حسن نظامی
لائبریرین
(میرے مطابق) لاہور کی فضائیں ان دنوں 23 دسمبر ، نظام بدلو، سیاست نہیں ریاست بچاؤ، کی مختلف آوازوں سے گونج رہی ہیں۔ڈاکٹر طاہرالقادری کچھ سالوں بعد ملک واپس آرہے ہیں اورایک ایسے نعرے کے ساتھ آرہے ہیں جو رنگ برنگی نعروں میں اپنی جگہ الگ حیثیت رکھتا ہے۔ اس تناظر میں اہل محفل کے لیے ڈاکٹر شاہد مسعود کا کالم درج کر رہا ہوں۔
آپ تمام احباب کھل کر تبصرہ کر سکتے ہیں۔
تبدیلی
میرے مطابق از ڈاکٹر شاہد مسعود ہر سمت تبدیلی کے نعروں سے وطن عزیز کے کروڑھا بدقسمت اور دن بہ دن مسائل کی دلدل میں غرق ہوتے عوام کو ایک بار پھر پرکشش خوابوں سے مسحور کرتے سیاسی قائدین کے درمیان اگلے چند دنوں میں تبدیلی کا ایک اور نعرہ بلند ہونے والا ہے کہ برس ہا برس کے بعد ڈاکٹر طاہرالقادری وطن واپس تشریف لا رہے ہیں۔
اس ملک کا کارپوریٹ میڈیا ان سے روایتی انٹرویوز تو کر رہا ہے لیکن ۔۔ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اور لاہور پہنچنے کے بعد غالبا کہنے جا رہے ہیں اسے بہت سے لوگ شاید اب تک سمجھ نہیں پائے لیکن توجہ فرمائیے !!!
موجودہ ماحول میں جہاں روایتی پارلیمانی نظام کے تحت اگلے انتخابات کے ذریعے تبدیلی کی بات ہو رہی ہے، ڈاکٹر طاہرالقادری اس تمام نظام کے ہی پرامن انداز میں انہدام کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
اور ان کا کہنا ہے کہ
جانوروں کی منڈی میں اربوں کھربوں روپیہ لوٹ کر بار بار جمہوریت کے نام پر جرائم پیشہ افراد کو ایوانوں میں لا کر اس قوم کی قسمت کے فیصلے ان کے حوالے کر دینا۔ اب ریاست اس گھناونے مذاق کی متحمل نہیں ہو سکتی اور بدلتے موسموں کے ساتھ ایک سے دوسری اور دوسری سے آٹھویں یا بارھویں جماعت میں چھلانگیں لگاتے مفاد پرست عناصر کے مکمل خاتمے کے بغیر وطن عزیز ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکتا اور پیچھے تو پہلے ہی ہم دیوار سے لگے بیٹھے ہیں۔
اس سے قطع نظر کہ آپ ڈاکٹر طاہرالقادری کی شخصیت سے متاثر ہیں یا انہیں ناپسند کرتے ہیں۔ ان کی تنظیم سے وابستگی رکھتے ہیں یا حد درجہ نفرت !!!
ڈاکٹر طاہرالقادری کا یہ پیغام موجودہ حالات میں انتہائی توجہ طلب ہے کہ یہ اگلی پارلیمنٹ میں مویشیوں کی خرید و فروخت سے اقتدار حاصل کرنے کے بجائے اس منڈی کے خاتمے کی بات کر رہا ہے۔ اور وہ بھی ایک پرامن اور جمہوری انداز میں۔
میں ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کی تنظیم سے کبھی وابستہ نہیں رہا تاہم یہ بات میں بخوبی جانتا ہوں کہ تمام دنیا میں ان کا ایک انتہائی مضبوط اور منظم نیٹ ورک موجود ہے۔
اور ان کے چند روز بعد منعقد ہوتے اجتماع میں حاضرین کی تعداد پر بھی میں تبصرہ نہیں کرنا چاہتا کہ جب ان کی غیر موجودگی میں لاکھوں افراد انہیں ٹیلی فون یا ویڈیو لنک پر سننے کو جمع ہو جاتے ہیں تو برسوں بعد انہیں اپنے درمیان دیکھنے کتنے افراد آئیں گے ۔
لیکن ان کا یہ کہنا اہم کہ وہ اس اجتماع کو اپنی سیاسی یا مذہبی جماعت کے بینرز اور جھنڈوں تلے نہیں بلکہ صرف پاکستان کے لیے منعقد کر رہے ہیں، مزید دلچسپ ہے۔
فی الحال ڈاکٹر صاحب نے ترپ کا یہ پتا چھپا کر اپنے اجتماع کے لیے رکھا ہے کہ وہ ایک پرامن اجتماع جسے وہ پرامن اجتماع کا نام دے کر موجودہ بوسیدہ ارلیمانی نظام کے مد مقابل ایک جمہوری نظام پیش کرنے جا رہے ہیں کیا ہوگا؟
