‘کلیاں اور شگوفے‘

شمشاد

لائبریرین
آپ یقین کریں یہ سچا واقعہ ہے، خواتین تو رہیں ایک طرف، اس صنف میں کچھ مرد حضرات بھی آتے ہیں۔

لاہور کا واقع ہے۔
جادید میانداد بہت مشہور ہو رہے تھے، کرکٹ میچ ہو رہے تھے، جگہ جگہ ٹی وی نہیں تو ریڈیو پر کمنٹری ہو رہی تھی جہاں ہر وقت چند حضرات کمنٹری سنتے رہتے تھے اور میچ کی تازہ ترین صورتحال آنے جانے والوں کو بتاتے رہتے تھے۔ ایسی ہی ایک جگہ اندرون لاہور، ایک پہلوان نما صاحب اپنی دکان سے اٹھے، اپنی دھوتی کو کس کر باندھتے ہوئے آئے اور بولے " اوئے جاوید میانداد دے کنے گول ہوئے نے" (ارے جاوید میانداد کے کتنے گول ہوئے ہیں)۔
 

سارا

محفلین
''بلا عنوان''

ایک دفعہ ایک آدمی نیویارک کے مرکزی پارک میں ٹہل رہا تھا کہ اچانک اس نے ایک کتے کو ایک چھوٹی بچی پر حملہ کرتے ہوئے دیکھا۔۔وہ اس کی طرف دوڑا اور کتے کو مارنے لگا۔۔کتے کو مار کر بچی کو مارنے میں کامیاب ہو گیا۔۔ایک پولیس والا جو یہ سب واقعہ بڑے غور سے دیکھ رہا تھا 'اس کے پاس آیا اور بولا۔۔
”تم ایک ہیرو ہو ، کل تم سارے اخباروں میں یہ پڑھو گے ایک بہادر نیو یارکر نے ایک چھوٹی سے بچی کی جان بچائی۔۔“
”مگر میں نیو یارکر نہیں ہوں“ آدمی نے جواب دیا۔۔
”اوہ پھر پڑھو گے ، ایک بہادر امریکن نے ایک چھوٹی سی بچی کی جان بچائی۔۔“
”مگر میں امریکن نہیں پاکستانی ہوں۔۔“
اگلے دن اخبار میں لکھا تھا۔۔”ایک اسلامی تشدد پسند نے ایک امریکی کتے کو مار ڈالا۔۔ممکن ہے کہ دہشت گردوں کے کسی گروپ کے ساتھ اس کا تعلق ہو۔۔“
 

سارا

محفلین
''فیصلہ''

فیصلے کا لمحہ بڑا مبارک ہوتا ہے۔۔زندگی میں بار بار یہ لمحات نہیں آتے۔۔صحیح وقت پر مناسب فیصلہ ہی کامیاب زندگی کی ضمانت ہے۔۔
اگر غلطی سے بھی کوئی فیصلہ غلط ہو جائے تو اس کی‌ذمہ داری سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔۔اپنے فیصلے اپنی اولاد کی طرح ہیں۔۔جیسے ہیں ان کی حفاظت تو کرنا ہو گی۔۔دنیا کی تاریخ کو بغور دیکھنے سے معلوم ہو گا اکثر تاریخی فیصلے غلط تھے ،لیکن تاریخی تھے۔۔
تقدیر اپنا بیشتر کام انسانوں کے اپنے فیصلے میں ہی مکمل کر لیتی ہے۔۔انسان راہ چلتے چلتے دوزخ تک جا پہنچتا ہے یا وہ فیصلے کرتے کرتے بہشت میں داخل ہو جاتا ہے۔۔بہشت یا دوزخ انسان کا مقدر ہے لیکن یہ مقدر انسان کے اپنے فیصلے کے اندر ہے۔۔

(دل' دریا ' سمندر ''واصف علی واصف )
 

سارا

محفلین
ہم اور کھیل۔۔

پانچویں جماعت میں سالانہ اسپورٹس کی دوڑ میں ہمارا اکیسواں نمبر تھا۔۔دوڑ میں اتنے ہی لڑکے شریک ہوئے تھے۔۔کچھ فٹ بال سے بھی سر مارا۔۔آخری لمحے تک یہ فیصلہ نہیں کر پاتے تھے کہ اس فٹ بال پر اپنا دایاں یا پھر بایاں پاؤں مارنا مناسب رہے گا۔۔دودھ کے دانت ٹوٹنے سے پہلے ہی ہم دبیز شیشے کے عینک لگانے لگے تھے۔۔جو حضرات ضعف بصارت سے محروم ہوں اس کی اطلاع کے لیے عرض ہے۔۔اب ہم کھبی عینک اتار کر اپنے کان دیکھتے ہیں تو بخدا اپنے کان نظر نہیں آتے۔۔کئی دفعہ عینک توڑنے کے بعد ہم نے اسے اتار دیا۔۔اور بے خطر کھیلنے لگے۔۔کھیلتے کیا تھے ہر ایک سے مینڈھے کی طرح ٹکریں مارتے پھرتے تھے۔۔مخالف ٹیم میں پاپولر اس لیے رہے کہ اپنی ہی ٹیم سے گیندیں چھینتے اور ان ہی کو فاؤل مارتے پھرتے ۔۔کھیل کے شروع میں ٹاس کیا جاتا جو کپتان ہار جاتا ہمیں اپنی ٹیم میں شامل کرنے کا پابند ہوتا۔۔

