جاسم محمد
محفلین
پچھلی تمام عالمی وبائیں چین سے پھوٹیں لیکن اس والی کا ذمہ دار امریکہ ہے۔ابھی کچھ دنوں پہلے چینی وزارتِ خارجہ کی جانب سے ٹویٹس میں بھی اس جانب توجہ دلائی گئی ہے۔ جو بہت اہم ہے۔
2/2
پچھلی تمام عالمی وبائیں چین سے پھوٹیں لیکن اس والی کا ذمہ دار امریکہ ہے۔ابھی کچھ دنوں پہلے چینی وزارتِ خارجہ کی جانب سے ٹویٹس میں بھی اس جانب توجہ دلائی گئی ہے۔ جو بہت اہم ہے۔
2/2
تمام عالمی وبائیں۔۔۔۔ وہ کیسے؟پچھلی تمام عالمی وبائیں چین سے پھوٹیں لیکن اس والی کا ذمہ دار امریکہ ہے۔
عالمی وبا لکھا ہے۔ دوبارہ پڑھیں۔تمام وبائیں۔۔۔۔ وہ کیسے؟
میں نے بھی تمام عالمی وبائیں لکھا ہے۔ دوبارہ پڑھیں۔عالمی وبا لکھا ہے۔ دوبارہ پڑھیں۔
Extraordinary claims require extraordinary evidence.یو ایس بائیولوجیکل وار
عوامی جمہوریہ چین کے شہرووہان سے شروع ہونے والا کورونا وائرس اپنے ساتھ جہاں خوف اور دہشت کی نہ ختم ہونی والی جو نت نئی کہانیاں لے کرآیا ہے‘ وہیں یہ دو بڑی عالمی قوتوں کی باہمی سیا ست اور ایک دوسرے کو زیر کرنے کے نت نئے منصوبوں کے متعلق افواہوں کو بھی جنم دے رہا ہے۔ مغرب کے نقطۂ نظر کے مطا بق ‘سوشل میڈیا پر یہ کہانی پھیلائی جا رہی ہے کہ کورونا وائرس کے جراثیم پھیلانے میں کسی دوسرے ملک کا ہاتھ نہیں‘ بلکہ یہ چین کا اپنا پیدا کردہ ہے‘ جس نے اس بھونچال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دنیا کو دھوکے میں رکھ کر اب تک بیس ارب ڈالر کما لیے ہیں اور تیس فیصد سے زائد سٹاک ایکسچینج کی وہ ادائیگیاں‘ جو ایسی کمپنیوں اورا داروں کے کھاتوں سے یورپی یونین اور امریکیوں کو ادا کی جانی تھیں‘ محفوظ کر لی ہیں۔
مذکورہ بالا اس کہانی کو تقویت دینے کیلئے کہا جا رہا ہے کہ کورونا وائرس سے جس تیزی سے چینی یوان نیچے کی جانب گرنا شروع ہو ا‘ اسے سب دیکھ رہے تھے‘ لیکن حیران کن طور پر چین کے سنٹرل بینک نے اپنی کرنسی کی گراوٹ کی جانب رتی بھر بھی توجہ دینے کی کوشش نہ کی‘ بلکہ یہ تک سننے میں آرہا ہے کہ چین کے پاس تو کورونا وائرس سے بچائو کیلئے ماسک بھی ضرورت کے مطا بق‘ موجود نہیں تھے اور یوان کے گرنے سے سٹاک ایکسچینج کی وہ ا دائیگیاں‘جو چین کا دردسر تھیں‘ وہ چینی کرنسی گرنے سے اس حد تک سمٹ کر رہ گئیں کہ الٹا اسے فائدہ پہنچنا شروع ہو گیا‘ جبکہ روس کے کچھ اشاعتی ادارے یہ تاثر دینے میں مصروف ہیں کہ یہ بائیولوجیکل وار امریکی پلان کا حصہ ہے ‘جس سے اس نے چند دنوں میں چین کی معیشت اور دنیا بھر سے امڈنے والے سیاحتی طوفان کو منجمد کرکے اب تک چین کو پانچ ارب ڈالر سے محروم کر دیا ہے ۔