لیکن چوں کہ وہ ایک متبادل جمہوری نظام کا تذکرہ کر رہے ہیں اس لیے میں ایک اندازہ (جو مکمل طور پر غلط بھی ہو سکتا ہے) لگانے پرمجبور ہوں کہ وہ کچھ ایسا منشور پیش کریں گے جو کہ مغربی پارلیمانی نظام کے متوازی ایک صدارتی قسم کے طرز حکمرانی کے قریب تر ہو گا کیوں کہ وہ پارلیمانی نظام کے خاتمے کے ساتھ ساتھ عام متوسط افراد کو نمائندگی دینے کی بات بھی کر رہے ہیں تو غالبا ایک منتخب ایوان یا شوری بھی جو کہ اسلام کے طرز ریاست کے قریب تر ہے۔
یہ نرم انقلاب کی اصطلاح میں کئی برس پہلے محترم جنرل حمید گل سے سنتا رہا ہوں اور مجھے خوشی ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری سمیت دیگر کئی اہل فکر و نظر اب اس ریاست کے مستقبل کے لیے جس تبدیلی کا سوچ رہے ہیں وہ روایتی انتخابی تماشوں سے ہٹ کر بھی ہے اور گزرے چند برسوں اور خصوصا جو کچھ پچھلے چند ماہ کے دوران انتخابی دنگل کا سن کر قوم دیکھ رہی ہے تبدیلی، تبدیلی، کا شور تو ہر طرف ہے مگر ساتھ ہی ہر طرف یہ احتجاج بھی ہو رہا ہے کہ کیا گدھوں کی طرح اس قوم کو نوچنے والے ہی سیاسی وفاداریاں بدل بدل کر اپنے قائدین کو بلیک میل کر کے تبدیلیاں لائیں گے؟ وہ جو برسہا برس کبھی پیپلز پارٹی، کبھی مسلم لیگ، کبھی کسی مذہبی جماعت اور کبھی تحریک انصاف یا پھر آمریت کے آتے ہی پکے پھل کی طرح اس کی گود میں جا گرتے ہیں وہ خود تبدیل نہ ہو سکے، ملک و قوم کو کیا تبدیل کریں گے۔
جنرل مشرف کی چھتری تلے ہوتے 2002 کے انتخابات میں نہ محترمہ بے نظیر بھٹؤ شہید نے حصہ لیا تھا اور نہ میاں محمد نواز شریف نے دونوں اہم قائدین جلا وطن تھے تاہم ان جماعتوں نے بادل نخواستہ شرکت کی تھی۔
لیکن دو شخصیات ایسی تھیں جو منتخب ہوئیں لیکن دونوں نے کچھ عرصے بعد اس اعلان کے ساتھ پارلیمنٹ سے استعفی دے دیا کہ وہ اس کٹھ پتلی تماش گاہ میں بیٹھ کر اپنا وقت اور قوم کا سرمایہ برباد نہیں کرنا چاہتے ۔ ایک شخصیت تھی ڈاکٹر طاہرالقادری کی اور دوسری عمران خان کی اور دونوں کی یہ خوبی ہے کہ دونوں کے وضاحتیں پیش کرنے کی بجائے سادے انداز میں اپنی غلطی تسلیم کر لی کہ
ہمجہاں بیٹھ کر کوئی مثبت کردار ادا کرنے سے قصر ہیں وہاں اک لمحہ ضائع کرنا قوم کے ساتھ خیانت ہے۔
گزرے کئی مہینوں سے مختلف سیاسی جماعتوں اور خصوصا تحریک انصاف کے گزرے برس اکتوبر کے جلسے کے بعد مسلم لیگ نواز سونامی کے نعروں سے کچھ اس طرح گھبرائی کہ مجھے اک لمحہ کو یوں لگا جیسے عمران خان تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ نواز کا بھی قائد ہے۔
کیوں کہ جو اعلان یا اقدام عمران خان اٹھاتا کچھ دن بعد وہی مسلم لیگ نواز کچھ مختلف انداز میں کرتی نظر آتی، خصوصا جب عمران خان نے نوجوانوں کی طرف ہاتھ بڑھایا اور ان کو آگے بڑھا کر تبدیلی کا اعلان کیا تو مسلم لیگ نواز نے بھی تقلید کی اور پھر دونوں طرف سے ایک ایسا مقابلہ شروع ہوا جس نے نہ صرف شائستگی بلکہ بڑی حد تک دونوں طرف کے نظریاتی دعوؤں کو بھی ملیا میٹ کر دیا۔ سب سے پہلے اس تمام تماشے سے عمران بیزار نظر آئے کیوں کہ مد مقابل سیاسی قوتوں نے یہ طعنے شروع کر دیئے کہ تحریک انصاف جو کچھ بھی کرے۔ وڈیرے، جلے ہوئے کارتوس اور ماضی میں بار با رآزمائے جنہیں winables یا Electablesکہا جاتا ہے اور جو کہ کروڑھا روپیہ خرچ کر کے یا ذات برادری، پیری ، مریدی کی بنیاد پر اپنی انتخابی نشست جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ تو تحریک انصاف میں موجود ہی نہیں تو پھر عمران تبدیلی کیسے لائے گا۔