یہ شعر کس کا ہےِ؟

فرخ منظور

لائبریرین
زخم ہوتے ایک دو، تو رفو کا سوچتے
اس دلِ صد چاک کا سینا پرونا چھوڑیے

اگر احباب میں سے کسی کو اس شعر کے خالق کا نام معلوم ہو تو ضرور بتائیے گا۔ حج کا ثواب نذر کروں گا حضور کی۔ :)
 

عین عین

لائبریرین
زخم ہوتے ایک دو، تو رفو کا سوچتے

جناب شاعر تو مجھے معلوم نہیں البتہ مصرعے میں کمی کا احساس ستا رہاہے۔ ممکن ہے میں غلطی پر ہوں۔۔۔۔۔۔۔ مجھے لگتا ہے،
زخم ہوتے ایک دو، تو ہم رفو کا سوچتے
ہم آئے گا یہاں ویسے جاننے والے بہتر جانتے ہیں۔ میری غلطی درست کر دیجیے
 

فرخ منظور

لائبریرین
زخم ہوتے ایک دو، تو رفو کا سوچتے

جناب شاعر تو مجھے معلوم نہیں البتہ مصرعے میں کمی کا احساس ستا رہاہے۔ ممکن ہے میں غلطی پر ہوں۔۔۔۔۔۔۔ مجھے لگتا ہے،
زخم ہوتے ایک دو، تو ہم رفو کا سوچتے
ہم آئے گا یہاں ویسے جاننے والے بہتر جانتے ہیں۔ میری غلطی درست کر دیجیے

آپ نے بالکل درست فرمایا۔ ایک لفظ کم ہے لیکن مجھ تک سینہ بہ سینہ یوں ہی پہنچا ہے۔ ہو سکتا ہے یہ لفظ "کچھ" ہو یا جیسے آپ نے لکھا "ہم" ہو۔

زخم ہوتے ایک دو ، تو کچھ رفو کا سوچتے
اس دلِ صد چاک کا سینا پرونا چھوڑیے
 

احمد بلال

محفلین
مشہور بھی اقبال کے نام سے ہے، لیکن میرے پاس ایک اخباری تراشا موجود تھا جہاں‌ لکھا تھا کہ اقبال کا نہیں‌ بلکہ کسی دوسرے شاعر کا ہے ساتھ دیگر اشعار بھی تھے ۔ لیکن وہ مجھ سے کھو گیا ہے ۔
اگر اقبال کا ہے تو کس دیوان میں‌ ہے؟‌ اور کس نظم یا غزل کا حصہ ہے؟
جی واقعی ۔ یہ علامہ اقبال کا نہیں ہے۔ ہمارے اردو کے پروفیسرصاحب نے بتایا تھا کہ یہ کس کا ہے لیکن ابھی وہ نام یاد نہیں ہے۔ اور میں نے کسی رسالے میں بھی اس بارے میں پڑھا تھا۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
بشکریہ حماد

تو سمجھتا ہے حوادث ہیں سنانے کیلئے
یہ ہوا کرتے ہیں ظاہر آزمانے کیلئے

تندیِ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کیلئے

کامیابی تو ہوا کرتی ہے ناکامیِ دلیل
رنج آتے ہیں تجھے راحت دلانے کیلئے

نیم جاں ہے کس لیے حال خلافت دیکھ کر
ڈھونڈ لے کوئی دوا اسکو بچانے کیلئے

استقامت سے اٹھا وہ نالہ آہ و فغاں
جو کہ کافی ہو در لندن ہلانے کیلئے

آتشِ نمرود گر بھڑکی ہے کچھ پروا نہیں
وقت ہے شانِ براہیمی دکھانے کیلئے

(صادق حسین ایڈووکیٹ)
(کتاب "تنقیدی افق" از ذوالفقاراحسن سے نقل کیا گیا )
 

شوکت پرویز

محفلین
ُ
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے
ممکن ہے کہ یہ غلط ہی مشہور ہو، کہ ’نہ‘ کا یہ استعمال کلاسیکی شاعری میں نہیں ملتا.
استاد جی!
ممکن ہے اس شعر میں "نہ" ایک حرفی ہی باندھا گیا ہو۔
ممکن ہے اس کا وزن "فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن" نہ ہو کر (ظفر کی درج ذیل غزل کی طرح) "فُعِلُن فُعِلُن فُعِلُن فُعِلُن" ہو۔

