شکیب
محفلین
جی! آداب آداب آداب آداسواگت ہے محفل میں بھائی شکیب آج تشریف لائے۔
جی! آداب آداب آداب آداسواگت ہے محفل میں بھائی شکیب آج تشریف لائے۔
یا اس کا یہ مطلب بھی لیا جا سکتا ہے کہ قرآنی آیات کو بحور پر جانچا جا سکتا ہے؟شفیق الرحمٰن نے اپنے ایک انشائیے میں، کسی زمانے میں اخبارات یا رسالوں کے مدیران سے بذریعہ خط سوال و جواب کئے جاتے تھے اس کی پیروڈی لکھی ہے۔ کوئی صاحب یا صاحبہ ایڈیٹر کو خط لکھ کر مندرجہ ذی اشعار کا مطلب پوچھتے ہیں۔
لیا جس نے مجھ سے عداوت کا پنجہ
سنلقی علیھم عذاباً ثقیلا
نکل اس کی زلفوں کے کوچہ سے اے دل
تو پڑھنا، قم اللّیلَ الّا قلیلا
ایڈیٹر صاحب جواب دیتے ہیں کہ ان اشعار کا مطلب ہے کہ شاعر کو عربی بھی آتی ہے
(ایسے ہی، فعولن فعولن کی گردان دیکھ کر یاد آگیا)
کسی قرآنی آیت یا اس کے کسی جزو کا موزوں ہونا محض اتفاق ہوتا ہے۔ قرآن میں اللہ پاک نے واضح فرما دیا ہے کہ یہ شعر نہیں ہے۔یا اس کا یہ مطلب بھی لیا جا سکتا ہے کہ قرآنی آیات کو بحور پر جانچا جا سکتا ہے؟
جانچا تو جا سکتا ہے، لیکن یہ اسے شاعری نہیں بناتا۔ شعر کی تعریف ہے کہ موزوں ہو اور قصداً (ارادہ کر کے) کہا گیا ہو۔ اسی وجہ سے اگر کسی ایسے شخص سے جو وزن نہیں جانتا، کوئی "جملہ" غلطی سے وزن میں بیٹھ جائے تو اسے شعر نہیں کہا جائے گا کیونکہ اس نے ارادہ نہیں کیا۔یا اس کا یہ مطلب بھی لیا جا سکتا ہے کہ قرآنی آیات کو بحور پر جانچا جا سکتا ہے؟