچھ امریکیوں پرآزمائے گئے تو بہت سے ویران جگہوں پر تو کچھ بیرونی ممالک میں ان کے فیلڈ ٹیسٹ کئے گئے۔ میکنا مارا نے پینٹاگان کے جائنٹ چیف آف سٹاف کو اختیار دے دیا کہ وہ ان کیمیکل ہتھیاروں اور تجربات کو امریکا کے دشمن کے خلاف استعمال کرنے کیلئے وہ تمام وسائل اور طریقہ کار اختیار کرے اور اس کیلئے یہ اندازہ بھی کرنا ہو گا کہ اس کی امریکا کیلئے سیا سی قیمت اور اس کے فوائد کہاں تک جا سکتے ہیں۔2000 ء میں امریکا کیلئے نئی صدی کیلئےRe-building America's defences نام سے ایک رپورٹ تیار کی گئی‘ جس کے ایک پیرا گراف میں یہ الفاظ لکھے ہوئے ہیںترجمہ) ''بائیولوجیکل وار فیئر کے جدید اور تیز ترین طریقے جس سے امریکا کیلئے وقتی طور پر فوجی فوائد کی بجائے سیا سی اور معاشی فائدے حاصل کئے جا سکیں گے‘‘۔
24 ستمبر2005 ء کو شائع ہونے والے ایک آرٹیکل میں انکشاف کیا گیا تھا کہ امریکی افواج بہت بڑی تعداد میںAnthrax ( جانوروں کو لگنے والی انتہائی مہلک بیماریوں کے جراثیم جو جانوروں سے انسانوں میں بھی منتقل ہو جاتے ہیں)کی خریداری میں دلچسپی لے رہی ہے اور اس کا اقرار ڈائریکٹر آف سن شائف ڈیوڈ ہیمنڈ نے بھی کیا تھا اور اس کے ذریعے مختلف کمپنیوں سے رابطے کرتے ہوئے انہیں بڑی مقدار میں ''انتھراکس‘‘ کی فراہمی کے آرڈر دیئے گئے اور اس سلسلے میں ایک کمپنی کو دیا جانے والا کنٹریکٹ پندرہ سو لیٹر کا تھا۔ اب‘ اگر امریکا یہ تان لگاتا رہے کہ اس کا بائیولوجیکل وار فیئر سے کوئی تعلق نہیں یا وہ اس قسم کے کسی بھی پلانٹ یا تیاری میں مصروف نہیں تو اس سے ایک سیدھا سا سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ '' آپ اگر بائیولوجیکل وار میں دلچسپی نہیں رکھتے اور نہ ہی ہتھیاروں کی تیاری کر رہے ہیں تو پھر'' انتھراکس‘‘ کی اس قدر بھاری مقدار کن مقاصد کیلئے خریدی جا رہی ہیں اور امریکی صدر کینیڈی نے آج سے ساٹھ برس قبل اس مد میں بجٹ میں تین سو پچاس ملین ڈالر تک منظور کرایا‘ وہ کن مقاصد کیلئے اور تھا؟ چلیں‘ اگر امریکی یہ توضیح بھی نہیں مانتے تو پھر ان کو1994 ء کی اکائونٹ ایبلٹی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے سوال کیا جا سکتا ہے کہ اس رپورٹ کے ایک پیراگراف میں یہ کیوں پوچھا گیا ہے کہ ''یو ایس ملٹری بائیولوجیکل ڈیفنس پروگرام‘‘ جس کے کئی درجن شعبے ‘ ریسرچ سینٹرز ‘ بائیولوجیکل انٹیلی جنس جیسے ادارے ہیں‘ ان سب کے ہوتے ہوئے کیسے تسلیم کر لیا جائے کہ امریکا نے اب تک کسی بھی جگہ کبھی بائیولوجیکل حملہ نہیں کیا‘ جبکہ دنیا جانتی ہے کہ میری لینڈ ‘فورٹ ڈیٹرک میں امریکی افواج کا چھوت کی بیماریوں کیلئے میڈیکل ریسرچ انسٹیٹیوٹ قائم ہے‘ جہاں بائیولوجیکل اور کیمیکل وار فیئر کیلئے کام ہوتا ہے ۔
