“شہاب نامہ“ کی حقیقت

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

رانا

محفلین
سخنور صاحب آپ کیسے اتنے یقین سے یہ بات جانتے ہیں کہ مذکورہ باب سراسر جھوٹ پر مبنی ہے؟

حیرت ہے کہ فرخ صاحب نے اوپر اس باب کی جو جھلکیاں دکھائی ہیں انہیں دیکھنے کے بعد بھی آپ یہ سوال اٹھا رہے ہیں؟؟؟
دیکھیں جناب بات بالکل واضع ہے کہ ایک مسلمان اس طرح کی لغویات پر کیسے یقین کرسکتا ہے جبکہ قرآن شریف واضع طور پر یہ فرما رہا ہے کہ جو اس جہاں سے گزر جاتے ہیں ان کے اور اس جہاں کے بیچ ایک پردہ حائل ہے جو قیامت تک رہے گا۔ اب ایسا تو شہاب صاحب ہی یقین کرسکتے ہیں کہ اِدھر بندے کی موت واقع ہوئی اوراُدھر بجلی چلی گئی جس کی وجہ سے سسٹم آف ہوگیا اور روح بےچاری اگلے جہاں کے لئے بروقت روانہ نہ ہوسکی اور اسی بنگلے میں بھٹکنے لگ گئی۔ جناب یہ اللہ میاں کا سسٹم ہے کے ای ایس سی کا نہیں۔ کیا قرآن و حدیث اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ کچھ لوگوں کی روح تو اگلے جہاں چلی جاتی اور کچھ کی نہیں۔ یہ بہت باریک در باریک موضوع ہے اور میں اس پر تو قطعاً بحث کرنا نہیں چاہتا صرف اپنا موقف پیش کردیا آگے آپ کی مرضی آپ اگر بملا کماری کی روح پر یقین کرنا پسند کرتے ہیں تو یہ آپکا حق ہے۔
 
جی میں غلطی پر ہوں وہ باب بالکل سچ ہے۔ سوچ رہا ہوں آواگون پر بھی یقین کر لوں۔

جناب جو بات میں نے آپ سے دریافت کی تھی وہ بر بنائے وجہ تھی کہ شاید آپ کچھ ایسی معلومات رکھتے ہوں جو مذکورہ باب پر کچھ نئے زوایوں سے روشنی ڈال سکے اور جس سے مذکورہ باب حقیقت سے زیادہ افسانہ ثابت ہو سکے۔
جہاں تک تعلق آواگون یا تناسخ کا ہے تو میری معومات کے مطابق یہ ایک چیز دیگر ہے آواگون کا عقیدہ اس بات پر مبنی ہے کہ انسان مرنے کے بعد دوبارہ نیا جنم لیتا ہے اور یہ جنم کسی انسان کی یا پھر کسی جانور کی شکل میں ہو سکتا ہے آواگون جس کو انگلش میں metempsychosis ، Reincarnation ،یا transmigration of the soul بھی کہتے ہیں یقینا ایک قدیم عقیدہ ہے لیکن اس کی یکسر نفی اسلام کرتا ہے شہاب نامہ میں جو صورت حال بیان کی گئی ہے وہ ایک دوسری صورت حال ہے جس میں ایک مافوق الفطرت وجود ( جو کہ شاید کوئی جن ہو یا کچھ اور ، خو بملا کماری کی روح ہونے میں تو کلام کی کافی گنجائش ہے) ان کو تنگ کرتا ہے، بہرحال اس قسم کے واقعات کے ذکر سے تو دنیا بھر کا ادب، داستانیں اور خودنوشت بھری پڑی ہیں خود اردو ادب میں اس قسم کے ایک اور واقعہ کے عینی شاہد ممتاز محقق اور سابقہ وائس چانسلر جامعہ کراچی جناب ڈاکٹر جمیل جالبی بھی ہیں یہ واقعہ جو وہ متعدد نجی محافل میں سنا چکے ہیں اور بعد ازاں کتابی صورت میں بھی شائع ہوا ، ان کے مطابق جب وہ کم عمر تھے تو ان کا واسطہ ایک ایسی ہی مافوق الفطرت ہستی سے پڑا تھا جس سے وہ کافی خوف زدہ ہو گئے تھے۔
 