(مشتاق احمد یوسفی کی 'زر گزشت سے اقتباس'' )
 

سارا

محفلین
''زندگی میں ایک چیز ہوتی ہے کمپرومائز ' پرسکون زندگی گزارنے کے لیے اس کی بہت ضرورت ہوتی ہے جس چیز کو تم بدل نہ سکو اس کے ساتھ کمپرومائز کر لیا کرو۔۔اپنی کسی بھی خواہش کو جنون نہ بنایا کرو زندگی میں کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو ہمیں نہیں مل سکتیں۔۔چاہے ہم روئیں 'چلائیں یا بچوں کی طرح ایڑیاں رگڑیں۔۔کیونکہ وہ کسی دوسرے کے لیے ہوتی ہیں۔۔مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ زندگی میں ہمارے لیے کچھ ہوتا ہی نہیں بلکہ کچھ نہ کچھ ہمارے لیے بھی ہوتا ہے۔۔''

( امر بیل '' عمیرہ احمد )
 
ریاضی دان سڑک پر سفر کرنے سے کیوں گھبرانے ہیں؟
کیونکہ ان کے خیال میں سڑک کی چوڑائی اس کی لمبائی کے مقابلے میں صفر ہوتی ہے!
 

سارا

محفلین
قاتل سپاہی

دوپہر کے ساڑھے بارہ بجے ہیں ' جون کا مہینہ ہے ' سمن آباد میں ایک ڈاکیہ پسینے میں شرابور بوکھلایا بوکھلایا سا پھر رہا ہے محلے کو لوگ بڑی حیرت سے اس کی طرف دیکھ رہے ہیں۔۔اصل میں آج اس کی‌ڈیوٹی کا پہلا دن ہے۔۔وہ کچھ دیر ادھر ادھر دیکھتا ہے پھر ایک پرچون والے کی دکان کے پاس سائیکل کھڑی کر کے دکان دار کی طرف بڑھتا ہے
'قاتل سپاہی کا گھر کون سا ہے ' ؟ اس نے آہستہ سے پوچھا۔۔
دکان دار کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔۔اس کی آنکھیں خوف سے ابل پڑیں۔۔
قق قاتل سپاہی۔۔ مم مجھے کیا پتا ؟ اس نے جلدی سے دکان کا شٹر گرا دیا۔۔
ڈاکیہ پھر پریشان ہو گیا۔۔اس نے بہت کوشش کی کہ کسی طریقے سے قاتل سپاہی کا پتا چل جائے لیکن جو کوئی بھی اس کی بات سنتا چپکے سے کھسک جاتا۔۔ڈاکیہ نیا تھا نہ جان نہ پہچان اور اوپر سے قاتل سپاہی کے نام کی رجسٹری آکر وہ کرے تو کیا کرے کہاں سے ڈھونڈھے قاتل سپاہی کو؟؟اس نے پھر نام پڑھا نام اگرچہ انگلش میں تھا لیکن آخر وہ بھی مڈل پاس تھا' تھوڑی بہت انگلش سمجھ سکتا تھا بڑے واضح الفاظ میں۔۔
قاتل سپاہی ' غالب اسٹریٹ ' سمن آباد لکھا ہوا تھا۔۔دو گھنٹے تک گلیوں کی خاک چھاننے کے بعد وہ ہانپنے لگا' پہلے روز ہی اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ۔۔اب وہ اپنے پوسٹ ماسٹر کو کیا منہ دکھائے گا۔۔اس کا حلق خشک ہو گیا اور پانی کی طلب محسوس ہوئی وہ بے اختیار اٹھا اور گھر کے دروازے پر لگی بیل پر انگلی رکھ دی۔۔اچانک اسے زور دار جٹھکا لگا۔۔جھٹکے کی اصل وجہ یہ نہیں تھی کہ بیل میں کرنٹ تھا بلکہ بیل کے نیچے لگی ہوئی پلیٹ پر انگلش میں ' قاتل سپاہی ' لکھا ہوا تھا۔۔
خوشی کی لہر اس کے اندر دور گئی۔۔اتنی دیر میں دروازہ کھلا اور ایک نوجوان باہر نکلا۔۔ڈاکیے نے جلدی سے رجسٹری اس کے سامنے کر دی۔۔
کیا آپ کا ہی یہ نام ہے ؟
نوجوان نے نام پڑھا اور کہا نہیں یہ میرے دادا ہیں۔۔
ڈاکیے نے جلدی سے پوچھا ۔۔''کیا نام ہے ان کا ؟
نوجوان نے بڑے اطمینان سے کہا '' قتیل شفائی ''
Qatil Shiphai
( گل نوخیز کی No خیزیاں سے اقتباس )
 

