23 دسمبر، مینار پاکستان ،سیاست نہیں ریاست بچاؤ اور علامہ طاہرالقادری

حسن نظامی

لائبریرین
(میرے مطابق) لاہور کی فضائیں ان دنوں 23 دسمبر ، نظام بدلو، سیاست نہیں ریاست بچاؤ، کی مختلف آوازوں سے گونج رہی ہیں۔ڈاکٹر طاہرالقادری کچھ سالوں بعد ملک واپس آرہے ہیں اورایک ایسے نعرے کے ساتھ آرہے ہیں جو رنگ برنگی نعروں میں اپنی جگہ الگ حیثیت رکھتا ہے۔ اس تناظر میں اہل محفل کے لیے ڈاکٹر شاہد مسعود کا کالم درج کر رہا ہوں۔​
آپ تمام احباب کھل کر تبصرہ کر سکتے ہیں۔​
تبدیلی
میرے مطابق از ڈاکٹر شاہد مسعود

ہر سمت تبدیلی کے نعروں سے وطن عزیز کے کروڑھا بدقسمت اور دن بہ دن مسائل کی دلدل میں غرق ہوتے عوام کو ایک بار پھر پرکشش خوابوں سے مسحور کرتے سیاسی قائدین کے درمیان اگلے چند دنوں میں تبدیلی کا ایک اور نعرہ بلند ہونے والا ہے کہ برس ہا برس کے بعد ڈاکٹر طاہرالقادری وطن واپس تشریف لا رہے ہیں۔
اس ملک کا کارپوریٹ میڈیا ان سے روایتی انٹرویوز تو کر رہا ہے لیکن ۔۔ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اور لاہور پہنچنے کے بعد غالبا کہنے جا رہے ہیں اسے بہت سے لوگ شاید اب تک سمجھ نہیں پائے لیکن توجہ فرمائیے !!!
موجودہ ماحول میں جہاں روایتی پارلیمانی نظام کے تحت اگلے انتخابات کے ذریعے تبدیلی کی بات ہو رہی ہے، ڈاکٹر طاہرالقادری اس تمام نظام کے ہی پرامن انداز میں انہدام کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
اور ان کا کہنا ہے کہ
جانوروں کی منڈی میں اربوں کھربوں روپیہ لوٹ کر بار بار جمہوریت کے نام پر جرائم پیشہ افراد کو ایوانوں میں لا کر اس قوم کی قسمت کے فیصلے ان کے حوالے کر دینا۔ اب ریاست اس گھناونے مذاق کی متحمل نہیں ہو سکتی اور بدلتے موسموں کے ساتھ ایک سے دوسری اور دوسری سے آٹھویں یا بارھویں جماعت میں چھلانگیں لگاتے مفاد پرست عناصر کے مکمل خاتمے کے بغیر وطن عزیز ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکتا اور پیچھے تو پہلے ہی ہم دیوار سے لگے بیٹھے ہیں۔

اس سے قطع نظر کہ آپ ڈاکٹر طاہرالقادری کی شخصیت سے متاثر ہیں یا انہیں ناپسند کرتے ہیں۔ ان کی تنظیم سے وابستگی رکھتے ہیں یا حد درجہ نفرت !!!
ڈاکٹر طاہرالقادری کا یہ پیغام موجودہ حالات میں انتہائی توجہ طلب ہے کہ یہ اگلی پارلیمنٹ میں مویشیوں کی خرید و فروخت سے اقتدار حاصل کرنے کے بجائے اس منڈی کے خاتمے کی بات کر رہا ہے۔ اور وہ بھی ایک پرامن اور جمہوری انداز میں۔
میں ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کی تنظیم سے کبھی وابستہ نہیں رہا تاہم یہ بات میں بخوبی جانتا ہوں کہ تمام دنیا میں ان کا ایک انتہائی مضبوط اور منظم نیٹ ورک موجود ہے۔
اور ان کے چند روز بعد منعقد ہوتے اجتماع میں حاضرین کی تعداد پر بھی میں تبصرہ نہیں کرنا چاہتا کہ جب ان کی غیر موجودگی میں لاکھوں افراد انہیں ٹیلی فون یا ویڈیو لنک پر سننے کو جمع ہو جاتے ہیں تو برسوں بعد انہیں اپنے درمیان دیکھنے کتنے افراد آئیں گے ۔