حیرت ہے کہ فرخ صاحب نے اوپر اس باب کی جو جھلکیاں دکھائی ہیں انہیں دیکھنے کے بعد بھی آپ یہ سوال اٹھا رہے ہیں؟؟؟
دیکھیں جناب بات بالکل واضع ہے کہ ایک مسلمان اس طرح کی لغویات پر کیسے یقین کرسکتا ہے جبکہ قرآن شریف واضع طور پر یہ فرما رہا ہے کہ جو اس جہاں سے گزر جاتے ہیں ان کے اور اس جہاں کے بیچ ایک پردہ حائل ہے جو قیامت تک رہے گا۔ اب ایسا تو شہاب صاحب ہی یقین کرسکتے ہیں کہ اِدھر بندے کی موت واقع ہوئی اوراُدھر بجلی چلی گئی جس کی وجہ سے سسٹم آف ہوگیا اور روح بےچاری اگلے جہاں کے لئے بروقت روانہ نہ ہوسکی اور اسی بنگلے میں بھٹکنے لگ گئی۔ جناب یہ اللہ میاں کا سسٹم ہے کے ای ایس سی کا نہیں۔ کیا قرآن و حدیث اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ کچھ لوگوں کی روح تو اگلے جہاں چلی جاتی اور کچھ کی نہیں۔ یہ بہت باریک در باریک موضوع ہے اور میں اس پر تو قطعاً بحث کرنا نہیں چاہتا صرف اپنا موقف پیش کردیا آگے آپ کی مرضی آپ اگر بملا کماری کی روح پر یقین کرنا پسند کرتے ہیں تو یہ آپکا حق ہے۔



میں نے اپنے موقف کی اوپر تھوڑی وضاحت کر دی ہے میرے کہنا کا مقصد بالکل یہ نہیں ہے کہ آپ اس بات پر ایمان لے آئیں کہ بملا کماری کی روح کا ہی یہ سب ناٹک تھا بلکہ ہو سکتا ہے کہ وہ کوئ جن وغیرہ ہو جس کا تصور بہرحال اسلامی ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
جی میں غلطی پر ہوں وہ باب بالکل سچ ہے۔ سوچ رہا ہوں آواگون پر بھی یقین کر لوں۔
بھلا اگلے جنم میں کیا بنا پسند فرمائیں گے؟ نیز اگر پچھلے جنم کے متعلق کچھ یاد ہو تو وہ بھی ارسال فرمائیے تا کہ بوقتِ ضرورت سند رہے۔;)
 

فرخ منظور

لائبریرین
جناب جو بات میں نے آپ سے دریافت کی تھی وہ بر بنائے وجہ تھی کہ شاید آپ کچھ ایسی معلومات رکھتے ہوں جو مذکورہ باب پر کچھ نئے زوایوں سے روشنی ڈال سکے اور جس سے مذکورہ باب حقیقت سے زیادہ افسانہ ثابت ہو سکے۔
جہاں تک تعلق آواگون یا تناسخ کا ہے تو میری معومات کے مطابق یہ ایک چیز دیگر ہے آواگون کا عقیدہ اس بات پر مبنی ہے کہ انسان مرنے کے بعد دوبارہ نیا جنم لیتا ہے اور یہ جنم کسی انسان کی یا پھر کسی جانور کی شکل میں ہو سکتا ہے آواگون جس کو انگلش میں metempsychosis ، Reincarnation ،یا transmigration of the soul بھی کہتے ہیں یقینا ایک قدیم عقیدہ ہے لیکن اس کی یکسر نفی اسلام کرتا ہے شہاب نامہ میں جو صورت حال بیان کی گئی ہے وہ ایک دوسری صورت حال ہے جس میں ایک مافوق الفطرت وجود ( جو کہ شاید کوئی جن ہو یا کچھ اور ، خو بملا کماری کی روح ہونے میں تو کلام کی کافی گنجائش ہے) ان کو تنگ کرتا ہے، بہرحال اس قسم کے واقعات کے ذکر سے تو دنیا بھر کا ادب، داستانیں اور خودنوشت بھری پڑی ہیں خود اردو ادب میں اس قسم کے ایک اور واقعہ کے عینی شاہد ممتاز محقق اور سابقہ وائس چانسلر جامعہ کراچی جناب ڈاکٹر جمیل جالبی بھی ہیں یہ واقعہ جو وہ متعدد نجی محافل میں سنا چکے ہیں اور بعد ازاں کتابی صورت میں بھی شائع ہوا ، ان کے مطابق جب وہ کم عمر تھے تو ان کا واسطہ ایک ایسی ہی مافوق الفطرت ہستی سے پڑا تھا جس سے وہ کافی خوف زدہ ہو گئے تھے۔

