یہ نگاہِ قاتلِ روح و دل میں عجیب کچھ تو ضرور ہے!!!
مری لاش کے ہے قریب نعشِ رقیب ، کچھ تو ضرور ہے!!!

یہ محبتوں کے سمندروں کے جواہرات کی جستجو
ترے بحرِ عشق کا غوطہ زن اے حبیب! کچھ تو ضرور ہے

ارے بحرِ درد میں شعر کی یہ بحور ہم کو ملی نہیں
کہ مریضِ عشق نے پایا رنگِ ادیب کچھ تو ضرور ہے

ہمیں ہوش آیا تو حوصلے سے کہا: ”نہیں، ہمیں کچھ نہیں“
مگر آکے بول گیا ہر ایک طبیب: ”کچھ تو ضرور ہے“

ترا چاند جیسا حسین چہرہ نگاہِ دل میں تو ہے ، مگر
نہیں ملتفت اگر آج قلبِ منیب ، کچھ تو ضرور ہے

وہ حبیبِ خالقِ ملک و زر بھی غریبِ مال و وطن رہے
اے امیرِ اہلِ وطن! مقامِ غریب کچھ تو ضرور ہے

بشمال رخ بجنوب میں ، بجنوب رخ بشمال تو
مرے آس پاس ، ترے اریب قریب کچھ تو ضرور ہے

مرا نام بھی ہے سنو محمد اسامہ سَرسَری اے قضا!
مرے حوصلوں کی بلندیوں کا نصیب کچھ تو ضرور ہے

ٹیگ نامہ۔۔
 
آخری تدوین:

شاہد شاہنواز

لائبریرین
بہت اچھی اور سوچ سمجھ کر لکھی گئی غزل ہے ۔۔۔ مزید میری گزارشات یہ ہیں ۔۔۔ اگر قابل غور محسوس ہوں:
یہ نگاہِ قاتلِ روح و دل میں عجیب کچھ تو ضرور ہے!!!
مری لاش کے ہے قریب نعشِ رقیب ، کچھ تو ضرور ہے!!!
÷÷÷مطلع مناسب معلوم ہوتا ہے، حالانکہ نگاہِ قاتل روح و دل کی ترکیب قدرے لمبی ہے۔۔پھر بھی
یہ محبتوں کے سمندروں کے جواہرات کی جستجو
ترے بحرِ عشق کا غوطہ زن اے حبیب! کچھ تو ضرور ہے
۔۔۔ غوطہ زن "کوئی" ہوسکتا ہے۔۔۔ "کچھ" مناسب نہیں لگ رہا۔۔۔
ارے بحرِ درد میں شعر کی یہ بحور ہم کو ملی نہیں
کہ مریضِ عشق نے پایا رنگِ ادیب کچھ تو ضرور ہے
۔۔۔ "ارے" کی جگہ کچھ اور لائیے۔۔۔ ملی نہیں بھی غلط ہے کیونکہ بحور جمع ہے۔۔ ملیں نہیں آئے گا۔۔۔
مریض عشق کا رنگ ادیب پانا کس حد تک Logical ہے۔۔۔ اساتذہ بہتر بتاسکتے ہیں۔۔۔
ہمیں ہوش آیا تو حوصلے سے کہا: ”نہیں، ہمیں کچھ نہیں“
مگر آکے بول گیا ہر ایک طبیب: ”کچھ تو ضرور ہے“
÷÷÷بول گیا۔۔۔ کی جگہ کہہ گیا لائیے، یہ اتنا دشوار بھی نہیں۔
ترا چاند جیسا حسین چہرہ نگاہِ دل میں تو ہے ، مگر
نہیں ملتفت اگر آج قلبِ منیب ، کچھ تو ضرور ہے
÷÷ نگاہ دل کی جگہ نگاہِ یار بھی ہوسکتا ہے۔۔۔ اگر بہتر لگے۔۔۔
وہ حبیبِ خالقِ ملک و زر بھی غریبِ مال و وطن رہے
اے امیرِ اہلِ وطن! مقامِ غریب کچھ تو ضرور ہے
÷÷ درست
بشمال رخ بجنوب میں ، بجنوب رخ بشمال تو
مرے آس پاس ، ترے اریب قریب کچھ تو ضرور ہے
÷÷÷ سمجھ میں نہیں آیا ۔۔
مرا نام یاد رکھو محمد اسامہ سَرسَری اے قضا!
مرے حوصلوں کی بلندیوں کا نصیب کچھ تو ضرور ہے
۔۔۔ قضا کی بجائے زندگی کو مخاطب کرنا زیادہ بہتر لگتا۔۔۔

