یہ تو سراسر ظلم ہے ۔ ۔ ۔

اکمل زیدی

محفلین
یہ کتاب پنجاب کے سرکاری سکولوں کے نصاب میں شامل نہیں ہے۔ اس کو یہاں سے بھی کنفرم کیا جا سکتا ہے۔
گوھر پبلشر کی اسلامیات 2 کو پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ نے 2017 میں بین بھی کیا تھا۔ غالب گمان ہے کہ وہ یہی کتاب ہو گی۔
اگر کوئی پرائیویٹ سکول ایک بینڈ کتاب کو پڑھا رہا ہے تو یہ بات متعلقہ اتھارٹی کے نوٹس میں ضرور لانی چاہیے۔
بہت شکریہ محترمہ۔آپ کی توجہات کا۔۔جزاک اللہ خیر
 
تفصیل مجھے بھی بتا دیں۔ کتاب کا نام وغیرہ۔ :)
میں نے اتفاقا یہ کتاب ایک دوست کے گھر دیکھی تھی اور اس کی تصویر لے لی تھی جس پر یہ معلومات ہیں:
یہ اردو کی ساتویں کتاب
اشاعت:آفاق
ایڈیشن: 2017
فون نمبر میں 42-37150849 اور دیگر کئی فون نمبر دیے گئے ہیں۔
ص 89 پر جس عبارت پر سب سے زیادہ اعتراض ہے وہ یہ ہے:
اگر کسی شخص کو سانپ ڈس لے تو ایسی صورت میں فوری توجہ کی ضرورت ہے۔اس لیے جہاں سانپ نے کاٹا ہو اس پر ذرا اوپر کس کی کپڑا یا کوئی اور چیز باندھ دیں، پھر اس سے اوپر ایک اور پٹی باندھ دیں تا کہ خون کی گردش رک جائے۔ پھر تیز چھری یا چاقو کے ساتھ زخم کو گہرا کردیں تاکہ زہریلا خون باہر نکل جائے۔

یہ تکنیک اتنی آوٹ ڈیٹڈ ہے کہ دنیا بھر میں اس پر پابندی لگ چکی ہے۔ سانپ کے کاٹے کے بعد کبھی بھی ایسی پٹیاں نہیں کی جاتیں نہ ہی چاقو سے وار کرکے زخم گہرا کیا جاتا ہے جس کی وجوہات میں سے چند ایک یہ ہیں:
1۔ہمارا خون جسم میں جس رفتار سے (ایک منٹ میں تقریباً 60 سے 80 مرتبہ) گردش کرتا ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے اس پر پٹی باندھنا(جب کہ زہر خون میں شامل ہوچکا ہے) فائدہ مند نہیں بلکہ نقصان دہ ہے۔
2۔ اتنی ٹائٹ پٹی باندھنا جس سے دورانِ خون چالیس منٹ رک جائے یا چالیس سے 45 منٹ رک جائے ، وہ عضو ہمیشہ کے لیے معذور ہوسکتا ہے(90 فیصد سے زیادہ کیسز میں ایسا ہی ہوتا ہے)
3۔ اگر زہر اندر نہیں گیا، ایسے میں اس پر چاقو سے زخم گہرا کرنے سے وہ زہر اندر جاسکتاہے، شدید انفکشن اور دیگر مسائل جیسے الرجی وغیرہ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، کوئی بڑی ورید کٹ جائے تو جان کے لالے بھی پڑسکتے ہیں۔
5۔ اگر سانپ نے گردن، چہرہ یا کسی اور حساس حصے پر کاٹ لیا تو وہاں ایسی پٹی کرنا یا چاقو سے زخم گہرا کرنا بالکل ہی جان لیوا ہے۔
6۔ آخری بات جو سب سے پہلے ہونی چاہیے تھی وہ یہ کہ تمام سانپ زہریلے نہیں اس لیے یہ پریکٹسز جو انتہائی مشق طلب ہیں بنا کسی تشخیص کے کیسے کی جاسکتی ہیں ؟ اس لیے مریض کو فوری طورپر ہسپتال پہنچانا چاہیے جہاں اس کے سی بی سی، ای سی جی اور اس جیسے دوسرے ٹیسٹ اس کی تشخیص میں معاون ثابت ہوتے ہیں اور مخصوص اینٹی سنیک وینم کے ذریعے علاج کیا جاتا ہے۔
 
