یہ دل درگاہِ الفت ہے یہاں نذرانے آتے ہیں

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
کبھی مہمیز ہو کر دشمنی ٹھوکر لگاتی ہے
کبھی دیوار بن کر سامنے یارانے آتے ہیں
بندہ پرور! یہ شعر خادم کو مطلق بھرتی کا لگا۔ دونوں مصرعے مل کر بھی اچھے معنی پر قادرنہیں ہیں اور غزل کے آہنگ اور روانی سے متصادم ہیں۔ اس کو حذف کر دیں تو بہتر ہوگا۔ ایسا میرا خیال ہے۔ یوں آپ بہتر جانتے ہیں۔ کبھی کبھی اپنی معنوی اولاد کو رخصت نامہ دینے میں ہرج نہیں ہے۔
کبھی مہمیز ہو کر دشمنی ٹھوکر لگاتی ہے
کبھی دیوار بن کر سامنے یارانے آتے ہیں
آپ کی اس بات سے متفق ہوں کہ اس شعر کا لب و لہجہ اور آہنگ بقیہ اشعار سے مختلف ہے ۔ لیکن غزل کی صنف شاعر کو اتنی آزادی تو دیتی ہے کہ وہ مختلف انداز اور لب و لہجے کے اشعار ایک ہی غزل میں جمع کرسکے۔ ویسے یہ بہتر ہوتا کہ میں اس شعر کو غزل کے آخر میں قطع بند سے پہلے رکھ دیتا تاکہ اس کا مختلف رنگ اتنا نمایاں نہ ہوتا۔
جہاں تک شعر میں اچھے معنی ہونے یا نہ ہونے کا تعلق ہے تو، گستاخی معاف ، میں سمجھتا ہوں کہ اس شعر میں اچھا مضمون ہے ۔ دوستی اور دشمنی کے سلسلے میں عام مشاہدہ اور متوقع رویہ تو یہ ہے کہ دشمن راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں ، آپ کو دھکا دے کر گرانے اور رفتار کم کر نے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ دوست راہ سے پتھر ہٹاتے ہیں اور راہ ہموار کرتے ہیں۔ لیکن شاعر یہاں اپنی زندگی کے تجربات اور اُن پر اپنا ردِ عمل بیان کررہا ہے کہ بعض اوقات دشمن میری راہ روک کر مجھے آہستہ کرنے کے بجائے مزید سعی و کوشش پر ابھار دیتے ہیں ۔ یعنی دشمنوں کی ٹھوکر میرے لیے الٹا مہمیز ثابت ہوتی ہے۔ اور بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ دوستی اور دوستی نبھانے کے تقاضے میری راہ ہموار کرنے کے بجائے راہ کی دیوار ثابت ہوتے ہیں ۔ یہ معانی تو اس شعر میں صاف ظاہر ہیں اور یہ ٹھیک ٹھاک مضمون ہے ۔ یہ مضمون آپ کے مخصوص طرزِ فکر اور غزل کے روایتی رنگ سے مطابقت نہیں رکھتا چنانچہ اسے غزل نکالا دینے کے بارے میں آپ کی رائے سمجھ میں آتی ہے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ ذرا مختلف ذوق رکھنے والے بہت سے قارئین اس شعر کو سمجھ سکتے ہیں ، اپنی زندگی کے تجربات پر اس کا اطلاق کرسکتے ہیں اور اس کا لطف لے سکتے ہیں ۔
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
کوئی تو بات ہوتی ہے تبھی تو بنتی ہیں باتیں
زمانے کے لبوں پر کب یونہی افسانے آتے ہیں
شعر بہت ڈھیلا ڈھالا ہے ۔ اس کی بنت بہت کمزور اور کم اثر ہے اور بندش نہایت سست۔ پہلا مصرع قدرے بے ربطی اور نیم پختہ طرز بیا ن کا بھی شکار ہے اور دوسرا مصرع : کب یونہی: میں و کی تخفیف پر لڑکھڑا رہا ہے۔ اس کو یوں کر کے دیکھئے ، انشااللہ بات بن جائے گی۔

:کوئی تو بات ہے یارو کہ رُسوائے محبت ہوں!
زمانے کے لبوں پر یونہی کب افسانے آتے ہیں؟:
میرا شعر:
کوئی تو بات ہوتی ہے تبھی تو بنتی ہیں باتیں
زمانے کے لبوں پر کب یونہی افسانے آتے ہیں
آپ کی تجویز:
کوئی تو بات ہے یارو کہ رُسوائے محبت ہوں!
زمانے کے لبوں پر یونہی کب افسانے آتے ہیں؟

سرور بھائی ، آپ کے مجوزہ مصرع نے تو شعر کا مطلب ہی یکسر بدل دیا۔ یہ تو ایک بالکل ہی دوسرا مضمون ہوگیا۔ اس شعر میں میرا مدعا صرف اتنا ہے کہ لوگ بلاوجہ افسانے نہیں بناتے ، کوئی نہ کوئی بات تو ضرور ہوتی ہے کہ جس کو بنیاد بنا کرکہانیاں گھڑی جاتی ہیں۔ اس شعر کا کوئی تعلق محبت اور عشق وغیرہ سے نہیں ہے ۔ یہ ایک عام بات ہے جس کا اطلاق زندگی کے کسی بھی شعبے پر کیا جاسکتا ہے ۔ سیاسی میدان ہو یا معاشرتی حلقے ، دفتر ہو یا گھر ہر جگہ اس شعر کو فٹ کیا جاسکتا ہے کہ اس میں ایک آفاقی مضمون باندھا گیا ہے۔ آپ نے اسے صرف عشق و محبت سے متعلق کرکے اس کا کینوس بہت چھوٹا کردیا ۔
سرور بھائی ، نہایت معذرت کے ساتھ عرض کروں گا کہ آپ کا مجوزہ مصرع "کوئی تو بات ہے یارو کہ رُسوائے محبت ہوں!" اُسی کلیشے زدہ طرزِفکر کا عکاس ہے کہ جس سے میں شعوری طور پر دور رہنے کی کوشش کرتا ہوں۔ نہ تو میں رسوائے محبت ہوں اور نہ ہی یارو ں کو پکار کر اس کا اعلان کرنا چاہتا ہوں۔ معذرت کہ یہ طرزِ فکر سو سال پرانی شاعری کا ہے ۔ میرا مصرع "کوئی تو بات ہوتی ہے تبھی تو بنتی ہیں باتیں" یقیناً بندش میں ڈھیلا ہے لیکن میرا مدعا بخوبی ادا کرتا ہے۔ اس مصرع کو بہتر بنانے پر یقینا کام کیا جاسکتا ہے لیکن آپ کا مجوزہ مصرع نہ صرف مضمونِ شعر کو بدل رہا ہے بلکہ میری طرزِ فکر کے خلاف ہے۔ میں معذرت چاہتا ہوں اگر کوئی گستاخی ہوگئی ہو لیکن میں چاہتا تھا کہ اس شعر کے توسط سے ایک دو باتیں شعر برائے شعر اور شعر برائے اظہارِ حقیقت کے موازنے پر ہو جائیں ۔
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
روایت ہے یہی مے خانۂ اقدارِ دنیا کی
پرانے ٹوٹ جائیں تو نئے پیمانے آتے ہیں
آپ نے :میخانہء اقدار دُنیا : ترکیب اختراع کی ہے۔ کوشش تو اچھی ہے لیکن ترکیب سپاٹ ہے اور طبیعت کو بالکل متاثرنہ کر سکی۔ یہ میری افتاد طبع کا قصور بھی ہو سکتا ہے ۔ شعر کا مضمون اور اس کا بیان بھی چستی اور بلندی کا متقاضی ہے تاکہ پڑھنے میں کچھ تو لطف آئے۔ دیکھئے درج ذیل کوشش کیسی ہے :

:روایت ہے یہی کیا زندگی کے بادہ خانے کی
پرانے ٹوٹنے پر ہی نئے پیمانے آتے ہیں ؟ :
میرا شعر:
روایت ہے یہی مے خانۂ اقدارِ دنیا کی
پرانے ٹوٹ جائیں تو نئے پیمانے آتے ہیں
آپ کی تجویز:
روایت ہے یہی کیا زندگی کے بادہ خانے کی
پرانے ٹوٹنے پر ہی نئے پیمانے آتے ہیں ؟

