‘کلیاں اور شگوفے‘

سارا

محفلین
”تذبذب“
پرانی محبت کی زنجیریں ٹوٹنے اور نئی محبت کی قید کے درمیان ایک وقت ایسا بھی ہوتا ہے ' جس میں کوئی چیز وثوق سے کہی نہیں جا سکتی۔۔دودھ جو جامن لگانے اور دہی کے بن جانے کے درمیان ایک وقت ایسا بھی ہوتا ہے جب دودھ نہیں رہتا اور دہی بھی نہیں کہلا سکتا۔۔۔
(امر بیل ، بانو قدسیہ)
 

سارا

محفلین
پرانی چیزیں۔۔
ہم ہفتہ کی صبح جا گھسے میوزیم میں۔۔معلوم ہوا تصویروں کا میوزیم ہے۔۔کچھ مجسمے ہیں اور پرانا کاٹھ کباڑ فرنیچر بھی ہے۔۔سولھویں صدی کا۔۔سترھویں صدی کا ، ہم تو یہ کرتے ہیں کوئی پرانی چیز مثلاَ چارپائی ٹوٹنے لگی یا کرسی کا ہتھا اکھڑ گیا تو اسے پھینک دیا یا آگ جلا لی۔۔ مغربی ممالک میں ایسا نہیں کرتے۔۔پرانی چیزوں کو سینت سینت کر رکھتے ہیں
میوزیم میں کئی کمرے پرانے فرنیچر سے بھرے ہوئے دیکھے 'ہمارے گھر میں بھی پندرہ پندرہ بیس بیس سال کے کھٹولے 'مرتبان'کیلنڈر 'چمچے 'سرمہ دانیاں'توشک وغیرہ بھرے پڑے ہیں ' ہمیں ان کی قدرو قیمت کا خیال نہ آیا۔۔اگر ہمارے آنے تک گھر والوں نے پھنک نہ دیے ہوں تو ہم بھی میوزیم بنائیں گے۔۔یہ چیزیں تو پھر حال کی ہیں، بعض میوزیم میں تو ہم نے پچیس پچیس تیس تیس ، صدی پرانی چیزیں سجی دیکھی ہیں۔۔“

(ابن انشا کی ” آوارہ گردی کی‌ڈائری“ سے اقتباس )
 

سارا

محفلین
کیا واقعی دنیا گول ہے ؟

ہم اس دھرتی کا گز بنے اور بحر ظلمت میں گھوڑے دوڑائے لیکن ہمیں تو ہر چیز چپٹی ہی نظر آتی ہے۔۔دنیا سے زیادہ گول تو ہم خود ہیں کہ پیکنگ سے لڑھکتے ہوئے پیرس پہنچ گئے اور کوپن ہیگن سے پھسلے تو کولبو میں آ رکے بلکہ ” جا کرتہ“ پہنچ کر دم لیا۔۔دنیا کے گول ہونے پر اقرار کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یقین نہ ہو تو مشرق کی طرف سے جاؤ چکر کاٹ کر مغرب کی طرف سے پھر اپنے تھان پر آکھڑے ہوں گے، اس میں ہمیں ہمیشہ ایک یہی خطرہ نظر آیا کہ کہیں گولائی کی طرف رینگتے ہوئے نیچے نہ گر پڑیں کیونکہ ہم کوئی چھپکلی تھوڑی ہی ہیں۔۔
اس لڑکے کا قصہ آپ نے سنا ہو گا کہ آدھ سیر تیل لینے کے لیے کٹورا لے کر گیا تھا،،کٹورا تھا چھوٹا بھر گیا تو دوکاندار نے کہا۔۔
باقی کس چیز میں ڈالوں۔۔؟”
برخوردار نے کٹورا اوندھا کر کے کہا۔۔
”ادھر پیندے کے حلقے میں ڈال دو۔۔“
پیندا اوپر کر کے گھر گیا ماں نے کہا۔۔
”بیٹے میں نے آدھ سیر تیل لانے کو کہا تھا بس اتنا سا ؟ بس یہی۔۔؟
اس دانش مند نے اسے بھی الٹا کر کہا ''ادھر بھی تو ہے۔۔''

(ابن انشا کی “ دنیا گول ہے “ سے اقتباس۔۔)
 

