اپنی کوشش تو کرنی چاہیے۔ آپ ضرور کریں۔ بلکہ مجھے بھی بتائیں میں بھی کچھ کرتی ہوں۔
ابھی تابش بھائی کو ری پلائی کیا وہ پڑھیے اور کتاب کے مصنف کی جہالت ملاحظہ کیجیے۔ اس کے دیگر اجزا بھی یقینا قابلِ اعتراض ہوں گے اتفاقاً میں نے فرسٹ ایڈ کا پڑھ کر جو سبق کھولا اور اس کے آخری پیراگراف کو پڑھا وہی بہت خطرناک تھا۔
میں نے اتفاقا یہ کتاب ایک دوست کے گھر دیکھی تھی اور اس کی تصویر لے لی تھی جس پر یہ معلومات ہیں:
یہ اردو کی ساتویں کتاب
اشاعت:آفاق
ایڈیشن: 2017
فون نمبر میں 42-37150849 اور دیگر کئی فون نمبر دیے گئے ہیں۔
ص 89 پر جس عبارت پر سب سے زیادہ اعتراض ہے وہ یہ ہے:
اگر کسی شخص کو سانپ ڈس لے تو ایسی صورت میں فوری توجہ کی ضرورت ہے۔اس لیے جہاں سانپ نے کاٹا ہو اس پر ذرا اوپر کس کی کپڑا یا کوئی اور چیز باندھ دیں، پھر اس سے اوپر ایک اور پٹی باندھ دیں تا کہ خون کی گردش رک جائے۔ پھر تیز چھری یا چاقو کے ساتھ زخم کو گہرا کردیں تاکہ زہریلا خون باہر نکل جائے۔
یہ تکنیک اتنی آوٹ ڈیٹڈ ہے کہ دنیا بھر میں اس پر پابندی لگ چکی ہے۔ سانپ کے کاٹے کے بعد کبھی بھی ایسی پٹیاں نہیں کی جاتیں نہ ہی چاقو سے وار کرکے زخم گہرا کیا جاتا ہے جس کی وجوہات میں سے چند ایک یہ ہیں:
1۔ہمارا خون جسم میں جس رفتار سے (ایک منٹ میں تقریباً 60 سے 80 مرتبہ) گردش کرتا ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے اس پر پٹی باندھنا(جب کہ زہر خون میں شامل ہوچکا ہے) فائدہ مند نہیں بلکہ نقصان دہ ہے۔
2۔ اتنی ٹائٹ پٹی باندھنا جس سے دورانِ خون چالیس منٹ رک جائے یا چالیس سے 45 منٹ رک جائے ، وہ عضو ہمیشہ کے لیے معذور ہوسکتا ہے(90 فیصد سے زیادہ کیسز میں ایسا ہی ہوتا ہے)
3۔ اگر زہر اندر نہیں گیا، ایسے میں اس پر چاقو سے زخم گہرا کرنے سے وہ زہر اندر جاسکتاہے، شدید انفکشن اور دیگر مسائل جیسے الرجی وغیرہ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، کوئی بڑی ورید کٹ جائے تو جان کے لالے بھی پڑسکتے ہیں۔
5۔ اگر سانپ نے گردن، چہرہ یا کسی اور حساس حصے پر کاٹ لیا تو وہاں ایسی پٹی کرنا یا چاقو سے زخم گہرا کرنا بالکل ہی جان لیوا ہے۔
6۔ آخری بات جو سب سے پہلے ہونی چاہیے تھی وہ یہ کہ تمام سانپ زہریلے نہیں اس لیے یہ پریکٹسز جو انتہائی مشق طلب ہیں بنا کسی تشخیص کے کیسے کی جاسکتی ہیں ؟ اس لیے مریض کو فوری طورپر ہسپتال پہنچانا چاہیے جہاں اس کے سی بی سی، ای سی جی اور اس جیسے دوسرے ٹیسٹ اس کی تشخیص میں معاون ثابت ہوتے ہیں اور مخصوص اینٹی سنیک وینم کے ذریعے علاج کیا جاتا ہے۔