فاعلن فاعلن فاعلن فاعلناِس بیت کی بحر کیا ہے؟
حسان بھائی وزن پورا کرنے کے لیے است کا الف حذف کیا ہے، کیا ایسا درست نہیں، بعض فارسی اشعار میں ایسا دیکھا تو ہے؟عجب ست کا تلظ «عجب سَت» نہیں ہو سکتا۔ «عجب است» ہونا چاہیے۔
الف حذف کر کے بھی تلفظ میں خاص فرق نہیں آتا۔ «عجب است» اور «عجبست» میں میری نظر میں صرف طرزِ املاء کا فرق ہے۔ بہر حال، است کا الِف حذف کر کے «سَت» نہیں کیا جا سکتا۔حسان بھائی وزن پورا کرنے کے لیے است کا الف حذف کیا ہے، کیا اہسا درست نہیں، بعض فارسی اشعار میں ایسا دیکھا تو ہے؟
حسان بھائی اس شعر میں الف حذف نہیں؟ آپ جانتے ہیں میں فارسی سے نا آشنا ہوں اس لیے اس شعر کو دیکھ کر ایسے کیا۔۔الف حذف کر کے بھی تلفظ میں خاص فرق نہیں آتا۔ «عجب است» اور «عجبست» میں میری نظر میں صرف طرزِ املاء کا فرق ہے۔ بہر حال، است کا الِف حذف کر کے «سَت» نہیں کیا جا سکتا۔
یہاں «شبِ قدر است» اور «شبِ قدرست» دونوں طریقوں سے لکھا جا سکتا ہے، تلفّظ یکساں رہے گا یعنی: şab-e qadrastشبِ قدرست و طے شد نامہ ہَجر
حسان بھائی مصرعے کو یوں کر دیتا ہوں ۔۔یہاں «شبِ قدر است» اور «شبِ قدرست» دونوں طریقوں سے لکھا جا سکتا ہے، تلفّظ یکساں رہے گا یعنی: şab-e qadrast
حسان بھائی مصرعے کو یوں کر دیتا ہوں ۔۔یہاں «شبِ قدر است» اور «شبِ قدرست» دونوں طریقوں سے لکھا جا سکتا ہے، تلفّظ یکساں رہے گا یعنی: şab-e qadrast
اِس طرح وہ معنی نہ آئے گا جو آپ لانا چاہ رہے ہیں۔ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ: 'جو تماشا میں نے دیکھا ہے، عجب ہے'۔ جبکہ اِس مصرعے کا یہ معنی نِکل رہا ہے: 'یہ تماشا عجب ہے۔ میں دیکھ چکا ہوں'۔ایں تماشا عجب است من دیدہ ام
جس چیز کو اردو شاعری میں 'شُتُر گُربہ' پُکارا جاتا ہے، اُس کو فارسی شاعری میں عیب نہیں مانا جاتا۔ لیکن، ایک ہی مصرعے میں «ما» و «من» کا استعمال خوب محسوس نہیں ہو رہا۔ مُفرَد و جمع ضمیرِ مُتکلّم کا استعمال دو مختلف مصرعوں میں ہوتا تو نامُتَجانِس و نامُتَناسِب معلوم نہ ہوتا۔اگر پہلے مصرعے کو من کی تکرار سے بچنے کے لیے ایسے کر دوں تو کیا اس میں شتر گربہ تو در نہیں آئے گا؟
یاِرِ ما از نگاہِ تو من زندہ ام
حسان بھائی اب دیکھیے گا۔۔۔جس چیز کو اردو شاعری میں 'شُتُر گُربہ' پُکارا جاتا ہے، اُس کو فارسی شاعری میں عیب نہیں مانا جاتا۔ لیکن، ایک ہی مصرعے میں «ما» و «من» کا استعمال خوب محسوس نہیں ہو رہا۔ مُفرَد و جمع ضمیرِ مُتکلّم کا استعمال دو مختلف مصرعوں میں ہوتا تو نامُتَجانِس و نامُتَناسِب معلوم نہ ہوتا۔
نادرست اور مُہمل ہے۔حسان بھائی گزارش ہے کہ اس شعر پر بھی عنایت فرمائیں۔۔
با شرابِ تست پارسا من شدم
زُہد یابم تُرا میکدہ دادہ ام
-نادرست اور مُہمل ہے۔
آپ کی بیت کا یہ لفظی مفہوم بن رہا ہے (جو یقیناً آپ کا مقصود نہیں ہے):
تمہاری شراب کے ساتھ ہے، پارسا مَیں ہو گیا
زُہد پاؤں، تم کو میں نے میکدہ دے دیا ہے
«تست» کا تلفظ «تُسْت» ہے، جس کو نادرست باندھا گیا ہے۔
نہیں۔اگر پہلے مصرعے میں با کی جگہ از لے آؤں تو کیا مصرع ٹھیک ہو جائے گا۔۔
یہ مصرع ایسے کرلیںیاِرِ من از نگاہِ تو من زندہ ام
حسان خان یہاں تماشا کردن کاربردہ ہوگا؟ایں تماشا عجب ست کہ من دیدہ ام
بہت شکریہ، اس میں تست کا لفظ وزن سے بھی گر رہا تھا اس لیے تدوین کر دی تھی آپ نے محبت فرماتے ہوئے جواب ارسال فرما دیا۔۔۔ ممنون ہوں کہ آپ جس شفقت سے رہنمائی فرما رہے ہیں۔نہیں۔
تمہاری شراب سے میں پارسا ہو گیا = از شرابِ تو/شرابت (من) پارسا شدم