خپلو
سکردو سے 103 کلومیٹر دور گلگت بلتستان کی ریاست خپلو بلند برفانی چوٹیوں اور راجہ کے قلعے کے حوالے سے تو جانی جاتی ہی ہے مگر پاکستان کے دوسرے خطوں میں بسنے والے لوگ یہ نہیں جانتے کہ اس وادی نے کتنے عالم، ادیب اور شاعر پیدا کیے۔
786 ہجری میں سید علی ہمدانی خپلو آئے اور یہ وادی علم و ادب کا گہوارہ بنتی چلی گئی۔ میر شمس الدین محمد عراقی یہاں وارد ہوئے تو عرفان کی بارش اس وادی کا مقدر بنی۔ میر نور بخش جیسے بلند پایہ شاعر خپلو میں پیدا ہوئے، جن کی لکھی ہوئی قرآن پاک کی تفسیر کا قلمی نسخہ کاظمیہ لائبریری تلیس میں موجود ہے۔
میر مختار بلند پایہ شاعر اور ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ فلسفی بھی تھے، انہوں نے اسلامی فقہ پر کتاب تحریر کی اور دیوان مختاریہ کے نام سے شعری مجموعہ شائع ہوا۔ وہ ایک فنکار اور ماہر تعمیرات تھے۔ بلتستان کی عظیم الشان خانقاہیں ان کی تعمیر کردہ ہیں۔