سارہ خان

محفلین
کیا واقعی دنیا گول ہے ؟

ہم اس دھرتی کا گز بنے اور بحر ظلمت میں گھوڑے دوڑائے لیکن ہمیں تو ہر چیز چپٹی ہی نظر آتی ہے۔۔دنیا سے زیادہ گول تو ہم خود ہیں کہ پیکنگ سے لڑھکتے ہوئے پیرس پہنچ گئے اور کوپن ہیگن سے پھسلے تو کولبو میں آ رکے بلکہ ” جا کرتہ“ پہنچ کر دم لیا۔۔دنیا کے گول ہونے پر اقرار کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یقین نہ ہو تو مشرق کی طرف سے جاؤ چکر کاٹ کر مغرب کی طرف سے پھر اپنے تھان پر آکھڑے ہوں گے، اس میں ہمیں ہمیشہ ایک یہی خطرہ نظر آیا کہ کہیں گولائی کی طرف رینگتے ہوئے نیچے نہ گر پڑیں کیونکہ ہم کوئی چھپکلی تھوڑی ہی ہیں۔۔
اس لڑکے کا قصہ آپ نے سنا ہو گا کہ آدھ سیر تیل لینے کے لیے کٹورا لے کر گیا تھا،،کٹورا تھا چھوٹا بھر گیا تو دوکاندار نے کہا۔۔
باقی کس چیز میں ڈالوں۔۔؟”
برخوردار نے کٹورا اوندھا کر کے کہا۔۔
”ادھر پیندے کے حلقے میں ڈال دو۔۔“
پیندا اوپر کر کے گھر گیا ماں نے کہا۔۔
”بیٹے میں نے آدھ سیر تیل لانے کو کہا تھا بس اتنا سا ؟ بس یہی۔۔؟
اس دانش مند نے اسے بھی الٹا کر کہا ''ادھر بھی تو ہے۔۔''

(ابن انشا کی “ دنیا گول ہے “ سے اقتباس۔۔)

بہت خوب سارا ۔۔ :)
 

سارا

محفلین
شکریہ سارہ ، تفسیر ، اور شاہ بھائی۔۔۔:)
فراغت تو نہیں ہے کچھ زیادہ ہی مصروفیت ہے آجکل لیکن اس کے باوجود میرا آدھا دن نیٹ پر ہی گزرتا ہے بس اس طرف آنا نہیں ہوتا۔۔:)
 

سارا

محفلین
الّو!
صحافی نے سیاست دان سے پوچھا 'پچھلے سالوں میں آپ نے ملک میں کیا تعمیری کام کیا۔۔؟
تو وہ بولے' آپ میرے سالوں کو بیچ میں مت لائیں، اور جہاں تک تعمیری کاموں کا تعلق ہے تو میں اپنی کوٹھی تعمیر کروا رہا ہوں۔۔
”لیکن میرا خیال ہے سیاست دان کوٹھیاں نہیں الو بنا رہے ہیں۔۔صحافی نے بات کاٹتے ہوئے کہا۔۔
سیاست دان بولا۔۔ویسے الّو بنانا اتنا آسان کام بھی نہیں'ڈرائینگ کے ماسٹر مجھے ہمیشہ کہتے 'الّو بناؤ”مگر مجھ سے نہ بنتا۔۔تو غصے سے کہتے ”کبھی الو دیکھا ہے“۔۔ میں شرم سے ادھر ادھر دیکھنے لگتا۔۔تو کہتے” ادھر ادھر کیا دیکھ رہے ہو ،میری طرف دیکھو۔۔!

(افرااتفریح ،از ڈاکٹر یونس بٹ)
 

سارہ خان

محفلین
مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کو اپنی بیٹی زیب النساء کیلئے استاد درکار تھا۔ یہ خبر سن کر ایران اور ہندوستان کے مختلف علاقوں سے بیسیوں قادر الکلام بڑے بڑے شاعر دہلی آگئے کہ شاید قسمت یاوری کرے اور وہ شہزادی کے استاد مقرر کر دیئے جائیں۔

ان ایام میں دہلی میں اس زمانہ کے نامور شاعر برہمن اور میر ناصر علی سرہندی بھی موجود تھے۔ نواب ذوالفقار علی خان، ناظمِ سرہند کی سفارش پر برہمن اور میر ناصر کو شاہی محل میں اورنگ زیب کے روبرو پیش کیا گیا۔ سب سے پہلے برہمن کو اپنا کلام سنانے کا حکم ہوا، برہمن نے تعمیلِ حکم میں جو غزل پڑھی، اسکا مقطع تھا۔۔

مرا دلے ست بکفر آشنا کہ چندیں بار
بکعبہ بُردم و بازم برہمن آوردم

میرا دل اسقدر کفر آشنا ہے کہ میں جب بھی کعبہ گیا، برہمن کا برہمن ہی واپس آیا۔

گو یہ محض شاعرانہ خیال تھا اور تخلص کی رعایت کے تحت کہا گیا تھا لیکن عالمگیر انتہائی پابند شرع اور سخت گیر بادشاہ تھا، اسکی تیوری چڑھ گئی اور وہ برہمن کی طرف سے منہ پھیر کے بیٹھ گیا۔