اگر امریکا پر اٹھنے والے شکوک سامنے رکھیں تو اس وقت یہ شک اس لئے بھی پختہ ہو جاتا ہے کہ گزشتہ چھ ماہ سے امریکا اور چین کے باہمی تجارتی حجم سے امریکی پریشان ہو چکے تھے اور امریکی صدر ٹرمپ نت نئی پابندیوں کا سہارا لینے کے با وجود اپنے مقاصد حاصل نہیں پا رہے تھے ۔ دریں اثناء بڑی چالاکی سے یہ تاثر دیاجا رہا ہے کہ کیمیکل و بائیولوجیکل وار فیئر میں امریکا کی قوت اور صلاحیت باقی دنیا سے بہت کم ہے۔ اگر امریکا میں بائیولوجیکل وار فیئر کا کھوج لگایا جائے اور امریکی رپورٹس اور مشہور محقق Larry Romanoff کے اس تناظر میں پیش کئے تجزیئے کو سامنے رکھیں تو تمام شکوک و شبہات اسی طرف اشارہ کرتے ہیں‘ کیونکہ امریکا کے سرکاری اداروں‘ یونیورسٹیوں اور اس کے بہت سے دیگر تعلیمی ا داروں میں کئی دہائیوں سے بائیولوجیکل ہتھیاروں کیلئے مسلسل کوششیں کی جارہی ہیں اور اس کیلئےRace-Specific pathogens پر سب سے زیا دہ توجہ سی جا رہی ہے اور مسلسل کام کیا جا رہا ہے۔
1956ء میں امریکی افواج کو ان کے کسی بھی جنگی پلان کیلئے واضح اور غیر مبہم حکم کے ذریعے بتا دیا گیا تھاکہ بائیولوجیکل اور کیمیکل وار کو مستقبل کی کسی بھی جنگ کا بنیادی جزو سمجھا جائے اور اس کیلئے کسی بھی قسم کی مزید تشریح یا احکامات کی ضرورت نہیں‘ یہاں تک کہ کانگریس نے امریکی افواج کو First strikeکی اجا زت دے دی‘ پھر شاید کانگریس کے نئے آنے والے ارکان کو کچھ احساس ہوا اور1959ء میں اس نے فرسٹ سٹرائیک کیپشن ختم کرنے کی کوشش کی‘ لیکن وائٹ ہائوس نے اس کی ایک نہ چلنے دی اور اس وقت کے امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے پینٹاگان کو بائیولوجیکل ہتھیاروں کیلئے مختص کئے گئے فنڈز75 ملین ڈالرسے بڑھا کر سالانہ350 ملین ڈال کر دئیے‘ جو دنیا بھر کے دفاعی ماہرین کیلئے حیران کن تھا۔اس سے قبل 1948 ء میں پینٹاگان کمیٹی کی پیش کی جانے والی رپورٹ میں تجویز کیا گیا کہ اگر امریکا کسی بھی جگہ کوئی میزائل یا راکٹ وغیرہ گراتا ہے‘ تو اس کا صاف پتا چل سکتاہے کہ یہ کہاں سے اور کس نے پھینکا ہے ‘ لیکن اگر راکٹ اور میزائل حملوں کی بجائے کسی شہر میں اچانک وبائی امراض پھوٹ پڑیں تو کسی کا بھی دھیان نہیں جا سکتا کہ یہ کسی دوسرے کی وجہ سے پھیلی ہے اور یہ پیراگراف اس ڈی کلاسیفائیڈ رپورٹ کا حصہ ہے‘ جس میں بتایا گیا کہ امریکاNon-Fatal Viruses کیلئے کام کر رہا ہے۔
امریکی وزیر دفاع رابرٹ میکنا مارا نے1960ء کی دہائی کے آخر اوراوائل1970ء میں ایک سو پچاس سے زائد انتہائی خفیہ بائیولوجیکل ہتھیارتیار کرتے ہوئے ان کے تجربات کئے‘ جن میں کچھ امریکیوں پرآزمائے گئے تو بہت سے ویران جگہوں پر تو کچھ بیرونی ممالک میں ان کے فیلڈ ٹیسٹ کئے گئے۔ میکنا مارا نے پینٹاگان کے جائنٹ چیف آف سٹاف کو اختیار دے دیا کہ وہ ان کیمیکل ہتھیاروں اور تجربات کو امریکا کے دشمن کے خلاف استعمال کرنے کیلئے وہ تمام وسائل اور طریقہ کار اختیار کرے اور اس کیلئے یہ اندازہ بھی کرنا ہو گا کہ اس کی امریکا کیلئے سیا سی قیمت اور اس کے فوائد کہاں تک جا سکتے ہیں۔