آپ اپنے اندازے لگانا جاری رکھیے لیکن مصنف نے واضح طور پر اسے بملا کماری کی روح کہا ہے حتیٰ کہ باب کا عنوان بھی یہی ہے۔ ویسے نفسیات میں اس قسم کے مرض کو شیزوفرینیا کہا جاتا ہے۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
بھلا اگلے جنم میں کیا بنا پسند فرمائیں گے؟ نیز اگر پچھلے جنم کے متعلق کچھ یاد ہو تو وہ بھی ارسال فرمائیے تا کہ بوقتِ ضرورت سند رہے۔;)

حضور پہلے یقین کو یقینِ کامل تو ہونے دیجیے۔ ابھی تو ادھیڑ بُن کا سلسلہ جاری ہے۔ :)
 

سویدا

محفلین
سویدا صاحب میرے خیال میں آپ نے "بملا کماری کی روح" والا باب نہیں پڑھا وہ مبالغہ نہیں سراسر جھوٹ ہے۔

میں نے یہ کب کہا ہے کہ وہ باب سچ پر مبنی ہے !!!
میرا مقصد صرف یہ ہے کہ ہر آپ بیتی میں کچھ باتیں اس قسم کی ہوتی ہیں جو یا تو مبالغہ یا جھوٹ پر مشتمل ہوتی ہیں
 

آپ اپنے اندازے لگانا جاری رکھیے لیکن مصنف نے واضح طور پر اسے بملا کماری کی روح کہا ہے حتیٰ کہ باب کا عنوان بھی یہی ہے۔ ویسے نفسیات میں اس قسم کے مرض کو شیزوفرینیا کہا جاتا ہے۔

گڈ۔ یہ بات یقینا اردو ادب کے قارئین کے لیے دلچسپی کا سامان رکھتی ہے کہ شہاب صاحب اور جالبی صاحب Schizophrenic ہیں۔
2۔ یہ جو دوسرا انتہائی راستہ آپ نے اپنایا ہے اس سے بہتر تو یہی ہے کہ بملا کماری کی روح کو از قسم شیاطین یا جنات ہی سے سمجھا جائے یعنی کہاں تو آپ شہاب صاحب کی تفہیم پر اتنا یقین رکھتے ہیں کہ چونکہ انہوں نے اس کو روح کہ دیا تو اب وہ بملا کماری کی روح ہی ہو گی اور کچھ نہیں ہو سکتا اور دوسری طرف شہاب صاحب کو آپ نفسیاتی مریض ثابت کرنا چاہتے ہیں؟
3۔ جناب من میری پہلی پوسٹ کا مقصد یہ تھا کہ آپ کچھ ٹھوس معلومات اس بارے میں رکھتے ہوں تو شیئر کیجئے معذرت کے ساتھ آپ بھی محض اب تک اندازے ہی لگا رہے ہیں۔
4۔ اسلامی نکتہ نظر سے بھی یہ بات قابل ذکر ہے کہ شیاطین و جنات موجود ہیں وہ انسان کو نقصان پہچانے کی قوت رکھتے ہیں متعدد احادیث میں ان سے محتاط رہنے کا حکم دیا گیا ہے ان سے بچاو کی دعائیں بتائی گئی ہیں ۔ اب اس کوٹھی میں شہاب صاحب کا واسطہ جس مافوق الفطرت ہستی سے پڑا وہ بملا کماری کی روح تھی جیسا کہ شہاب صاحب کا کہنا تھا یا کچھ اور شے اس میں کلام کی بہت گنجائش ہے تاہم اس کی آڑ میں ایسے واقعات اور وجود کی موجودگی سے صریحا انکار بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔
5. پھراگر کوئی ایسے وجود پر یقین نہیں رکھتا تو نہ سہی لیکن اس ایک باب کی وجہ سے پورے شہاب نامے کو ہی جھوٹ کا پلندہ قرار دے دیا جائے یہ ایک اور غلط بات ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شہاب نامہ پر ہمیشہ ہی بہت گرد اڑتی ہے، وہ بھی اڑاتے ہیں جنہوں نے پڑھی ہے اور وہ بھی جنہوں نے نہیں پڑی :)

مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ لوگ "شہاب نامہ" کو قرآن حدیث کی کتاب سمجھ کر کیوں پڑھتے ہیں کہ یہ توقع رکھیں کہ یہ حرف بہ حرف، لفظ بہ لفظ، سطر بہ سطر، جملہ بہ جملہ، صفحہ بہ صفحہ فقط اور فقط حق و صداقت ہوگی، اگر یہ معیار 'ادب' کی کتابوں پر لگانا شروع کر دیں گے تو معذرت کے ساتھ کہوں گا کہ ایک بھی کتاب ایسی نہیں ہوگی جو اس پر پورا اترے چاہے وہ دیوانِ غالب ہو یا جوش کی یادوں کی برات۔

شہاب نامہ کو ادب کی کتاب کی حیثیت یعنی ایک سوانح عمری سمجھ کر پڑھیں، دلچسپ لگے گی، جہاں آپ کو مصنف سے اختلاف ہے اسکی بات نہ مانیں لیکن اس پر کذب و افترا تو نہ باندھیں یعنی پھر کہوں گا کہ اس طرح تو ہر شاعر اور ہر مصنف کاذب کہلائے گا :)
 

عثمان

محفلین
دلچسپ بات ہے کہ جن صاحب نے یہ دھاگہ شروع کیا ہے انھوں نے پہلے پیغام میں دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے یہ کتاب نہیں پڑھی۔ اور پھر اگلے تمام پیغامات میں اپنی توانائیاں مصنف اور تصنیف کو غلط کرنے میں صرف کر رہے ہیں۔ جناب۔۔۔آپ کو ہر بندے کے مخالف مل جائیں گے۔ ہم پر ایک احسان کریں اور کتاب پڑھ کر تبصرہ کریں۔
 

رانا

محفلین
اسلامی نکتہ نظر سے بھی یہ بات قابل ذکر ہے کہ شیاطین و جنات موجود ہیں وہ انسان کو نقصان پہچانے کی قوت رکھتے ہیں متعدد احادیث میں ان سے محتاط رہنے کا حکم دیا گیا ہے ان سے بچاو کی دعائیں بتائی گئی ہیں-

یہ تو درست ہے کہ قرآن شریف سے جنات کا وجود ثابت ہے لیکن ظاہر ہے جن عربی کا لفظ ہے اس کے مطلب دیکھنے کے لئے عربی ہی کی لغات سے رجوع کرنا چاہئے نہ کہ قرآن میں بیان کردہ جن کو ہم اردو والا جن سمجھ لیں جو ایسی اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتے ہیں کہ نلکوں سے پانی کی جگہ خون جاری کردیں، دروازے دھڑدھڑا کر بچوں کو ڈرائیں اور خوبصورت عورتوں پر عاشق ہوجائیں اور جب تک کسی عامل سے دو چار جوتے نہ پڑیں پیچھا ہی نہ چھوڑیں۔ (اب مجھ سے جن کا معنی نہ پوچھ لیجئے گا جو مجھے معلوم تو ہیں لیکن پھر ایک نئی بحث شروع ہوجائے گی جس میں نہیں الجھنا چاہتا) قرآن شریف نے جنات کا ذکر ضرور کیا ہے لیکن یہ نہیں کہا کہ وہ ایسی بےہودہ حرکتوں میں ملوث ہوتے ہیں یہ جو کچھ بھی مشہور ہے یہ صرف لوگوں کے قصوں سے منسوب ہے جو صرف قصے سناتے ہیں لیکن جب ثبوت مانگیں تو جواب ندارد۔ ان جنات کی تفصیل قرآن نے چھوڑ دی ہے اور ہمارا بھی یہ کام نہیں ہم یہ کہیں کہ کیونکہ اللہ میاں میں نے ان کا نام تو بتادیا ہے کام نہیں بتایا تو چلو ہم خود ہی ان کی ایک خیالی تصویر بنالیں۔
 

