”اردو محفل “ کے شاعرسے مکالمہ (نیاسلسلہ)

جناب محمد خلیل الرحمٰن صاحب۔
آپ کی دعوت پر چلا تو آیا ہوں یہاں، مگر سوچ رہا کہ میں کہوں گا کیا؟۔ خاموشی کا بھرم تو آپ جانتے ہیں بہت ہوتا ہے، اپنے لئے بھی اور دوسروں کے لئے بھی۔
بہرحال، کچھ نہ کچھ تو کہنا ہی پڑے گا، اس خدشہ کے باوجود کہ:
اسی لئے تو میں کہہ رہا تھا کہ کچھ نہ کہنا​
صدا نے اندر کا حال چہروں پہ لکھ دیا ہے​
۔۔۔
 
آداب!
میرے لئے اصولاً یہ فخر کی بات ہونی چاہئے کہ مجھے اس سوال نامے میں شامل کیا گیا، مگر اس کو کیا کہوں کہ یہی بات فکر کی بات بن رہی ہے۔ میں نے مؤقر احباب کے جوابات پڑھنے سے ارادتاً گریز کیا ہے، تاکہ یہ کہہ سکوں کہ:
میری زباں سے پھوٹے ہیں سو میرے ہیں​
زہریلے کانٹے کس سے منسوب کروں​
۔۔۔
 
اردو محفل :​
آپ کا بنیادی حوالہ شعر ہے ،آپ فرمائیے کہ آپ سالیبِ شعری کے علاوہ ادب کی دیگر اصناف سے بھی رغبت رکھتے ہیں ؟​

شعر بھی اپنا حوالہ بن سکے تو بڑی بات ہے۔
میں نے کبھی اختصاص سے کام نہیں لیا۔ اردو میں بھی لکھا، پنجابی میں بھی، اردو سے پنجابی اور فارسی سے پنجابی میں ترجمے بھی کئے۔ غزل بھی کہی نظم بھی، اور رباعی کو بھی چھیڑا۔ ’’لفظ کھو جائیں گے‘‘ احباب کی نظروں سے گزر چکی۔ ’’مجھے اک نظم کہنی تھی‘‘ ان شاء اللہ جلدی پیش کر دوں گا۔ اردو نثر میں: چند ایک شخصیات سے بات چیت اور ان کی شاعری پر اور شخصیت پر اظہار بھی ہے۔ کتابوں کی تقریظیں ہیں کہ تقریظ پر کوئی ناراض نہیں ہوتا۔ افسانہ اور کہانی لکھنے کی بھی کوشش کی۔ تفصیلات کا یہ موقع نہیں۔ پنجابی میں غزل بھی کہی نظم بھی اگرچہ بہت کم کم۔ جو کچھ نظم ہو سکا ’’گوہلاں‘‘ کے عنوان سے یہاں پیش کر چکا ہوں۔ وہاں بھی کہانی، افسانہ، مضمون اور راہوارِ قلم جدھر لے گیا۔
یہ ضرور ہے کہ احباب نے ہمیشہ میری حوصلہ افزائی کی ہے، نہیں تو شاید یہ سب کچھ بہت مشکل ہو جاتا۔
 
اردو محفل :​
آپ شعر کیوں لکھتے ہیں ؟ ادب کی دیگر اصاف بھی تو ہیں ان کی طرف میلان و رغبت کیوں نہیں ہوئی ؟ اگر ہوئی ہے زیادہ مطمعن کس اظہار میں ہیں شعر یا نثر ؟​
یہ بات تو ہو گئی، کہ میں نے اپنے قلم پر کبھی کوئی پابندی نہیں لگائی۔ جو کچھ اپنے اندر سے اٹھا ہے، اس کو بس اپنی استعداد کی حد تک بنا سنوار کے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ سوال کا پہلا حصہ مجھ پر لاگو نہیں ہوتا۔
رہی بات شعر اور نثر کے تقابل کی، تو صاحبو! یہ بہت طویل بحث ہے۔ پہلے کھانا کھا لوں، پھر عرض کرتا ہوں (جملہء معترضہ)۔


پس نوشت: یہاں شاید ٹائپنگ میں سلپ ہو گئی۔ ’’مطمئن‘‘ درست ہجے ہیں۔
 
رہی بات شعر اور نثر کے تقابل کی، تو صاحبو!​

چاشنی شعر اور نثر دونوں کی اپنی اپنی ہے۔ البتہ بعض حوالوں سے شعر کو اولیت حاصل ہے۔ نثر میں آپ پر شعر جتنی پابندیاں نہیں ہوتیں، وہاں دیگر عناصر ہوتے ہیں۔ شعر میں سب سے پہلا معاملہ تو بحر، قافیہ، ردیف، صنفی تشکل (رباعی، خماسی، مسدس، مخمس، ترکیب بند، ترجیع بند؛ وغیرہ) کے تقاضوں کا ہے، اسلوب اور مضامین کا معاملہ اپنی جگہ! ایک شخص اگر ان سارے مراحل سے بخیر و خوبی گزر جاتا ہے تو اس کی مسرت بالکل بجا ہے۔ شعر کی ایک خاص بات اس کی یاد رہ جانے کی خوبی ہے۔ کسی کا شعر (نقل کرنے والے کو بھی شاعر کا پتہ نہیں تھا) مجھ تک پہنچا۔ ایک بار پڑھا تو جیسے ازبر ہو گیا۔ آپ بھی پڑھئے:
اس لئے بھی تری تصویر جلا دی میں نے
اور کچھ تھا ہی نہیں دل کو جلانے کے لئے
اس پر مستزاد یہ کہ ایک شعر یاد آتا ہے تو پھر کسی نہ کسی تعلق سے شعر پر شعر یاد آنے لگتے ہیں۔
نثر میں ایسا نہیں ہوتا۔ بہت نمایاں جملے یاد رہ جائیں تو رہ جائیں، پیراگراف کے پیراگراف تو خود لکھنے والے کو بھی یاد نہیں رہتے، الاماشاءاللہ۔
غزل کو میں اردو شاعری کا عطر کہا کرتا ہوں، جتنی نزاکتیں یہاں کارفرما ہوتی ہیں شاید ہی کسی اور صنفِ سخن میں ہوں۔ غزل کی ریزہ خیالی کی بدولت اس کا ہر شعر اپنی جگہ ایک مکمل مضمون کا حامل ہوتا ہے، سو کسی بھی موقع پر دو سطروں کے مختصر حوالے کا کام کر جاتا ہے۔ کفایت لفظی بہت اہم چیز ہے۔ عربی کا مشہور مقولہ ہے: خیر الکلام ما قل و دل (بات کی عمدگی یہ ہے کہ وہ مختصر ہو اور مدلل ہو)۔ غزل کا شعر جس قدر مختصر اور جامع ہو گا اسی قدر وقیع ہو گا۔
ایک اور اہم عنصر جو ادب کو ادب بناتا ہے وہ جمالیات ہے۔ جمالیات کی تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں ہے۔
 
اردو محفل :​
شاعری کو روح کا خلجان کہاں جاتا ہے ۔۔ ناآسودگی کا نوحہ کہا جاتا ہے۔۔ ؟؟ کیا آپ کے نزدیک یہ بات درست ہے ؟ اور کیوں ؟​
کہنے کو بہت کچھ کہا گیا، یہ روح کا خلجان ہے یا نغمہ ہے، نا آسودگی کا نوحہ ہے یا آسودگی کا سامان ہے، پیمبری کا حصہ ہے یا پریشان خیالی کا مظہر ہے؛ و علٰی ہٰذاالقیاس۔ یہ خواص تو نثر میں بھی ہو سکتے ہیں۔ اور پھر یہ جتنے عناصر بیان کئے گئے ہیں اُن سب کو شعر کہنے والے کی شخصیت اور معاشرے میں اس کے مقام کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو کھلتا ہے کہ ہم کسی بھی شعر سے اس کے شاعر کو کلیتاً خارج نہیں کر سکتے۔ غالب، میر، مومن، فیض، اقبال، جوش اپنے کلام میں صاف دکھائی دیتے ہیں۔ میرے نزدیک شاعری اظہارِ ذات کا ایک مؤثر وسیلہ ہے۔ ذات کی تشکیل میں داخل، خارج سب کچھ کا اثر ہوتا ہے۔ جسے فارسی میں کہتے ہیں: ’’از ماست کہ بر ماست‘‘۔
یہ ضرور ہے کہ کسی بھی معاشرت کا اعلٰی ترین مظہر اس کی زبان ہوتی ہے، پھر زبان میں ادب کو بلند تر درجہ حاصل ہے، ادب میں شاعری کو اولٰی مانا گیا ہے، اور اردو شاعری کا عطر غزل ہے۔
 