2000 ء میں امریکا کیلئے نئی صدی کیلئےRe-building America's defences نام سے ایک رپورٹ تیار کی گئی‘ جس کے ایک پیرا گراف میں یہ الفاظ لکھے ہوئے ہیںترجمہ) ''بائیولوجیکل وار فیئر کے جدید اور تیز ترین طریقے جس سے امریکا کیلئے وقتی طور پر فوجی فوائد کی بجائے سیا سی اور معاشی فائدے حاصل کئے جا سکیں گے‘‘۔
24 ستمبر2005 ء کو شائع ہونے والے ایک آرٹیکل میں انکشاف کیا گیا تھا کہ امریکی افواج بہت بڑی تعداد میںAnthrax ( جانوروں کو لگنے والی انتہائی مہلک بیماریوں کے جراثیم جو جانوروں سے انسانوں میں بھی منتقل ہو جاتے ہیں)کی خریداری میں دلچسپی لے رہی ہے اور اس کا اقرار ڈائریکٹر آف سن شائف ڈیوڈ ہیمنڈ نے بھی کیا تھا اور اس کے ذریعے مختلف کمپنیوں سے رابطے کرتے ہوئے انہیں بڑی مقدار میں ''انتھراکس‘‘ کی فراہمی کے آرڈر دیئے گئے اور اس سلسلے میں ایک کمپنی کو دیا جانے والا کنٹریکٹ پندرہ سو لیٹر کا تھا۔ اب‘ اگر امریکا یہ تان لگاتا رہے کہ اس کا بائیولوجیکل وار فیئر سے کوئی تعلق نہیں یا وہ اس قسم کے کسی بھی پلانٹ یا تیاری میں مصروف نہیں تو اس سے ایک سیدھا سا سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ '' آپ اگر بائیولوجیکل وار میں دلچسپی نہیں رکھتے اور نہ ہی ہتھیاروں کی تیاری کر رہے ہیں تو پھر'' انتھراکس‘‘ کی اس قدر بھاری مقدار کن مقاصد کیلئے خریدی جا رہی ہیں اور امریکی صدر کینیڈی نے آج سے ساٹھ برس قبل اس مد میں بجٹ میں تین سو پچاس ملین ڈالر تک منظور کرایا‘ وہ کن مقاصد کیلئے اور تھا؟ چلیں‘ اگر امریکی یہ توضیح بھی نہیں مانتے تو پھر ان کو1994 ء کی اکائونٹ ایبلٹی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے سوال کیا جا سکتا ہے کہ اس رپورٹ کے ایک پیراگراف میں یہ کیوں پوچھا گیا ہے کہ ''یو ایس ملٹری بائیولوجیکل ڈیفنس پروگرام‘‘ جس کے کئی درجن شعبے ‘ ریسرچ سینٹرز ‘ بائیولوجیکل انٹیلی جنس جیسے ادارے ہیں‘ ان سب کے ہوتے ہوئے کیسے تسلیم کر لیا جائے کہ امریکا نے اب تک کسی بھی جگہ کبھی بائیولوجیکل حملہ نہیں کیا‘ جبکہ دنیا جانتی ہے کہ میری لینڈ ‘فورٹ ڈیٹرک میں امریکی افواج کا چھوت کی بیماریوں کیلئے میڈیکل ریسرچ انسٹیٹیوٹ قائم ہے‘ جہاں بائیولوجیکل اور کیمیکل وار فیئر کیلئے کام ہوتا ہے ۔
آخر میں سوالات‘ جو تاحال جواب طلب ہیں کہ کیا امریکا نے شمالی کوریا کی زراعت تباہ کرنے کی کوشش نہیں کی؟ اور کیا یہ غلط ہے کہ Plum Islandمیں امریکا برڈ فلو اور سوائن فلو جیسے وائرس کی تیاریوں میں ایک عرصے سے مصروف عمل نہیں رہا ہے؟
Extraordinary event requires extraordinary investigation of possible suspect.Extraordinary claims require extraordinary evidence.
