داغ یہ جو حکم ہے میرے پاس نہ آئے کوئی

باباجی

محفلین
بہت ہی خوب بابا جی !
تشکّر ، شیئر کرنے پر
بہت خوش رہیں
(کچھ ٹائپو ہیں، گر درست کردی جائیں تو کیا بات ہے !)
بہت شکریہ شاہ جی پسندیدگی کا :)
ٹائپو کیا ہے مجھے نہیں پتا
آپ درست کردیں جو غلط ہے اور ٹائپو کا بھی بتادیں
 

باباجی

محفلین
آپ نے "داغ" کو منہ بھی نہ لگایا افسوس
اس کو رکھتا تھا کلیجے سے لگائے کوئی
واہ جی واہ کیا کہنے داغ انکل کے
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے
بہت شکریہ خرم بھائی پسندیدگی کا :bighug:
 

فاتح

لائبریرین
داغ دہلوی کی ایک خوبصورت غزل۔۔۔ ٹیگ کرنے پر ممنون ہوں۔
تقریباً تمام اشعار ہی میں ٹائپو ہیں علاوہ ازیں اس خوبصورت غزل کے اکثر اشعار موجود ہی نہیں۔ یہ مکمل غزل درست شکل میں آپ کی محبتوں کی نذر:
یہ جو ہے حکم مرے پاس نہ آئے کوئی
اس لئے روٹھ رہے ہیں کہ منائے کوئی

یہ نہ پوچھو کہ غمِ ہجر میں کیسی گذری
دل دِکھانے کا اگر ہو تو دِکھائے کوئی

تاک میں ہے نگہِ شوق، خدا خیر کرے
سامنے سے مرے بچتا ہُوا جائے کوئی

ہو چکا عیش کا جلسہ تو مجھے خط بھیجا
آپ کی طرح سے مہمان بلائے کوئی

ترکِ بیداد کی تم داد نہ چاہو مجھ سے
کر کے احسان نہ احسان جتائے کوئی

یوں شبِ وصل ہو بالیدگیِ عیش و نشان
آپ اپنے میں خوشی سے نہ سمائے کوئی

حال افلاک و زمیں کا جو بتایا بھی تو کیا
بات وہ ہے جو ترے دل کی بتائے کوئی

دردِ الفت کے مزے لیتے ہیں قسمت والے
خونِ دل زہر نہیں ہے کہ نہ کھائے کوئی

کیا وہ مے داخلِ دعوت ہی نہیں اے واعظ!
مہربانی سے بلا کر جو پلائے کوئی

وعدۂ وصل اِسے جان کے خوش ہو جاؤں
وقتِ رخصت بھی اگر ہاتھ ملائے کوئی

سرد مہری سے زمانے کی ہُوا ہے دل سرد
رکھ کر اس چیز کو کیا آگ لگائے کوئی

آپ نے داغؔ کو منہ بھی نہ لگایا افسوس
اس کو رکھتا تھا کلیجے سے لگائے کوئی​
داغؔ دہلوی​
 

باباجی

محفلین
داغ دہلوی کی ایک خوبصورت غزل۔۔۔ ٹیگ کرنے پر ممنون ہوں۔
تقریباً تمام اشعار ہی میں ٹائپو ہیں علاوہ ازیں اس خوبصورت غزل کے اکثر اشعار موجود ہی نہیں۔ یہ مکمل غزل درست شکل میں آپ کی محبتوں کی نذر:
یہ جو ہے حکم مرے پاس نہ آئے کوئی​
اس لئے روٹھ رہے ہیں کہ منائے کوئی​
یہ نہ پوچھو کہ غمِ ہجر میں کیسی گذری​
دل دِکھانے کا اگر ہو تو دِکھائے کوئی​
تاک میں ہے نگہِ شوق، خدا خیر کرے​
سامنے سے مرے بچتا ہُوا جائے کوئی​
ہو چکا عیش کا جلسہ تو مجھے خط بھیجا​
آپ کی طرح سے مہمان بلائے کوئی​
ترکِ بیداد کی تم داد نہ چاہو مجھ سے​
کر کے احسان نہ احسان جتائے کوئی​
یوں شبِ وصل ہو بالیدگیِ عیش و نشان​
آپ اپنے میں خوشی سے نہ سمائے کوئی​
حال افلاک و زمیں کا جو بتایا بھی تو کیا​
بات وہ ہے جو ترے دل کی بتائے کوئی​
دردِ الفت کے مزے لیتے ہیں قسمت والے​
خونِ دل زہر نہیں ہے کہ نہ کھائے کوئی​
کیا وہ مے داخلِ دعوت ہی نہیں اے واعظ!​
مہربانی سے بلا کر جو پلائے کوئی​
وعدۂ وصل اِسے جان کے خوش ہو جاؤں​
وقتِ رخصت بھی اگر ہاتھ ملائے کوئی​
سرد مہری سے زمانے کی ہُوا ہے دل سرد​
رکھ کر اس چیز کو کیا آگ لگائے کوئی​
آپ نے داغؔ کو منہ بھی نہ لگایا افسوس​
اس کو رکھتا تھا کلیجے سے لگائے کوئی​
داغؔ دہلوی​
واہ بہت خوب استاد محترم
بہت شکریہ مکمل غزل شیئر کرنے کا

کیا وہ مے داخلِ دعوت ہی نہیں اے واعظ!
مہربانی سے بلا کر جو پلائے کوئی
 
Top