اردو محفل :​
ہمارے گردو پیش میں ایک سوال بازگشت کرتا نظر آتا ہے کہ ”شاعری کیا ہے“ ۔۔ آپ کیا کہتے ہیں ا س بارے میں کہ اس سوال سے”شاعری“ کی کوئی جہت دریافت ہوسکتی ہے یا محض وقت گزاری ہے؟​
اس کا آدھا جواب تو اوپر ہو چکا۔ مختصر ترین الفاظ میں شاعری اظہارِ ذات کا ایک انداز ہے۔ اور بھی بہت سے انداز ہوا کرتے ہیں، وہ ایل الگ بحث ہے۔ شاعری، اگر کوئی حقیقی شاعری کرے، تو اس کی اتنی ہی جہتیں ہوں گی جتنی صاحبِ کلام کی شخصیت کی ہوں گی۔ شاعری کی دنیا میں مشاہیر کو مشاہیر کیوں کہا جاتا ہے؟ اس لئے کہ ان کی شاعری جہتوں کا تعین کرتی ہے، لوگوں کے متفق یا غیر متفق ہونے سے قطع نظر مشاہیر کے ہاں کوئی نہ کوئی ایسا عنصر ضرور ہوتا ہے وہ فکری ہو، فنی ہو، فلسفیانہ ہو، سوقیانہ ہو، اصلاحی ہو، تخریبی ہو، جیسا بھی ہو، ہوتا ضرور ہے۔
رہی وقت گزاری والی بات تو جناب! اگر وقت گزاری ہی کرنی ہے تو پھر اس قدر سخت ذریعہ ہی کیوں؟ اس کے باوجود کچھ لوگ ہوتے ہیں جو اس کو وقت گزاری کا طریقہ ہی سمجھتے ہیں۔ وہ جتنے بھی باصلاحیت رہے ہوں، اور پی آر یا ایسے کسی طریقے سے منظرِ عام پر بھی ہوں، وقت ان کو گزار دیتا ہے یعنی وہ بہت جلد فراموش کر دیے جاتے ہیں۔ پروفیسر انور مسعود نے ایک بہت خوب صورت بات کی: ’’اللہ فرماتا ہے ہم نے اس کائنات کو عبث پیدا نہیں کیا۔ سو، سنتِ الٰہی یہی ہے کہ بندہ کوئی بے مقصد کام نہ کرے‘‘۔
حسنِ نیت نہ میسر ہو تو انور صاحب​
ہے خطر ناک بہت ذہنِ رسا کا ہونا​
۔۔۔
 
اردو محفل :​
کیا اس سوال کا اسالیبِ ادب میں کوئی مقام ہے ؟ اگر ہے تو اس سے کیا فائدہ ممکن ہوسکا ہے اب تک ؟؟​

وہ جو اوپر سوال گزرا ہے؟ وقت گزاری والا؟ اس کا تعلق تو شاعری کی اصلیت اور مقصدیت سے ہے، اسلوب نہیں۔ اسلوب کے بارے میں سوال آگے آتا ہے۔
 
اردو محفل :​
سنجیدہ ادبی حلقوں میں یہ نعرہ بڑے زور و شور سے بلند کیا جاتا ہے کہ ادب روبہ زوال ہے کیا یہ بات درست ہے ؟ بادی النظرمیں عام مشاہدہ یہ ہے کہ لکھنے والوں کی تعداد خاصی ہے ، کتابیں رسائل جرائد بھرے پڑے رہتے ہیں تخلیقات سے اور طباعتی ادارے خوب پھل پھول رہے ہیں۔۔۔​
ادب رو بہ زوال نہیں ہے صاحب! اَقدار رو بہ زوال ہیں! اور ادب پر اگر کوئی زوال ہے تو وہ قدر کی حیثیت سے ہے۔
اس پر تفصیلی بات کریں گے، ان شاء اللہ۔

