سیما علی

لائبریرین
شدت جذبوں کی نظر آتی ہے
احمد فراز صاحب کی شاعری میں
؀
شکوہِ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

اصل نام سید احمد شاہ علی تھا اور شعر و ادب کی دنیا میں احمد فراز کے نام سے لازوال شہرت پائی
احمد فراز کی شاعری کا ایک نمایاں وصف ان کا سادہ اندازِ تحریر اور وہ سلاست ہے جس میں حد درجہ نزاکت اور لطافت پائی جاتی ہے۔ ان کے اشعار عام آدمی بھی بڑی آسانی سے سمجھ لیتا ہے اور لطف اندوز ہوتا ہے۔ احمد فراز صاحب نے پہلا شعر کب کہا، اس حوالے سے ایک دل چسپ واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ ان کے والد عید کے کپڑے لائے۔ فراز کو یہ کپڑے پسند نہیں آئے بلکہ انھیں اپنے بھائی کے لیے خریدا گیا کپڑا زیادہ پسند آیا۔ اس موقع پر انہوں نے یہ شعر کہا تھا:
سب کے واسطے لائے ہیں کپڑے سیل سے
لائے ہیں میرے لیے قیدی کا کمبل جیل سے
 

سیما علی

لائبریرین
سید احمد شاہ علی یعنی احمد فراز صاحب
جدید لب و لہجے کے اس خوب صورت شاعر ہیں رومانوی موضوعات کے علاوہ سماجی اور سیاسی عوامل کے زیر اثر جنم لینے والے‌ خیالات اور جذبات بھی ملتے ہیں۔ وہ سماجی اقدار کے بہت بڑے علم بردار تھے اور اس حوالے سے اپنی فکر اور نظریات کا شاعری میں بھی اظہار کیا ہے۔
؀
اس شہر میں ہو جنبشِ لب کا کسے یارا
یاں جنبشِ مژگاں بھی گنہگار کرے ہے

تو لاکھ فراز اپنی شکستوں کو چھپائے
یہ چپ تو ترے کرب کا اظہار کرے ہے
 

سیما علی

لائبریرین
ژرف نگاہی کمال تھی جناب احمد فراز صاحب کی کہتے ہیں ؀
میں خوش ہوں راندۂ افلاک ہو کر
مرا قد بڑھ گیا ہے خاک ہو کر
فرازؔ احساں ہے یاروں کا کہ یہ دل
گریباں بن گیا ہے چاک ہو کر
 
آخری تدوین:
زباں پہ درد بھری داستاں چلی آئی ۔۔۔۔۔بہار آنے سے پہلے خزاں چلی آئی،پریشان نہ ہوں ز سے کوئی جملہ نہ سُوجھا تو مکیش کا یہ گیت یاد آگیا، وہی یہاں ٹھونک دیا ۔ویسے بات کہنے کا یہ انداز دبستانِ ممبئی کی دین ہے ۔خدا بھائی لوگوں کو سلامت رکھے اُن کا کلچر اُن کے کوچوں سے نکل کر فلموں میں تو آہی گیاہےاب کچھ ہی دنوں میں نصاب میں بھی شامل ہوجائیگا۔۔۔۔۔۔​
 
رہی بات وہ پہلے کے ادیبوں کی جن کی شستہ وشائستہ زبان بالی وُڈ کی فلموں میں رائج تھی اب بھی اُس کے اثر سے بعض بوڑھے فلم ایکٹر شاعر نظر آتے ہیں۔۔۔۔۔پریم چوپڑا اِس کی بہترین مثا ل ہیں ۔​
 