رانا

محفلین
شہاب نامہ پر ہمیشہ ہی بہت گرد اڑتی ہے، وہ بھی اڑاتے ہیں جنہوں نے پڑھی ہے اور وہ بھی جنہوں نے نہیں پڑی :)

مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ لوگ "شہاب نامہ" کو قرآن حدیث کی کتاب سمجھ کر کیوں پڑھتے ہیں کہ یہ توقع رکھیں کہ یہ حرف بہ حرف، لفظ بہ لفظ، سطر بہ سطر، جملہ بہ جملہ، صفحہ بہ صفحہ فقط اور فقط حق و صداقت ہوگی، اگر یہ معیار 'ادب' کی کتابوں پر لگانا شروع کر دیں گے تو معذرت کے ساتھ کہوں گا کہ ایک بھی کتاب ایسی نہیں ہوگی جو اس پر پورا اترے چاہے وہ دیوانِ غالب ہو یا جوش کی یادوں کی برات۔

شہاب نامہ کو ادب کی کتاب کی حیثیت یعنی ایک سوانح عمری سمجھ کر پڑھیں، دلچسپ لگے گی، جہاں آپ کو مصنف سے اختلاف ہے اسکی بات نہ مانیں لیکن اس پر کذب و افترا تو نہ باندھیں یعنی پھر کہوں گا کہ اس طرح تو ہر شاعر اور ہر مصنف کاذب کہلائے گا :)

بہت شکریہ وارث بھائی۔ صرف اتنی وضاحت کرنے کی اجازت چاہتا ہوں کہ میں شہاب نامہ کی ادبی حیثیت سے اس پر معترض نہیں ہوں صرف اس میں بیان کردہ تاریخی واقعات کی طرف اشارہ ہے۔ آپ کی بات بالکل درست ہے۔ جزاک اللہ۔
 

رانا

محفلین
دلچسپ بات ہے کہ جن صاحب نے یہ دھاگہ شروع کیا ہے انھوں نے پہلے پیغام میں دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے یہ کتاب نہیں پڑھی۔ اور پھر اگلے تمام پیغامات میں اپنی توانائیاں مصنف اور تصنیف کو غلط کرنے میں صرف کر رہے ہیں۔ جناب۔۔۔آپ کو ہر بندے کے مخالف مل جائیں گے۔ ہم پر ایک احسان کریں اور کتاب پڑھ کر تبصرہ کریں۔

جزاک اللہ۔ دیکھا شمشاد بھائی دھاگہ آپ نے شروع کیا اورلگ گیا میرے نام پر:)

جناب آپ بحث کے آغاز میں غالباً موجود نہیں تھے ورنہ یہ اعتراض نہ اٹھاتے۔ میں نے شہاب نامہ نہیں پڑھا اسکے باوجود اگر میں ازخود اس نام کا دھاگہ شروع کرتا اور بحث کا آغاز کرتا تو واقعی اخلاقی طور پر بھی اور اصولی طور پر بھی یہ بہت غلط بات ہوتی۔ لیکن دراصل یہ دھاگہ پہلے شہاب نامہ سے (میرے پنسدیدہ) اقتباسات کے نام سے تھا اور اب بھی ہے میرا پہلا پیغام جو آپ کو نظر آرہا ہے وہ اسی میں پوسٹ کیا گیا تھا اور اس پیغام سے صاف ظاہر ہے کہ میں نے ان اقتباسات کی تعریف کی تھی اور جملہ معترضہ کے طور پر شہاب نامہ پر اپنی رائے کا اظہار بھی کردیا تھا جو کہ بالکل فطری بات ہے اگر آپ بھی میری جگہ ہوتے تو اپنی رائے کے اظہار میں کوئی مضایقہ نہیں سمجھتے۔ اس سے بحث کرنا مقصد تھا ہی نہیں میرا پہلا پیغام دوبارہ پڑھ لیجئے کیا اس سے ایسا ظاہر ہوتا ہے؟ امید ہے اس تناظر میں اب آپ کو میرے باقی پیغامات کی وجہ بھی سمجھ آجائے گی۔ آپ اگرکوئی رائے رکھتے ہوں اور اس پر کوئی اعتراض کردے تو کیا آپ اسکے جواب وہ وجوہات بیان نہیں کریں گے جن کی بنا پر آپ نے اپنی رائے قائم کی اور جن دلائل کی بنا پر آپ اپنی رائے کو درست جانتے ہیں اگران وجوہات کو غلط ثابت کئے بغیر کوئی آپ کی رائے کو غلط کہے تو کیا آپ اپنی رائے کا دفاع نہیں کریں گے۔ ایک بار پھر عرض کروں گا کہ کتاب نہ پڑھنے کے باوجود ازخود دوسروں کو بحث کی دعوت دینا غلط ہے اور یہاں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ کسی کتاب کے بارے میں کوئی رائے اسکے کچھ حصے پڑھ کر بھی رکھی جاسکتی ہے نہ کہ الف سے لے کر یے تک پوری کتا ب پڑھ کر ہی رائے قائم کی جائے البتہ اس کتاب کے جن حصوں کا تذکرہ اس دھاگے میں آچکا ہے اگر ان حصوں کو بیان کرنے میں آپ سمجھتے ہیں کہ غلط بیانی کی گئی ہے اصل کتاب میں ایسا کچھ نہیں تو آپ اس کا یقینی اظہارکردیں پھر میرے پاس اپنی رائے پر قائم رہنے کی کوئی وجہ نہیں رہے گی۔