میر ناصر علی نے اس صورتِ حال پر قابو پانے کیلئے اٹھ کر عرض کی کہ جہاں پناہ اگر برہمن مکہ جانے کے باوجود برہمن ہی رہتا ہے تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں، شیخ سعدی بھی تو یہی کہہ گئے ہیں۔۔

خرِ عیسٰی اگر بمکہ رود
جوں بیاید ہنوز خر باشد

عیسٰی کا گدھا اگر مکہ بھی چلا جائے تو وہ جوں ہی واپس آئے گا، گدھے کا گدھا ہی ہوگا۔

عالمگیر یہ شعر سن کر خوش ہوگیا اور برہمن کو معاف کردیا۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
واہ سارہ اقتباس تو بہت خوب ھے لیکن افسوس یہ ہے کہ اورنگزیب کی کج فہمی بھی واضح ھو گئ- اورنگزیب ایسا مولوی تھا جو علم دوست اور دانش ور بالکل نہ تھا اپنے باقی جد امجد سے ھٹ کر تھا- اس کی اسی کج فہمی کو وجہ سے ھی انڈیا ایسٹ انڈیا کمپنی کے ھاتھ لگا اور مسلمانوں کے ھاتھ سے گیا- وہ یک رخا سوچتا تھا -
 

سارہ خان

محفلین
اچھا تو انڈیا اورنگزیب کی وجہ سے ہاتھ سے گیا تھا۔۔ یہ تو مجھے پتا نہیں تھا ۔۔:)
پسندیدگی کا شکریہ ۔۔:cat:
 

سارا

محفلین
''کرکٹ کا گول''

مشرقی عورت جہاں اپنی حرماں نصیبی پہ ماتم کناں اور زندگی کے کارزار میں مردوں کی بالا دستی پر نالاں اور دل گرفتہ ہے'وہاں فیشن کے میدان میں مردوں سے کوسوں آگے دادودہش دے رہی ہے۔۔انہوں نے بعض شوق صرف اس جنون میں پال رکھے ہیں کہ کہیں مردوں سے پیچھے نہ رہ جائیں۔۔
کرکٹ کو لے لیجئے۔۔گلی ڈنڈے کی یہ اولاد کھیل کی صورت میں جب مردوں میں مقبول ہوا تو عورتوں نے پیچھے رہنا گوارا نہ کیا۔۔حالانکہ ہیبت اور ہیت کے اعتبار سے یہ خالصتاً مردانہ بلکہ وحشیانہ کھیل ہے۔۔ایک کمر خمیدہ ' مظلوم شخص جو حالتِ رکوع میں پہلے ہی تعظیم بجالایا ہوتا ہے اس پر ایک ظالم اور مخبوط الحواس آدمی پے در پےاور بلا جواز سنگ باری کیے جاتا ہے۔۔
عام حالت میں شقاوت بھرے ایسے واقعات خواتین کی نازک مزاجی سے مطلق لاگ نہیں کھاتے ۔۔لیکن کرکٹ میچ میں عورتیں بھی فقط فیشن میں ' اِن ' رہنے کی خاطر چار پانچ روز چلہ کشی میں مبتلا ہوتی ہیں۔۔اس چلہ کشی میں فاقہ کشی بھی شامل ہوتی ہے کہ خاتون خانہ کچن کا دورہ صرف اس لیے موخر کیے رکھتی ہیں کہ اس دوران کوئی ”چوکا” یا ” چھکا ” قضا نہ ہو جائے۔۔۔۔
دوسری جانب کرکٹ کے بارے میں خواتین کی معلومات عامہ کا یہ عالم ہے کہ ادھر اپنے کسی باؤلر کی کسی ایمان افروز گیند سے مخالف ٹیم کی وکٹ اڑی ادھر خواتین نے یک زبان نعرہ بلند کیا ” گول “

(ملک بشیر مراد کی کتاب ” بے ادبیاں “ سے اقتباس )
 

قیصرانی

لائبریرین
ہاہاہا، بہت ہی عمدہ سارا بہن

میری ممانی صاحبہ ایک دن فرما رہی تھیں کہ بیٹا بس کیا بتاؤں، جب اس ٹیم کے کھلاڑی گول کرتے ہیں‌تو دوسری ٹیم والے پریشان ہو جاتے ہیں۔ جب اُس ٹیم کے کھلاڑی گول کرتے ہیں تو یہ ٹیم ڈر جاتی ہے۔

کرکٹ‌کے ون ڈے میچ پر ان کا تبصرہ
 

سارا

محفلین
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایسی خواتین کی کمی نہیں ہے جو اس تحریر پر پوری اترتی ہیں :p :grin:
 
Top