ظفر آدمی اس کو نہ جانیے گا ہو وہ کیسا ہی صاحبِ فہم و ذکا

جناب فرخ منظور صاحب کے پیغام (مراسلہ نمبر 33) میں دیے گئے پورے شعر کو دیکھ کر بھی اسی وزن کی تائید ہوتی ہے۔
 

ظهیر عباس

محفلین
یه شعر مرزا صادق شرر کا هے اور یوں هے
گئے دونوں جهاں کے کام سے هم'نه ادھر کے رهے نه ادهر کے رهے
نه خدا هی ملا نه وصال صنم'نه ادھر کے رهے نه ادھر کے رهے
صحیح شعر کچھ یوں‌ہے۔

گئے دونوں‌جہاں سے خدا کی قسم نہ اِدھر کےہوئے نہ اُدھر کے رہے
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ اِدھر کےہوئے نہ اُدھر کے رہے
 

فرخ منظور

لائبریرین
یه شعر محمد صادق ایڈووکیٹ کا هے
مکمل غزل پڑھیے۔ اگر آپ تحمل سے مزید مراسلے بھی پڑھتے تو آپ کو مکمل غزل بھی مل جاتی جو میں نے ہی ارسال کی تھی۔

تو سمجھتا ہے حوادث ہیں سنانے کیلئے
یہ ہوا کرتے ہیں ظاہر آزمانے کیلئے​

تندیِ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کیلئے​

کامیابی تو ہوا کرتی ہے ناکامیِ دلیل
رنج آتے ہیں تجھے راحت دلانے کیلئے​

نیم جاں ہے کس لیے حال خلافت دیکھ کر
ڈھونڈ لے کوئی دوا اسکو بچانے کیلئے​

استقامت سے اٹھا وہ نالہ آہ و فغاں
جو کہ کافی ہو در لندن ہلانے کیلئے​

آتشِ نمرود گر بھڑکی ہے کچھ پروا نہیں
وقت ہے شانِ براہیمی دکھانے کیلئے​

(صادق حسین ایڈووکیٹ)​
 
مکمل غزل پڑھیے۔ اگر آپ تحمل سے مزید مراسلے بھی پڑھتے تو آپ کو مکمل غزل بھی مل جاتی جو میں نے ہی ارسال کی تھی۔

تو سمجھتا ہے حوادث ہیں سنانے کیلئے
یہ ہوا کرتے ہیں ظاہر آزمانے کیلئے​

تندیِ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کیلئے​

کامیابی تو ہوا کرتی ہے ناکامیِ دلیل
رنج آتے ہیں تجھے راحت دلانے کیلئے​

نیم جاں ہے کس لیے حال خلافت دیکھ کر
ڈھونڈ لے کوئی دوا اسکو بچانے کیلئے​

استقامت سے اٹھا وہ نالہ آہ و فغاں
جو کہ کافی ہو در لندن ہلانے کیلئے​

آتشِ نمرود گر بھڑکی ہے کچھ پروا نہیں
وقت ہے شانِ براہیمی دکھانے کیلئے​

(صادق حسین ایڈووکیٹ)​
مکمل غزل شئیر کرنے کا شکریہ۔
اس شعر کو میں فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن کے وزن پر پڑھتا تھا۔
آج معلوم ہوا غزل کی بحر ہی مختلف ہے۔
 
مکمل غزل پڑھیے۔ اگر آپ تحمل سے مزید مراسلے بھی پڑھتے تو آپ کو مکمل غزل بھی مل جاتی جو میں نے ہی ارسال کی تھی۔