سرور بھائی ، اقدار کا لفظ ہی تو اس شعر کا کلیدی لفظ اور بنیادی خیال ہے ۔ واضح طور پر اس شعر میں یہ خیال باندھا گیا ہے کہ دنیا کی اقدار بدلتی رہتی ہیں۔ انقلاباتِ زمانہ کے تحت جب پرانی اقدار ختم ہوجاتی ہیں تو کچھ نئی قدریں ان کی جگہ معاشرے میں رائج ہوجاتی ہیں ۔ (موجودہ دور میں ہم اقدار کی اس تیز رفتار تبدیلی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ) ۔اس بات کو بیان کرنے کے لیے میں نے مے خانۂ اقدارِ دنیا کی ترکیب وضع کی تاکہ پھر شعر میں پیمانے کا لفظ استعمال کیا جاسکے۔ اس شعر میں پیمانے کا لفظ معنی خیز ہے ۔ یہاں اقدار کے پیمانوں کی بات ہورہی ہے۔ ظاہرہے کہ قدروں کو ناپنے کے لیے بھی کسی پیمانے کا ہونا ضروری ہے۔ اسی پیمانے کی حوالے سے اقدار کے اچھے اور برے ہونے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ اقدار کے یہ پیمانے جب ٹوٹ جائیں تو پھر نئے پیمانوں کے تحت نئی اقدار جنم لیتی ہیں ۔

آپ نے اپنے مجوزہ شعر میں اقدار کا لفظ ہی سرے سے اڑادیا جبکہ یہ شعر اقدار ہی سے متعلق ہے۔ اقدار کے بجائے آپ نے زندگی کے بادہ خانے کی بات کردی۔ اب اس بادہ خانے میں پیمانے کے کیا معنی ہوئے ؟ کس پیمانے کی بات ہورہی ہے؟ اس کا جواب تو شعر میں نہیں ملتا۔ میرے شعر میں تو صاف طور پر اقدار کے پیمانے کی بات ہورہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ کے مجوزہ مصرع سے شعر مبہم بلکہ بے معنی ہوگیا ہے۔ دوسرے یہ کہ آپ کے شعر میں سوالیہ انداز اختیار کرنے کا مقصد بھی میری سمجھ میں نہیں آیا۔ یہ سوال کیوں پوچھا جارہا ہے کہ کیا زندگی کے بادہ خانے کی یہی روایت ہے؟؟ میں نے جو بات اپنے شعر میں بیان کی ہے وہ ایک آفاقی حقیقت ہے اور اس کی سچائی پر سوال اٹھانےکی کوئی ضرورت نہیں ۔ بس اس کا بیان کردینا ادائے مطلب کے لیےکافی ہے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
نہیں کھلتا ہر اک پر جلوۂ حسنِ فروزاں بھی
سلامت اب طوافِ شمع سے پروانے آتے ہیں
گستاخی معاف ! یہ شعر بہت سست ہے۔ ذہن پر زور دیجئے تو مطلب سمجھ میں تو آجاتا ہے لیکن ایک تو :جلوہء حسن فروزاں: اور اس پر :بھی: کا قدغن شعر کی معنی آفرینی کو سامنے آنے کا موقع نہیں دیتے۔ کیا کچھ پروانے ایسے بھی ہیں جن پر : حسن فروزاں: کا جلوہ اپنے راز فاش کردیتا ہے؟ آخر سب پر یہ نوازش کیوں نہیں ہے؟ بہر کیف دوسرا مصرع پہلے کا ساتھ نہیں دے سکا ہے ۔ کچھ انداز بیان بدل کر دیکھیں؟ شاید کوئی فرق نظر آئے۔ انشا اللہ۔

:نہیں کھلتا یہ راز ِحسن، یہ کیسا تماشا ہے ؟
سلامت کیوں طواف ِ شمع سے پروانے آتے ہیں؟:
میرا شعر:
نہیں کھلتا ہر اک پر جلوۂ حسنِ فروزاں بھی
سلامت اب طوافِ شمع سے پروانے آتے ہیں
آپ کی تجویز:
نہیں کھلتا یہ رازِ حسن، یہ کیسا تماشا ہے ؟
سلامت کیوں طوافِ شمع سے پروانے آتے ہیں؟

سرور بھائی ، یہ تہ دار شعر ہے اور اس کی تہیں ذرا سا غور و فکر کرنے پر ہی کھلیں گی۔ پہلے مصرع میں “بھی” کی قدغن “فروزاں” کی وجہ سے ہے۔ یعنی اگر کسی پروانے پر شمع کا جلوۂ حسن نہ کھل سکے تو ایسی بڑی بات نہیں لیکن جب شمع جل رہی ہو (فروزاں ہو) اور پروانہ اس کا طواف کررہا ہو اور پھر بھی اُس پروانے پر شمع کا جلوۂ حسن نہ کھلے تو یہ تشویش اور شکوے کی بات ہے۔
جیسا کہ آپ جانتے ہی ہیں اردو کی شعری روایت میں پروانے اور شمع کے تمام اشعار عشقِ حقیقی سے متعلق ہیں۔ جب پروانے ( یعنی عاشق) پر شمع( یعنی محبوب) كا جلوه آشکار ہوجائے تو وہ اس کا طواف کرتے کرتے اپنے آپ کو فنا کردیتا ہے یعنی شہیدِ عشق ہوجاتا ہے۔ اس شعر میں یہی کہا گیا ہے کہ یوں تو جلوہ کے طلب گار ہزاروں پروانے طوافِ شمع کو جاتے ہیں لیکن ہر پروانے پر جلوہ آشکار نہیں ہوتا ، کچھ پروانے راکھ ہونے اور فنا ہونے کے بجائے طواف سے زندہ سلامت لوٹ آتے ہیں۔ اور وجہ اس کی یہ بتائی گئی ہے کہ مسئلہ شمع کے ساتھ نہیں بلکہ پروانے کے ساتھ ہے۔ شمع تو بدستور پہلے کی طرح فروزاں ہے لیکن پروانے کے عشق اور طلب میں کمی ہے ۔ اس لیے نہ اُس پر جلوۂ حسن کھلتا ہے اور نہ ہی وہ فنا ہوتا ہے۔ بس طواف کی رسم پوری کرکے سلامت لوٹ آتا ہے ۔ جہاں تک میرا محدود مطالعہ مجھے بتاتا ہے اردو شاعری میں یہ مضمون اب تک میری نظر سے نہیں گزرا اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک نئی بات ہے۔
جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا میری کوشش ہوتی ہے کہ غزل کے روایتی اسلوب اور روایات کو ممکنہ حد تک برقرار رکھتے ہوئے اپنے عہد اور اپنی زندگی کی کوئی بات کروں۔ اس شعر کو سمجھنے کے لیے اس کا پس منظر یوں سمجھ لیجیے کہ میرے ارد گرد کئی لوگ ایسے ہیں جو متعدد بار کعبے کو جاچکے ہیں لیکن جیسے گئے تھے ویسے ہی لوٹ آئے ۔ نہ کچھ جلا ، نہ کچھ راکھ ہوا ۔ ان کا طرزِ زندگی ابھی تک مجھ گناہگار جیسا ہی ہے۔ کچھ بھی نہیں بدلا۔

سلامت اب طوافِ شمع سے پروانے آتے ہیں!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
مسافر ہوں ، الہٰی خیر میرے دین و ایماں کی
مرے رستے میں کچھ مسجد نما بتخانے آتے ہیں
یہاں : مسافر ہوں : کا کیا مقام اور ضرورت ہے؟ یہ بھرتی کا ہے اور اس کو حذف کرنا مستحسن ہے۔ اگر آپ مسافر نہ ہوتے تو یہ راہ کے بتخانے کیا آپ کے دین و ایماں کو خطرہ میں نہیں ڈال سکتے تھے؟ دوئم یہ کہ :مرے رستے: بھی بھرتی ہے۔ جب آپ :مسافر ہیں : تو لازمی طور سے راستے میں ہی ہوں گے۔شعر بدلنے کی ضرورت ہے ۔ دیکھئے یہ ترمیم کیسی ہے۔ شکریہ۔

:مجھے ہے فکر ایماں برملا! توبہ، معاذاللہ
رہ اُلفت میں کچھ مسجد نما بتخانے آتے ہیں !:
میرا شعر:
مسافر ہوں ، الہٰی خیر میرے دین و ایماں کی
مرے رستے میں کچھ مسجد نما بتخانے آتے ہیں
آپ کی تجویز:
مجھے ہے فکر ایماں برملا! توبہ، معاذاللہ!
رہِ اُلفت میں کچھ مسجد نما بتخانے آتے ہیں

