زیک

مسافر
پاکستان کا اکثر چکر لگتا رہتا ہے۔ ہر تین چار سال بعد۔ عام طور پر فیملی اور رشتہ داروں ہی سے ملاقات ہوتی ہے۔ کبھی چند دوستوں سے بھی۔ سیر سپاٹا ان ٹرپس پر اسلام آباد، ایبٹ آباد، مری اور گلیات تک کی محدود رہا۔

پچھلے سفر کے بعد سوچا کہ ایک مختلف ٹرپ پلان کیا جائے۔
 

زیک

مسافر
دو سال قبل پلاننگ شروع کی۔ لوگوں نے سمجھا کہ 2018 کا ارادہ ہے اور مشورہ دیا کہ ابھی تو بہت جلدی ہے۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ ہمارے سفر کے پلان سالوں پہلے سوچے جاتے ہیں اور زنبیل میں ہر وقت دو تین پلان تیار ہوتے ہیں۔

انٹرنیٹ کھنگالا۔ آؤٹ آف پرنٹ کتابیں خریدیں تاکہ ٹریکنگ پر معلومات مل سکیں:


اور کچھ فیصلے کئے؛
  • ہم اس ٹرپ پر دیسیوں کی طرح پورا محلہ یا برادری لے کر نہیں جائیں گے
  • ٹرپ کسی ٹور گروپ کے ساتھ نہیں ہو گا کہ بلکہ اپنے پلان پر خود بک کیا جائے گا
  • لمبی ٹریکنگ اور کیمپنگ نہیں کریں گے۔ اس بار مقامی حالات، گائیڈز اور ساز و سامان کے متعلق معلومات حاصل کریں گے تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ پاکستان ٹریکنگ کے قابل ہے یا نہیں۔
  • لہذا ٹرپ میں ڈرائیونگ اور ڈے ہائیکنگ زیادہ ہو گی۔
 

زیک

مسافر
چونکہ پہاڑوں کا سفر کرنا تھا اور بابوسر پاس سے گزرنے کا ارادہ تھا لہذا جون کا مہینہ ہی بہتر لگا۔ جون کے شروع میں عید کا رش اور رمضان کا کوئی ایک دن بھی پاکستان میں گزارنے سے بچنے کے لئے یہی طریقہ سوچا کہ جون کے وسط میں پاکستان جایا جائے۔ اس وقت تک بابوسر پاس کھلنے کا چانس بھی زیادہ تھا۔

اب ایک اور مسئلہ درپیش تھا۔ جون جولائی میں میرے، بیوی اور بیٹی کے دوسرے پلان کچھ ایسے تھے کہ سیر کے بارہ دن جمع فیملی وغیرہ سے ملاقات کے دن ہمارے اکٹھے نہیں بن رہے تھے۔ اس کا حل یہ نکالا کہ میں اور بیٹی پہلے جائیں گے۔ چند دن بعد بیوی بھی آ جائے گی۔ پھر اکٹھے سیر سپاٹا اور ہم واپس۔ بیوی کی چند دن بعد واپسی۔
 

زیک

مسافر
بالآخر ہمارے جانے کا دن آن پہنچا۔ بائیسکل رائڈ ایکروس جارجیا سے واپسی کو ایک ہفتہ ہی ہوا تھا۔ تھکن اتر چکی تھی۔ کام نمٹا لیا گیا تھا۔

15 جون کی شام بیگم نے ہمیں کمیوٹر ٹرین سٹیشن پر ڈراپ کیا۔ بیٹی اور میرے پاس ایک ایک کیری آن سائز کا سوٹ کیس تھا اور اپنا اپنا بیک پیک۔

ٹرین نے 45 منٹ میں ہمیں ائرپورٹ پہنچا دیا۔ یہ ڈومیسٹک ٹرمینل تھا۔ باہر نکلے اور انٹرنیشنل ٹرمینل کی بس میں روانہ ہوئے۔ دس پندرہ منٹ میں انٹرنیشنل ٹرمینل پہنچے۔

اٹلانٹا سے اسلام آباد جانا ہو تو بہترین فلائٹس قطر اور ٹرکش کی ہیں کہ صرف ایک جگہ رکنا ہوتا ہے۔ کسی اور سے جائیں تو دو سٹاپ اوور ہوں گے جو بہت لمبا سفر ہو جاتا ہے۔ ہم نے فلائٹ ٹائم اور قیمت کے حساب سے ٹرکش ائرلائنز کا ٹکٹ لیا تھا۔
 

