فراواں دئیے اور ناز و نعیم
الہٰی تو فیاض ہے اور کریم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نظیراکبرآبادی کی شبیہ آنکھوں میں پِھرگئی
۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اُن کی ذاتِ بابرکات بھی خداکی نعمت تھی
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
ظرف دیکھا یہ مئے عشق کے سرشاروں کا
بے خودی میں بھی تو بیخودؔ نہ کھلا ایک سے ایک


اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص
ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر 20

 
ضیاجالندھری(رنگ باتیں کریں اورباتوں سے خوشبوآئے)۔ اور سید ضمیر جعفری(ایک ریل کے سفر کی تصویر کھینچتا ہوں) کی طرح مشہور تو نہیں مگر اپنی علمی تصنیفات اورشعری تخلیقات کے ساتھ اُردُو ادب میں جب تک اُردُو زبان ہے ،حیاتِ دائمی کا سامان ضرور کرگئے۔۔۔​
ضیاء فتح آبادی کی کتابیں
1۔مسندِ صدارت سے۔(شاعری پر خطبات)
2۔گردِ راہ(شعری مجموعہ جس میں رباعیات، آزاد نظمیں اور غزلیں ہیں)
3۔نئی صبح(رباعیات، قطعات، نظموں اور غزلوں پر مشتمل شعری مجموعہ)
4۔مجموعہ ٔ کلامِ ضیاء(رباعیات ،گیت، آزاد اور پابندنظمیں اور غزلیں)
5۔دھوپ اور چاندنی(کلامِ شاعر بقلمِ شاعر)
اِس کتاب میں شاعر نے اپنے دستِ خاص اور قلم اعجاز رقم سے غزلیں پیش
کی ہیں۔تحریر نہایت خوش وضع، خوش خط اور خوش ادا ہے اورتمام غزلیں،
غزل کے عین مقررہ سانچے میں لکھی گئی ہیں۔
6۔بوڑھا درخت(ڈاکٹر زرینہ ثانی کی وہ کتاب جو ضیاء فتح آبادی کی حیات،
شخصیت اور شاعری پر روشنی ڈالتی ہے ،اُن کی آزاد نظموں ، پابندنظموں اور
غزلیہ شاعری کا احاطہ کرتے ہوئے مشاہیر کی نظر میں ضیاء فتح آبادی کی
شاعری کی وقعت ورفعت کے اندازے بھی اِس کتاب میں موجود ہیں)​

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:
صفؔی لکھنوی ، جی ہاں سیدعلی نقوی زیدی صفؔی لکھنوی ہی اِس شعرکے خالق ہیں:​
غزل اُس نے چھیڑی مجھے ساز دینا
ذرا۔عمر ِ رفتہ ۔کو۔ آواز۔۔۔ دینا​
اور یہ شعر بھی اُن ہی کی فکر کا نتیجہ ہے:
دل کے اجزائے پریشاں کو حقارت سے نہ دیکھ
کہیں۔ صدیوں ۔میں۔ یہ سرمایہ ۔بہم ۔ہوتا ہے
 
آخری تدوین:
شاد عظیم آبادی کی غزل کے چند اشعار،مشتے نمونہ از خروارے:​
دل اپنی طلب میں صادق تھاگھبرا کے سُوئے مطلوب گیا
دریا سے یہ موتی نکلا تھا دریا میں یہ جاکر ڈوب گیا
پیری میں جوانی کی باتیں کیا عرض کروں اک قصہ ہے
وہ طرز گئی ، وہ وضع گئی ،انداز گیا، اُسلوب گیا
طاقت جو نہیں اب حیرت سے تصویرکا عالم رہتا ہے
وہ آخرِ شب کی آہ گئی وہ نعرۂ یا محبوب گیا
واہ۔!
نعرۂ عشق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’یا محبوب!!!!‘‘
 
آخری تدوین:
راجہ مہدی علی خاں کے گیت ہوں ، مدن موہن کی موسیقی اور لتا کی آواز یا محمد رفیع کی نوائے سروش ۔۔۔۔۔۔۔۔اِس پر بھی کوئی جھوم نہ اُٹھے تو کہاجائے گا:​
پتھر کے صنم !۔۔تجھے ہم نے محبت کا خدا جانا
بڑی بھول ہوئی ابے ہم نے یہ کیا سمجھا یہ کیا جانا​
 
