پرانی چیزیں۔۔
ہم ہفتہ کی صبح جا گھسے میوزیم میں۔۔معلوم ہوا تصویروں کا میوزیم ہے۔۔کچھ مجسمے ہیں اور پرانا کاٹھ کباڑ فرنیچر بھی ہے۔۔سولھویں صدی کا۔۔سترھویں صدی کا ، ہم تو یہ کرتے ہیں کوئی پرانی چیز مثلاَ چارپائی ٹوٹنے لگی یا کرسی کا ہتھا اکھڑ گیا تو اسے پھینک دیا یا آگ جلا لی۔۔ مغربی ممالک میں ایسا نہیں کرتے۔۔پرانی چیزوں کو سینت سینت کر رکھتے ہیں
میوزیم میں کئی کمرے پرانے فرنیچر سے بھرے ہوئے دیکھے 'ہمارے گھر میں بھی پندرہ پندرہ بیس بیس سال کے کھٹولے 'مرتبان'کیلنڈر 'چمچے 'سرمہ دانیاں'توشک وغیرہ بھرے پڑے ہیں ' ہمیں ان کی قدرو قیمت کا خیال نہ آیا۔۔اگر ہمارے آنے تک گھر والوں نے پھنک نہ دیے ہوں تو ہم بھی میوزیم بنائیں گے۔۔یہ چیزیں تو پھر حال کی ہیں، بعض میوزیم میں تو ہم نے پچیس پچیس تیس تیس ، صدی پرانی چیزیں سجی دیکھی ہیں۔۔“
(ابن انشا کی ” آوارہ گردی کیڈائری“ سے اقتباس )