اپنی کوشش تو کرنی چاہیے۔ آپ ضرور کریں۔ بلکہ مجھے بھی بتائیں میں بھی کچھ کرتی ہوں۔
ابھی تابش بھائی کو ری پلائی کیا وہ پڑھیے اور کتاب کے مصنف کی جہالت ملاحظہ کیجیے۔ اس کے دیگر اجزا بھی یقینا قابلِ اعتراض ہوں گے اتفاقاً میں نے فرسٹ ایڈ کا پڑھ کر جو سبق کھولا اور اس کے آخری پیراگراف کو پڑھا وہی بہت خطرناک تھا۔


میں نے اتفاقا یہ کتاب ایک دوست کے گھر دیکھی تھی اور اس کی تصویر لے لی تھی جس پر یہ معلومات ہیں:
یہ اردو کی ساتویں کتاب
اشاعت:آفاق
ایڈیشن: 2017
فون نمبر میں 42-37150849 اور دیگر کئی فون نمبر دیے گئے ہیں۔
ص 89 پر جس عبارت پر سب سے زیادہ اعتراض ہے وہ یہ ہے:
اگر کسی شخص کو سانپ ڈس لے تو ایسی صورت میں فوری توجہ کی ضرورت ہے۔اس لیے جہاں سانپ نے کاٹا ہو اس پر ذرا اوپر کس کی کپڑا یا کوئی اور چیز باندھ دیں، پھر اس سے اوپر ایک اور پٹی باندھ دیں تا کہ خون کی گردش رک جائے۔ پھر تیز چھری یا چاقو کے ساتھ زخم کو گہرا کردیں تاکہ زہریلا خون باہر نکل جائے۔

یہ تکنیک اتنی آوٹ ڈیٹڈ ہے کہ دنیا بھر میں اس پر پابندی لگ چکی ہے۔ سانپ کے کاٹے کے بعد کبھی بھی ایسی پٹیاں نہیں کی جاتیں نہ ہی چاقو سے وار کرکے زخم گہرا کیا جاتا ہے جس کی وجوہات میں سے چند ایک یہ ہیں:
1۔ہمارا خون جسم میں جس رفتار سے (ایک منٹ میں تقریباً 60 سے 80 مرتبہ) گردش کرتا ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے اس پر پٹی باندھنا(جب کہ زہر خون میں شامل ہوچکا ہے) فائدہ مند نہیں بلکہ نقصان دہ ہے۔
2۔ اتنی ٹائٹ پٹی باندھنا جس سے دورانِ خون چالیس منٹ رک جائے یا چالیس سے 45 منٹ رک جائے ، وہ عضو ہمیشہ کے لیے معذور ہوسکتا ہے(90 فیصد سے زیادہ کیسز میں ایسا ہی ہوتا ہے)
3۔ اگر زہر اندر نہیں گیا، ایسے میں اس پر چاقو سے زخم گہرا کرنے سے وہ زہر اندر جاسکتاہے، شدید انفکشن اور دیگر مسائل جیسے الرجی وغیرہ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، کوئی بڑی ورید کٹ جائے تو جان کے لالے بھی پڑسکتے ہیں۔
5۔ اگر سانپ نے گردن، چہرہ یا کسی اور حساس حصے پر کاٹ لیا تو وہاں ایسی پٹی کرنا یا چاقو سے زخم گہرا کرنا بالکل ہی جان لیوا ہے۔
6۔ آخری بات جو سب سے پہلے ہونی چاہیے تھی وہ یہ کہ تمام سانپ زہریلے نہیں اس لیے یہ پریکٹسز جو انتہائی مشق طلب ہیں بنا کسی تشخیص کے کیسے کی جاسکتی ہیں ؟ اس لیے مریض کو فوری طورپر ہسپتال پہنچانا چاہیے جہاں اس کے سی بی سی، ای سی جی اور اس جیسے دوسرے ٹیسٹ اس کی تشخیص میں معاون ثابت ہوتے ہیں اور مخصوص اینٹی سنیک وینم کے ذریعے علاج کیا جاتا ہے۔
 