سرور بھائی ، اس شعر میں راہیِ حق کی بات ہورہی ہے۔ (شعر میں مسجد اور بتخانے کے تلازمات استعمال کیے گئے ہیں)۔ تلاشِ حق ایک مسلسل عمل ہے ، خصوصاً آج کی پرفریب اور عیار دنیا میں کہ جب کھوٹے کھرے کی پہچان مشکل تر ہوتی جارہی ہے ۔ مذہب کے نام پر کیا کچھ نہیں کیا جارہا ہے۔ خضر صورت عبا پوش اور کلاہ پوش مذہبی علمائے سوء کس کس طرح لوگوں کو نہیں بھٹکارہے۔

یہ اس نوع کا شعر ہے کہ جنہیں ایک مصرع کا شعر کہا جاتا ہے ۔ اس شعر کا اصل اور پورا خیال مصرعِ ثانی ہی میں بیان ہوگیا ہے۔ ( مرے رستے میں کچھ مسجد نما بتخانے آتے ہیں)۔ یہ مضمون مد نظر رکھتے ہوئے اب مصرعِ اول کو جس طرح چاہیں کہہ دیں شعر کے مجموعی خیال پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ مصرعِ ثانی اپنی جگہ بذاتِ خود ایک مکمل مضمون بیان کرر ہا ہے۔ پہلے مصرع میں " مسافر ہوں" کا ٹکڑا بیشک زائد ہے لیکن اس کے بعد "یا الہٰی ! خیر میرے دین و ایماں کی" کہنے سے پہلے مصرع کے لیے ایک تمہید پیدا کی گئی ہے کہ میں راہِ حق کا مسافر ہوں ، تلاشِ حق میں ہوں۔ اب اس تمہید کے بعد مصرعِ ثانی کے معانی فوراً کھل کر سامنے آجاتے ہیں ۔ بعض دفعہ تاکید اور زور پیدا کرنے کے لیے ایک ہی بات کو دہرادیا جاتا ہے ۔ چنانچہ یہ اضافی بات حشوِ قبیح کی ذیل میں نہیں آئے گی۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ مصرعِ ثانی ایسا ہے کہ مصرعِ اول میں کسی خاص بات کے کہنے کی ضرورت نہیں ۔ سو اس میں تمہید کے الفاظ ہی لائے جاسکتے ہیں ۔

آپ نے جو شعر تجویز کیا ہے اس میں راہِ الفت کی ترکیب میری ناقص رائے میں بے محل بلکہ نامناسب ہے ۔ یہاں بات راہِ حق کی ہورہی ہے ، عشق اور محبت کا تذکرہ نہیں ہے۔ راہِ الفت میں بھلا مسجد کب آتی ہے؟ آپ کے مجوزہ مصرعِ اول کی زبان بھی بہت پرانی ہے ۔ مجھے ہے فکرِ ایماں برملا! توبہ، معاذاللہ ۔ اب ایسی زبان غزل میں استعمال نہیں ہوتی۔ کم از کم میں نہیں کرتا۔ نیز یہ کہ برملا ، توبہ اور معاذ اللہ بھی تو بھرتی کے الفاظ ہیں۔ یہ الفاظ شعر کے معنی میں کچھ اضافہ نہیں کرتے۔ سو آپ کی اس مجوزہ ترمیم کا جواز تو مجھے بالکل بھی سمجھ میں نہیں آیا ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
آخر کے تین اشعار کو آپ نے قطع بند بنانے کی کوشش کی ہے لیکن کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ برا نہ مانیں لیکن یہ تینوں اشعار کمزور اور اپنے معانی قاری پر ظاہر کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ اشعار کے قوافی اپنا فرض نبھانے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہیں اور اشعار کی بنت بھی کمزوری سے آشنا ہے۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ پہلے دو اشعارکو تبدیل کریں اورتیسرے کو مقطع سے بدل دیں۔اس میں محنت اور فکر تولگے گی لیکن پھر تینوں اشعار غزل سے آہنگ اور پیرایہء بیان میں ایک جان ہو جائیں گے اور غزل مکمل ہو جائے گی۔ آپ سوچ لیں ۔ اس سے بہتر کوئی اور صورت ہے تو اس کو آزمایا جاسکتا ہے۔ واللہ اعلم۔ فی الحال اپنی تجویز پیش کرتا ہوں۔ نگاہ انتقاد و انتخاب کی درخواست ہے۔
کوئی تصویر سی تصویر ہے آنکھوں میں وحشت کی
مجھے آباد شہروں میں نظر ویرانے آتے ہیں
اس کو درج ذیل شکل دی جا سکتی ہے لیکن میں اس صورت سے مطمئن نہیں ہوں تا وقتیکہ آپ اپنی رائے سے آگاہ کریں:

:کوئی تصویر سی تصویر ہے آنکھوں میں وحشت کی
تمھارے شہر میں مجھ کو نظر ویرانے آتے ہیں:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی تعزیر سی تعزیر ہے اک جرمِ عشرت کی
جدھر جاؤں تعاقب میں کئی غم خانے آتے ہیں
یہ شعر الجھا ہو ا ہے اور اپنے معنی میں بھی صاف نہیں ہے۔ غم خانے آپ کے :تعاقب: میں کیسے آ سکتے ہیں اور وہ بھی :کئی: غم خانے ؟ شعر بہت کمزور ہے اور بہتری کا متقاضی ہے۔

:خدایا کیایہی تعزیر ہے اک جرم اُلفت کی؟
مرے آنسو مجھے ہر گام پر شرمانے آتے ہیں:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی تعبیر سی تعبیر ہے اک خوابِ عزلت کی
غزالانِ جنوں پیشہ مجھے بہلانے آتے ہیں
اس شعر کو سمجھنے سے میں قاصر ہوں۔ اگر اس کو آپ مقطع میں تبدیل کردیں تو بہتر ہوگا۔ غزل بھی اس صورت میں مکمل ہو جائے گی۔ انشا اللہ

آخر کے تین اشعار تاثراتی اشعار ہیں ۔ گویا اس قطع بند کو غزل کے بیچ میں ایک چھوٹی سی تاثراتی نظم کہیے۔ ان میں ہر مفرد شعر کا مطلب شاید اتنا متاثر کن نہ لگے لیکن جب ان کو مجموعی طور پر ایک مسلسل نظم کی صورت میں دیکھیں تو ایک تاثر ضرور پیدا ہوگا ۔ سرور بھائی ، اس وقت رات خاصی گزر چکی ہے ۔ نیند پیچھے سے کالر کھینچ کھینچ کر مجھے بستر کی طرف لے جانے کی کوشش کررہی ہے ۔ صبح کام پر جانا ہے۔ اب مزید بیٹھنا دشوار ہورہا ہے ۔ ان شاء اللہ جلد ہی ان تین اشعار پر اظہارِ رائے کروں گا ۔ فی الحال یہاں رکتا ہوں۔

محترمی سرور راز صاحب ، ایک بار پھر آپ کا دلی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے اس غزل کو اس قدر توجہ سے دیکھا اور اپنی بیش بہا اور بے لاگ رائے سے نوازا۔ جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
اگر میرے قلم سے کوئی بات خلافِ ادب سرزد ہوگئی ہو تو میں دست بستہ انتہائی شرمندگی کے ساتھ معذرت کا طلبگار ہوں ۔اور آپ کی اعلیٰ ظرفی سے عفو و درگزر کا طالب ہوں ۔ آپ کی درازیِ عمر اور صحت و تندرستی کے لیے دعاگو ہوں ۔ اللہ کریم آپ کا سایہ سلامت رکھے۔ آمین ۔
تابعدار
ظہیرؔاحمد
 