ٹیگ نامہ۔۔
 
بہ تکلف بنائی ہوئی غزل لگتی ہے، تاہم اچھی ہے۔
۔۔۔ شاہد شاہنواز نے ’’نگاہِ قاتلِ روح و دِل‘‘ کو طویل قرار دیا، ایسی تراکیب اگر شعر میں کھُب کر آ رہی ہوں تو لطف دے جاتیں، بات وہی ہے سلیقے اور فن کاری کی۔ مجھے ذاتی طور پر یہ ترکیب یوں بھلی نہیں لگی کہ یہاں قتل ہونے کے لئے ’’روح و دل‘‘ کی بجائے کچھ اور ہونا چاہئے تھا۔
 
۔۔۔ سمندروں میں جواہر کی جستجو یا سمندروں کے جواہر کی جستجو؟ یہاں ’’کچھ‘‘ کا جواز یوں بنتا ہے کہ غوطہ زن کچھ نہ کچھ خاص وصف، جذبہ وغیرہ رکھتا ہے۔ اگرچہ شعر کی بیانیہ سطح بہت اعلٰی نہیں ہے۔’’بحرِ عشق کا غوطہ زن‘‘ ادا کرنے میں بھی ثقیل ہے۔
 
۔۔۔ ارے والی بات شاہد شاہنواز کی بالکل درست ہے۔ یہ ’’ارے‘‘شعر کا تاثر نہیں بننے دے رہا۔ اس شعر کی تلازماتی سطح بھی وہ نہیں بنی، یوں قاری کو اس میں مفہوم خود ’’ڈالنا‘‘ پڑ رہا ہے۔ توجہ فرمائیے گا۔
۔۔۔ بول گیا اردو کا معروف محاورہ نہیں ہے۔ ’’کہہ گیا‘‘ بہتر ہوتا (بہ شرطِ اوزان)۔ اس شعر پر ذرا سی توجہ دے کر اسے بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ ہر ایک طبیب کی بجائے اگر طبیب خاص کر لیا جائے تو شعر کی جمالیاتی اور محسوساتی سطح بلند ہو سکتی ہے۔
 
بہ تکلف بنائی ہوئی غزل لگتی ہے، تاہم اچھی ہے۔
۔۔۔ شاہد شاہنواز نے ’’نگاہِ قاتلِ روح و دِل‘‘ کو طویل قرار دیا، ایسی تراکیب اگر شعر میں کھُب کر آ رہی ہوں تو لطف دے جاتیں، بات وہی ہے سلیقے اور فن کاری کی۔ مجھے ذاتی طور پر یہ ترکیب یوں بھلی نہیں لگی کہ یہاں قتل ہونے کے لئے ’’روح و دل‘‘ کی بجائے کچھ اور ہونا چاہئے تھا۔
جزاکم اللہ خیرا۔۔۔ بہت شکریہ استاد جی رہنمائی فرمانے کا۔۔۔ روح و دل کی جگہ کسی اور کو قتل کرنے کی سوچتا ہوں۔
 
بہت اچھی اور سوچ سمجھ کر لکھی گئی غزل ہے ۔۔۔ مزید میری گزارشات یہ ہیں ۔۔۔ اگر قابل غور محسوس ہوں:
جزاکم اللہ خیرا۔۔۔ بہت شکریہ جناب اتنی توجہ، رنمائی، حوصلہ افزائی اور کرم فرمائی کا۔۔
اللہ آپ کو ہمیشہ خوش رکھے۔۔۔
 