سید عمران

محفلین

فرحت کیانی

لائبریرین
بہت شکریہ محترمہ۔آپ کی توجہات کا۔۔جزاک اللہ خیر
یہ ایک بہت سنجیدہ اور حساس مسئلہ ہے۔ آپ نے اچھا کیا کہ پہلے کنفرم کر لیا۔ مجھے معلوم تھا کہ پنجاب کے سکولوں میں یہ کتاب پڑھائی نہیں جاتی لیکن ایک بار پھر کنفرم ہو گیا۔ اب آپ چاہیں تو اس سکول کے منتظمین اور متعلقہ ریگولیٹری اتھارٹی سے رابطہ کریں۔
میں بہرحال اپنی ذاتی حیثیت میں اس بارے میں مزید ریسرچ ضرور کروں گی اور پبلشرز سے رابطہ بھی۔
 
کیا اتنے مراحل کی تشخیص ہونے تک مریض کے بچنے کےچانسز ہوتے ہیں؟؟؟
در اصل یہ میں نے محض سانپ کے کاٹے کی غلط ابتدائی طبی امداد کے بارے میں بتایا ہے، اس کی طبی امداد کے بارے میں نہیں بتایا۔
اگر آپ اس حوالے سے جاننا چاہتے ہیں تو ریسکیو 1122 کے کسی بھی دفتر تشریف لے جائیے اور ان کی کسی بھی افسر سے مل کر بیسک لائف سپورٹ ٹریننگ کا حصہ بنئیے۔ میں یہاں اس حوالے سے چند ٹپس لکھ دیتا ہوں:
پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کے میدانی علاقوں میں زیادہ زہریلے سانپ موجود نہیں اور جب تک خود سانپ کو ڈستے ہوئے دیکھ نہ لیا جائے بنا ٹیسٹ کے تشخیص مشکل ہے کہ واقعی سانپ کے ڈسنے یا زہر کا اثر ہے یا نہیں، دوسری بات یہ کہ اگر سانپ بہت ہی زیادہ زہریلا ہے جیسے بلیک مامبا وغیرہ تو مریض کی فرسٹ ایڈ اس لیے نا ممکن ہےکہ اگر وہ زہر کسی بھی رگ تک پہنچ کر خون میں شامل ہوچکا ہے تو فرسٹ ایڈ سے قبل (اگر فرسٹ ایڈ دینے کے لیے محض ایک منٹ کی دیر ہی ہوئی ہے) تو خون جسم میں 60 سے 80 مرتبہ گردش کرچکا ہوگا اور اس کا براہِ راست اثر ریڈ بلڈ سیلز کے ٹوٹنے یا نیوروجینک شاک کی صورت میں سامنے آئے گا جس سے مریض کا بچنا بہت مشکل ہوتا ہے ، کم از کم وہ کومے میں چلا جاتا ہے۔ البتہ اگر سانپ کی دیگر اقسام میں سے کسی نے ڈسا ہے تو مریض کے پاس اتنا وقت ہوتا ہے کہ اسے 30 سے 50 منٹ کے اندر اندر کسی ہسپتال پہنچا کر اس کی ای سی جی، اور سی بی سی کروالیا جائے لیکن اس دوران اسے فرسٹ ایڈ کے طور پر ادویات جیسے اینٹی سنیک وینم وغیرہ دے دیتے ہیں اور مزید یہ کہ لائف سیونگ انجیکشنز بھی دیے جاتے ہیں۔ دراصل سانپ کے کاٹے میں سب سے اہم نیورجینک شاک سے بچانا یا نیوروجینک شاک کے آفٹر ایفیکٹ کو کنٹرول کرنا ہے اس سے پٹیاں باندھنا اور چاقو سے زخم لگا کر خون چوسنا انتہائی نا معقول اور بکواس حرکت ہے جس کا مریض کو کوئی فائدہ نہیں البتہ اس کا وقت ضرور برباد ہوگا۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ابھی تابش بھائی کو ری پلائی کیا وہ پڑھیے اور کتاب کے مصنف کی جہالت ملاحظہ کیجیے۔ اس کے دیگر اجزا بھی یقینا قابلِ اعتراض ہوں گے اتفاقاً میں نے فرسٹ ایڈ کا پڑھ کر جو سبق کھولا اور اس کے آخری پیراگراف کو پڑھا وہی بہت خطرناک تھا۔