آخری تدوین:
ذراسی دیر میں کیا ہوگیا زمانے کو۔۔۔۔۔۔۔یہ قمر جلالوی کی آواز ہے جو اُن کی غزل کبھی کہا نہ کسی سے ترے فسانے کو ،سے لی گئی ہے یعنی دباکے قبر میں سب چل دئیے دعا نہ سلام ذراسی دیر میں کیا ہوگیازمانے کو۔۔بات یہ ہے کہ ایک اور شاعر بھی ہیں اُن کا نام ہے قمر جلال آبادی ۔اصل نام تو اوم پرکاش بھنڈاری تھا مگر قمر تخلص اور جلال آباد(امرتسرکے قریب ایک گاؤں )کی پیدائش اور رہائش کے سبب قمرجلال آبادی ہوئے۔
اور بات یہ بھی ہے کہ قمرجلال آبادی فلمی شاعر ہیں اُن کا اوڑھنا بچھونا فلمی دھنوں پر الفاظ ثبت کرنا تھا جبکہ قمرجلالوی قدرت سے زبان دانی کا وہ ملکہ لے کر میدانِ سخن میں اُترے کے اُستاد کے منصب پر فائز ہوگئے ۔ قمر جلال آبادی کے چند مشہور گیت:
1۔ ڈم ڈم ڈِگا ڈِگا موسم بھیگا بھیگا ہائے اللہ صورت آپ کی سبحان اللہ(مکیش)
2۔ وہ پاس رہیں یا دُور رہیں نظروں میں سمائے رہتے ہیں، اتناتو بتادے کوئی ہمیں کیا پیار اِسی کو کہتے ہیں(ثریا)
3۔اک پردیسی میرا دل لے گیا (آشااور محمدرفیع)
4۔میں تو اک خواب ہوں اِس خواب سے تُو پیار نہ کر(مکیش)
اور یہ ہیں اُستادِ عالی مقام حضرت قمرجلالوی کےچند نغمے :
1۔ کب میرا نشیمن اہلِ چمن گلشن میں گوارہ کرتے ہیں(حبیب ولی محمد)
2۔مریضِ محبت اُنھی کا فسانہ سناتا رہا دم نکلتے نکلتے (منی بیگم)
3۔کبھی کہا نہ کسی سے ترے فسانے کو(نورجہاں، عزیزمیاں،غلام علی ،مہدی حسن ، رونا لیلیٰ اور کلامِ شاعربزبانِ شاعر کے تحت خود استادِ محترم نے بھی اپنی یہ غزل اہلِ گوش کو عطافرمائی)​
 
دعائیں ہیں پٹھانے خان(حضرت خواجہ فرید کی کافیاں) اور طفیل نیازی (ساڈا چِڑیاں دا چنبہ وےبابلا اساں اُڈ جاناں )کے لیے ۔ خدااِ ن کی مغفرت فرمائے ،آمین۔​
 
آخری تدوین:
’’خدا کی بستی ‘‘ شوکت صدیقی کا وہ ناول ہے جس کے واقعات کتاب سے نکل کر اعصاب پر اور اب اہلِ دل کے حواس پر چھائے ہیں۔ہمیں یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ مصنف نے صرف یہی ایک کمال کا ناول لکھا ہے، نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔بلکہ وہ ’’چاردیواری‘‘،’’جانگلوس‘‘اور’’ کمین گاہ‘‘جیسے باکمال ناولوں کے مصنف بھی ہیں تاہم ’’خداکی بستی ‘‘کو اِن تمام پر اور اُن کے دوسرے ناولوں پر فوقیت رہیگی۔
’’انگارے‘‘بھی شوکت صدیقی کا ایک ناول ہے مگرمجھے اِس کے عنوان’’انگارے‘‘سے اُردُو کا وہ تہلکہ مچاتا، فتنے اُٹھاتا اورہوش اُڑاتا افسانوں کا مجموعہ یاد آجاتا ہے جس میں نو افسانہ نما انگارے تھے اور ایک ایکٹ کے ڈرامے کے نام پر ایک شرارہ بھی۔ شوکت صدیقی نے تو انتساب میں ’’اُن انگاروں کے نام جو خدا کی بستی کو جلا کرراکھ کردیتے ہیں‘‘لکھ کر گویا اطمینان دلایادیا تھا کہ اِس ناول میں اُن لوگوں کو لتاڑا جائے گا جوسکونِ قلب و جگر کے درپے اور امنِ عامہ کے لاگو ہیں مگر افسانوں والے ’’انگارے ‘‘میں غیرعلانیہ طور اس طرح کی پھلجڑیاں چھوڑی گئیں کہ ہلچل ہی مچ گئی۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
حقیقت میں یہ اردو ادب کے حروف تہجی کی لڑی بن گئی ہے! مگر میں نے حالی کو بخش دیا، وہ وہیں غالب کی یاد میں مصروف ہیں!
 

سیما علی

لائبریرین
چائے تک بنانے کے لئے آج گیس نہیں تھی دعائیں دیں اپنی الیکڑک کیتلی کو صاحب بہادر کوُبالکل پسند نہیں پر وائے مجبوری بارہ گھنٹے ہوگئے ہیں اب تک گیس نہیں ہے دوپہر کا کھانا باہر یعنی جمخانہ جاکر کھایا
عجب حال ہے ضروریات زندگی کبھی کراچی میں یوں مشکل نہ تھیں
بارہا شکایات کرنے کے باوجود کوئی شنوائی نہ تھی
؀
کوئی دل جوئی نہیں تھی کوئی شنوائی نہ تھی
جیسے اہل شہر سے میری شناسائی نہ تھی


اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص
ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر 20​

 
جناب ِ من چاہیے تو یہی کہ اُردُو محفل کا ہر زُمرہ اُردُو ادب کی ٹکسال کا کام بھی کرے اور ایک مستند فرہنگ اور لغات کا فریضہ بھی انجام دے ، جہاں لکھا ہوا ہر لفظ ، ہر جملہ ، ہر ہرعبارت اُردُو زبان و بیان، اِس کا روزمرہ اور محاورہ اُردُو کے حق میں ایک عینی معیارہو کہ ضرورت پڑنے پر کسی لفظ کے صحیح اِملا ، صحیح تلفظ اور صحیح استعمال کی سندیہاں سے لی جاسکے ۔۔۔۔۔

 
آخری تدوین:
Top