۔۔۔ نگاہِ دل سے شاعر کی اغلب مراد یہ ہے کہ ’’میرے دل میں بسا ہوا ہے‘‘۔ ’’نگاہِ یار‘‘ کا اس خاص سیاق و سباق میں محل نہیں بنتا۔تاہم عجیب سی صورت بنتی ہے کہ چہرہ دل میں ہے اور دل ملتفت نہیں ہے۔ اسی مضمون کو کسی اور انداز میں ادا کرنے کی کوشش کیجئے گا۔
۔۔۔ حبیبِ خالقِ ملک و زر سے مراد اگر نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ترکیب ’’غریبِ مال و وطن‘‘ مجھے نہیں اچھی نہیں لگی۔ کوئی اور مراد ہے تو آپ جانئے۔
 
۔۔۔ یہ شمال جنوب والا تو گستاخی معاف! لفظی ہیر پھیر ہے۔ لفظی بازی گری شعر گوئی کا ایک بہت مؤثر اور کامیاب حربہ ہو سکتا ہے، اگر آپ معانی کی بھی ویسی پرتیں بنا سکیں۔ نہیں تو اس سے احتراز بہتر ہے۔
۔۔۔ مقطع میں اپنا پورا نام استعمال کرنے کوشش میں آپ کا شعر عجزِ بیان کا شکار ہو گیا۔
 
جتنی اچھی اور مترنم بحر آپ نے منتخب کی، اس میں شعر بھی ویسے اچھے آنے چاہئیں تھے۔
متفاعلن متفاعلن متفاعلن متفاعلن
خبرِ تحیّرِ عشق سن نہ جنوں رہا نہ پری رہی
نہ تو تو رہا نہ تو میں رہا جو رہی سو بے خبری رہی
چلی سمتِ غیب سے اک ہوا کہ چمن سرور کا جل گیا
مگر ایک شاخِ نہالِ غم جسے دل کہیں سو ہری رہی

نہ سلیقہ مجھ میں کلیم کا نہ قرینہ تجھ میں خلیل کا
میں ہلاکِ جادوئے سامری تو قتیلِ شیوۂ آذری
میں نوائے سوختہ در گلو تو پریدہ رنگ رمیدہ بو
میں حکایتِ غمِ آرزو تو حدیثِ ماتمِ دل بری​
۔۔۔۔۔۔ دعاؤں کا طالب ہوں۔
 
ابھی ایک شعر (امجد اسلام امجد کا) نظر سے گزرا ۔۔۔ لفظی صناعی کی بہت عمدہ مثال ہے
اگر وہ زور و زر سے بھی نہ مانے
تو اس کے سامنے زاری نہ کرنا

لطف لیجئے، لفظوں کا بھی اور معانی کا بھی!
 
آخری تدوین:

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہ

ہمیں ہوش آیا تو حوصلے سے کہا: ”نہیں، ہمیں کچھ نہیں“
مگر آکے بول گیا ہر ایک طبیب: ”کچھ تو ضرور ہے“
 
