نیلم
محفلین
نفس۔۔۔حقیقتِ تصوف۔۔۔اور ضابطہِ نبوی صلی الله علیہ والہ وسلم
انسان کا سب سے بڑا دشمن اور دوست اسکا اپنا نفس ہے۔ یہ ایک سرکش گھوڑا ہے جو اگر قابو آ جائے تو اس سے بڑھ کر کوئی دوست نہیں۔ اللہ نے جسم کو سواری بنایا، نفس کو کوچوان اور روح کو سوار ۔ اگر یہ تینوں اپنے اپنے مقام پر آ جائیں تو انسان عبدیت کی منزل پر آ جاتا ہے۔ روح امر ہے۔ یہ اللہ اور بندے کی درمیان رابطے کا ذریعہ ہے۔ روح چونکہ امر ربی ہے اور قلب انسانی سے پیوست ہوتی ہے اس لئے پاکیزہ ہوتی ہے۔ روح خیر پر مائل کرتی ہے ۔ اسی لئے تمام ارواح خیر کی مسافر ہوتی ہیں۔ کوئی روح غلیظ نہیں ہوتی۔
انسان کا دوسرا جز نفس ہے۔..نفس کیا ہے؟ نفس در اصل وہ طاقت ہے جو بدن کی سواری کو چلاتی ہے اور اس پر طاقت رکھتی ہے۔نفس ہر جاندار میں موجود ہوتا ہے۔ نفس چونکہ آگاہی پیدا کرتا ہے اور اس آگاہی کی مدد سے جسم مختلف مواقع پر اپنا رد عمل ظاہر کرتا ہے۔ نفس کا مرکز دماغ ہے۔ نفس کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ روح کی مدد سے یہ خیر و شر کا شعور رکھتا ہے۔ اور اس شعور کی مدد سے خود کو ری پروگرام کر سکتا ہے۔ روح ، جسم اور نفس کے درمیان توازن مقام عبدیت کی طرف لے جاتا ہے۔عبدیت وہ منزل ہے جو ذات باری تعالٰی کے قریب ترین ہے۔ مخلوق کے لئے یہ آخری منزل ہے۔
مقام عبد ہی وہ مقام ہے کہ رب کعبہ نے صرف اپنے محبوب کے کلمے میں اسے عبد پکارنا فرض رکھا ۔ آدم صفی اللہ کہلائے، نوح نجی اللہ، ابراھیم کلیم اللہ تو عیسٰی روح اللہ ۔۔ لیکن یہ صرف محمد مصطفٰی کا ہی مقام تھا کہ وہ محمداً عبدہ و رسول کہلائے۔ مقام عبد ہی وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر بندے کے سر پر خلافت کا تاج رکھ دیا جاتا ہے۔ یہ ہی وہ مقام ہے جس پر بندا ایسا راضی برضا ہو جاتا ہے کہ مالک کائنات اسے اپنی صفات مرہمت کر دیتا ہے۔ جیسا کہ حدیث پاک ہے کہ ۔۔۔۔ مومن اپنی آنکھ سے نہیں دیکھتا بلکہ اللہ کی فراست سے دیکھتا ہے۔۔۔۔
حضور کا قول ہے کہ
"جس نے دنیا آخرت کے لئے، اور آخرت دنیا کے لئے چھوڑ دی وہ ہم میں سے نہیں"
والائیت اور عبدیت ' توازن قائم رکھنے والوں کا انعام ہے۔ تمام پیغمبر اور امام دنیا دار بھی تھے اور دین دار بھی۔.. انھوں نے اپنے مقدس زندگیوں سے ہمیں توازن قائم رکھنے کا درس دیا۔ اسلام کا مومن کوئی راہب نہیں جو دنیا چھوڑ چکا ہو۔۔بلکہ پریکٹیکل انسان ہے جو حقوق و فرائض کا علم رکھتا ہے۔ وہ اللہ کے حقوق ادا کرتا ہے اور اس کے بندوں کے بھی۔.. وہ ان حقوق کی ادائیگی میں خود پر ظلم نہیں کرتا۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ظلم چیزون کا اپنے مقام پر نہ ہونے کا نام ہے۔..
یہ وہ مقام ہے جہاں بندہ ، بندگی کی اس منزل پر ہوتا ہے جہاں ملےشکر اور نہ ملے تو اور بھی شکر اس کا شیوا ہوتا ہے۔
ہم آج دنیا سے لاتعلقی کو اسلام اور تصوف سمجھ بیٹھے ہیں۔ تصوف کچھ نہیں روح، جسم اور نفس کے درمیان توازن قائم رکھنے کا نام ہے۔ مشعل راہ حضور بنی کریم کی ہستی ہے اور آپ کے بعد آل محمد ، اصحاب نبی اور اولیا اللہ کی۔...