ابھی تھک گیا ہوں۔ بیٹھے بیٹھے اتنا کچھ ’’منہ زبانی‘‘ لکھ گیا ہوں۔ مزید پھر سہی۔
 
ادب رو بہ زوال نہیں ہے صاحب! اَقدار رو بہ زوال ہیں!​
معیارات بدل گئے، پیمانے بدل گئے، محبت اور مؤدت کی جگہ آسائشوں کی دوڑ نے لے لی، تعلقات کی حیثیت ثانوی ہو گئی۔ بڑے شہروں میں انسان سے انسان کی دوری نے کچھ زیادہ رنگ دکھایا۔ ہم سہولیات کی دوڑ میں شامل ہوئے تو وہی سہولیات ضرورت بن گئیں اور تعیشات کو سہولیات کہا جانے لگا، پھر یہ بھی رفتہ رفتہ ضرورت بن گئیں۔ حقوق و فرائض کا تصور بدل گیا، ذمہ داری کے معانی تبدیل ہو گئے۔ آزادی ’’مادر پدر آزادی‘‘ میں ڈھل گئی، فلاح و بہبود اپنے گھر تک محدود ہو گئی، ہمسایہ اجنبی بن گیا۔ کھرے اور کھوٹے کی پہچان باقی نہ رہی۔ تعلیم جیسا مقدس کام کاروبار بن گیا، کردار سازی کا تصور درس گاہوں سے رخصت ہو گیا۔ اور بات یہاں تک پہنچی کہ حکام جن کو رعایا کے خدام کہا جاتا تھا، رعایا کے خدا بن بیٹھے۔
اس شہر کا کیا جانیے کیا ہو کے رہے گا​
ہر شخص بضد ہے کہ خدا ہو کے رہے گا​
اور یہ سب کچھ صرف ہمارے ہاں نہیں ہوا، پورا گلوب اس توڑ پھوڑ کا شکار ہو رہا ہے۔ ادیب بھی تو اسی معاشرے کا حصہ ہے، وہ بھی اس توڑ پھوڑ میں شامل رہا (کہیں شکار کی حیثیت سے اور کہیں شکاری کی حیثیت سے) اور اپنے اس منصب سے دور ہو گیا جو اِس کو فکری راہنما کا درجہ دیتا تھا۔
۔۔ جاری ہے۔​
 
۔۔۔۔۔ گزشتہ سے پیوستہ


ادب کی اصناف میں انحطاط رونما ہوا جسے آخرکار سند تسلیم کر لیا گیا، تنقید اور تنقید نگاری میں پہلے یہ ہوتا تھا کہ نقاد تخلیق کار کی شین قاف بھی درست کرتا اور اس کی راہنمائی بھی کرتا۔ بہ ایں ہمہ اس عمل کو شاعر کی ’’آزادیء اظہار‘‘ پر پابندی سمجھا جانے لگا تو تنقید سمٹ کر ہاں، نہیں تک رہ گئی۔ نقاد پر ایک الزام سہل پسندی کا بھی دیا جاتا ہے کہ جی وہ فلاں اس نے دس بارہ دساوری حوالے دیے اور سب کو چپ کرا دیا۔ مقصد سب کو چپ کرانا قطعاً نہیں تھا۔ نقالی کا جو بخار پورے معاشرے پر وبا بن کر چھا رہا ہے، اُس نے دانشِ مشرق کو دانشِ افرنگ کا دست نگر بنا دیا۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ ’’غزل کیا ہے‘‘ کے مباحث میں فرانسیسی اور برطانوی نقادوں کو حوالے کے طور پر پیش کیا جانے لگا۔ بھائی اُن لوگوں کا غزل سے دور کا واسطہ نہیں، اُن سے کیا پوچھتے ہو، اپنی بات کرو کہ یہ تو ہے ہی خالصتاً آپ کی چیز۔ سیاست اور معیشت کے بعد نثر اور نظم کی دساوری تعریفات نے ادب میں بھی ایک تیسری دنیا کی داغ بیل ڈال دی۔ ان کے میٹرز اپنے ہیں، سٹریس اینڈ سٹرین اپنے ہیں، آپ کے اپنے ہیں، وہ اپنی زبان کی اصناف میں جو بھی کریں آپ پر ان کی پیروی کہاں لازم تھی!
نئے دور میں کچھ نئے نعرے لگے: ’’ادب مذہب سے بالاتر ہے‘‘، ’’ادیب معاشرے کا عکاس ہوتا ہے‘‘؛ وغیرہ وغیرہ۔ تاہم یہ ہمار اس وقت کا موضوع نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے۔​
 