کیا میں یہ سمجھ لوں کہ جناب نے بھی اس کتاب کو پڑھے بغیر لقمہ دے دیا ہے۔ اگر آپ نے پڑھی ہے تو جو حصے زیربحث ہیں دو جملے لکھ کر انہیں غلط قرار دے دیں بات ختم ہوجائے گی اور اگر یہ حصے درست ہیں تو ان سے جو سوالات پیدا ہوتے ہیں وہ اس دھاگے میں بہت تفصیل سے زیربحث آچکے ہیں ان کے ذرا تسلی بخش جوابات دے دیں تاکہ ایک تو بحث کا اختتام ہوجائے اورسب کی معلومات میں بھی اضافہ ہوجائے اور آئندہ ان کےسامنے کبھی کوئی شہاب نامہ کے ان حصوں کو بنیاد بناکر بات کرے تو انہیں پہلے سے علم ہو کہ اصل حقیقیت کیا ہے۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
شہاب نامہ پر ہمیشہ ہی بہت گرد اڑتی ہے، وہ بھی اڑاتے ہیں جنہوں نے پڑھی ہے اور وہ بھی جنہوں نے نہیں پڑی :)

مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ لوگ "شہاب نامہ" کو قرآن حدیث کی کتاب سمجھ کر کیوں پڑھتے ہیں کہ یہ توقع رکھیں کہ یہ حرف بہ حرف، لفظ بہ لفظ، سطر بہ سطر، جملہ بہ جملہ، صفحہ بہ صفحہ فقط اور فقط حق و صداقت ہوگی، اگر یہ معیار 'ادب' کی کتابوں پر لگانا شروع کر دیں گے تو معذرت کے ساتھ کہوں گا کہ ایک بھی کتاب ایسی نہیں ہوگی جو اس پر پورا اترے چاہے وہ دیوانِ غالب ہو یا جوش کی یادوں کی برات۔

شہاب نامہ کو ادب کی کتاب کی حیثیت یعنی ایک سوانح عمری سمجھ کر پڑھیں، دلچسپ لگے گی، جہاں آپ کو مصنف سے اختلاف ہے اسکی بات نہ مانیں لیکن اس پر کذب و افترا تو نہ باندھیں یعنی پھر کہوں گا کہ اس طرح تو ہر شاعر اور ہر مصنف کاذب کہلائے گا :)

حضور دراصل بہت سے لوگ شہاب صاحب کو عام انسان نہیں بلکہ پیر اور ولی گردانتے ہیں۔ اب فرق صاف ظاہر ہے کہ غالب اور جوش قطعاً کوئی پیر یا ولی نہیں تھے۔ اس لئے ان پر یہ خاک نہیں اڑتی۔
غالب ولی بننے پر مائل ضرور تھے مگر اس بات پر خود ہی شرمندہ بھی ہو گئے۔
یہ مسائلِ تصوّف یہ ترا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا

:)
 

