کیا کہنا چاہ رہے ہیں @شکیل احمد خان23 صاحب۔
ز پر تو اِس وقت تختی چل رہی ہے مگر جب یہ مصرع لکھا تھا اُس وقت حرف گ چل رہا تھا چھوٹتے ہی یہ مصرع بلکہ پوری غزل ذہن میں کوند گئی اور میں نے اِس مصرعے پر ہی اکتفا کرلیا:گلزارِ ہست و بود نہ بیگانہ وار دیکھ
اور بھائی صحافیوں کی طرح یہ بات بات پر چونکنا اور بین السطور کسی ان دیکھی ، ان جانی ،ان کہی خبر کی تاک میں رہنا بھی تو مناسب نہیں ہے نا۔آپ دیکھتے نہیں اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی ادائی کی دھن میں اِن بیچاروں کی آنکھیں کس بُری طرح اپنے موٹے موٹے چشموں سے باہر نکل کر ٹیبل پر پڑے چائے کے کنگ سائز کپ میں گرنے کے لیے بے تاب نظر آتی ہیں:
بے چین نظر بے تاب جگر یہ دل ہے کسی کا دیوانہ ہائے دیوانہ
کب شام ڈھلے کب شمع جلے، کب اُڑ کر پہنچے پروانہ ہائے پروانہ