کبھی مہمیز ہو کر دشمنی ٹھوکر لگاتی ہے
کبھی دیوار بن کر سامنے یارانے آتے ہیں
آپ کی اس بات سے متفق ہوں کہ اس شعر کا لب و لہجہ اور آہنگ بقیہ اشعار سے مختلف ہے ۔ لیکن غزل کی صنف شاعر کو اتنی آزادی تو دیتی ہے کہ وہ مختلف انداز اور لب و لہجے کے اشعار ایک ہی غزل میں جمع کرسکے۔ ویسے یہ بہتر ہوتا کہ میں اس شعر کو غزل کے آخر میں قطع بند سے پہلے رکھ دیتا تاکہ اس کا مختلف رنگ اتنا نمایاں نہ ہوتا۔
جہاں تک شعر میں اچھے معنی ہونے یا نہ ہونے کا تعلق ہے تو گستاخی معاف ، سرور بھائی،آپ شاید اس شعر سے سرسری گزر گئے ۔ دوستی اور دشمنی کے سلسلے میں عام مشاہدہ اور متوقع رویہ تو یہ ہے کہ دشمن راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں ، آپ کو دھکا دے کر گرانے اور رفتار کم کر نے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ دوست راہ سے پتھر ہٹاتے ہیں اور راہ ہموار کرتے ہیں۔ لیکن شاعر یہاں اپنی زندگی کے تجربات اور اُن پر اپنا ردِ عمل بیان کررہا ہے کہ بعض اوقات دشمن میری راہ روک کر مجھے آہستہ کرنے کے بجائے مزید سعی و کوشش پر ابھار دیتے ہیں ۔ یعنی دشمنوں کی ٹھوکر میرے لیے الٹا مہمیز ثابت ہوتی ہے۔ اور بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ دوستی اور دوستی نبھانے کے تقاضے میری راہ ہموار کرنے کے بجائے راہ کی دیوار ثابت ہوتے ہیں ۔ یہ معانی تو اس شعر میں صاف ظاہر ہیں اور یہ ٹھیک ٹھاک مضمون ہے ۔ یہ مضمون آپ کے مخصوص طرزِ فکر اور غزل کی بابت رویے سے مطابقت نہیں رکھتا لیکن بہت سارے مختلف ذوق رکھنے والے قارئین اس شعر کو سمجھ سکتے ہیں ، اپنی زندگی کے تجربات پر اس کا اطلاق کرسکتے ہیں اور اس کا لطف لے سکتے ہیں ۔
محترم سر ظہیراحمدظہیر صاحب!
نہایت ادب سے (اپنی اصلاح کے لیے) سوال ہے کہ دشمنی کی ٹھوکر آپ کو مہمیز کرتی ہے لیکن مصرعہ میں دشمنی مہمیز ہوتی ہے اور ٹھوکر لگاتی ہے تو کیا اس کو اس طرح نہیں ہونا چاہیے تھا:
کبھی مہمیز کرنے دشمنی ٹھوکر لگاتی ہے
 
میرا شعر:
کوئی تو بات ہوتی ہے تبھی تو بنتی ہیں باتیں
زمانے کے لبوں پر کب یونہی افسانے آتے ہیں
آپ کی تجویز:
کوئی تو بات ہے یارو کہ رُسوائے محبت ہوں!
زمانے کے لبوں پر یونہی کب افسانے آتے ہیں؟

سرور بھائی ، آپ کے مجوزہ مصرع نے تو شعر کا مطلب ہی یکسر بدل دیا۔ یہ تو ایک بالکل ہی دوسرا مضمون ہوگیا۔ اس شعر میں میرا مدعا صرف اتنا ہے کہ لوگ بلاوجہ افسانے نہیں بناتے ، کوئی نہ کوئی بات تو ضرور ہوتی ہے کہ جس کو بنیاد بنا کرکہانیاں گھڑی جاتی ہیں۔ اس شعر کا کوئی تعلق محبت اور عشق وغیرہ سے نہیں ہے ۔ یہ ایک عام بات ہے جس کا اطلاق زندگی کے کسی بھی شعبے پر کیا جاسکتا ہے ۔ سیاسی میدان ہو یا معاشرتی حلقے ، دفتر ہو یا گھر ہر جگہ اس شعر کو فٹ کیا جاسکتا ہے کہ اس میں ایک آفاقی مضمون باندھا گیا ہے۔ آپ نے اسے صرف عشق و محبت سے متعلق کرکے اس کا کینوس بہت چھوٹا کردیا ۔
سرور بھائی ، نہایت معذرت کے ساتھ عرض کروں گا کہ آپ کا مجوزہ مصرع "کوئی تو بات ہے یارو کہ رُسوائے محبت ہوں!" اُسی گھسے پٹے اور کلیشا زدہ طرزِفکر کا عکاس ہے کہ جس سے میں شعوری طور پر دور رہنے کی کوشش کرتا ہوں۔ نہ تو میں رسوائے محبت ہوں اور نہ ہی یارو ں کو پکار کر اس کا اعلان کرنا چاہتا ہوں۔ معذرت کہ یہ طرزِ فکر سو سال پرانی شاعری کا ہے ۔ میرا مصرع "کوئی تو بات ہوتی ہے تبھی تو بنتی ہیں باتیں" یقیناً بندش میں ڈھیلا ہے لیکن میرا مدعا بخوبی ادا کرتا ہے۔ اس مصرع کو بہتر بنانے پر یقینا کام کیا جاسکتا ہے لیکن آپ کا مجوزہ مصرع نہ صرف مضمونِ شعر کو بدل رہا ہے بلکہ میری طرزِ فکر کے خلاف ہے۔ میں معذرت چاہتا ہوں اگر کوئی گستاخی ہوگئی ہو لیکن میں چاہتا تھا کہ اس شعر کے توسط سے ایک دو باتیں شعر برائے شعر اور شعر برائے اظہارِ حقیقت کے موازنے پر ہو جائیں ۔
محترم سر ظہیراحمدظہیر صاحب!
پھر نہایت ادب سے (اپنی اصلاح کے لیے) سوال ہے کہ :
ریختہ لغت میں بات بَنْنا کے اردو معانی · ۱. حسب مراد صورت پیدا ہونا ، کام چلنا ، کامیابی ہونا ، حالات کا ساز گار ہونا. · ۲. عزت قایم ہونا ،وقار حاصل ہونا
باتیں بنانا کا وہ معنی ہے جو آپ کے شعر میں لیا گیاہے
کیا شعر کے مفہوم میں ابہام نہیں ہوگا؟
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
محترم سر ظہیراحمدظہیر صاحب!
پھر نہایت ادب سے (اپنی اصلاح کے لیے) سوال ہے کہ :
ریختہ لغت میں بات بَنْنا کے اردو معانی · ۱. حسب مراد صورت پیدا ہونا ، کام چلنا ، کامیابی ہونا ، حالات کا ساز گار ہونا. · ۲. عزت قایم ہونا ،وقار حاصل ہونا
باتیں بنانا کا وہ معنی ہے جو آپ کے شعر میں لیا گیاہے
کیا شعر کے مفہوم میں ابہام نہیں ہوگا؟
خورشید بھائی آپ مغالطے کا شکار ہو رہے ہیں۔ آپ معنی "بات بننا" کے بتا رہے ہیں اور ذکر "باتیں بننا یا بنانا" کی کر رہے ہیں۔ اب ذرا لغت میں جا کر "باتیں بننا یا بنانا" کے معنی دیکھیے۔
 
میرا شعر:
نہیں کھلتا ہر اک پر جلوۂ حسنِ فروزاں بھی
سلامت اب طوافِ شمع سے پروانے آتے ہیں
آپ کی تجویز:
نہیں کھلتا یہ رازِ حسن، یہ کیسا تماشا ہے ؟
سلامت کیوں طوافِ شمع سے پروانے آتے ہیں؟