۔۔۔ سمندروں میں جواہر کی جستجو یا سمندروں کے جواہر کی جستجو؟ یہاں ’’کچھ‘‘ کا جواز یوں بنتا ہے کہ غوطہ زن کچھ نہ کچھ خاص وصف، جذبہ وغیرہ رکھتا ہے۔ اگرچہ شعر کی بیانیہ سطح بہت اعلٰی نہیں ہے۔’’بحرِ عشق کا غوطہ زن‘‘ ادا کرنے میں بھی ثقیل ہے۔
۔۔۔ ارے والی بات شاہد شاہنواز کی بالکل درست ہے۔ یہ ’’ارے‘‘شعر کا تاثر نہیں بننے دے رہا۔ اس شعر کی تلازماتی سطح بھی وہ نہیں بنی، یوں قاری کو اس میں مفہوم خود ’’ڈالنا‘‘ پڑ رہا ہے۔ توجہ فرمائیے گا۔
۔۔۔ بول گیا اردو کا معروف محاورہ نہیں ہے۔ ’’کہہ گیا‘‘ بہتر ہوتا (بہ شرطِ اوزان)۔ اس شعر پر ذرا سی توجہ دے کر اسے بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ ہر ایک طبیب کی بجائے اگر طبیب خاص کر لیا جائے تو شعر کی جمالیاتی اور محسوساتی سطح بلند ہو سکتی ہے۔
۔۔۔ نگاہِ دل سے شاعر کی اغلب مراد یہ ہے کہ ’’میرے دل میں بسا ہوا ہے‘‘۔ ’’نگاہِ یار‘‘ کا اس خاص سیاق و سباق میں محل نہیں بنتا۔تاہم عجیب سی صورت بنتی ہے کہ چہرہ دل میں ہے اور دل ملتفت نہیں ہے۔ اسی مضمون کو کسی اور انداز میں ادا کرنے کی کوشش کیجئے گا۔
۔۔۔ حبیبِ خالقِ ملک و زر سے مراد اگر نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ترکیب ’’غریبِ مال و وطن‘‘ مجھے نہیں اچھی نہیں لگی۔ کوئی اور مراد ہے تو آپ جانئے۔
۔۔۔ یہ شمال جنوب والا تو گستاخی معاف! لفظی ہیر پھیر ہے۔ لفظی بازی گری شعر گوئی کا ایک بہت مؤثر اور کامیاب حربہ ہو سکتا ہے، اگر آپ معانی کی بھی ویسی پرتیں بنا سکیں۔ نہیں تو اس سے احتراز بہتر ہے۔
۔۔۔ مقطع میں اپنا پورا نام استعمال کرنے کوشش میں آپ کا شعر عجزِ بیان کا شکار ہو گیا۔
جزاکم اللہ خیرا۔۔۔۔
 
استادِ محترم! آنجناب کے ارشادات کی روشنی میں کچھ تبدیلی کے بعد:

یہ نگاہِ قاتلِ جانِ جاں میں عجیب کچھ تو ضرور ہے!!!
مری لاش کے ہے قریب نعشِ رقیب ، کچھ تو ضرور ہے!!!

یہ محبتوں کے سمندروں میں جواہرات کی جستجو
ترے بحرِ درد کا غوطہ زن اے حبیب! کچھ تو ضرور ہے

ہمیں ہوش آیا تو حوصلے سے کہا: ”نہیں، ہمیں کچھ نہیں“
مگر آکے کہتا رہا ہر ایک طبیب: ”کچھ تو ضرور ہے“

ترا چاند جیسا حسین چہرہ نگاہِ دل میں رہا ، مگر
نہیں ملتفت اگر آج قلبِ منیب ، کچھ تو ضرور ہے

رہے عاشقانِ خدائے کل بھی مہاجرانِ زمین و زر
اے امیرِ اہلِ وطن! مقامِ غریب کچھ تو ضرور ہے

میں شمال میں ، تو جنوب میں ، میں تری طرف ، تو مری طرف
مرے آس پاس ، ترے اریب قریب کچھ تو ضرور ہے

اے اسامہ! سرسری سی مجھے بھی تو نیکیوں کی ہے جستجو
مری زندگی کی سعادتوں
کا نصیب کچھ تو ضرور ہے



 
بسم اللہ الرحمن الرحیم

تمام اہل محفل کو فرداًفرداً السلامُ علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔

میرے پیارے بھائی اردو کو معاف کرو اتنا ظلم ٹھیک نہیں اللہ تعالیٰ آپ کی حالت پر رحم کرے

اللہ تعالیٰ آپ سب کیلئے آسانیاں پیدا کرے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔

ا للہ حافظ و ناصر۔
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم

تمام اہل محفل کو فرداًفرداً السلامُ علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

میرے پیارے بھائی اردو کو معاف کرو اتنا ظلم ٹھیک نہیں اللہ تعالیٰ آپ کی حالت پر رحم کرے
آپ کی اس بات کا مقصد سمجھ میں نہیں آیا۔

اللہ تعالیٰ آپ سب کیلئے آسانیاں پیدا کرے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔

ا للہ حافظ و ناصر۔
آمین۔
 
Top