لیکن ان کا یہ کہنا اہم کہ وہ اس اجتماع کو اپنی سیاسی یا مذہبی جماعت کے بینرز اور جھنڈوں تلے نہیں بلکہ صرف پاکستان کے لیے منعقد کر رہے ہیں، مزید دلچسپ ہے۔
فی الحال ڈاکٹر صاحب نے ترپ کا یہ پتا چھپا کر اپنے اجتماع کے لیے رکھا ہے کہ وہ ایک پرامن اجتماع جسے وہ پرامن اجتماع کا نام دے کر موجودہ بوسیدہ ارلیمانی نظام کے مد مقابل ایک جمہوری نظام پیش کرنے جا رہے ہیں کیا ہوگا؟
لیکن چوں کہ وہ ایک متبادل جمہوری نظام کا تذکرہ کر رہے ہیں اس لیے میں ایک اندازہ (جو مکمل طور پر غلط بھی ہو سکتا ہے) لگانے پرمجبور ہوں کہ وہ کچھ ایسا منشور پیش کریں گے جو کہ مغربی پارلیمانی نظام کے متوازی ایک صدارتی قسم کے طرز حکمرانی کے قریب تر ہو گا کیوں کہ وہ پارلیمانی نظام کے خاتمے کے ساتھ ساتھ عام متوسط افراد کو نمائندگی دینے کی بات بھی کر رہے ہیں تو غالبا ایک منتخب ایوان یا شوری بھی جو کہ اسلام کے طرز ریاست کے قریب تر ہے۔
یہ نرم انقلاب کی اصطلاح میں کئی برس پہلے محترم جنرل حمید گل سے سنتا رہا ہوں اور مجھے خوشی ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری سمیت دیگر کئی اہل فکر و نظر اب اس ریاست کے مستقبل کے لیے جس تبدیلی کا سوچ رہے ہیں وہ روایتی انتخابی تماشوں سے ہٹ کر بھی ہے اور گزرے چند برسوں اور خصوصا جو کچھ پچھلے چند ماہ کے دوران انتخابی دنگل کا سن کر قوم دیکھ رہی ہے تبدیلی، تبدیلی، کا شور تو ہر طرف ہے مگر ساتھ ہی ہر طرف یہ احتجاج بھی ہو رہا ہے کہ کیا گدھوں کی طرح اس قوم کو نوچنے والے ہی سیاسی وفاداریاں بدل بدل کر اپنے قائدین کو بلیک میل کر کے تبدیلیاں لائیں گے؟ وہ جو برسہا برس کبھی پیپلز پارٹی، کبھی مسلم لیگ، کبھی کسی مذہبی جماعت اور کبھی تحریک انصاف یا پھر آمریت کے آتے ہی پکے پھل کی طرح اس کی گود میں جا گرتے ہیں وہ خود تبدیل نہ ہو سکے، ملک و قوم کو کیا تبدیل کریں گے۔
جنرل مشرف کی چھتری تلے ہوتے 2002 کے انتخابات میں نہ محترمہ بے نظیر بھٹؤ شہید نے حصہ لیا تھا اور نہ میاں محمد نواز شریف نے دونوں اہم قائدین جلا وطن تھے تاہم ان جماعتوں نے بادل نخواستہ شرکت کی تھی۔
لیکن دو شخصیات ایسی تھیں جو منتخب ہوئیں لیکن دونوں نے کچھ عرصے بعد اس اعلان کے ساتھ پارلیمنٹ سے استعفی دے دیا کہ وہ اس کٹھ پتلی تماش گاہ میں بیٹھ کر اپنا وقت اور قوم کا سرمایہ برباد نہیں کرنا چاہتے ۔ ایک شخصیت تھی ڈاکٹر طاہرالقادری کی اور دوسری عمران خان کی اور دونوں کی یہ خوبی ہے کہ دونوں کے وضاحتیں پیش کرنے کی بجائے سادے انداز میں اپنی غلطی تسلیم کر لی کہ
ہمجہاں بیٹھ کر کوئی مثبت کردار ادا کرنے سے قصر ہیں وہاں اک لمحہ ضائع کرنا قوم کے ساتھ خیانت ہے۔
گزرے کئی مہینوں سے مختلف سیاسی جماعتوں اور خصوصا تحریک انصاف کے گزرے برس اکتوبر کے جلسے کے بعد مسلم لیگ نواز سونامی کے نعروں سے کچھ اس طرح گھبرائی کہ مجھے اک لمحہ کو یوں لگا جیسے عمران خان تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ نواز کا بھی قائد ہے۔
کیوں کہ جو اعلان یا اقدام عمران خان اٹھاتا کچھ دن بعد وہی مسلم لیگ نواز کچھ مختلف انداز میں کرتی نظر آتی، خصوصا جب عمران خان نے نوجوانوں کی طرف ہاتھ بڑھایا اور ان کو آگے بڑھا کر تبدیلی کا اعلان کیا تو مسلم لیگ نواز نے بھی تقلید کی اور پھر دونوں طرف سے ایک ایسا مقابلہ شروع ہوا جس نے نہ صرف شائستگی بلکہ بڑی حد تک دونوں طرف کے نظریاتی دعوؤں کو بھی ملیا میٹ کر دیا۔ سب سے پہلے اس تمام تماشے سے عمران بیزار نظر آئے کیوں کہ مد مقابل سیاسی قوتوں نے یہ طعنے شروع کر دیئے کہ تحریک انصاف جو کچھ بھی کرے۔ وڈیرے، جلے ہوئے کارتوس اور ماضی میں بار با رآزمائے جنہیں winables یا Electablesکہا جاتا ہے اور جو کہ کروڑھا روپیہ خرچ کر کے یا ذات برادری، پیری ، مریدی کی بنیاد پر اپنی انتخابی نشست جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ تو تحریک انصاف میں موجود ہی نہیں تو پھر عمران تبدیلی کیسے لائے گا۔
 