سرور بھائی ، یہ تہ دار شعر ہے اور اس کی تہیں ذرا سا غور و فکر کرنے پر ہی کھلیں گی۔ پہلے مصرع میں “بھی” کی قدغن “فروزاں” کی وجہ سے ہے۔ یعنی اگر کسی پروانے پر شمع کا جلوۂ حسن نہ کھل سکے تو ایسی بڑی بات نہیں لیکن جب شمع جل رہی ہو (فروزاں ہو) اور پروانہ اس کا طواف کررہا ہو اور پھر بھی اُس پروانے پر شمع کا جلوۂ حسن نہ کھلے تو یہ تشویش اور شکوے کی بات ہے۔
جیسا کہ آپ جانتے ہی ہیں اردو کی شعری روایت میں پروانے اور شمع کے تمام اشعار عشقِ حقیقی سے متعلق ہیں۔ جب پروانے ( یعنی عاشق) پر شمع( یعنی محبوب) كا جلوه آشکار ہوجائے تو وہ اس کا طواف کرتے کرتے اپنے آپ کو فنا کردیتا ہے یعنی شہیدِ عشق ہوجاتا ہے۔ اس شعر میں یہی کہا گیا ہے کہ یوں تو جلوہ کے طلب گار ہزاروں پروانے طوافِ شمع کو جاتے ہیں لیکن ہر پروانے پر جلوہ آشکار نہیں ہوتا ، کچھ پروانے راکھ ہونے اور فنا ہونے کے بجائے طواف سے زندہ سلامت لوٹ آتے ہیں۔ اور وجہ اس کی یہ بتائی گئی ہے کہ مسئلہ شمع کے ساتھ نہیں بلکہ پروانے کے ساتھ ہے۔ شمع تو بدستور پہلے کی طرح فروزاں ہے لیکن پروانے کے عشق اور طلب میں کمی ہے ۔ اس لیے نہ اُس پر جلوۂ حسن کھلتا ہے اور نہ ہی وہ فنا ہوتا ہے۔ بس طواف کی رسم پوری کرکے سلامت لوٹ آتا ہے ۔ جہاں تک میرا محدود مطالعہ مجھے بتاتا ہے اردو شاعری میں یہ مضمون اب تک میری نظر سے نہیں گزرا اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک نئی بات ہے۔
جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا میری کوشش ہوتی ہے کہ غزل کے روایتی اسلوب اور روایات کو ممکنہ حد تک برقرار رکھتے ہوئے اپنے عہد اور اپنی زندگی کی کوئی بات کروں۔ اس شعر کو سمجھنے کے لیے اس کا پس منظر یوں سمجھ لیجیے کہ میرے ارد گرد کئی لوگ ایسے ہیں جو متعدد بار کعبے کو جاچکے ہیں لیکن جیسے گئے تھے ویسے ہی لوٹ آئے ۔ نہ کچھ جلا ، نہ کچھ راکھ ہوا ۔ ان کا طرزِ زندگی ابھی تک مجھ گناہگار جیسا ہی ہے۔ کچھ بھی نہیں بدلا۔

سلامت اب طوافِ شمع سے پروانے آتے ہیں!
محترم سر ظہیراحمدظہیر صاحب!
پھر نہایت ادب سے :
ایک طالب علم نے غزل پوسٹ کی تھی اصلاح کے لیے اس کا ایک شعر تھا:لنک
گر شمع ہے روشن تو کیوں دور ہے پروانہ
محروم ِبصارت ہے یا ہوش سے بے گانہ​
 
آخری تدوین:
خورشید بھائی آپ مغالطے کا شکار ہو رہے ہیں۔ آپ معنی "بات بننا" کے بتا رہے ہیں اور ذکر "باتیں بننا یا بنانا" کی کر رہے ہیں۔ اب ذرا لغت میں جا کر "باتیں بننا یا بنانا" کے معنی دیکھیے۔
بھائی جی میں نے باتیں بنانا محاورہ کا ذکر کیا ہے آپ نے غور نہیں کیا۔ لیکن باتیں بننا نیٹ پر تو نہیں ملا اب فرہنگِ آصفیہ میں دیکھوں گا۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
بھائی جی میں نے باتیں بنانا محاورہ کا ذکر کیا ہے آپ نے غور نہیں کیا۔ لیکن باتیں بننا نیٹ پر تو نہیں ملا اب فرہنگِ آصفیہ میں دیکھوں گا۔
Screenshot-20230724-120441.jpg
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
بھائی جی میں نے باتیں بنانا محاورہ کا ذکر کیا ہے آپ نے غور نہیں کیا۔ لیکن باتیں بننا نیٹ پر تو نہیں ملا اب فرہنگِ آصفیہ میں دیکھوں گا۔

 
آخری تدوین:

فاخر رضا

محفلین
عزیز مکرم ظہیر صاحب: تسلیمات !
سب سے پہلے اس خوبصورت غزل کا دلی شکریہ حاضر خدمت ہے۔ مجھے اس کا شدت سے انتظار تھا کیونکہ ایک مدت سے آپ گونا گوں اسباب کی بنا پر اس جانب توجہ نہیں دے پا رہے تھے ۔ خدا خدا کر کے آپ کچھ وقت نکالنے میں کامیاب رہے اور نتیجہ میں یہ بیش بہا سوغات ہمارے ہاتھ لگی۔حسب معمول بے تکلف اور بے لاگ لکھنے کا ارادہ ہے لہذہ آپ سے پیشگی گذارش ہے کہ کہیں کوئی گستاخی سرزد ہو جائے تو ازراہ بندہ نوازی چشم پوشی سے نوازیں۔ یہ تبصرہ صرف میری رائے ہے جس سے اختلاف کا حق آپ کو ہمہ وقت اور ہر سطح پر ہے ۔ خدا را اس ناچیز کاوش کو :اصلاح: کا لقب ہر گز نہ دیں کیوں کہ میں اس قابل نہیں ہوں کہ ایسی کوئی کوشش کر سکوں۔ دوران تبصرہ آپ کے بنیادی خیالات پر نظر رکھوں گا اور اپنی بات کو صراط مستقیم پر ہی رکھوں گا تاکہ آپ کے خیالات حتی الامکان قایم رہیں اور میں ان میں مخل نہ ہوں۔ انشا اللہ۔ غزل کی ز مین آپ نے مشکل منتخب کی ہے گو وہ سنگلاخ تو نہیں ہے البتہ اس میں لڑکھڑانے کے امکانات کافی ہیں جو مناسب احتیاط اورپیش بینی سے قابو میں رکھے جا سکتےہیں۔ اب بسم اللہ کی جائے؟
==================
ہزاروں غم محبت کے مرادیں پانے آتے ہیں
یہ دل درگاہِ الفت ہے یہاں نذرانے آتے ہیں
مصرع اول میں ہلکی سی تعقیدلفظی ہے ۔ علاوہ ازیں محبت کے غم بھلا :مرادیں پانے : کیونکر آ سکتے ہیں جبکہ غموں کی اپنی کوئی مراد نہیں ہوتی ؟ ہاں البتہ وہ خود مرادیں ہو سکتے ہیں ، درگاہِ الفت سے کار بر آری کے امید وار بھی ہو سکتے ہیں اور بارگاہ دل میں بطور نذرانہ بھی پیش کئے جا سکتے ہیں ۔ دوسرا مصرع بہت معنی خیز اور صاف ستھرا ہے ۔ چنانچہ شعر کی نئی تجویز یوں ہے۔

:ہزاروں حسرت و اُمید کے افسانے آتے ہیں
یہ دل دَرگاہِ الفت ہے، یہاں نذرانے آتے ہیں:
--------------
نجانے کون سی منزل ہے یہ سودائے الفت کی
دوانے شہر بھر کے اب مجھے سمجھانے آتے ہیں
یہ شعر اچھا ہے۔ داد قبول کیجئے۔ اور اجازت دیجئے کہ :بقدر بادام : ترمیم کر سکوں۔ مقصد شعر کی معنویت میں بہتری اور بندش میں چستی ہے اور ساتھ ہی دوسرا مصرع بہتر ہو جائے تو کیا ہرج ہے۔ دیکھئے بات بنی ؟

:الٰہی ! کون سی منزل ہے یہ سودائے اُلفت کی؟
کہ دُنیا بھر کے دیوانے مجھے سمجھانے آتے ہیں:
-------------
کبھی مہمیز ہو کر دشمنی ٹھوکر لگاتی ہے
کبھی دیوار بن کر سامنے یارانے آتے ہیں
بندہ پرور! یہ شعر خادم کو مطلق بھرتی کا لگا۔ دونوں مصرعے مل کر بھی اچھے معنی پر قادرنہیں ہیں اور غزل کے آہنگ اور روانی سے متصادم ہیں۔ اس کو حذف کر دیں تو بہتر ہوگا۔ ایسا میرا خیال ہے۔ یوں آپ بہتر جانتے ہیں۔ کبھی کبھی اپنی معنوی اولاد کو رخصت نامہ دینے میں ہرج نہیں ہے۔
------------
کوئی تو بات ہوتی ہے تبھی تو بنتی ہیں باتیں
زمانے کے لبوں پر کب یونہی افسانے آتے ہیں
شعر بہت ڈھیلا ڈھالا ہے ۔ اس کی بنت بہت کمزور اور کم اثر ہے اور بندش نہایت سست۔ پہلا مصرع قدرے بے ربطی اور نیم پختہ طرز بیا ن کا بھی شکار ہے اور دوسرا مصرع : کب یونہی: میں و کی تخفیف پر لڑکھڑا رہا ہے۔ اس کو یوں کر کے دیکھئے ، انشااللہ بات بن جائے گی۔