آخر میں سوالات‘ جو تاحال جواب طلب ہیں کہ کیا امریکا نے شمالی کوریا کی زراعت تباہ کرنے کی کوشش نہیں کی؟ اور کیا یہ غلط ہے کہ Plum Islandمیں امریکا برڈ فلو اور سوائن فلو جیسے وائرس کی تیاریوں میں ایک عرصے سے مصروف عمل نہیں رہا ہے؟
عوامی جمہوریہ چین کے شہرووہان سے شروع ہونے والا کورونا وائرس اپنے ساتھ جہاں خوف اور دہشت کی نہ ختم ہونی والی جو نت نئی کہانیاں لے کرآیا ہے‘ وہیں یہ دو بڑی عالمی قوتوں کی باہمی سیا ست اور ایک دوسرے کو زیر کرنے کے نت نئے منصوبوں کے متعلق افواہوں کو بھی جنم دے رہا ہے۔ مغرب کے نقطۂ نظر کے مطا بق ‘سوشل میڈیا پر یہ کہانی پھیلائی جا رہی ہے کہ کورونا وائرس کے جراثیم پھیلانے میں کسی دوسرے ملک کا ہاتھ نہیں‘ بلکہ یہ چین کا اپنا پیدا کردہ ہے‘ جس نے اس بھونچال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دنیا کو دھوکے میں رکھ کر اب تک بیس ارب ڈالر کما لیے ہیں اور تیس فیصد سے زائد سٹاک ایکسچینج کی وہ ادائیگیاں‘ جو ایسی کمپنیوں اورا داروں کے کھاتوں سے یورپی یونین اور امریکیوں کو ادا کی جانی تھیں‘ محفوظ کر لی ہیں۔
مذکورہ بالا اس کہانی کو تقویت دینے کیلئے کہا جا رہا ہے کہ کورونا وائرس سے جس تیزی سے چینی یوان نیچے کی جانب گرنا شروع ہو ا‘ اسے سب دیکھ رہے تھے‘ لیکن حیران کن طور پر چین کے سنٹرل بینک نے اپنی کرنسی کی گراوٹ کی جانب رتی بھر بھی توجہ دینے کی کوشش نہ کی‘ بلکہ یہ تک سننے میں آرہا ہے کہ چین کے پاس تو کورونا وائرس سے بچائو کیلئے ماسک بھی ضرورت کے مطا بق‘ موجود نہیں تھے اور یوان کے گرنے سے سٹاک ایکسچینج کی وہ ا دائیگیاں‘جو چین کا دردسر تھیں‘ وہ چینی کرنسی گرنے سے اس حد تک سمٹ کر رہ گئیں کہ الٹا اسے فائدہ پہنچنا شروع ہو گیا‘ جبکہ روس کے کچھ اشاعتی ادارے یہ تاثر دینے میں مصروف ہیں کہ یہ بائیولوجیکل وار امریکی پلان کا حصہ ہے ‘جس سے اس نے چند دنوں میں چین کی معیشت اور دنیا بھر سے امڈنے والے سیاحتی طوفان کو منجمد کرکے اب تک چین کو پانچ ارب ڈالر سے محروم کر دیا ہے ۔
اگر امریکا پر اٹھنے والے شکوک سامنے رکھیں تو اس وقت یہ شک اس لئے بھی پختہ ہو جاتا ہے کہ گزشتہ چھ ماہ سے امریکا اور چین کے باہمی تجارتی حجم سے امریکی پریشان ہو چکے تھے اور امریکی صدر ٹرمپ نت نئی پابندیوں کا سہارا لینے کے با وجود اپنے مقاصد حاصل نہیں پا رہے تھے ۔ دریں اثناء بڑی چالاکی سے یہ تاثر دیاجا رہا ہے کہ کیمیکل و بائیولوجیکل وار فیئر میں امریکا کی قوت اور صلاحیت باقی دنیا سے بہت کم ہے۔ اگر امریکا میں بائیولوجیکل وار فیئر کا کھوج لگایا جائے اور امریکی رپورٹس اور مشہور محقق Larry Romanoff کے اس تناظر میں پیش کئے تجزیئے کو سامنے رکھیں تو تمام شکوک و شبہات اسی طرف اشارہ کرتے ہیں‘ کیونکہ امریکا کے سرکاری اداروں‘ یونیورسٹیوں اور اس کے بہت سے دیگر تعلیمی ا داروں میں کئی دہائیوں سے بائیولوجیکل ہتھیاروں کیلئے مسلسل کوششیں کی جارہی ہیں اور اس کیلئےRace-Specific pathogens پر سب سے زیا دہ توجہ سی جا رہی ہے اور مسلسل کام کیا جا رہا ہے۔
1956ء میں امریکی افواج کو ان کے کسی بھی جنگی پلان کیلئے واضح اور غیر مبہم حکم کے ذریعے بتا دیا گیا تھاکہ بائیولوجیکل اور کیمیکل وار کو مستقبل کی کسی بھی جنگ کا بنیادی جزو سمجھا جائے اور اس کیلئے کسی بھی قسم کی مزید تشریح یا احکامات کی ضرورت نہیں‘ یہاں تک کہ کانگریس نے امریکی افواج کو First strikeکی اجا زت دے دی‘ پھر شاید کانگریس کے نئے آنے والے ارکان کو کچھ احساس ہوا اور1959ء میں اس نے فرسٹ سٹرائیک کیپشن ختم کرنے کی کوشش کی‘ لیکن وائٹ ہائوس نے اس کی ایک نہ چلنے دی اور اس وقت کے امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے پینٹاگان کو بائیولوجیکل ہتھیاروں کیلئے مختص کئے گئے فنڈز75 ملین ڈالرسے بڑھا کر سالانہ350 ملین ڈال کر دئیے‘ جو دنیا بھر کے دفاعی ماہرین کیلئے حیران کن تھا۔اس سے قبل 1948 ء میں پینٹاگان کمیٹی کی پیش کی جانے والی رپورٹ میں تجویز کیا گیا کہ اگر امریکا کسی بھی جگہ کوئی میزائل یا راکٹ وغیرہ گراتا ہے‘ تو اس کا صاف پتا چل سکتاہے کہ یہ کہاں سے اور کس نے پھینکا ہے ‘ لیکن اگر راکٹ اور میزائل حملوں کی بجائے کسی شہر میں اچانک وبائی امراض پھوٹ پڑیں تو کسی کا بھی دھیان نہیں جا سکتا کہ یہ کسی دوسرے کی وجہ سے پھیلی ہے اور یہ پیراگراف اس ڈی کلاسیفائیڈ رپورٹ کا حصہ ہے‘ جس میں بتایا گیا کہ امریکاNon-Fatal Viruses کیلئے کام کر رہا ہے۔
امریکی وزیر دفاع رابرٹ میکنا مارا نے1960ء کی دہائی کے آخر اوراوائل1970ء میں ایک سو پچاس سے زائد انتہائی خفیہ بائیولوجیکل ہتھیارتیار کرتے ہوئے ان کے تجربات کئے‘ جن میں کچھ امریکیوں پرآزمائے گئے تو بہت سے ویران جگہوں پر تو کچھ بیرونی ممالک میں ان کے فیلڈ ٹیسٹ کئے گئے۔ میکنا مارا نے پینٹاگان کے جائنٹ چیف آف سٹاف کو اختیار دے دیا کہ وہ ان کیمیکل ہتھیاروں اور تجربات کو امریکا کے دشمن کے خلاف استعمال کرنے کیلئے وہ تمام وسائل اور طریقہ کار اختیار کرے اور اس کیلئے یہ اندازہ بھی کرنا ہو گا کہ اس کی امریکا کیلئے سیا سی قیمت اور اس کے فوائد کہاں تک جا سکتے ہیں۔