تو سمجھتا ہے حوادث ہیں ستانے کیلئے
یہ ہوا کرتے ہیں ظاہر آزمانے کیلئے​

تندیِ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کیلئے​

کامیابی تو ہوا کرتی ہے ناکامیِ دلیل
رنج آتے ہیں تجھے راحت دلانے کیلئے​

نیم جاں ہے کس لیے حال خلافت دیکھ کر
ڈھونڈ لے کوئی دوا اسکو بچانے کیلئے​

استقامت سے اٹھا وہ نالہ آہ و فغاں
جو کہ کافی ہو در لندن ہلانے کیلئے​

آتشِ نمرود گر بھڑکی ہے کچھ پروا نہیں
وقت ہے شانِ براہیمی دکھانے کیلئے

سید صادق حسین شاہ کاظمی شاعر کا پورا نام ہے موصوف ایڈووکیٹ تھے (ولادت:یکم اکتوبر 1898 ۔ وفات: 4 مئی 1989) از شکر گڑھ ضلع سیالکوٹ کے مجموعۂ کلام '' برگِ سبز" مطبوعہ 1976 فیروز سنز سے انتخاب یہ انکی معروف نظم ہے اس کے دو مزید اشعار کچھ یوں ہیں .

مانگنا کیسا؟ کہ تو خود مالک و مختار ہے
ہاتھہ پھیلاتا ہے کیوں اپنے خزانے کے لیے

دست و پا رکھتے ہیں تو بیکار کیوں بیٹھے رہیں
ہم اٹھیں گے اپنی قسمت خود بنانے کے لیے

(صادق حسین ایڈووکیٹ)

Poet-sadiq-hussain-tombstone-knonie.jpg
 

آصف جسکانی

محفلین
"میں دور تھا ضرور مگر راستوں میں تھا"

یہ شعر کا دوسرا مصرعہ ہے، پہلا مصرعہ بھول گیا،اگر کسی کو یاد تو براے مہربانی بتا دیں



‏ﻗﺪﻣﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﯽ ﺯﻣﯿﻦ ﺳﻔﺮ ﻓﺎﺻﻠﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﺎ۔۔
‏ﻣﯿﮟ ﺩﻭﺭ ﺗﮭﺎ ﺿﺮﻭﺭ ﻣﮕﺮ ﺭﺍﺳﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﺎ۔۔
 

آصف جسکانی

محفلین
یہ اقبال کا شعر نہیں ہے۔ عطاالحق قاسمی صاحب کے ایک کالم میں اس شعر کے خالق کا نام میں نے پڑھا تھا لیکن ذہن سے نکل گیا ہے۔ بہرحال علامہ اقبال کا یہ شعر نہیں ہے۔
سید صادق حسین شاہ کاظمی
اس غزل کا ایک شعر زبان زد عام ہے لیکن اقبال کے نام سے غلط طور پر منسوب ہے۔ مکمل غزل پیش ہے:

تو سمجھتا ہے حوادث ہیں ستانے کے لیے
یہ ہوا کرتے ہیں ظاہر آزمانے کے لیے

"تندیِ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے"


کامیابی کی ہُوا کرتی ہے ناکامی دلیل
رنج آتے ہیں تجھے راحت دلانے کے لیے

نیم جاں ہے کس لیے حالِ خلافت دیکھ کر
ڈھونڈ لے کوئی دوا اس کے بچانے کے لیے

چین سے رہنے نہ دے ان کو نہ خود آرام کر
مستعد ہیں جو خلافت کو مٹانے کے لیے

استقامت سے اٹھا وہ نالۂ آہ و فغاں
جو کہ کافی ہو درِ لندن ہلانے کے لیے

آتشِ نمرود گر بھٹکی ہے کچھ پروا نہیں
وقت ہے شانِ براہیمی دکھانے کے لیے

مانگنا کیسا؟ کہ تو خود مالک و مختار ہے
ہاتھہ پھیلاتا ہے کیوں اپنے خزانے کے لیے

دست و پا رکھتے ہیں تو بیکار کیوں بیٹھے رہیں
ہم اٹھیں گے اپنی قسمت خود بنانے کے لیے

سید صادق حسین شاہ کاظمی ایڈووکیٹ (ولادت:یکم اکتوبر 1898 ۔ وفات: 4 مئی 1989) از شکر گڑھ ضلع سیالکوٹ کے مجموعۂ کلام '' برگِ سبز" مطبوعہ 1976 فیروز سنز سے انتخاب

 
Top