میں نے اتفاقا یہ کتاب ایک دوست کے گھر دیکھی تھی اور اس کی تصویر لے لی تھی جس پر یہ معلومات ہیں:
یہ اردو کی ساتویں کتاب
اشاعت:آفاق
ایڈیشن: 2017
فون نمبر میں 42-37150849 اور دیگر کئی فون نمبر دیے گئے ہیں۔
ص 89 پر جس عبارت پر سب سے زیادہ اعتراض ہے وہ یہ ہے:
اگر کسی شخص کو سانپ ڈس لے تو ایسی صورت میں فوری توجہ کی ضرورت ہے۔اس لیے جہاں سانپ نے کاٹا ہو اس پر ذرا اوپر کس کی کپڑا یا کوئی اور چیز باندھ دیں، پھر اس سے اوپر ایک اور پٹی باندھ دیں تا کہ خون کی گردش رک جائے۔ پھر تیز چھری یا چاقو کے ساتھ زخم کو گہرا کردیں تاکہ زہریلا خون باہر نکل جائے۔

یہ تکنیک اتنی آوٹ ڈیٹڈ ہے کہ دنیا بھر میں اس پر پابندی لگ چکی ہے۔ سانپ کے کاٹے کے بعد کبھی بھی ایسی پٹیاں نہیں کی جاتیں نہ ہی چاقو سے وار کرکے زخم گہرا کیا جاتا ہے جس کی وجوہات میں سے چند ایک یہ ہیں:
1۔ہمارا خون جسم میں جس رفتار سے (ایک منٹ میں تقریباً 60 سے 80 مرتبہ) گردش کرتا ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے اس پر پٹی باندھنا(جب کہ زہر خون میں شامل ہوچکا ہے) فائدہ مند نہیں بلکہ نقصان دہ ہے۔
2۔ اتنی ٹائٹ پٹی باندھنا جس سے دورانِ خون چالیس منٹ رک جائے یا چالیس سے 45 منٹ رک جائے ، وہ عضو ہمیشہ کے لیے معذور ہوسکتا ہے(90 فیصد سے زیادہ کیسز میں ایسا ہی ہوتا ہے)
3۔ اگر زہر اندر نہیں گیا، ایسے میں اس پر چاقو سے زخم گہرا کرنے سے وہ زہر اندر جاسکتاہے، شدید انفکشن اور دیگر مسائل جیسے الرجی وغیرہ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، کوئی بڑی ورید کٹ جائے تو جان کے لالے بھی پڑسکتے ہیں۔
5۔ اگر سانپ نے گردن، چہرہ یا کسی اور حساس حصے پر کاٹ لیا تو وہاں ایسی پٹی کرنا یا چاقو سے زخم گہرا کرنا بالکل ہی جان لیوا ہے۔
6۔ آخری بات جو سب سے پہلے ہونی چاہیے تھی وہ یہ کہ تمام سانپ زہریلے نہیں اس لیے یہ پریکٹسز جو انتہائی مشق طلب ہیں بنا کسی تشخیص کے کیسے کی جاسکتی ہیں ؟ اس لیے مریض کو فوری طورپر ہسپتال پہنچانا چاہیے جہاں اس کے سی بی سی، ای سی جی اور اس جیسے دوسرے ٹیسٹ اس کی تشخیص میں معاون ثابت ہوتے ہیں اور مخصوص اینٹی سنیک وینم کے ذریعے علاج کیا جاتا ہے۔
ہمارے یہاں زیادہ تر کتابیں ادھر ادھر سے چھاپا مار کر تیار کی جاتی ہیں اور اکثر اوقات تو ادارتی ٹیم تو کیا خود کتاب لکھنے والے بھی پورا مواد پڑھنے کی زحمت نہیں فرماتے۔ اس صورت میں ایسی ہی نادر روزگار تحریریں وجود میں آتی ہیں۔
 

زیک

مسافر
رہنا بھی چاہیے۔ معاملہ اسلامیات ہی کا نہیں فرسٹ ایڈ ہو یا کچھ اور جہاں کچھ غلط ملے ہمیں اس کی نشاندہی کرنی چاہیے۔
اگر غلط معلومات کسی کتاب میں ہوں تو یقیناً ایسا ہی ہونا چاہیئے۔ لیکن میرا اشارہ غلطیوں سے بھرپور سوشل میڈیا فارورڈز کی طرف تھا جو کتابوں کی درستگی کے سالوں بعد بھی اسی طرح جاری رہتی ہیں۔
 
میں نے اتفاقا یہ کتاب ایک دوست کے گھر دیکھی تھی اور اس کی تصویر لے لی تھی جس پر یہ معلومات ہیں:
یہ اردو کی ساتویں کتاب
اشاعت:آفاق
ایڈیشن: 2017
فون نمبر میں 42-37150849 اور دیگر کئی فون نمبر دیے گئے ہیں۔
ص 89 پر جس عبارت پر سب سے زیادہ اعتراض ہے وہ یہ ہے:
اگر کسی شخص کو سانپ ڈس لے تو ایسی صورت میں فوری توجہ کی ضرورت ہے۔اس لیے جہاں سانپ نے کاٹا ہو اس پر ذرا اوپر کس کی کپڑا یا کوئی اور چیز باندھ دیں، پھر اس سے اوپر ایک اور پٹی باندھ دیں تا کہ خون کی گردش رک جائے۔ پھر تیز چھری یا چاقو کے ساتھ زخم کو گہرا کردیں تاکہ زہریلا خون باہر نکل جائے۔

یہ تکنیک اتنی آوٹ ڈیٹڈ ہے کہ دنیا بھر میں اس پر پابندی لگ چکی ہے۔ سانپ کے کاٹے کے بعد کبھی بھی ایسی پٹیاں نہیں کی جاتیں نہ ہی چاقو سے وار کرکے زخم گہرا کیا جاتا ہے جس کی وجوہات میں سے چند ایک یہ ہیں:
1۔ہمارا خون جسم میں جس رفتار سے (ایک منٹ میں تقریباً 60 سے 80 مرتبہ) گردش کرتا ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے اس پر پٹی باندھنا(جب کہ زہر خون میں شامل ہوچکا ہے) فائدہ مند نہیں بلکہ نقصان دہ ہے۔
2۔ اتنی ٹائٹ پٹی باندھنا جس سے دورانِ خون چالیس منٹ رک جائے یا چالیس سے 45 منٹ رک جائے ، وہ عضو ہمیشہ کے لیے معذور ہوسکتا ہے(90 فیصد سے زیادہ کیسز میں ایسا ہی ہوتا ہے)
3۔ اگر زہر اندر نہیں گیا، ایسے میں اس پر چاقو سے زخم گہرا کرنے سے وہ زہر اندر جاسکتاہے، شدید انفکشن اور دیگر مسائل جیسے الرجی وغیرہ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، کوئی بڑی ورید کٹ جائے تو جان کے لالے بھی پڑسکتے ہیں۔
5۔ اگر سانپ نے گردن، چہرہ یا کسی اور حساس حصے پر کاٹ لیا تو وہاں ایسی پٹی کرنا یا چاقو سے زخم گہرا کرنا بالکل ہی جان لیوا ہے۔
6۔ آخری بات جو سب سے پہلے ہونی چاہیے تھی وہ یہ کہ تمام سانپ زہریلے نہیں اس لیے یہ پریکٹسز جو انتہائی مشق طلب ہیں بنا کسی تشخیص کے کیسے کی جاسکتی ہیں ؟ اس لیے مریض کو فوری طورپر ہسپتال پہنچانا چاہیے جہاں اس کے سی بی سی، ای سی جی اور اس جیسے دوسرے ٹیسٹ اس کی تشخیص میں معاون ثابت ہوتے ہیں اور مخصوص اینٹی سنیک وینم کے ذریعے علاج کیا جاتا ہے۔
آفاق کے زونل ہیڈ کو یہ مراسلہ بھیج دیا ہے۔ انھوں نے جزاک اللہ کہا ہے اور اس کو دیکھنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ :)
 