زیک

مسافر
اٹلانٹا ائرپورٹ انٹرنیشنل ٹرمینل پر ٹرکش ائرلائنز کے کاؤنٹر پر چیک ان کیا۔ سوٹ کیس انہیں دیئے اور اپنی دونوں فلائٹس کے بورڈنگ پاس لی کر سیکورٹی کی طرف روانہ ہوئے۔ سیکورٹی سے گزرنا ایک آرٹ ہے جو اکثر سفر کرنے والے خوب جانتے ہیں۔ لہذا ہم تیزی سے دوسری طرف پہنچ گئے۔

چیک کیا کہ ہماری فلائٹ کا کونسا گیٹ ہے۔ ابھی وقت تھا لہذا کھانے پینے کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ بیٹی جہاز میں کم ہی کچھ کھاتی ہے لہذا اسے کھانا لے کر دیا۔ کھا ہی کر گیٹ پر گئے اور باقی وقت نیٹ سرفنگ میں گزارا۔

فلائٹ ساڑھے دس بجے رات کو تھی۔ اس سے شاید گھنٹہ پہلے بورڈنگ کا آغاز ہوا۔ جہاز بھرا ہوا تھا اور شاید ہی کوئی سیٹ خالی ہو۔

ساڑھے گیارہ گھنٹے کی فلائٹ میں کچھ وقت پوڈکاسٹس سنتے، کچھ کنڈل پر کتاب پڑھتے، کچھ ٹی وی دیکھتے اور باقی سوتے گزارا۔
 

زیک

مسافر
استنبول پہنچے تو یہ وہاں کا نیا ائرپورٹ تھا جو چند ماہ قبل ہی کھلا ہے۔ کافی بڑا ائرپورٹ ہے اور ابھی تعمیر جاری ہے۔ ایک چیز جس کی استنبول ائرپوعات پر کمی محسوس ہوئی وہ نقشے تھے۔ اتنے بڑے ائرپورٹ پر صرف سائن بورڈ کافی نہیں ہوتے بلکہ کھانے پینے وغیرہ کی آپشنز کے لئے جا بجا نقشے ہوں تو فیصلہ کرنا اور ڈھونڈنا آسان ہوتا ہے۔ خیر جب مکمل ہو جائے گا تو شاید صورتحال بہتر ہو۔

جہاز سے اترے تو ہم اے گیٹس پر تھے۔ چونکہ ائرپورٹ کی ایک ہی ٹرمینل بلڈنگ ہے اور ان کا دعوی ہے کہ یہ ٹرمینل بلڈنگ دنیا میں سب سے بڑی ہے لہذا فیصلہ کیا کہ کچھ دیر جب تک اگلی فلائٹ کو گیٹ اسائن نہیں ہوتا یہیں بیٹھتے ہیں۔

فون پر وائی فائی آن کیا اور گپ شپ لگانے لگا۔ ایک دوست جو استنبول ہی میں ہوتا ہے اس نے کال کی۔ وہ چاہتا تھا کہ ملاقات ہو جائے لیکن میری ساڑھے تین گھنٹے میں اگلی فلائٹ تھی۔ خیر اس سے اچھی گپ شپ رہی حالانکہ 35 سال بعد فون پر بات ہو رہی تھی۔

ائرپورٹ کے اس حصے میں کیفے وغیرہ ابھی نہیں کھلے تھے لہذا دکانوں اور ریستورانوں والی طرف چلے۔ کافی دیر چلتے رہے۔ پھر کچھ ونڈو شاپنگ کی اور کچھ کھایا پیا۔

اتنی دیر میں فلائٹ کا گیٹ اسائن ہو گیا تھا۔ اب گیٹ کو چلے۔ راستے میں یہ نظر آیا۔

 

زیک

مسافر
استنبول سے اسلام آباد کی فلائٹ پانچ چھ گھنٹے کی تھی۔ اس میں کچھ سونے کی کوشش کی تاکہ جیٹ لیگ کچھ کم ہو۔

رات کے ساڑھے تین بجے اسلام آباد لینڈ کیا۔ اسلام آباد کے نئے ائرپورٹ پر پہلی دفعہ آیا تھا۔ پہلا ہی فرق یہ رہا کہ بس کی بجائے جہاز سے سیدھا ٹرمینل میں۔

