سیما علی

لائبریرین
کیسے یہ بھی یاد آیا؀
اک بار پھر کہو ذرا
کہ میری ساری کائنات
تیری اک نگاہ پہ نثار ہے
ناہید نیازی کی آواز میں اس نظم کو بھی بڑی مقبولیت ملی تھی
 

وجی

لائبریرین
قسم قسم کی نعتیں لکھی گئیں ہیں
مگر ہمیں داؤد وارنزبائی علی کی نعت بڑی اچھی لگتی ہے۔
"Madina tun Nabi "
Dawud Warnsby
 

سیما علی

لائبریرین
فاصلوں کو تکلف ہے ہم سے اگر ہم بھی بے بس نہیں بے سہارا نہیں
خود انہی کو پکاریں گے ہم دور سے راستے میں اگر پاؤں تھک جائیں گے


اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص ض‌ ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر 20​

 
ژ کو بھی حسرت رہے گی کہ بیچارے سے چند ہی لفظ ہیں کہ بنتے ہیں ورنہ ہر ہر حرف بے شمار الفاظ کا خزانہ لیے اپنی آواز پر نازاں ہے مگر پھر اُسے خیال آیا کہ میں تو بہت خوش نصیب ہوں جو چند الفاظ ہی سہی بنتے توہیں ۔ بیچارہ آفت کا مارا ۔ڑ۔تو اِس معاملے میں مجھ سے بھی زیادہ خستہ حال ہے کہ کسی آواز کا سر اِس کے سر سے نہیں ملتا کہ آواز آئی ۔’’ڑے کیا لیاری کی سیر اور چیل چوک کا دورہ نہیں کیا،شیرشاہ نئیں گھوما ، آگرہ تاج کالونی دیکھا نہیں کیا جہاں ہر طرف اپن کا راج ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
ز سے پتہ نہیں کیوں یہ یاد آیا؀
کس طرح تجھ سے ملاقات میسر ہووے
یہ دعا گو ترا نے زور نہ زر رکھتا ہے


اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص ض‌ ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر 20​

 

سیما علی

لائبریرین
ڑےڑے آپا کیا زبردست شعر سنایا آپ نے۔
طبیعت کیسی ہے۔ 🥰
ر کتنا آسان ہے پر کبھی ذہن میں کچھ نہیں آرہا ۔بلکہ قابل اجمیری کا شعر یاد آرہا ہے ؀
اس حسنِ اتفاق کی تصویر کھینچ لو
ہوتے ہیں ایک ساحل و طوفاں کبھی کبھی
 

سیما علی

لائبریرین
ذرا قابل اجمیری صاحب کے بارے میں جانیے یہ کیسے درد و غم جمع کرتے ہیں ؀
قابل اجمیری کا اصل نام عبدالرحیم تھا- وہ 27 اگست 1931ء کو قصبہ چرلی میں پیدا ہوئے- یہ قصبہ ہندوستان کے صوبہ راجستھان کے ضلع اجمیر میں واقع ہے- قصبہ چرلی اجمیر سے چوبیس میل کے فاصلے پر ہے- قابل کا اجمیر کے مشہور “دیس والیوں کے خاندان” سے تعلق تھا- یہ خاندان پہلے راجپوت تھا جو شہاب الدین غوری کے حملے کے بعد مسلمان ہوا- اس خاندان میں بہت سے ذی حیثیت، اعلی تعلیم یافتہ اور نامور افراد ہوئے- قابل کے دادا کا نام چاند محمد، والد کا عبدالکریم اور والدہ کا نام گلاب تھا- قابل کے والد تقسیم ہند سے قبل اجمیر میں تعمیرات کی ٹھیکیداری کرتے تھے- موصوف بہت فرض شناس تھے- وہ خود تیز اور جھلستی ہوئی دھوپ میں گھنٹوں کھڑے رہ کر تعمیری کام کی نگرانی کیا کرتے تھے چنانچہ اس مسلسل اور صبر آزما مشقت کے سبب جسم پر انتہائی مضر اثرات پڑے یہاں تک کہ وہ دق کے مرض میں مبتلا ہو گئے- ان پر دق کا پہلا حملہ 1932ء میں ہوا- اس وقت قابل کی عمر صرف ایک برس تھی- یہ مرض اس تیزی سے بڑھا کہ 1938ء میں انکا اجمیر کے لونگیا ہسپتال میں انتقال ہو گیا اس صدمے سے قابل کی والدہ اس قدر نڈھال ہوئیں کہ وہ بھی چند دنوں کے بعد اس دار فانی سے رخصت ہو گئیں- ان سانحوں کے بعد قابل اپنے کم سن بھائی کے ہمراہ دنیا میں تنہا رہ گئے- انکے چھوٹے بھائی کا نام شریف اور ہمشیر کا نام فاطمہ تھا۔۔۔۔۔
قابل اجمیری

تم نہ مانو، مگر حقیقت ہے
عشق انسان کی ضرورت ہے
جی رہا ہوں اس اعتماد کے ساتھ
زندگی کو مری ضرورت ہے
حسن ہی حسن، جلوے ہی جلوے
صرف احساس کی ضرورت ہے
اس کے وعدے پہ ناز تھے کیا کیا
اب دروبام سے ندامت ہے
اس کی محفل میں بیٹھ کر دیکھو
زندگی کتنی خوبصورت ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top