ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
کبھی مہمیز ہو کر دشمنی ٹھوکر لگاتی ہےکبھی مہمیز ہو کر دشمنی ٹھوکر لگاتی ہے
کبھی دیوار بن کر سامنے یارانے آتے ہیں
بندہ پرور! یہ شعر خادم کو مطلق بھرتی کا لگا۔ دونوں مصرعے مل کر بھی اچھے معنی پر قادرنہیں ہیں اور غزل کے آہنگ اور روانی سے متصادم ہیں۔ اس کو حذف کر دیں تو بہتر ہوگا۔ ایسا میرا خیال ہے۔ یوں آپ بہتر جانتے ہیں۔ کبھی کبھی اپنی معنوی اولاد کو رخصت نامہ دینے میں ہرج نہیں ہے۔
کبھی دیوار بن کر سامنے یارانے آتے ہیں
آپ کی اس بات سے متفق ہوں کہ اس شعر کا لب و لہجہ اور آہنگ بقیہ اشعار سے مختلف ہے ۔ لیکن غزل کی صنف شاعر کو اتنی آزادی تو دیتی ہے کہ وہ مختلف انداز اور لب و لہجے کے اشعار ایک ہی غزل میں جمع کرسکے۔ ویسے یہ بہتر ہوتا کہ میں اس شعر کو غزل کے آخر میں قطع بند سے پہلے رکھ دیتا تاکہ اس کا مختلف رنگ اتنا نمایاں نہ ہوتا۔
جہاں تک شعر میں اچھے معنی ہونے یا نہ ہونے کا تعلق ہے تو، گستاخی معاف ، میں سمجھتا ہوں کہ اس شعر میں اچھا مضمون ہے ۔ دوستی اور دشمنی کے سلسلے میں عام مشاہدہ اور متوقع رویہ تو یہ ہے کہ دشمن راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں ، آپ کو دھکا دے کر گرانے اور رفتار کم کر نے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ دوست راہ سے پتھر ہٹاتے ہیں اور راہ ہموار کرتے ہیں۔ لیکن شاعر یہاں اپنی زندگی کے تجربات اور اُن پر اپنا ردِ عمل بیان کررہا ہے کہ بعض اوقات دشمن میری راہ روک کر مجھے آہستہ کرنے کے بجائے مزید سعی و کوشش پر ابھار دیتے ہیں ۔ یعنی دشمنوں کی ٹھوکر میرے لیے الٹا مہمیز ثابت ہوتی ہے۔ اور بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ دوستی اور دوستی نبھانے کے تقاضے میری راہ ہموار کرنے کے بجائے راہ کی دیوار ثابت ہوتے ہیں ۔ یہ معانی تو اس شعر میں صاف ظاہر ہیں اور یہ ٹھیک ٹھاک مضمون ہے ۔ یہ مضمون آپ کے مخصوص طرزِ فکر اور غزل کے روایتی رنگ سے مطابقت نہیں رکھتا چنانچہ اسے غزل نکالا دینے کے بارے میں آپ کی رائے سمجھ میں آتی ہے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ ذرا مختلف ذوق رکھنے والے بہت سے قارئین اس شعر کو سمجھ سکتے ہیں ، اپنی زندگی کے تجربات پر اس کا اطلاق کرسکتے ہیں اور اس کا لطف لے سکتے ہیں ۔
آخری تدوین: