رہی بات شعر اور نثر کے تقابل کی، تو صاحبو!
چاشنی شعر اور نثر دونوں کی اپنی اپنی ہے۔ البتہ بعض حوالوں سے شعر کو اولیت حاصل ہے۔ نثر میں آپ پر شعر جتنی پابندیاں نہیں ہوتیں، وہاں دیگر عناصر ہوتے ہیں۔ شعر میں سب سے پہلا معاملہ تو بحر، قافیہ، ردیف، صنفی تشکل (رباعی، خماسی، مسدس، مخمس، ترکیب بند، ترجیع بند؛ وغیرہ) کے تقاضوں کا ہے، اسلوب اور مضامین کا معاملہ اپنی جگہ! ایک شخص اگر ان سارے مراحل سے بخیر و خوبی گزر جاتا ہے تو اس کی مسرت بالکل بجا ہے۔ شعر کی ایک خاص بات اس کی یاد رہ جانے کی خوبی ہے۔ کسی کا شعر (نقل کرنے والے کو بھی شاعر کا پتہ نہیں تھا) مجھ تک پہنچا۔ ایک بار پڑھا تو جیسے ازبر ہو گیا۔ آپ بھی پڑھئے:
اس لئے بھی تری تصویر جلا دی میں نے
اور کچھ تھا ہی نہیں دل کو جلانے کے لئے
اس پر مستزاد یہ کہ ایک شعر یاد آتا ہے تو پھر کسی نہ کسی تعلق سے شعر پر شعر یاد آنے لگتے ہیں۔
نثر میں ایسا نہیں ہوتا۔ بہت نمایاں جملے یاد رہ جائیں تو رہ جائیں، پیراگراف کے پیراگراف تو خود لکھنے والے کو بھی یاد نہیں رہتے، الاماشاءاللہ۔
غزل کو میں اردو شاعری کا عطر کہا کرتا ہوں، جتنی نزاکتیں یہاں کارفرما ہوتی ہیں شاید ہی کسی اور صنفِ سخن میں ہوں۔ غزل کی ریزہ خیالی کی بدولت اس کا ہر شعر اپنی جگہ ایک مکمل مضمون کا حامل ہوتا ہے، سو کسی بھی موقع پر دو سطروں کے مختصر حوالے کا کام کر جاتا ہے۔ کفایت لفظی بہت اہم چیز ہے۔ عربی کا مشہور مقولہ ہے: خیر الکلام ما قل و دل (بات کی عمدگی یہ ہے کہ وہ مختصر ہو اور مدلل ہو)۔ غزل کا شعر جس قدر مختصر اور جامع ہو گا اسی قدر وقیع ہو گا۔
ایک اور اہم عنصر جو ادب کو ادب بناتا ہے وہ جمالیات ہے۔ جمالیات کی تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں ہے۔