ثبوت ندارد!
سامنے تاریخی ڈیٹا موجود ہونے کے باوجود اس کو ایکسٹرا آرڈینری ایونٹ کہہ رہے ہیں جو کہ فطرت کے نظام میں ایک معمول کی بات ہے۔Extraordinary event requires extraordinary investigation of possible suspect.
امریکہ کے وجود میں آنے سے قبل بھی عالمی وبائیں فطرتی طور پر پھوٹتی رہی ہیں۔ معلوم نہیں ان کا الزام کس کو دینا ہے۔
تاریخی ڈیٹا موجود ہونا کیا بائیو لاجیکل ویپن استعمال نہ ہونےکی دلیل ہے؟سامنے تاریخی ڈیٹا موجود ہونے کے باوجود اس کو ایکسٹرا آرڈینری ایونٹ کہہ رہے ہیں جو کہ فطرت کے نظام میں ایک معمول کی بات ہے۔
یہ بات میں نے کہی نہیں لہذا آپ فرض نہ کیجیے۔ہاں اگر آپ وائرسز اور بیکٹیریا میں قدرتی طور پر ہونے والے ارتقاء سے ہی سراسر انکاری ہوں تو اور بات ہے۔
آپ کمال کرتے ہیں۔ کیا امریکہ نے اپنے ہی خلاف بائیولاجیکل ویپن چلا دیا ہے؟تاریخی ڈیٹا موجود ہونا کیا بائیو لاجیکل ویپن استعمال نہ ہونےکی دلیل ہے؟
نہیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ اتنا ایکسٹرا آرڈینری ایونٹ نہیں ہے جیسا آپ بتا رہے ہیں۔تاریخی ڈیٹا موجود ہونا کیا بائیو لاجیکل ویپن استعمال نہ ہونےکی دلیل ہے؟
دوسری اور اہم بات یہ کہ بالفرض ایسا مان لیا جائے کہ یہ وائرس امریکہ کی سازش ہے، تب بھی یہ سوال اٹھتا ہے چینی اس سازش کو کیوں چھپا رہے ہیں۔ ان کو تو بہت شور مچانا چاہیے تھا۔ لیکن ایسا کچھ بھی چینی حکومت کی جانب سے نہیں دیکھا گیا۔ یا تو ہم پاکستانی بہت جینیس ہیں کہ چین میں ہونے والی سازش کو کمپیوٹر پر بیٹھے بیٹھے بے نقاب کر دیا یا پھر مان لیں کہ بونگیاں مارنا ہمارا مشغلہ ہے۔کسی بھی دعوے کی حیثیت تب بنتی ہے جب اسے کسی طریقے سے پرکھا جا سکے۔ اس دعوے کو ہم کیسے پرکھیں گے کہ یہ درست ہے یا غلط؟
امریکہ اور چین کی باہمی کشیدگی ہی ہمارا واحد "ثبوت" نہیں ہو سکتا۔ ہمیں اس سے زیادہ کی ضرورت پڑے گی۔