آفاق کے زونل ہیڈ کو یہ مراسلہ بھیج دیا ہے۔ انھوں نے جزاک اللہ کہا ہے اور اس کو دیکھنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ :)
جزاک اللہ۔ جتنا کاہل میں ہوں شاید اسے اگلے دو ماہ اور نہ بھیج پاتا۔ پھر سے جزاک اللہ۔آپ ان سے یہ درخواست بھی کردیتے کہ فرسٹ ایڈ کے اس سارے مضمون کو کسی ماہر سے دوبارہ سے چیک کروالیں۔
 

جاسمن

لائبریرین
پنجاب بورڈ کی کتاب میں امام حسن۔امام حسین اور حضرت زہرا(س) کے بارے میں من گھڑت خرافات: گوھر پبلیکشنز 11- اردو بازار لاہور میں جن کا ہیڈ آفس ہے اور ذیلی آفس کراچی، اسلام آباد، دبئی اور مانچسٹر (انگلینڈ) میں ہیں اس ادارے نے ماؤنٹ ہل کی اسلامیات کی کتاب جو سکول میں دوسری جماعت کے بچوں کو پڑھائی جاتی ہے جس کتاب کا لکھنے والا طارق محمود اعوان ہے۔ اس کتاب میں لڑنے جھگڑنے پر ایک مضمون میں عامر محمود اعوان لکھتا ہے کہ : ایک دن حضرت امام حسنؑ اور حضرت امام حسینؑ جب وہ بچے تھے تو ان کے درمیان لڑائی جھگڑا ہوا۔ دونوں نے حضرت فاطمہ (س) سے شکایت کی۔

حضرت فاطمہ (س) نے ان کو جواب دیا کہ مجھے نہیں پتہ تم میں سے کس نے کس کو مارا لیکن مجھے یہ پتہ ہے کہ اللہ تم دونوں نے سے ناراض ہے۔۔۔۔ یہ من گھڑت قصہ دوسری جماعت کے بچوں کی کتاب میں لکھ کر یہ ادارہ کیا سمجھانا چاہتا ہے؟ اور بچوں کو جھوٹی داستانیں سنا کر کس کو راضی کر رہے ہیں؟ امام حسنؑ اور امام حسینؑ جب بچے تھے تب حضور اکرم (ص) نے فرمایا تھا یہ جنت کے سردار ہیں (اس بات پر شیعہ سنی حدیث کی کتب متفق ہیں) تو کیا آپؐ نے ایسے بچوں کو جنت کا سردار بنایا جن سے اللہ ناراض تھا ؟ اس نصاب کی کتاب کو فی الفور ختم کیا جائے اور عامر محمود اعوان اور متعلقہ ادارے سے ایسا واقعہ چھاپنے کی وجہ پوچھی جائے۔
2017-10-08-09-49-3148768_L.jpg

