ژالوں میں گھرا چھوڑ گئیں آپا پیاری ، راج دُلاری۔۔۔۔۔ہم نے بھی ہمت نہ ہاری ،آئی بیشک ژے کی باری،ژالہ باری

ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص
ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے
ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر ۔20
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
ژالوں میں گھرا چھوڑ گئیں آپا پیاری ، راج دُلاری۔۔۔۔۔ہم نے بھی ہمت نہ ہاری ،آئی بیشک ژے کی باری

ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص
ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے
ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر ۔20
زبردست زبردست زبردست
ہمارے شکیل بھیا
جیتے رہیے شاد و آباد رہیے ۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
خ سے ہمیں تو یہ یاد آرہا ہے وجی بھیا پہلے آپکی خدمت میں وعلیکم السلام
؀
صبح دم دروازۂ خاور کھلا
مہرِ عالم تاب کا منظر کھلا

خسروِ انجم کے آیا صرف میں
شب کو تھا گنجینۂ گوہر کھلا




ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص
ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے
ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر ۔20
 
حق تو یہ ہے کہ روزانہ کے سلام سے آگے بڑھ کر کچھ اور بھی ’’کہنے سننے ‘‘ کی ضرورت ہے۔’’وہ کیوں؟ ‘‘ایک نے پوچھا۔دوسرے نے جواب دیا : ’’وہ یوں کہ بھائی اِتنی دعا سلام کے لیے تو موبائل فون بہت ہیں جو ،اب تو سب ہی کے ہاتھوں کا جزوِ لاینفک یعنی لازمی ٹول/آلہ / اوزار بن گئے ہیں ۔ ’’تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟‘‘ پہلے نے تو کی او کو لمبا کھینچ کراستفسارکے انداز میں کہاْ۔’’تو یہاں ’’اُردُو محفل ‘‘میں کبھی کبھی اپنی کہانی بھی عرض کردیا کریں ،حال احوال بھی سنادیا کریں، وقت بہت تیزی سے آگے بھاگ رہا ہے ،ہم بہت سختی سے ایک جگہ ڈٹے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔کب تک، کہاں تک۔۔۔۔۔۔۔۔۔زمیں آسماں ہم پہ حیران ہیں،فرشتوں سے بڑھ کر یہ انسان ہیں۔۔۔۔۔۔۔‘‘دوسرےنے شاعری شروع کردی۔​
 
چلو تو پھر ’’ چپ کی داد ‘‘ مولانا حالی کی نظم کا احوال کہو۔یہ نظم کیوں لکھی گئی ، کن حالات میں لکھی گئی ، جن مقاصد کے لیے لکھی گئی کیا وہ حاصل ہوئے، جن کے لیے لکھی گئی کیا اُنھوں نے اِسے پڑھا،پڑھ کر کیا محسوس کیا ، اور اور لوگوں نے بھی پڑھا تو اُن کی طرف سے کیا ردِ عمل آیا، کیا اب بھی ایسی نظمیں لکھنے ، ایسی باتیں کہنے ، یہ احساس دلانے کی ضرورت ہے ، کو ن ایسی نظمیں لکھے ، کون یہ باتیں کہے ، کون یہ احساس دلائے ۔۔۔۔مولانا حالی کہاں گئے ، عظمت اللہ خاں کیا ہوئے ، سرسید سے کہو وہی ترغیب دیں کہ پھر ایسا ادب لکھاجائے جو زندہ ادب کہلائے ، جس شوق سےلکھا جائے اُس سے کہیں زیادہ جو ش و خروش سے پڑھا جائے ، کباڑی کے ٹھیلوں کی زینت نہ بننے پائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دِلوں پہ نقش ہوجائے۔۔۔۔۔۔​
 
چلو تو پھر ’’ چپ کی داد ‘‘ مولانا حالی کی نظم کا احوال کہو۔یہ نظم کیوں لکھی گئی ، کن حالات میں لکھی گئی ، جن مقاصد کے لیے لکھی گئی کیا وہ حاصل ہوئے، جن کے لیے لکھی گئی کیا اُنھوں نے اِسے پڑھا،پڑھ کر کیا محسوس کیا ، اور اور لوگوں نے بھی پڑھا تو اُن کی طرف سے کیا ردِ عمل آیا، کیا اب بھی ایسی نظمیں لکھنے ، ایسی باتیں کہنے ، یہ احساس دلانے کی ضرورت ہے ، کو ن ایسی نظمیں لکھے ، کون یہ باتیں کہے ، کون یہ احساس دلائے ۔۔۔۔مولانا حالی کہاں گئے ، عظمت اللہ خاں کیا ہوئے ، سرسید سے کہو وہی ترغیب دیں کہ پھر ایسا ادب لکھاجائے جو زندہ ادب کہلائے ، جس شوق سےلکھا جائے اُس سے کہیں زیادہ جو ش و خروش سے پڑھا جائے ، کباڑی کے ٹھیلوں کی زینت نہ بننے پائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دِلوں پہ نقش ہوجائے۔۔۔۔۔۔​
جب ہم مولانا حالی کی نظم "چپ کی داد" کی بات کرتے ہیں، تو ہمیں اس کی تخلیق کے پس منظر میں جانا چاہیے۔ یہ نظم اس وقت لکھی گئی جب ہندوستان میں انگریزی استعمار کے خلاف آزادی کی جدوجہد جاری تھی، اور مسلمانوں میں علمی و ادبی تحریکات کے اثرات محسوس کیے جا رہے تھے۔ مولانا حالی نے اس نظم کے ذریعے عوام کی خاموشی اور بے حسی کی طرف اشارہ کیا، جو کہ ایک قومی احساس کی عدم موجودگی کا مظہر تھی۔