2000 ء میں امریکا کیلئے نئی صدی کیلئےRe-building America's defences نام سے ایک رپورٹ تیار کی گئی‘ جس کے ایک پیرا گراف میں یہ الفاظ لکھے ہوئے ہیںترجمہ) ''بائیولوجیکل وار فیئر کے جدید اور تیز ترین طریقے جس سے امریکا کیلئے وقتی طور پر فوجی فوائد کی بجائے سیا سی اور معاشی فائدے حاصل کئے جا سکیں گے‘‘۔
24 ستمبر2005 ء کو شائع ہونے والے ایک آرٹیکل میں انکشاف کیا گیا تھا کہ امریکی افواج بہت بڑی تعداد میںAnthrax ( جانوروں کو لگنے والی انتہائی مہلک بیماریوں کے جراثیم جو جانوروں سے انسانوں میں بھی منتقل ہو جاتے ہیں)کی خریداری میں دلچسپی لے رہی ہے اور اس کا اقرار ڈائریکٹر آف سن شائف ڈیوڈ ہیمنڈ نے بھی کیا تھا اور اس کے ذریعے مختلف کمپنیوں سے رابطے کرتے ہوئے انہیں بڑی مقدار میں ''انتھراکس‘‘ کی فراہمی کے آرڈر دیئے گئے اور اس سلسلے میں ایک کمپنی کو دیا جانے والا کنٹریکٹ پندرہ سو لیٹر کا تھا۔ اب‘ اگر امریکا یہ تان لگاتا رہے کہ اس کا بائیولوجیکل وار فیئر سے کوئی تعلق نہیں یا وہ اس قسم کے کسی بھی پلانٹ یا تیاری میں مصروف نہیں تو اس سے ایک سیدھا سا سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ '' آپ اگر بائیولوجیکل وار میں دلچسپی نہیں رکھتے اور نہ ہی ہتھیاروں کی تیاری کر رہے ہیں تو پھر'' انتھراکس‘‘ کی اس قدر بھاری مقدار کن مقاصد کیلئے خریدی جا رہی ہیں اور امریکی صدر کینیڈی نے آج سے ساٹھ برس قبل اس مد میں بجٹ میں تین سو پچاس ملین ڈالر تک منظور کرایا‘ وہ کن مقاصد کیلئے اور تھا؟ چلیں‘ اگر امریکی یہ توضیح بھی نہیں مانتے تو پھر ان کو1994 ء کی اکائونٹ ایبلٹی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے سوال کیا جا سکتا ہے کہ اس رپورٹ کے ایک پیراگراف میں یہ کیوں پوچھا گیا ہے کہ ''یو ایس ملٹری بائیولوجیکل ڈیفنس پروگرام‘‘ جس کے کئی درجن شعبے ‘ ریسرچ سینٹرز ‘ بائیولوجیکل انٹیلی جنس جیسے ادارے ہیں‘ ان سب کے ہوتے ہوئے کیسے تسلیم کر لیا جائے کہ امریکا نے اب تک کسی بھی جگہ کبھی بائیولوجیکل حملہ نہیں کیا‘ جبکہ دنیا جانتی ہے کہ میری لینڈ ‘فورٹ ڈیٹرک میں امریکی افواج کا چھوت کی بیماریوں کیلئے میڈیکل ریسرچ انسٹیٹیوٹ قائم ہے‘ جہاں بائیولوجیکل اور کیمیکل وار فیئر کیلئے کام ہوتا ہے ۔
آخر میں سوالات‘ جو تاحال جواب طلب ہیں کہ کیا امریکا نے شمالی کوریا کی زراعت تباہ کرنے کی کوشش نہیں کی؟ اور کیا یہ غلط ہے کہ Plum Islandمیں امریکا برڈ فلو اور سوائن فلو جیسے وائرس کی تیاریوں میں ایک عرصے سے مصروف عمل نہیں رہا ہے؟