----------------------------------------------------------------------
کیا یہ ابھی بھی نصاب میں شامل میں ہے ؟
جاسمن محمد وارث یاز محمد خرم یاسین محمد تابش صدیقی

بہت ہی افسوس اور غم کی بات ہے۔۔۔۔وہ ہستیاں کہ جن کے لئے ہمارے دلوں میں انتہائی عزت و احترام اور محبت ہے،اُن کے بارے میں اِس طرح کے عنوانات کے تحت واقعات کو شامل کرنا اور اُن سے غلط مطالب و نتائج اخذ کرنے۔
استغفراللہ۔ اگر بچپن میں ایسی کوئی بات ہوئی بھی تو بچپن تو بچپن ہے۔ پھر اللہ اُن سے کیسے ناراض ہوسکتا ہے! اللہ تو ہمارے عام سے بچوں سے بھی ناراض نہیں ہوتا۔ ہمارے بچے ہم سے جب پوچھتے ہیں تو ہم اُنہیں یہی بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بچوں سے بہت پیار کرتے ہیں اور اُنہیں گناہ نہیں دیتے،اُن سے ناراض نہیں ہوتے۔ پھر وہ ہستیاں۔۔۔۔ہمارے پیارے نبیﷺ کے شہزادے۔ ہماری پیاری بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ہمارے پیارے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے راج دُلارے۔ جنت کے سردار۔ جن کے لئے پیارے نبیﷺ اپنے سجدے طویل کر دیتے تھے۔۔۔۔
ہم اِس بات پہ احتجاج کرتے ہیں۔اور میں اکمل زیدی کی اِس بات سے مکمل متفق ہوں کہ نہ صرف اِس کتاب کو مارکیٹ سے اُٹھایا جائے بلکہ اِسے لکھنے اور چھاپنے والوں سے پوچھ گچھ کی جائے۔
 

اکمل زیدی

محفلین
بہت ہی افسوس اور غم کی بات ہے۔۔۔۔وہ ہستیاں کہ جن کے لئے ہمارے دلوں میں انتہائی عزت و احترام اور محبت ہے،اُن کے بارے میں اِس طرح کے عنوانات کے تحت واقعات کو شامل کرنا اور اُن سے غلط مطالب و نتائج اخذ کرنے۔
استغفراللہ۔ اگر بچپن میں ایسی کوئی بات ہوئی بھی تو بچپن تو بچپن ہے۔ پھر اللہ اُن سے کیسے ناراض ہوسکتا ہے! اللہ تو ہمارے عام سے بچوں سے بھی ناراض نہیں ہوتا۔ ہمارے بچے ہم سے جب پوچھتے ہیں تو ہم اُنہیں یہی بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بچوں سے بہت پیار کرتے ہیں اور اُنہیں گناہ نہیں دیتے،اُن سے ناراض نہیں ہوتے۔ پھر وہ ہستیاں۔۔۔۔ہمارے پیارے نبیﷺ کے شہزادے۔ ہماری پیاری بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ہمارے پیارے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے راج دُلارے۔ جنت کے سردار۔ جن کے لئے پیارے نبیﷺ اپنے سجدے طویل کر دیتے تھے۔۔۔۔
ہم اِس بات پہ احتجاج کرتے ہیں۔اور میں اکمل زیدی کی اِس بات سے مکمل متفق ہوں کہ نہ صرف اِس کتاب کو مارکیٹ سے اُٹھایا جائے بلکہ اِسے لکھنے اور چھاپنے والوں سے پوچھ گچھ کی جائے۔

جزاک اللہ...
 
