حمیرا عدنان
محفلین
کراچی کے ساحل سے K2 کی چوٹی تک شاید ہی کوئی گوشہ ایسا بچا ہو جہاں کچھ منع نہ ہو. جس سمت نظر دوڑائیے کچھ نہ کچھ ممانعت ہے، سوچیے تو بھلا...
کوچ ہو یا منی بس سیٹوں پر پاؤں رکھنا منع ہے. بغیر ٹکٹ سفر کرنا منع ہے، خواتین کی نشستوں پر بیٹھنا منع ہے، ڈرائیور کو گاڑی تیز چلانے پر مجبور کرنا منع ہے. ریلوے اسٹیشن پر پلیٹ فارم ہو یا ریل کا ڈبہ، وہاں آگ جلانا اور پلیٹ فارم پر سونا منع ہے. اسکولوں اور ہسپتالوں میں شور مچانا، ہارن بجانا اور تھوکنا منع ہے، اکثر زچہ خانوں میں یہ تک لکھا ہوتا ہے کہ چھوٹے بچوں کا داخلہ منع ہے.
ہوٹلوں اور چائے خانوں میں گویا سفر بل کی ادائیگی غیر ممنوع ہے ورنہ تو وہاں فرش اور مین پر پانی انڈیلنا منع ہے، سیاسی باتیں کرنا، نشے کی حالت میں آنا، گالم گلوچ اور جھگڑا کرنا منع ہے، یہ جملہ تو خیر ملک بھر کی طعام گاہوں کا ایک طرح سے جزولاینفک کہ فضول بیٹھنا منع ہے..
پاکستان کے تقریباً تمام اجاڑ اور سنسان باغیچوں میں بھی یہ سرسبز تحریر لکھی نظر آئے گی کہ پھول ٹوڑنا منع ہے، گھاس پر چلنا یا کوئی گیم کھیلنا، پالتو جانور لانا، سائیکل چلانا، تیل کی مالش اور کان کی میل نکالنااور گھاس پر قلابازیاں کھانا منع ہے.
کئی منزلہ رہائشی عمارتوں کی دیواریں تو گویا اس انتباہ کے بغیر ادھوری لگتی ہیں،دیوار کے قریب گاڑی کھڑی کرنا منع ہے، خلاف ورزی کرنے والی گاڑی کے ٹائروں کی ہوا نکال دی جائے گی، شہر کی مطالعہ گاہوں میں قائم واش رومز کی اندرونی دیواروں پر تو اس قدر چاند ماری کی گئی ہوتی ہے کہ لوٹے سے سر پیٹنے کو دل کرتا ہے آخر کو تُک ہے ان جملوں کی دیر تک بیٹھنا منع ہے، سوچنا منع ہے، سگریٹ نوشی کرنا اور جھاڑنا منع ہے، اونگھنا، لوٹے اور پانی سے کھیلنا، دیواروں پر لکھی بکواس پڑھنا اور نوٹ کرنا منع ہے.
خواتین کے لیے مخصوص نجی پارک کے داخلی دروازے پر خوبصورت رسم الخط میں لکھا ہو ہے کہ، یہ پارک خواتین اور بچوں کے لیے مخصوص ہے، مردوں کا داخلہ منع ہے تو باز جگہ سوٹ کیس وغیرہ اندر لے جانا منع ہے، پٹرول پمپ پر ماچس جلانا منع ہے تو چڑیا گھر میں جانور کو تنگ کرنا منع ہے. سینما گھروں میں ٹکٹ بلیک کرنا منع، سمندر میں نہانا منع ہے تو درسگاہوں کی دیواروں پر پوسٹر لگانا منع ہے.
غرض یہ کہ جس طرف نظر دوڑائیں، گمان یہی ہوتا ہے کہ یہاں سب کچھ منع ہے
کوچ ہو یا منی بس سیٹوں پر پاؤں رکھنا منع ہے. بغیر ٹکٹ سفر کرنا منع ہے، خواتین کی نشستوں پر بیٹھنا منع ہے، ڈرائیور کو گاڑی تیز چلانے پر مجبور کرنا منع ہے. ریلوے اسٹیشن پر پلیٹ فارم ہو یا ریل کا ڈبہ، وہاں آگ جلانا اور پلیٹ فارم پر سونا منع ہے. اسکولوں اور ہسپتالوں میں شور مچانا، ہارن بجانا اور تھوکنا منع ہے، اکثر زچہ خانوں میں یہ تک لکھا ہوتا ہے کہ چھوٹے بچوں کا داخلہ منع ہے.
ہوٹلوں اور چائے خانوں میں گویا سفر بل کی ادائیگی غیر ممنوع ہے ورنہ تو وہاں فرش اور مین پر پانی انڈیلنا منع ہے، سیاسی باتیں کرنا، نشے کی حالت میں آنا، گالم گلوچ اور جھگڑا کرنا منع ہے، یہ جملہ تو خیر ملک بھر کی طعام گاہوں کا ایک طرح سے جزولاینفک کہ فضول بیٹھنا منع ہے..
پاکستان کے تقریباً تمام اجاڑ اور سنسان باغیچوں میں بھی یہ سرسبز تحریر لکھی نظر آئے گی کہ پھول ٹوڑنا منع ہے، گھاس پر چلنا یا کوئی گیم کھیلنا، پالتو جانور لانا، سائیکل چلانا، تیل کی مالش اور کان کی میل نکالنااور گھاس پر قلابازیاں کھانا منع ہے.
کئی منزلہ رہائشی عمارتوں کی دیواریں تو گویا اس انتباہ کے بغیر ادھوری لگتی ہیں،دیوار کے قریب گاڑی کھڑی کرنا منع ہے، خلاف ورزی کرنے والی گاڑی کے ٹائروں کی ہوا نکال دی جائے گی، شہر کی مطالعہ گاہوں میں قائم واش رومز کی اندرونی دیواروں پر تو اس قدر چاند ماری کی گئی ہوتی ہے کہ لوٹے سے سر پیٹنے کو دل کرتا ہے آخر کو تُک ہے ان جملوں کی دیر تک بیٹھنا منع ہے، سوچنا منع ہے، سگریٹ نوشی کرنا اور جھاڑنا منع ہے، اونگھنا، لوٹے اور پانی سے کھیلنا، دیواروں پر لکھی بکواس پڑھنا اور نوٹ کرنا منع ہے.
خواتین کے لیے مخصوص نجی پارک کے داخلی دروازے پر خوبصورت رسم الخط میں لکھا ہو ہے کہ، یہ پارک خواتین اور بچوں کے لیے مخصوص ہے، مردوں کا داخلہ منع ہے تو باز جگہ سوٹ کیس وغیرہ اندر لے جانا منع ہے، پٹرول پمپ پر ماچس جلانا منع ہے تو چڑیا گھر میں جانور کو تنگ کرنا منع ہے. سینما گھروں میں ٹکٹ بلیک کرنا منع، سمندر میں نہانا منع ہے تو درسگاہوں کی دیواروں پر پوسٹر لگانا منع ہے.
غرض یہ کہ جس طرف نظر دوڑائیں، گمان یہی ہوتا ہے کہ یہاں سب کچھ منع ہے