سارا

محفلین
'' شادیاں ''
امریکہ میں بچے ماں 'باپ کی مرضی سے ان کی شادی کرتے ہیں۔۔امریکہ میں آزادی اور پاکستان میں ناول اور ڈرامے شادی پر ختم ہوتے ہیں۔۔لیکن ازبکستان میں ڈرامہ ' شادی کے بعد شروع ہوتا ہے۔۔کہتے ہیں شادی میں کوئی محبت نہیں ہوتی۔۔محبت لوگوں میں ہوتی ہے۔۔جو وہ شادی میں ڈالتے ہیں' البتہ وہاں شادیاں پسند کی 'کی جاتی ہیں۔۔
ہمارے ہاں بھی شادیاں پسند کی ' کی جاتی ہیں۔۔ جی ہاں ' گھر والوں کی پسند کی۔۔بقول عطاء الحق قاسمی۔۔
''ہمارے ہاں شادی سے پہلے لڑکے لڑکی سے پوچھتے ہیں۔۔اگر وہ ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں تو شادی کر دیتے ہیں۔۔
سننے والے نے پوچھا۔۔'' اگر وہ ایک دوسرے کو پسند نہ کریں تو ۔۔ ؟ '' کہا۔۔'' تو بھی شادی کر دیتے ہیں۔۔''
( ڈاکٹر محمد یونس بٹ ' خندہ پیش آنیاں )
 

سارا

محفلین
صدر مشاعرہ

ایک کُل پاکستان مشاعرے میں ایک فوجی جرنیل صدر بنا دئیے گئے۔۔ ان کی رعب اور طنطنے کا کچھ ایسا عالم تھا کہ دس پندرہ منٹ تک سامعین کو کھل کر داد دینے کی ہمت نہیں پڑی۔۔اتفاق سے ایک شاعر نے بہت ہی اچھا شعر سنایا۔۔سامعین کے درمیان میں سے ایک نوجوان تڑپ کر اٹھا اور بولا۔۔
مکرر۔۔۔ارشاد فرمائیے۔۔
اس کی دیکھا دیکھی کچھ اور لوگوں نے بھی مکرر مکرر کے نعرے بلند کیے۔۔صاحبِ صدر نے اسٹیج سیکریٹری سے پوچھا کہ'' یہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں؟۔۔
اسٹیج سیکریٹری نے ادب سے کہا کہ '' جناب ! یہ شاعر سے کہہ رہے ہیں کہ یہی شعر دوبارہ سناؤ۔۔
اس پر جرنیل صاحب نے اپنے سامنے رکھا ہوا مائیک اٹھایا اور یوں گویا ہوئے۔۔
کوئی مکرر وکرر نہیں ہوگا۔۔شاعر صاحب آپ کے والد کے نوکر نہیں ہیں۔۔سننا ہے تو پہلی بار دھیان سے سنو۔۔
( چشم تماشا ' امجد اسلام امجد )
 

سارا

محفلین
کوچ۔۔
شوہر نے بیوی کے سامنے بے تحاشا قہقہے لگاتے ہوئے کہا۔۔
‘‘اپنے حمید صاحب کی بیگم بھی خوب ہیں۔۔ہم کرکٹ کے کوچ کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے۔۔ہماری گفتگو سن کر وہ یہ سمجھیں کہ کوچ کے چار پہیے ہوتے ہیں۔۔؟
یہ کہہ کر وہ ایک بار پھر قہقہے لگانے لگے۔۔ان کی بیوی بھی قہقہے لگانے میں شریک ہو گئیں ۔۔دونوں میاں بیوی جب دل کھول کر ہنس چکے تو بیوی نے سرگوشی کے انداز میں شوہر سے پوچھا۔۔
اچھا تو کرکٹ کے کوچ میں کتنے پہیے ہوتے ہیں۔۔؟
 

سارہ خان

محفلین
مائیکل فیراڈے نے اپنے زیر تربیت شاگرد کو ہتھوڑی بنانے کا حکم دیا ۔ شاگرد کو کوئی اندازہ نہیں تھا کہ ہتھوڑی کس طرح بنائی جاتی ہے ۔۔ اس نے استاد کی نظروں میں سرخرو ہونے کے لئے بازار سے ایک ہتھوڑی خرید کر استاد کی خدمت میں پیش کی ۔۔
"بہت خوب " فیراڈے ہتھوڑی دیکھتے ہی سمجھ گیا ۔ لہٰذا مسکرا کر بولا۔
"ایسی پچاس ہتھوڑیاں اور تیار کرو "
 
Top