:کوئی تو بات ہے یارو کہ رُسوائے محبت ہوں!
زمانے کے لبوں پر یونہی کب افسانے آتے ہیں؟:
----------------
روایت ہے یہی مے خانۂ اقدارِ دنیا کی
پرانے ٹوٹ جائیں تو نئے پیمانے آتے ہیں
آپ نے :میخانہء اقدار دُنیا : ترکیب اختراع کی ہے۔ کوشش تو اچھی ہے لیکن ترکیب سپاٹ ہے اور طبیعت کو بالکل متاثرنہ کر سکی۔ یہ میری افتاد طبع کا قصور بھی ہو سکتا ہے ۔ شعر کا مضمون اور اس کا بیان بھی چستی اور بلندی کا متقاضی ہے تاکہ پڑھنے میں کچھ تو لطف آئے۔ دیکھئے درج ذیل کوشش کیسی ہے :

:روایت ہے یہی کیا زندگی کے بادہ خانے کی
پرانے ٹوٹنے پر ہی نئے پیمانے آتے ہیں ؟ :
---------------
نہیں کھلتا ہر اک پر جلوۂ حسنِ فروزاں بھی
سلامت اب طوافِ شمع سے پروانے آتے ہیں
گستاخی معاف ! یہ شعر بہت سست ہے۔ ذہن پر زور دیجئے تو مطلب سمجھ میں تو آجاتا ہے لیکن ایک تو :جلوہء حسن فروزاں: اور اس پر :بھی: کا قدغن شعر کی معنی آفرینی کو سامنے آنے کا موقع نہیں دیتے۔ کیا کچھ پروانے ایسے بھی ہیں جن پر : حسن فروزاں: کا جلوہ اپنے راز فاش کردیتا ہے؟ آخر سب پر یہ نوازش کیوں نہیں ہے؟ بہر کیف دوسرا مصرع پہلے کا ساتھ نہیں دے سکا ہے ۔ کچھ انداز بیان بدل کر دیکھیں؟ شاید کوئی فرق نظر آئے۔ انشا اللہ۔

:نہیں کھلتا یہ راز ِحسن، یہ کیسا تماشا ہے ؟
سلامت کیوں طواف ِ شمع سے پروانے آتے ہیں؟:
--------------
مسافر ہوں ، الہٰی خیر میرے دین و ایماں کی
مرے رستے میں کچھ مسجد نما بتخانے آتے ہیں
یہاں : مسافر ہوں : کا کیا مقام اور ضرورت ہے؟ یہ بھرتی کا ہے اور اس کو حذف کرنا مستحسن ہے۔ اگر آپ مسافر نہ ہوتے تو یہ راہ کے بتخانے کیا آپ کے دین و ایماں کو خطرہ میں نہیں ڈال سکتے تھے؟ دوئم یہ کہ :مرے رستے: بھی بھرتی ہے۔ جب آپ :مسافر ہیں : تو لازمی طور سے راستے میں ہی ہوں گے۔شعر بدلنے کی ضرورت ہے ۔ دیکھئے یہ ترمیم کیسی ہے۔ شکریہ۔

:مجھے ہے فکر ایماں برملا! توبہ، معاذاللہ
رہ اُلفت میں کچھ مسجد نما بتخانے آتے ہیں !:
--------------
آخر کے تین اشعار کو آپ نے قطع بند بنانے کی کوشش کی ہے لیکن کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ برا نہ مانیں لیکن یہ تینوں اشعار کمزور اور اپنے معانی قاری پر ظاہر کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ اشعار کے قوافی اپنا فرض نبھانے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہیں اور اشعار کی بنت بھی کمزوری سے آشنا ہے۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ پہلے دو اشعارکو تبدیل کریں اورتیسرے کو مقطع سے بدل دیں۔اس میں محنت اور فکر تولگے گی لیکن پھر تینوں اشعار غزل سے آہنگ اور پیرایہء بیان میں ایک جان ہو جائیں گے اور غزل مکمل ہو جائے گی۔ آپ سوچ لیں ۔ اس سے بہتر کوئی اور صورت ہے تو اس کو آزمایا جاسکتا ہے۔ واللہ اعلم۔ فی الحال اپنی تجویز پیش کرتا ہوں۔ نگاہ انتقاد و انتخاب کی درخواست ہے۔
کوئی تصویر سی تصویر ہے آنکھوں میں وحشت کی
مجھے آباد شہروں میں نظر ویرانے آتے ہیں
اس کو درج ذیل شکل دی جا سکتی ہے لیکن میں اس صورت سے مطمئن نہیں ہوں تا وقتیکہ آپ اپنی رائے سے آگاہ کریں:

:کوئی تصویر سی تصویر ہے آنکھوں میں وحشت کی
تمھارے شہر میں مجھ کو نظر ویرانے آتے ہیں:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی تعزیر سی تعزیر ہے اک جرمِ عشرت کی
جدھر جاؤں تعاقب میں کئی غم خانے آتے ہیں
یہ شعر الجھا ہو ا ہے اور اپنے معنی میں بھی صاف نہیں ہے۔ غم خانے آپ کے :تعاقب: میں کیسے آ سکتے ہیں اور وہ بھی :کئی: غم خانے ؟ شعر بہت کمزور ہے اور بہتری کا متقاضی ہے۔

:خدایا کیایہی تعزیر ہے اک جرم اُلفت کی؟
مرے آنسو مجھے ہر گام پر شرمانے آتے ہیں:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی تعبیر سی تعبیر ہے اک خوابِ عزلت کی
غزالانِ جنوں پیشہ مجھے بہلانے آتے ہیں
اس شعر کو سمجھنے سے میں قاصر ہوں۔ اگر اس کو آپ مقطع میں تبدیل کردیں تو بہتر ہوگا۔ غزل بھی اس صورت میں مکمل ہو جائے گی۔ انشا اللہ۔
=====================
آپ سے اظہار خیال کی گزارش ہے۔ امید ہے میری کوتاہیوں سے در گزر فرمائیں گے۔ شاہاں چہ عجب گر بنوازندگدا را۔

سرور راز
یا علی مدد
 

فاخر رضا

محفلین
احبابِ کرام ! کچھ دنوں پہلے میں نے بزمِ سخن میں یہ عندیہ ظاہر کیا تھا کہ سات آٹھ غزلیں اور نظمیں جو پچھلے دو تین سالوں میں جمع ہوگئی ہیں انہیں ہر ہفتے عشرے یہاں پوسٹ کروں گا ۔ یہ سلسلہ شروع کر بھی دیا تھا لیکن درمیان میں کچھ مصروفیات آڑے آگئیں ۔ ارادہ ہے کہ اس سلسلے کو دوبارہ شروع کیا جائے ۔ ایک نسبتاً تازہ غزل پیش خدمت ہے ۔ امید ہے کہ کچھ اشعار آپ کو ضرور پسند آئیں گے۔ گر قبول افتد زہے عز و شرف!

***

ہزاروں غم محبت کے مرادیں پانے آتے ہیں
یہ دل درگاہِ الفت ہے یہاں نذرانے آتے ہیں

نجانے کون سی منزل ہے یہ سودائے الفت کی
دوانے شہر بھر کے اب مجھے سمجھانے آتے ہیں

کبھی مہمیز ہو کر دشمنی ٹھوکر لگاتی ہے
کبھی دیوار بن کر سامنے یارانے آتے ہیں

کوئی تو بات ہوتی ہے تبھی تو بنتی ہیں باتیں
زمانے کے لبوں پر کب یونہی افسانے آتے ہیں

روایت ہے یہی مے خانۂ اقدارِ دنیا کی
پرانے ٹوٹ جائیں تو نئے پیمانے آتے ہیں

نہیں کھلتا ہر اک پر جلوۂ حسنِ فروزاں بھی
سلامت اب طوافِ شمع سے پروانے آتے ہیں

مسافر ہوں ، الہٰی خیر میرے دین و ایماں کی
مرے رستے میں کچھ مسجد نما بتخانے آتے ہیں