شمشاد

لائبریرین
جزاک اللہ۔ دیکھا شمشاد بھائی دھاگہ آپ نے شروع کیا اورلگ گیا میرے نام پر:)

رانا صاحب اتفاق ہی سمجھیں کہ آپ کے پیغام سے یہ دھاگہ شروع ہو۔
وہ دھاگہ صرف اقتباسات کا تھا اور اس میں بحث شروع ہو گی جو اس دھاگے کے حُسن کو متاثر کر رہی تھی، اس لیے یہ الگ سے دھاگہ بنانا پڑا۔

بحث کرنا بہت اچھی بات ہے۔ حوالوں اور دلیلوں سے ایک تعمیری قسم کی بحث کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن بحث برائے بحث سے بچیں۔
 

سویدا

محفلین
اقتباس اصل پیغام ارسال کردہ از: محمد وارث پیغام دیکھیے
شہاب نامہ پر ہمیشہ ہی بہت گرد اڑتی ہے، وہ بھی اڑاتے ہیں جنہوں نے پڑھی ہے اور وہ بھی جنہوں نے نہیں پڑی

مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ لوگ "شہاب نامہ" کو قرآن حدیث کی کتاب سمجھ کر کیوں پڑھتے ہیں کہ یہ توقع رکھیں کہ یہ حرف بہ حرف، لفظ بہ لفظ، سطر بہ سطر، جملہ بہ جملہ، صفحہ بہ صفحہ فقط اور فقط حق و صداقت ہوگی، اگر یہ معیار 'ادب' کی کتابوں پر لگانا شروع کر دیں گے تو معذرت کے ساتھ کہوں گا کہ ایک بھی کتاب ایسی نہیں ہوگی جو اس پر پورا اترے چاہے وہ دیوانِ غالب ہو یا جوش کی یادوں کی برات۔

شہاب نامہ کو ادب کی کتاب کی حیثیت یعنی ایک سوانح عمری سمجھ کر پڑھیں، دلچسپ لگے گی، جہاں آپ کو مصنف سے اختلاف ہے اسکی بات نہ مانیں لیکن اس پر کذب و افترا تو نہ باندھیں یعنی پھر کہوں گا کہ اس طرح تو ہر شاعر اور ہر مصنف کاذب کہلائے گا

حضور دراصل بہت سے لوگ شہاب صاحب کو عام انسان نہیں بلکہ پیر اور ولی گردانتے ہیں۔ اب فرق صاف ظاہر ہے کہ غالب اور جوش قطعاً کوئی پیر یا ولی نہیں تھے۔ اس لئے ان پر یہ خاک نہیں اڑتی۔
غالب ولی بننے پر مائل ضرور تھے مگر اس بات پر خود ہی شرمندہ بھی ہو گئے۔
یہ مسائلِ تصوّف یہ ترا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا

مندرجہ بالا تبصروں کے بعد اب اس موضوع پر مزید بحث کی کوئی گنجائش نہیں بچتی
 

محمد وارث

لائبریرین

حضور دراصل بہت سے لوگ شہاب صاحب کو عام انسان نہیں بلکہ پیر اور ولی گردانتے ہیں۔ اب فرق صاف ظاہر ہے کہ غالب اور جوش قطعاً کوئی پیر یا ولی نہیں تھے۔ اس لئے ان پر یہ خاک نہیں اڑتی۔
غالب ولی بننے پر مائل ضرور تھے مگر اس بات پر خود ہی شرمندہ بھی ہو گئے۔
یہ مسائلِ تصوّف یہ ترا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا

:)

میرے خیال میں قدرت اللہ شہاب نے خود کبھی بھی ولی یا پیر ہونے کا دعویٰ نہیں کیا، جہاں تک لوگوں کی سمجھ کی بات ہے تو وہ تو اس مزار کا بھی عرس منا لیتے ہیں جس کی قبر میں بھی کوئی انسان نہیں ہوتا :)
 

شمشاد

لائبریرین
راولپنڈی سے ایبٹ آباد جائیں تو راستے میں ایک جگہ “ کھوتا قبر“ کے نام سے مشہور ہے۔ اور حقیقت میں بھی وہ ایک کھوتے (گدھے) کی ہی قبر ہے۔ وہاں بھی بہت کچھ ہوتا ہے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top