سکوں محال ہے امجد وفا کے رستے میں
کبھی چراح جلے ہیں ہَوا کے رستے میں ؟
نجانے اَب کے برس کھیتیوں پہ کیا گُزرے!
کئی پہاڑ کھڑے ہیں گھتا کے رستے میں
قدم قدم پہ قدم لڑ کھڑائے جاتے ہیں
بُتوں کے ڈھیر لگے ہیں خُدا کے رستے میں
جہانِ نو کو شعُورِ مُسافرت دیں گے
ہم اپنے خُون سے شمیں جلا کے رستے میں
دیارِ اہلِ محبّت میں کِس دی آواز
ہزار ساز بجے ہیں صدا کے رستے میں
سوائے دردِ محبت، بُجز غبار سَفر
کوئی رفیق نہ پایا وفا کے رستے میں