۔۔۔۔ ق ۔۔۔۔۔


کوئی تصویر سی تصویر ہے آنکھوں میں وحشت کی
مجھے آباد شہروں میں نظر ویرانے آتے ہیں

کوئی تعزیر سی تعزیر ہے اک جرمِ عشرت کی
جدھر جاؤں تعاقب میں کئی غم خانے آتے ہیں

کوئی تعبیر سی تعبیر ہے اک خوابِ عزلت کی
غزالانِ جنوں پیشہ مجھے بہلانے آتے ہیں

***

ظہیرؔ احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 2023​
ماشاءاللہ

اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
 
بھائی عبدالروؤف صاحب! (آپ ابھی بھی باتیں بنانا اور باتیں بننا کے فرق کو نہیں سمجھ رہے ہیں)
میں نے فرہنگِ آصفیہ بھی دیکھ لی وہاں پر بھی بات بنانا تو انہیں معنوں میں ہے جن میں سر ظہیر صاحب نے لیا ہےلیکن بات بننا ان معنوں میں نہیں بلکہ دوسرے معنوں میں ہے جن کا ذکر اوپر ہوا ہے۔
بات بنانا سے باتیں بنانا لیا گیا ہے لیکن فرہنگِ آصفیہ میں صرف بات بنانا ہے۔
اسی طرح بات بننا سے باتیں بننا ہو سکتا ہے۔لیکن فرہنگِ آصفیہ میں صرف بات بننا
باتیں بننا
محاورہ کہیں بھی نہیں ہے (میری تحقیق کے مطابق ان معنوں میں)
 
آخر کے تین اشعار تاثراتی اشعار ہیں ۔ گویا اس قطع بند کو غزل کے بیچ میں ایک چھوٹی سی تاثراتی نظم کہیے۔ ان میں ہر مفرد شعر کا مطلب شاید اتنا متاثر کن نہ لگے لیکن جب ان کو مجموعی طور پر ایک مسلسل نظم کی صورت میں دیکھیں تو ایک تاثر ضرور پیدا ہوگا ۔ سرور بھائی ، اس وقت رات خاصی گزر چکی ہے ۔ نیند پیچھے سے کالر کھینچ کھینچ کر مجھے بستر کی طرف لے جانے کی کوشش کررہی ہے ۔ صبح کام پر جانا ہے۔ اب مزید بیٹھنا دشوار ہورہا ہے ۔ ان شاء اللہ جلد ہی ان تین اشعار پر اظہارِ رائے کروں گا ۔ فی الحال یہاں رکتا ہوں۔

محترمی سرور راز صاحب ، ایک بار پھر آپ کا دلی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے اس غزل کو اس قدر توجہ سے دیکھا اور اپنی بیش بہا اور بے لاگ رائے سے نوازا۔ جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
اگر میرے قلم سے کوئی بات خلافِ ادب سرزد ہوگئی ہو تو میں دست بستہ انتہائی شرمندگی کے ساتھ معذرت کا طلبگار ہوں ۔اور آپ کی اعلیٰ ظرفی سے عفو و درگزر کا طالب ہوں ۔ آپ کی درازیِ عمر اور صحت و تندرستی کے لیے دعاگو ہوں ۔ اللہ کریم آپ کا سایہ سلامت رکھے۔ آمین ۔
تابعدار
ظہیرؔاحمد
عزیز مکرم ظہیر صاحب: علیکم السلام
آپ کا خط بہت غور و شوق سے پڑھا اور اس کے بین السطور مضامین پر بھی سوچنے کی کوشش کی۔ آپ کی غزل پر تبصرہ کی ابتدا راحل اور علوی صاحبان نے کردی تھی ۔ دوسرے خطو ط کی بابت آپ بہتر سمجھتے ہیں۔ میرا تبصرہ ان دو حضرات کے خطوط کا تتمہ سمجھ لیں۔ میرے لئے یہ بات بہت حیرت انگیز رہی کہ میرا یک نکتہ بھی لائق اعتنا متصور نہیں ہوا۔ یہ میرے ساتھ اکثر ہوتا ہے ۔ میں آپ کی عنایات کا ممنون ہوں اور کوشش کروں گا کہ مستقبل میں یا تو کوئی کام کی بات کروں یا پھر خاموش رہوں۔ اہل اردو میں گفتگو کا عام دستور ہے کہ :میری ہر بات صحیح ہے اور فریق کی ہر بات غلط:۔اس کے بعد اور بات کرنے کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے؟ ایں ہم اندر عاشقی بالائے غم ہائے دگر۔ باقی راوی سب چین بولتا ہے۔
اس پر مجھ کو ضرورافسوس ہوتا ہے کہ ہم پر جو : و امرہم شوریِ بینہم: کا بوجھ رکھا گیا تھا اسے ہم نباہ نہیں سکے اور اب مغرب کی تقلید میں یہ فقرہ دہرانے پر مجبور ہیں کہ : ہم متفق ہیں کہ ہم میں کسی بات پر اتفاق نہیں۔:فاعتبرو یا اولی الابصار۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
عزیز مکرم ظہیر صاحب: علیکم السلام
آپ کا خط بہت غور و شوق سے پڑھا اور اس کے بین السطور مضامین پر بھی سوچنے کی کوشش کی۔ آپ کی غزل پر تبصرہ کی ابتدا راحل اور علوی صاحبان نے کردی تھی ۔ دوسرے خطو ط کی بابت آپ بہتر سمجھتے ہیں۔ میرا تبصرہ ان دو حضرات کے خطوط کا تتمہ سمجھ لیں۔ میرے لئے یہ بات بہت حیرت انگیز رہی کہ میرا یک نکتہ بھی لائق اعتنا متصور نہیں ہوا۔ یہ میرے ساتھ اکثر ہوتا ہے ۔ میں آپ کی عنایات کا ممنون ہوں اور کوشش کروں گا کہ مستقبل میں یا تو کوئی کام کی بات کروں یا پھر خاموش رہوں۔ اہل اردو میں گفتگو کا عام دستور ہے کہ :میری ہر بات صحیح ہے اور فریق کی ہر بات غلط:۔اس کے بعد اور بات کرنے کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے؟ ایں ہم اندر عاشقی بالائے غم ہائے دگر۔ باقی راوی سب چین بولتا ہے۔
اس پر مجھ کو ضرورافسوس ہوتا ہے کہ ہم پر جو : و امرہم شوریِ بینہم: کا بوجھ رکھا گیا تھا اسے ہم نباہ نہیں سکے اور اب مغرب کی تقلید میں یہ فقرہ دہرانے پر مجبور ہیں کہ : ہم متفق ہیں کہ ہم میں کسی بات پر اتفاق نہیں۔:فاعتبرو یا اولی الابصار۔