مجھے بھی بتائیں میں بھی یاز پائن والا "کرتا ہوں کچھ" وغیرہ وغیرہ

کرتا ہوں لیکن مجھے یقین ہے جب تک کورٹ کے ذریعے بات نہ کی جائے یہ کبھی بھی اپنی کتب میں تبدیلی نہیں کریں گے۔ ان کے لیے تعلیم کاروبار ہے اور کون بھلا ایک فون کے بدلے لاکھوں روپے کی کتب کے کچھ صفحات کو ری پرنٹ کرے گا۔ بہرحال میں ان شا اللہ پرسوں ہی کام کرتا ہوں۔

مجھے بھی تفصیل سے آگاہ کر دیجیے گا۔ کہ کیا مسائل ہیں۔ میں اپنی "اپروچ" لگاتا ہوں۔ :)

اپنی کوشش تو کرنی چاہیے۔ آپ ضرور کریں۔ بلکہ مجھے بھی بتائیں میں بھی کچھ کرتی ہوں۔
 

فاخر رضا

محفلین
سانپ کے کاٹے کے مریض اگر اسپتال پہنچ جائیں تو بچ سکتے ہیں
میں نے آئی سی یو میں بہت ہی خراب کیسس کو ٹھیک ہو کر گھر جاتے دیکھا ہے
 
مجھے بھی بتائیں میں بھی یاز پائن والا "کرتا ہوں کچھ" وغیرہ وغیرہ
ادھر پائن والا "کرتا ہوں کچھ" نہیں ہے۔ :)
آفاق کے زونل ہیڈ کو یہ مراسلہ بھیج دیا ہے۔ انھوں نے جزاک اللہ کہا ہے اور اس کو دیکھنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ :)
 

فاخر رضا

محفلین
مجھے انگلینڈ میں اسلامیات کی کتاب پڑھنے کا اتفاق ہوا. ستر اسی فیصد تک قابل قبول تھی میرے لئے
 

نسیم زہرہ

محفلین
پنجاب بورڈ کی کتاب میں امام حسن۔امام حسین اور حضرت زہرا(س) کے بارے میں من گھڑت خرافات: گوھر پبلیکشنز 11- اردو بازار لاہور میں جن کا ہیڈ آفس ہے اور ذیلی آفس کراچی، اسلام آباد، دبئی اور مانچسٹر (انگلینڈ) میں ہیں اس ادارے نے ماؤنٹ ہل کی اسلامیات کی کتاب جو سکول میں دوسری جماعت کے بچوں کو پڑھائی جاتی ہے جس کتاب کا لکھنے والا طارق محمود اعوان ہے۔ اس کتاب میں لڑنے جھگڑنے پر ایک مضمون میں عامر محمود اعوان لکھتا ہے کہ : ایک دن حضرت امام حسنؑ اور حضرت امام حسینؑ جب وہ بچے تھے تو ان کے درمیان لڑائی جھگڑا ہوا۔ دونوں نے حضرت فاطمہ (س) سے شکایت کی۔

حضرت فاطمہ (س) نے ان کو جواب دیا کہ مجھے نہیں پتہ تم میں سے کس نے کس کو مارا لیکن مجھے یہ پتہ ہے کہ اللہ تم دونوں نے سے ناراض ہے۔۔۔۔ یہ من گھڑت قصہ دوسری جماعت کے بچوں کی کتاب میں لکھ کر یہ ادارہ کیا سمجھانا چاہتا ہے؟ اور بچوں کو جھوٹی داستانیں سنا کر کس کو راضی کر رہے ہیں؟ امام حسنؑ اور امام حسینؑ جب بچے تھے تب حضور اکرم (ص) نے فرمایا تھا یہ جنت کے سردار ہیں (اس بات پر شیعہ سنی حدیث کی کتب متفق ہیں) تو کیا آپؐ نے ایسے بچوں کو جنت کا سردار بنایا جن سے اللہ ناراض تھا ؟ اس نصاب کی کتاب کو فی الفور ختم کیا جائے اور عامر محمود اعوان اور متعلقہ ادارے سے ایسا واقعہ چھاپنے کی وجہ پوچھی جائے۔
2017-10-08-09-49-3148768_L.jpg
 
آخری تدوین:
Top