سیما علی

لائبریرین
ذرا نظر ڈالیے جنابِ احمد فراز کے کردارپہ
؀
احمد فرازؔ صاحب اپنے ملک کے سیاسی حالات اور اتھل پتھل سے بے چین رہتے تھے۔ ناگفتہ سیاسی حالات سے چشم پوشی کرنا ان کے لیے کسی خطرے سے کم نہ تھا۔ احتجاج، ان کی فطرت اور خمیر میں شامل تھا۔ احمد فرازؔ دبے، کچلے، مظلوموں، بے کس اور بے یار و مدد گر لوگوں کی آاوازاور نمائندہ بن کر سامنے آئے۔ ’’بانو کے نام‘‘ان کی ایک ایسی ہی نظم ہے جس میں ایک مظلوم اور بے بس عورت کے دُکھ، درد کو قارئین کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔ بانو، جو ایک کم سِن کنیز تھی اور جس کا قتل جونا گڑھ کی بیگم کے اشارے پر کیا گیا تھالیکن پاکستانی حکومت نے بیگم جونا گڑھ کو بانو کے قتل کے الزام سے با عزت بری کر دیا تھا۔
بانو کے نام
؀
ملوکیت کے محل کی گنہگار کنیز
وہ جُرم کیا تھا کہ تجھ کو سزائے مرگ ملی
وہ راز کیا تھا کہ تعزیرِ ناروا کے خلاف
تری نگاہ نہ بھڑکی تری زباں نہ ہلی
وہ کون سا تھا گناہِ عظیم جس کے سبب
ہر ایک جبر کو تُو سہہ گئی بطیبِ دلی

یہی سُنا ہے بس اتنا قصور تھا تیرا
کہ تُو نے قصر کے کچھ تلخ بھید جانے
تری نظر نے وہ خلوت کدوں کے داغ گنے
جو خواجگی نے زر و سیم میں چھپانے تھے
تجھے یہ علم نہیں تھا کہ اِس خطا کی سزا
ہزار طوق و سلاسل تھے تازیانے تھے

یہ رسم تازہ نہیں ہے اگر تری لغزش
مزاجِ قصر نشیناں کو ناگوار ہوئی
ہمیشہ اُونچے محلاّت کے بھرم کے لئے
ہر ایک دَور میں تزئینِ طوق و دار ہوئی
کبھی چُنی گئی دیوار میں انار کلی
کبھی شکنتلا پتھراؤ کا شکار ہوئی

مگر یہ تخت یہ سلطاں یہ بیگمات یہ قصر
مؤرخین کی نظروں میں بے گناہ رہے
بفیضِ وقت اگر کوئی راز کھُل بھی گیا
زمانے والے طرفدارِ کجکلاہ رہے
ستم کی آگ میں جلتے رہے عوام مگر
جہاں پناہ ہمیشہ جہاں پناہ رہے


ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص

ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے
ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر ۔20
 

سیما علی

لائبریرین
ڈرنا نہیں ہے گھبرانا نہیں یہ ہے اصل شاعر کا ضمیر ؀
ستم کی آگ میں جلتے رہے عوام مگر
جہاں پناہ ہمیشہ جہاں پناہ رہے
 

سیما علی

لائبریرین
خیر
امامِ علیٰ علیہ السلام کے اس قول میں ہے اگر حکومتِ وقت کی سمجھ میں آئے
'کفر کی حکومت قائم رہ سکتی ہے، ظلم کی نہیں‘۔؎
اس ظلم سے نجات کیسے ملے؟ اصلاح کی ایک ہی صورت ہے: یہ عوام ہوں یا خواص، ظلم سے باز آ جائیں۔
مولا علی علیہ السلام
کا جملہ ہم بہت دہراتے ہیں مگر اس پر غور کی توفیق کم ہی نصیب ہوتی ہے۔ لغت میں ظلم کا مفہوم لکھا ہے: 'شے کو اپنے محل سے ہٹا دینا‘۔ جیسے ہی ہم اس غلطی کا ارتکاب کریں گے، ظلم وجود میں آئے گا۔ سماج اور ریاست کے باب میں انسان کی تاریخ صدیوں سے اس پر مہرِ تصدیق ثبت کرتی آئی ہے۔ یہ اشیا ہوں یا افراد، جب ہم انہیں ان کی جگہ سے ہٹا دیں گے، اس کا ناگزیر نتیجہ ظلم ہو گا۔
 
Top