۔۔۔ ۔۔ گزشتہ سے پیوستہ​


کتابیں لکھی جاتی ہیں! بہت، اور پہلے سے کہیں زیادہ اور کاروبار کا ایک سلسلہ جو اس سے مربوط ہے وہ بھی چل رہا ہے۔ بہت سے لوگ دوسروں کے غم و آلام کی کمائی کھا رہے ہیں۔ ادب کا پبلشر نئے نام سے بدکتا ہے، اسے معیار سے کیا لینا دینا۔ اسے ’’خصوصی ڈائجسٹ‘‘ اور ’’عمومی ڈائجسٹ‘‘ چھپوا کر ایک مہینے میں جتنی کمائی ہوتی ہے، اساتذہ کے دیوان بیچ کر وہ اتنی کمائی سال بھر میں نہیں کر سکتا۔ ایک زمانہ تھا جب بقول شخصے فقیر گلی میں اور مغینہ کوٹھے پر اساتذہ کی غزلیں گایا کرتے تھے، آج قومی تقریبات میں دساوری پاپ اور سپرپاپ چلتا ہے، گھروں کا تو پوچھنا ہی کیا!۔
ہم نے تو دس بارہ سال پہلے سنا تھا کہ وطنِ عزیز میں اوسطاً دو شعری مجموعے روزانہ شائع ہو رہے ہیں۔ مگر ان کی قیمت؟ سچی بات ہے اپنی رسائی میں تو نہیں کہ ہر مہینے بارہ ہزار روپے ذوقِ مطالعہ پر خرچ کر سکیں۔ ایک ’’عمومی ڈائجسٹ‘‘ میں مطبوعہ مواد کم و بیش بیس نثری مجموعوں کے برابر ہوتا ہے، غزلیات کی کہئے تو پچاس! اور اس کی قیمت صرف پچاس روپے! اور سو غزلوں پر مشتمل کتاب دو سو روپے میں۔ ادھر ادب کو عام قاری کی رسائی سے باہر کر دیا، ادھر ادیب کی جیب سے کتاب چھاپ کر اسے اس کی اصل رقم سے بھی یا تو محروم کر دیا گیا یا پھر وہ کئی کئی چکر لگا کر خود تھک ہار کر بیٹھ رہا۔ وہ مرحلہ جس میں ناشر ادیب کے پیچھے پیچھے پھرے آتا اس وقت ہے جب ادیب اپنے بڑھاپے کو طویل کرنے کی کوشش میں لگا ہوتا ہے۔ طباعتی اور اشاعتی ادارے پھل پھول رہے ہیں، بالکل بجا۔ ادیب اور قاری دونوں کی تو سانس پھول رہی ہوتی ہے۔

اس کے باوجود اچھا ادب بھی تخلیق ہو رہا ہے، اور بازا میں دستیاب بھی ہے جس کا سہرا صرف چند ایک سرپھروں کے سر جاتا ہے۔
 
اردو محفل :

نئے لکھنے والے اس بات سے شاکی رہتے ہیں ہے کہ ان کے ”سینئرز“ ان کی نہ رہنمائی کرتے ہیں اور نہ انہیں قبول کرتے ہیں ۔۔کیا یہ شکوہ جائز ہے ؟ اور یہ فضا کیسے تحلیل ہوسکتی ہے ۔​

نہیں صاحب! ایسی کوئی بات نہیں۔ دیکھئے، تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ اور وہ جو معاشرتی انحطاط کی بات ہوئی تھی وہ یہاں بھی کارفرما ہے۔ شاعری اور وقت گزاری کا سوال بھی اس سے منسلک ہے۔
میرا اپنا تجربہ ہے کہ میں نے جو کچھ (ادب میں) سیکھا ہے اپنے متقدمین (سینئرز) سے سیکھا ہے۔ ان کی محفلوں میں بیٹھا ہوں، ان کے مباحث سنے ہیں، اپنے سوالات پیش کئے ہیں اور مجھے ہمیشہ شافی جواب بھی ملا ہے، الا ما شاء اللہ۔ آپ احباب میرا طریقہ تو دیکھ چکے کہ میں کسی فن پارے پر بات کرتا ہوں تو وہ کچھ جسے میں (اپنی استعداد کے مطابق) درست سمجھتا ہوں کھلے کھلے سب کو بتا دیتا ہوں۔ چلئے یہ تو میری بات ہو گئی، کوئی کہہ دے کہ جی ہم نے عموماً یہی دیکھا ہے کہ بابے نئے لکھنے والوں کو سکھاتے نہیں۔
ادبی تنظیموں کا کردار آپ کے سامنے ہے، (گروہ بندی کی بات آگے آتی ہے) اس کے با وجود ہر ادبی تنظیم ایک ادبی تربیت گاہ ہوتی ہے۔ وہاں کسے کیسی تربیت ملتی ہے، یہ ہمارا موضوع نہیں، تربیت ملتی ضرور ہے!​

۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے۔​

 
ضمناً بتاتا چلوں: کوئی سال بھر پہلے کی بات ہے روزنامہ ’’اوصاف‘‘ نے ایک سوال جاری کیا تھا، ادب کی ترقی اور ترویج میں ادبی تنظیموں اور سرکار کے کردار کی بات تھی۔ میں نے بھی اپنی گزارشات پیش کی تھیں، کمپیوٹر میں اس کی نقل مل گئی تو پیش کر دوں گا۔

ایک بات مجھے جونیئرز کے حوالے سے بھی کہنی ہے۔ میں نے متعدد نو قلم کاروں میں ’’فرار‘‘ کا رویہ بھی دیکھا۔ انہیں ایک بات بتائی جاتی ہے تو جواب ملتا ہے۔ اسے چھوڑیں جی، آپ بتائیں یہ شعر گزارہ کرے گا؟ میں ذاتی طور پر چند ایسے نوجوان لکھاریوں کو بھی جانتا ہوں جو ایک غلطی کرتے ہیں، لسانی یا فنی یا عروضی یا مضمون کے حوالے سے، انہیں بتایا جاتا ہے تو وہ یا تو تسلیم نہیں کرتے یا یہ کہ ’’آپ کی بات اور ہے جی، ہم نئے لکھنے والے ہیں، ہمیں تو رعایت حاصل ہے‘‘۔ ایسے میں سینئر کے پاس خاموشی کے سوا کیا بچتا ہے؟ ایک مثال سنئے (لکھاری کا نام نہیں بتاؤں گا)۔ انہوں نے ایک نظم کہی اور حلقہ میں تنقید کے لئے پیش کر دی۔ کم و بیش ہر ناقد نے نظم کو کمزور گردانا اور اس میں کچھ اغلاط کی نشان دہی کی۔ نظم پر گفتگو ختم ہوئی تو وہ صاحب چپکے سے اٹھے اور محفل سے چلے گئے۔ بعد ازاں اُن کے گھر پر کچھ دوست جمع ہوئے تو موصوف نے اعلان کر دیا کہ وہ حلقے میں نہیں آئیں گے، بقول ان کے ’’یہاں کسی کو ادب کا پتہ ہی نہیں‘‘۔ اس رویے کو کیا نام دیجئے گا۔
وہ نوجوان قلم کار بھی ہیں جو بہت تیزی سے سیکھتے ہیں اور ان کی تحریروں میں بہت تیزی سے نکھار آتا ہے۔ کچھ بزرگ شعراء رہے بھی ہوں گے جو سکھانے بتانے سے کتراتے ہوں، تاہم میرا مشاہدہ اور تجربہ اس کو صاد نہیں کرتا۔
 
اردو محفل :​
ادب میں حلقہ بندیوں کے باوصف گروہ بندیوں کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں کیا اس سے ادب کو کوئی فائدہ یا نقصان پہنچ سکتا ہے ؟​