لیکں اللہ کے حکم کے مطابق نبی کا طریقہ واجب ہے۔ حضور نے نہ دنیا چھوری اور نہ ہی آخرت بلکہ اپنی ذات با کمال سے دنیا اور آخرت کو ایسا جوڑا کہ آپ جہاں گئے ایسا لگا کہ وہیں جنت ہو اور رب رحمان کی تمام رحمتیں وہیں مرکوز ہو گئی ہوں..۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آج بھی جب کوئی طالب علم بغیر کسی تعصب کے حیات طیبہ کا مطالعہ کرتا ہے تو کہہ اٹھتا ہے کہ
بلغ العلي' بكماله
كشف الدجي' بجماله
حسنت جميع خصاله
صلوا عليه و آله
انسان کا سب سے بڑا دشمن اور دوست اسکا اپنا نفس ہے۔ یہ ایک سرکش گھوڑا ہے جو اگر قابو آ جائے تو اس سے بڑھ کر کوئی دوست نہیں۔ اللہ نے جسم کو سواری بنایا، نفس کو کوچوان اور روح کو سوار ۔ اگر یہ تینوں اپنے اپنے مقام پر آ جائیں تو انسان عبدیت کی منزل پر آ جاتا ہے۔ روح امر ہے۔ یہ اللہ اور بندے کی درمیان رابطے کا ذریعہ ہے۔ روح چونکہ امر ربی ہے اور قلب انسانی سے پیوست ہوتی ہے اس لئے پاکیزہ ہوتی ہے۔ روح خیر پر مائل کرتی ہے ۔ اسی لئے تمام ارواح خیر کی مسافر ہوتی ہیں۔ کوئی روح غلیظ نہیں ہوتی۔
انسان کا دوسرا جز نفس ہے۔..نفس کیا ہے؟ نفس در اصل وہ طاقت ہے جو بدن کی سواری کو چلاتی ہے اور اس پر طاقت رکھتی ہے۔نفس ہر جاندار میں موجود ہوتا ہے۔ نفس چونکہ آگاہی پیدا کرتا ہے اور اس آگاہی کی مدد سے جسم مختلف مواقع پر اپنا رد عمل ظاہر کرتا ہے۔ نفس کا مرکز دماغ ہے۔ نفس کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ روح کی مدد سے یہ خیر و شر کا شعور رکھتا ہے۔ اور اس شعور کی مدد سے خود کو ری پروگرام کر سکتا ہے۔ روح ، جسم اور نفس کے درمیان توازن مقام عبدیت کی طرف لے جاتا ہے۔عبدیت وہ منزل ہے جو ذات باری تعالٰی کے قریب ترین ہے۔ مخلوق کے لئے یہ آخری منزل ہے۔
مقام عبد ہی وہ مقام ہے کہ رب کعبہ نے صرف اپنے محبوب کے کلمے میں اسے عبد پکارنا فرض رکھا ۔ آدم صفی اللہ کہلائے، نوح نجی اللہ، ابراھیم کلیم اللہ تو عیسٰی روح اللہ ۔۔ لیکن یہ صرف محمد مصطفٰی کا ہی مقام تھا کہ وہ محمداً عبدہ و رسول کہلائے۔ مقام عبد ہی وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر بندے کے سر پر خلافت کا تاج رکھ دیا جاتا ہے۔ یہ ہی وہ مقام ہے جس پر بندا ایسا راضی برضا ہو جاتا ہے کہ مالک کائنات اسے اپنی صفات مرہمت کر دیتا ہے۔ جیسا کہ حدیث پاک ہے کہ ۔۔۔۔ مومن اپنی آنکھ سے نہیں دیکھتا بلکہ اللہ کی فراست سے دیکھتا ہے۔۔۔۔
حضور کا قول ہے کہ
"جس نے دنیا آخرت کے لئے، اور آخرت دنیا کے لئے چھوڑ دی وہ ہم میں سے نہیں"
والائیت اور عبدیت ' توازن قائم رکھنے والوں کا انعام ہے۔ تمام پیغمبر اور امام دنیا دار بھی تھے اور دین دار بھی۔.. انھوں نے اپنے مقدس زندگیوں سے ہمیں توازن قائم رکھنے کا درس دیا۔ اسلام کا مومن کوئی راہب نہیں جو دنیا چھوڑ چکا ہو۔۔بلکہ پریکٹیکل انسان ہے جو حقوق و فرائض کا علم رکھتا ہے۔ وہ اللہ کے حقوق ادا کرتا ہے اور اس کے بندوں کے بھی۔.. وہ ان حقوق کی ادائیگی میں خود پر ظلم نہیں کرتا۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ظلم چیزون کا اپنے مقام پر نہ ہونے کا نام ہے۔..
یہ وہ مقام ہے جہاں بندہ ، بندگی کی اس منزل پر ہوتا ہے جہاں ملےشکر اور نہ ملے تو اور بھی شکر اس کا شیوا ہوتا ہے۔
ہم آج دنیا سے لاتعلقی کو اسلام اور تصوف سمجھ بیٹھے ہیں۔ تصوف کچھ نہیں روح، جسم اور نفس کے درمیان توازن قائم رکھنے کا نام ہے۔ مشعل راہ حضور بنی کریم کی ہستی ہے اور آپ کے بعد آل محمد ، اصحاب نبی اور اولیا اللہ کی۔...
لیکں اللہ کے حکم کے مطابق نبی کا طریقہ واجب ہے۔ حضور نے نہ دنیا چھوری اور نہ ہی آخرت بلکہ اپنی ذات با کمال سے دنیا اور آخرت کو ایسا جوڑا کہ آپ جہاں گئے ایسا لگا کہ وہیں جنت ہو اور رب رحمان کی تمام رحمتیں وہیں مرکوز ہو گئی ہوں..۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آج بھی جب کوئی طالب علم بغیر کسی تعصب کے حیات طیبہ کا مطالعہ کرتا ہے تو کہہ اٹھتا ہے کہ
بلغ العلي' بكماله
كشف الدجي' بجماله
حسنت جميع خصاله
صلوا عليه و آله