جن مقاصد کے لیے یہ نظم لکھی گئی، وہ جزوی طور پر حاصل ہوئے۔ اس نظم نے عوام میں شعور بیدار کرنے کی کوشش کی، اور اہل علم و ادب میں ایک نئی سوچ کی ابتدا کی۔ اس نظم کو پڑھ کر لوگوں نے مختلف جذبات کا اظہار کیا؛ کچھ نے اسے سراہا اور اسے ایک اہم ادبی کارنامہ مانا، جبکہ کچھ نے اسے اپنی خاموشی اور عدم عمل کا عکاس سمجھا۔

آج بھی ایسی نظمیں لکھنے کی ضرورت ہے، جو ہمیں اپنی ذمہ داریوں اور قومی احساسات کی یاد دلاتی رہیں۔ اس نوعیت کی نظموں کے لیے ہمیں ایسے شعرا کی ضرورت ہے جو معاشرتی مسائل پر گہرائی سے غور کریں اور انہیں اپنی شاعری کے ذریعے اجاگر کریں۔ ہمیں امید ہے کہ عظمت اللہ خاں، سرسید احمد خان، اور مولانا حالی جیسے افراد ہماری ادبی دنیا میں دوبارہ زندہ ہوں گے اور ایسی ترغیب دیں گے کہ ادب کو اس کی حقیقی شکل میں پیش کیا جائے۔

ایسی شاعری کو دلوں میں نقش ہونے کی ضرورت ہے، نہ کہ کباڑی کے ٹھیلوں کی زینت بننے کی۔ یہ وہ ادب ہونا چاہیے جو صرف لکھا نہ جائے، بلکہ اس کا پڑھا جانا بھی اہم ہو۔ اگر ہم ایسی نظموں کو زندہ رکھیں، تو ہم اپنے قومی احساسات کو مزید بیدار کر سکتے ہیں۔
 
ٹھٹھول اور مسخرا پن نہیں بلکہ سنجیدگی سے عرض ہے کہ ثواب کمایا آپ نے عبدالقدیر صاحب ، ایساتسلّی بخش،پُر مغز اور بھرپور جواب دے کر ڈھیروں ثواب کمایا۔ ۔۔۔

 
آخری تدوین:

وجی

لائبریرین

سیما علی

لائبریرین
اصل میں، ڈوم وہ لوگ ہوتے ہیں جو پرانے زمانے میں فنونِ لطیفہ جیسے گانا بجانا یا ناچنا پیشہ ورانہ طور پر کرتے تھے۔
یہ ڈوم اور ڈومنیاں گانے بجانے کا کام کیا کرتے تھے ۔۔۔
آب حیات میں مولانا محمد حسن آزاد نے میر سوزؔ کا ذکر کرتے ہوئے یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ ایک دن سوداؔ کے ہاں میر سوزؔ تشریف لائے۔ ان دنوں شیخ حزیںؔ کی غزل کا چرچا تھا جس کا مطلع ہے۔
می گرفتیم بجا تا سرِ را ہے گا ہے
اُد ہم از لطفِ نہاں داشت نگا ہے گا ہے
میرؔ سوز مرحوم نے اپنا مطلع پڑھا۔
نہیں نکلے ہے مرے دل کی اَپا ہے گا ہے
اے مُلک بہرِ خُدا رخصتِ آہے گا ہے
مرزا سن کر بو لے کہ میر صاحب بچپن میں ہمارے ہاں پشور کی ڈومنیاں آیا کرتی تھیں یا جب یہ لفظ سنا تھا یا آج سنا۔ میر سوز بچا رے ہنس کر چپ ہو رہے۔
پشا ور کی ڈومنیاں جو کہ نکسے اور اَیا ہے بو لتی تھیں فا رسی غزلوں کے بجائے ہندی چیزیں سنا تی ہونگی جو ان دنوں قریب الفہم اور مقبولِ عام تھیں۔
خلاصہ اس گفتگو کا یہ ہے کہ اردو جو کھڑی بو لی کا ایک مخصوص روپ ہے، عوام کی بولی چال کی زبان بنی اور ا س نے پہلی بار ان کے جذبہ اظہار کو زبان دی ادبی زبان اور بول چال کے فرق کو مٹا یا۔ چنانچہ اٹھارویں صدی پر دہلوی شعراء کا کلام با لعموم اسی لسانی اصول کا پا بند اور آئینہ دار ہے۔
 
Top