’’حلقہ بندیوں کے باوصف گروہ بندیوں میں‘‘ ۔۔۔۔۔؟؟
اگر یہاں حلقہ بندی سے مراد ادبی تنظیموں اور حلقوں کا قیام ہے تو ایک بات کی وضاحت کر دوں۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ ایک جگہ پر ایک حلقہ کے ہوتے ہوئے دوسرا صرف اس لئے قائم ہو کہ ’’کچھ لوگ‘‘ وہاں خوش نہیں ہیں۔ نئے حلقے بنا کرتے ہیں، اور اس کی کئی ایک وجوہات ہوتی ہیں۔ مثلاً آنے جانے کے مسائل، ملازمت اور دیگر مسائل جو موجود حلقہ کے اوقاتِ کار سے لگا نہ کھاتے ہوں، کسی ایک آبادی میں رہنے والے قلم کاروں کی تعداد کہ یار ہم اتنے لوگ یہاں رہتے ہیں کیوں نہ ہفتہ وار یا پندرہ دن میں یا مہینے بعد مل بیٹھا جائے؟ کچھ لوگ مل بیٹھیں گے تو کچھ نہ کچھ کام بھی ہو گا۔ میں اس کے حق میں ہوں بشرطے کہ ایسی حلقہ بندی کے پیچھے ایک مثبت سوچ کار فرما ہو۔ اور دو چار چھ اجلاسوں میں شرکت کر لی جائے تو اس سوچ کا اندازہ بھی ہو جاتا ہے۔ گروہ بندیوں کا رجحان بڑے شہروں میں زیادہ ہے، کیوں؟ یہ تو بڑے شہروں کے رہنے والے بتا سکتے ہیں۔ ہمارے یہاں تو 1985 سے اب تک کبھی انتخابات کی بھی نوبت نہیں آئی، دوستوں کو پکڑ دھکڑ کر مجلسِ عاملہ میں شامل کیا جاتا ہے۔
بڑی عجیب بات ہے کہ گروہ بندیاں ادب کو فائدہ بھی پہنچاتی ہیں اور نقصان بھی۔ کہیں صحت مند مقابلے کی فضا پیدا ہوتی ہے تو گروہی حوالے سے ہی سہی کچھ لوگ بہتر تخلیقی کاوشوں کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ تنقید کے میدان میں گروہی بنیاد پر بھی کسی کو رد کرنا یا کسی کی حوصلہ شکنی کرنا مقصود ہو یا کسی کو ہوا دینا تو کوئی نہ کوئی لولا لنگڑا جواز تو بنانا ہی پڑے گا۔ اس سے تنقید میں نئے اندازِ فکر کو راہ ملتی ہے۔ گروہ بندی کی فضا میں ذمہ داری کا احساس رکھنے والے اہلِ قلم اور دانش ور بہت سوچ سمجھ کر بات کرتے ہیں اور سیکھنے والوں کے لئے بہت کچھ مہیا کر جاتے ہیں۔ نقصانات کو بھی دیکھتے چلئے۔ کچھ لوگ حوصلہ شکن رویے کا شکار ہو کر پہلے ادبی اداروں سے اور پھر اپنے ادنی ارادوں ہی سے دست بردار ہو جاتے ہیں۔ تنقید اور تنقیص کے معانی ایک ہو جاتے ہیں، جیسے سیاست میں تنقید کا معنی ہی تنقیص ہے۔ کسی شخص کی صلاحیتوں کو تباہ کرنا مقصود ہو تو اس کی ہر غلط بات پر واہ، کیا خوب! داد کے ڈونگرے برستے ہیں۔ یوں اس شخص کے ساتھ جو نشانے پر آیا ہوا ہے بہت سے دوسرے بھی بھٹک سکتے ہیں۔
آپ کے خدشات بے جا نہیں ہیں۔
 
اردو محفل :

ہم عصر شعراءاور نوواردانِ شعر میں معیارِ شعر کا فرق ؟ یہ فرق کیسے ختم ہوسکتا ہے ؟ اچھے شعر کا معیار کیا ہے ؟​
نو واردان بھی تو ہم عصروں میں آتے ہیں۔ آپ کا سوال واضح نہیں ہے۔
اگر اسے یوں سمجھا جائے کہ منجھے ہوئے شعراء اور نوواردانِ شعر میں معیار کا کیا فرق ہے، تو بھی بات کرنا خاصا مشکل ہے۔ ہمیں اس سوال کو مختلف اجزاء میں تقسیم کرنا ہو گا۔
الف۔ نووارد کون ہے، اور پرانا کون ہے؟
ب۔ کیا ان کے کلام میں معیار کا فرق ہے بھی یا نہیں؟
ج۔ کیا یہ فرق ختم ہو سکتا ہے؟ ’’کیسے‘‘ والی بات بعد کی ہے۔
د۔ اچھے شعر کا معیار کیا ہے۔

رات کو نیم خوابیدگی کے عالم میں سوچوں گا، کچھ سوجھ گیا تو عرض کر دوں گا ورنہ معذرت کر لوں گا۔ مجھے پتہ ہے آپ بڑے دل والے ہیں، میری معذرت کو قبول فرمائیں گے۔
 