پاسپورٹ کنٹرول کی بھی کافی لائنیں تھیں۔ کچھ وقت نہیں لگا اور میں بیگیج کلیم پر اپنے سامان کا انتظار کر رہا تھا۔ نہ صرف نیا ائرپورٹ تنگ جگہ نہیں ہے بلکہ پراسس بھی بہتر ہے ورنہ پہلے ہر دو منٹ کے فاصلے پر کاغذات اور مہریں وغیرہ چیک ہوتی تھیں۔

بیگیج کلیم واحد سست حصہ تھا۔ سامان آنا تو جلدی شروع ہو گیا لیکن ہر چند بیگز کے بعد چند منٹ کچھ نہیں آتا تھا۔ خیر ہمارے بیگ آ گئے اور ہم ائرپورٹ سے باہر نکلے۔

فیملی شاید ہمیں دور سے دیکھ رہی تھی۔ فوراً ہم تک پہنچ گئے۔ مل ملا کر ہم پارکنگ کی طرف روانہ ہوئے۔

اسلام آباد جاتے ہوئے سورج طلوع ہوا

 

زیک

مسافر
17 جون:

اسلام آباد والدین کے گھر پہنچے۔ ناشتہ کر کے کچھ آرام کیا۔ پھر گپ شپ چلی۔ کچھ دوستوں کو میسج کئے۔

شام 6 بجے ایک دوست نے پک کیا۔ اس کے ساتھ مارگلہ ہلز کی چوکی تک گئے۔ وہاں سب دوست اکٹھے ہوئے اور اوپر پیر سوہاوہ روانہ ہوئے۔ راستے میں ایک سائیکلسٹ کو چڑھائی چڑھتے دیکھا۔

مونال ریستوران پہنچے۔ دوستوں سے ملا اور تعارف ہوا کہ ان سب سے آخری بار آٹھویں جماعت میں 35 سال قبل ملاقات ہوئی تھی۔ میں نے فوراً اقبال جرم کر لیا کہ آدھے لوگ تو مجھے یاد بھی نہیں ہیں۔

مونال پر موسم ٹھیک تھا۔ بفے سے خوب کھایا۔ سلاد سے پرہیز کیا کہ پانی اور نہ پکی ہوئی چیزیں ہی مسئلہ کرتی ہیں۔

کھانے کے ساتھ ساتھ خوب گپ شپ رہی۔ اسی زمانے کا ایک دوست جو امریکہ ہوتا ہے اور اس سے کچھ عرصہ پہلے ملاقات ہوئی تھی اس نے ویڈیو کال کر کے ہم سے باتیں کیں۔ ایک دوست جو چند ماہ پہلے فوت ہوا اس کا ذکر چلا اور دعا کی۔

وقت کا پتا ہی نہیں چلا۔ واٹس ایپ اور فیسبک کی وجہ سے تیرہ سال کی عمر میں بچھڑے دوستوں سے دو تین سال پہلے رابطہ ہوا اور اب ملاقات بھی ہو گئی۔ جب آخری بار ملے تھے کسی کی داڑھی مونچھ نہیں آئی تھی اب اکثر کی سفید تھی۔

یہ رہا مونال سے اسلام آباد کا منظر

 

فلسفی

محفلین
زکریا بھائی بہت اچھا لکھا ہے۔ امید ہے آپ کا یہ سفرنامہ پورا پڑھ سکوں گا۔ اگلی قسط کے لیے انتظار کا اپنا ہی مزہ ہے۔

محمد تابش صدیقی بھائی اگر زیک کو اعتراض نہ ہو تو تبصروں کے لیے حسب روایت علیحدہ لڑی بنا دینی چاہیے۔
 

فہد اشرف

محفلین
زکریا بھائی بہت اچھا لکھا ہے۔ امید ہے آپ کا یہ سفرنامہ پورا پڑھ سکوں گا۔ اگلی قسط کے لیے انتظار کا اپنا ہی مزہ ہے۔

محمد تابش صدیقی بھائی اگر زیک کو اعتراض نہ ہو تو تبصروں کے لیے حسب روایت علیحدہ لڑی بنا دینی چاہیے۔
یہ زیک کے گذشتہ سفرناموں کی روایت سے انحراف ہوگا۔
 
آخری تدوین:
Top