وعلیکم السلام ! محترمی و مکرمی سرور بھائی ، میں انتہائی شرمندہ ہوں کہ میری نالائقی اور ناسمجھی کی وجہ سے آپ کی دل شکنی اور دل آزاری ہوئی ۔ بخدا اگر مجھے ذرا بھی اندازہ ہوتا تو میں کبھی اپنا وضاحتی مراسلہ نہ لکھتا اور بہت شکریے کے ساتھ آپ کی تمام تجاویز بغیر چون و چرا قبول کرلیتا۔ لیکن اس غزل پر باہمی تبادلۂ خیال کے ضمن میں میری کم فہمی کی وجہ سے ذرا سی غلط فہمی پیدا ہوگئی جس کے لیے میں آپ سے دست بستہ معافی کا خواستگار ہوں ۔ اس عام سی غزل پر میں آپ کا مفصل تبصرہ دیکھ کر بہت خوش ہوا تھا اور اس نظرِ کرم کے لیے آپ کا بیحد شکریہ بھی ادا کیا تھا ۔ شاعری میرا شوق اور مشغلہ ہے اور مجھے شاعری پر تنقیدی مباحث پڑھنا اور ان میں حصہ لینا پسند ہے ۔ آپ کا تفصیلی تبصرہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی تھی کہ اب اس کے توسط سے اس دھاگے میں شاعری کے تکنیکی اور فکری پہلوؤں پر تفصیلی گفتگو کے دروازے کھلیں گے ۔ مختلف نکات پر بات چیت ہوگی اور یوں آپ سے بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔ الحمد للہ ، غزل میں کوئی عروضی اور لسانی غلطی تو نہیں تھی لیکن اسلوب اور پیرایۂ اظہار کے پہلوؤں پر تو ہمیشہ ہی بہتری کی گنجائش رہتی ہے ۔ چنانچہ آپ نے اپنا وقت اور توانائی صرف کرکے اس پر اپنی بے لاگ رائے کا اظہار کیا ۔ اس کے لیے میں مقروض ہوں۔ اب اسے میری ناسمجھی اور نالائقی کہیے کہ میں اس گمان میں رہا کہ جس طرح آپ نے ان اشعار پر اپنی بے لاگ رائے دی ہے اُسی طرح کی بے لاگ رائے آپ اپنی تجاویز پر مجھ سے بھی طلب کرر ہے ہیں تاکہ مکالمہ آگے بڑھے اور غور و فکر کے نئے دروازے کھلیں ۔ امید یہ تھی کہ مختلف نکات پر بات ہوگی ، ہر متبادل کے معائب و محاسن کو دیکھا اور پرکھا جائے گا ۔ بخدا میں منتظر تھا کہ آپ میرے اٹھائے گئے اشکالات اور سوالات کے جواب میں مزید کچھ لکھیں گے اور یوں میرے اور دیگر قارئین کے لیے سیکھنے کا سامان مہیا ہوگا۔ اس محفل کے صفحات گواہ ہیں میں یہ بات ہمیشہ سے کہتا آیا ہوں کہ مجھے اپنی شاعری کے بارے میں کسی قسم کی کوئی خوش گمانی یا زعم نہیں ۔ میں نے اسے کبھی بھی تک بندی یا معمولی سی شاعری سے زیادہ نہیں سمجھا۔ اور میں یہ بات بھی متعدد بار لکھ چکا ہوں کہ جب بھی اساتذہ اور بڑے شعر اکا کلام پڑھتا ہوں تو اپنا لکھا ہوا ہیچ معلوم ہوتا ہے اور اپنی شاعری پھاڑ کر پھینکنے اور ترک کرنے کا جی چاہتا ہے ۔ سرور بھائی ، آپ براہِ کرم یہ مت سمجھیے کہ میں نے آپ کی کسی اصلاحی تجویز کو لائقِ اعتنا نہیں سمجھا۔ بالکل بھی ایسی بات نہیں ہے ۔ جہاں مصرع کی بندش ڈھیلی ہے اور جہاں شعر میں زائد الفاظ استعمال ہوئے ہیں میں نے بالکل آپ کی رائے سے اتفاق کیا ہے اور انہیں بہتر بنانے کا عندیہ دیا ہے۔ آخری تین اشعار کے ابہام اور ابلاغ کے مسائل کا مجھے پور ادراک ہے اور ان کے بارے میں میر ارادہ تھا کہ اگلے مراسلے میں بات کروں گا ۔ آپ کی جن تجاویز پر مجھے مزید گفتگو کی ضرورت محسوس ہوئی اپنی نالائقی کی وجہ سے میں نے ان پر اپنے تحفظات کا اظہار کردیا۔ یہ میری غلطی تھی اور اس کے لیے میں انتہائی نادم ہوں ۔ محترم و مکرم سرور صاحب ، میں آپ کے مرتبے اور مقام سے واقف ہوں جس ادبی ماحول میں جن ادب پرور لوگوں کے زیرِ سایہ آپ نے تعلیم و تربیت حاصل کی اور اپنے شعر کو پروان چڑھایا وہ آپ کی ثقاہت و صیابت کی دلیل ہیں اور آپ کی تصنیفات اس کی گواہ ہیں ۔ میں تو آپ کے خوشہ چینوں میں شامل ہوں ۔ ایک عمر سے آپ اس دشت کی سیاحی میں مصروف ہیں اور آپ کی شاعری کا تجربہ میری عمر سے بھی زیادہ ہے۔ چنانچہ آپ کی تجاویز کو قبول کرنا تو میرے لیے خوش بختی کی بات ہے ۔ پھر عرض کروں گا کہ میں اپنی ناسمجھی کی وجہ سے قلم آرائی کی جرات کا مرتکب ہوا ۔ کسی بھی دانستہ بے ادبی اور دل آزاری کا میں تصور بھی نہیں کرسکتا ۔ ایسا کرنا میرے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہوگا۔ میرے نزدیک اہلِ علم اور بزرگوں کا ادب و تعظیم ہر چیز سے بڑھ کر ہے ۔ شعر و شاعری میرے نزدیک حقیر سی چیز ہے ۔ اہلِ علم و ہنر کے ادب اور تعظیم پر ایسی ہزار شاعری قربان ۔ اس کی کوئی حیثیت نہیں ۔
سو پشت سے ہے شیوۂ آبا فروتنی
کچھ شاعری ذریعۂ عزت نہیں مجھے
محترمی و مکرمی سرور عالم راز صاحب ، اپنی ناسمجھی اور نالائقی کے لیے میں انتہائی نادم ہوں اور مجھے پوری امید ہے کہ آپ حسبِ عادت در گزر سے کام لیں گے اور اس بات کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے آگے بڑھ جائیں گے۔ اور سیکھنے سکھانے کے سلسلوں کو یہاں جاری رکھیں گے ۔ اردو کو آپ کے علم و ہنر اور تجربے کی ضرورت ہے۔ میں ترمیم شدہ غزل ذیل میں لگارہا ہوں ۔ آپ کی عالی ظرفی اور کشادہ دلی سے پوری امید ہے کہ آپ میری ناسمجھی کو معاف فرمائیں گے۔ اللہ کریم آپ کا سایہ تادیر ہمارے سروں پر قائم رکھے ، آپ کو صحت و تندرستی کے ساتھ سلامت رکھے۔ علم و فضل میں اضافہ فرمائے اور اسے فیضِ جاریہ بنائے۔ آمین!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
احبابِ کرام ! اصلاحی تجاویز کی روشنی میں غزل میں کچھ ترامیم کی ہیں ۔ ترمیم شدہ غزل ذیل میں لگارہا ہوں۔ گر قبول افتد زہے عز و شرف!

ہزاروں حسرت و اُمید کے افسانے آتے ہیں
یہ دل دَرگاہِ الفت ہے، یہاں نذرانے آتے ہیں

الٰہی ! کون سی منزل ہے یہ سودائے اُلفت کی؟
کہ دُنیا بھر کے دیوانے مجھے سمجھانے آتے ہیں

کوئی تو بات ہے یارو کہ رُسوائے محبت ہوں!
زمانے کے لبوں پر یونہی کب افسانے آتے ہیں؟

روایت ہے یہی کیا زندگی کے بادہ خانے کی
پرانے ٹوٹنے پر ہی نئے پیمانے آتے ہیں ؟

نہیں کھلتا یہ راز ِحسن، یہ کیسا تماشا ہے ؟
سلامت کیوں طواف ِ شمع سے پروانے آتے ہیں؟

مجھے ہے فکر ایماں برملا! توبہ، معاذاللہ !
رہ اُلفت میں کچھ مسجد نما بتخانے آتے ہیں !

کوئی تصویر سی تصویر ہے آنکھوں میں وحشت کی
تمھارے شہر میں مجھ کو نظر ویرانے آتے ہیں

خدایا کیایہی تعزیر ہے اک جرم اُلفت کی؟
مرے آنسو مجھے ہر گام پر شرمانے آتے ہیں

***

ظہیرؔ احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 2023​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
محترم سر ظہیراحمدظہیر صاحب!
نہایت ادب سے (اپنی اصلاح کے لیے) سوال ہے کہ دشمنی کی ٹھوکر آپ کو مہمیز کرتی ہے لیکن مصرعہ میں دشمنی مہمیز ہوتی ہے اور ٹھوکر لگاتی ہے تو کیا اس کو اس طرح نہیں ہونا چاہیے تھا:
کبھی مہمیز کرنے دشمنی ٹھوکر لگاتی ہے
خورشیداحمدخورشید ،
مہماز یا مہمیز اس چھوٹے سے آلے یا اوزار کو کہتے ہیں جو گھڑسوار اپنے جوتے کی ایڑی میں لگاتا ہے اور گھوڑے کو تیز بھگانے کے لیے اس مہمیز سے گھوڑے کو ٹھوکر لگاتا ہے ۔ اِسی کو ایڑ لگانا بھی کہتے ہیں ۔
چنانچہ "کبھی مہمیز ہو کر دشمنی ٹھوکر لگاتی ہے" والے مصرع میں دشمنی کو مہمیز کہا گیا ہے کہ یہ مہمیز مجھے ٹھوکر لگاتی ہے۔
مہمیز ہونا اور مہمیز کرنا دونوں درست اور فصیح زبان ہیں ۔
 
Top