باقی مراسلہ سے متفق ہوں۔ بس یہ خیار رکھیں کہ قدرتی ایک مذہبی اصطلاح ہے۔ اس کی جگہ سائنسی اصطلاح فطرتی یعنی نیچرل استعمال کر لیا کریں۔ایک وائرس پہلے آ چکے سارس وائرس سے لگ بھگ پوری مشابہت رکھتا ہے۔ قدرتی ماحول میں وائرسز میں اس حد تک میوٹیشنز آنا معمول کی بات ہے۔ وائرس انسانوں میں پھیلتا بھی اسی خطے میں ہے جہاں سارس کی ابتداء ہوئی تھی۔ قدرتی طور پر ایک ایسے واقعے کا ہونا اچھی طرح سمجھ آتا ہے۔ اس پر اصرار کرنا کہ یہ ایک قدرتی واقعہ ہو ہی نہیں سکتا اور لازمی اس کے پیچھے کوئی "خفیہ ہاتھ" ہے، وہی بات ہے کہ یا تو ہم بڑے جینیس ہیں کہ ریسرچ سے واقفیت پیدا کیے بغیر ہی بیٹھے بیٹھے ایک عظیم سازش کو بے نقاب کر دیا یا پھر اس کی حیثیت بونگیوں کے سوا کچھ نہیں ہے۔
جب آنکھوں پر مذہب کی پٹی کس کر بندھی ہو تو آگے پیچھے کچھ نظر نہیں آتا۔اس سے ایک بحث یاد آگئی۔ ایک سائنسدان نما صاحب ظاہر ہے پاکستانی ہی تھے، یہ بات ہضم نہ کرسکے کہ اسلام نے جن جانوروں کو حرام قرار دیا ہے، ان سے بیماریاں پھیل سکتی ہے، لہذا ایک قوی امکان یہی ہے کہ چوں کہ چینی لوگ ہر قسم کے حرام جانور دھڑلے سے کھاتے رہتے ہیں لہذا کورونا ان کے اس غیراسلامی فعل سے ہی پھیلا ہے۔ کہنے کو تو وہ بہت کچھ کہنا چاہتے تھے لیکن اسی پر اکتفا کرلیا کہ اگر ایسا ہی ہے تو اس طرح کی وبائیں پہلے کیوں نہ پھیلی جو اب اسے حرام جانوروں کے کھانے سے جوڑا جارہاہے۔
اسی سے تو وہ بحث یاد آگئی۔جب آنکھوں پر مذہب کی پٹی کس کر بندھی ہو تو آگے پیچھے کچھ نظر نہیں آتا۔
اوپر تمام عالمی وباؤں کا تاریخی چارٹ پیش کر دیا کہ کب کب، کہاں کہاں کس کس وجہ سے عالمی وبائیں پھوٹی اور پھیلی۔ لیکن یہاں آجا کر پھر وہی ڈھیٹ پناکہ فلاں فلاں غیر اسلامی کام کی وجہ سے ہی سے وبا پھیلتی ہے۔
ان تمام عالمی وباؤں میں سب سے خطرناک اور جان لیوا سیاہ طاعون ثابت ہوئی۔ جو 1347 میں یورپ میں پھوٹی اور جس نے چند سال کے اندر اندر اس وقت کے یورپ کی آدھی آبادی کا مکمل صفایا کردیا۔ یہ وبا کسی غیر اسلامی افعال سے نہیں بلکہ مردہ چوہوں کو لڑنے والے پسوؤں سے انسانوں میں منتقل ہوئی تھی۔اسی سے تو وہ بحث یاد آگئی۔
پہلے تو مجھے صرف تین وباؤں کا علم تھا لیکن اب چار اور کا علم ہوا۔
تھرڈ پلیگ۔
سارس
کووِڈ۔
ایشیئن فلُو
ہانگ کانگ فلُو
آپ کے ویژول انفو کے مطابق:
اسپینش فلُو
رشیئن فلُو۔
شکریہ۔