الف۔ نووارد کون ہے، اور پرانا کون ہے؟​

نیا اور پرانا کا امتیاز زمانی ترتیب سے؟ کس نے پہلے شعر کہنا شروع کیا یا کون پہلے معروف ہوا، یا کس کی کتاب پہلے آ گئی؟ یہ تینوں پیمانے اپنی اپنی جگہ اہم، تسلیم! مگر ۔۔۔۔۔۔
بہت سے لوگ دو تین سالوں میں معروف ہو جاتے ہیں اور بہت سوں کو عمروں میں کوئی نہیں جانتا۔ سیکھنے کی استعداد اور لگن ہر ایک کی اپنی اپنی ہے، اور حالات بھی اپنے اپنے! کوئی جل جل کر راکھ بن جاتا ہے اور کوئی پہلے تاؤ میں تاب دینے لگتا ہے۔ کتابوں کی بات پہلے ہو چکی، میرے پاس پیسے نہیں تھے یا نہیں ہیں تو میں انٹرنیٹ ایڈیشنز پر خوش ہوں۔ اُس کے پاس پیسے ہیں وہ ایک سال میں چھ کتابیں لا سکتا ہے۔ آپ کا اپنا معیار ایسا کڑا ہے کہ دوستوں کی شدید خواہش کو آپ یہ کہہ کے ٹال دیتے ہیں: ’’نہیں یار، ابھی میری شاعری اس قابل نہیں ہوئی، ہو جائے گی تو دیکھیں گے‘‘۔ ایک بزرگ شاعر 1952 سے باقاعدہ شاعری کر بھی رہے ہیں، ان کو ایک زمانہ تسلیم کرتا ہے مگر ان کا اولین مجموعہ 2010 میں شائع ہوتا ہے۔ تب تک ان کے شاگرد انہی کے سجھائے ہوئے مضامین میں کہے گئے شعروں کی بدولت جانے جاتے ہیں۔

حاصل کیا ٹھہرا؟
جو جتنا جلدی معروف معیارات کا پاس رکھتے ہوئے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو نکھار لیتا ہے وہ پرانا ہے چاہے اسے شعر میں وارد ہوئے تین چار پانچ سال ہی ہوئے ہوں۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔ جو اپنی مشقِ سخن کی مبینہ خامیوں کو خوبیاں کہنے پر بضد ہے وہ نیا ہے اور نیا رہے گا، چاہے آدھی صدی تک مصرعے سیدھے کرتا رہے۔ اصل فرق ہے ہی معیار کا! سو یہ سوال بھی بھگت کیا کہ:
ب۔ کیا ان کے کلام میں معیار کا فرق ہے بھی یا نہیں؟​
۔۔۔۔
 
ج۔ کیا یہ فرق ختم ہو سکتا ہے؟ ’’کیسے‘‘ والی بات بعد کی ہے۔​

فرق ختم نہیں ہو سکتا! جن اہلِ فن اور اساتذہ کو ہم لوگ سند مانتے ہیں، فرق اُن میں بھی ہے۔ یہاں ہمیں ایک چیز فرض کرنی پڑے گی: ایک شاعر بیس پچیس سال سے شعر کہہ رہا ہے اور اپنی پوری صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی حد تک اس ’’کارِ کوہ کنی‘‘ سے مخلص بھی ہے۔ ایک نوجوان شاعر ہے وہ کہہ لیجئے دو سال سے شعر کہہ رہا ہے اور اپنی پوری صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی حد تک اس ’’کارِ کوہ کنی‘‘ سے وہ بھی مخلص ہے۔ فرق تو یہاں بھی ہو گا، ہاں یہ نوجوان جب ان تجربات سے یا ان سے ملتے جلتے تجربات سے گزرے گا تو ہو سکتا ہے بابا جی سے آگے نکل جائے!
’’کیسے‘‘ کی ذیل میں سب سے پہلے تو خدا داد صلاحیت ہے، جسے ودیعت ہو گئی۔ پھر خلوص لگن اور تہیہ ہے، پھر محنت ہے اور علم کی پیاس اور مطالعہ و مکالمہ ہے، پھر وسیع المشربی ہے۔ یہ سفر شروع ہوتا ہے بے سروسامانی سے اور مسافر اپنا زادِ راہ اسی سفر سے حاصل کرتا ہے۔ اور اگر اس کی طلب صادق ہے اور او خود فریبی کا شکار نہیں ہے تو منزلوں پر منزلیں مارتا چلا جاتا ہے۔ بقول متشاعر ۔۔۔
چلو آؤ چلتے ہیں بے ساز و ساماں​
قلم کا سفر خود ہی زادِ سفر ہے​
۔۔۔
 
Top