نایاب

لائبریرین
آثار تو کچھ ایسے ہیں جیسے عمران خان اور پروفیسر صاحب کا اتحاد ہوجائے گا ۔
اور کسی حد تک یہی دو ہستیاں موجودہ وقت میں پاکستان میں پھیلی تاریکی میں امید کے چراغ کی مثال ہیں ۔
 

arifkarim

معطل
اس سے قطع نظر کہ آپ ڈاکٹر طاہرالقادری کی شخصیت سے متاثر ہیں یا انہیں ناپسند کرتے ہیں۔ ان کی تنظیم سے وابستگی رکھتے ہیں یا حد درجہ نفرت !!!
ڈاکٹر طاہرالقادری کا یہ پیغام موجودہ حالات میں انتہائی توجہ طلب ہے کہ یہ اگلی پارلیمنٹ میں مویشیوں کی خرید و فروخت سے اقتدار حاصل کرنے کے بجائے اس منڈی کے خاتمے کی بات کر رہا ہے۔ اور وہ بھی ایک پرامن اور جمہوری انداز میں۔
میں ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کی تنظیم سے کبھی وابستہ نہیں رہا تاہم یہ بات میں بخوبی جانتا ہوں کہ تمام دنیا میں ان کا ایک انتہائی مضبوط اور منظم نیٹ ورک موجود ہے۔
اور ان کے چند روز بعد منعقد ہوتے اجتماع میں حاضرین کی تعداد پر بھی میں تبصرہ نہیں کرنا چاہتا کہ جب ان کی غیر موجودگی میں لاکھوں افراد انہیں ٹیلی فون یا ویڈیو لنک پر سننے کو جمع ہو جاتے ہیں تو برسوں بعد انہیں اپنے درمیان دیکھنے کتنے افراد آئیں گے ۔
لیکن ان کا یہ کہنا اہم کہ وہ اس اجتماع کو اپنی سیاسی یا مذہبی جماعت کے بینرز اور جھنڈوں تلے نہیں بلکہ صرف پاکستان کے لیے منعقد کر رہے ہیں، مزید دلچسپ ہے۔
فی الحال ڈاکٹر صاحب نے ترپ کا یہ پتا چھپا کر اپنے اجتماع کے لیے رکھا ہے کہ وہ ایک پرامن اجتماع جسے وہ پرامن اجتماع کا نام دے کر موجودہ بوسیدہ ارلیمانی نظام کے مد مقابل ایک جمہوری نظام پیش کرنے جا رہے ہیں کیا ہوگا؟
لیکن چوں کہ وہ ایک متبادل جمہوری نظام کا تذکرہ کر رہے ہیں اس لیے میں ایک اندازہ (جو مکمل طور پر غلط بھی ہو سکتا ہے) لگانے پرمجبور ہوں کہ وہ کچھ ایسا منشور پیش کریں گے جو کہ مغربی پارلیمانی نظام کے متوازی ایک صدارتی قسم کے طرز حکمرانی کے قریب تر ہو گا کیوں کہ وہ پارلیمانی نظام کے خاتمے کے ساتھ ساتھ عام متوسط افراد کو نمائندگی دینے کی بات بھی کر رہے ہیں تو غالبا ایک منتخب ایوان یا شوری بھی جو کہ اسلام کے طرز ریاست کے قریب تر ہے۔
دین اور ریاست دو الگ چیزیں ہیں۔ عالم دین کو ریاستی عمور میں عمل دخل کرنے کی اجازت نہیں۔ ہاں وہ اپنی قابل رائے سے قوانین ریاست میں مدد تو دے سکتا ہے لیکن اپنی مرضی کا جمہوری نظام جوکہ رائج پارلیمانی نظام کے منافی ہو کو عوام پر تھوپ نہیں سکتا۔ اسوقت بہت کم مسلمان اکثریت ممالک ہیں جہاں 100 فیصد مغربی طرز کا پارلیمانی یا صدارتی نظام کافی عرصہ سے قائم ہے، اور ان میں سر فہرست ترکی، اذربائجان ، کوسووو اور البانیہ ہے:
http://en.wikipedia.org/wiki/Islam_and_secularism#Europe

ترکی اور اذربائیجان ایک کامیاب مغربی طرز کی جمہوریت ہے جہاں سنی اور شیعہ مسلمانوں کی اکثریت ہے۔


گزرے کئی مہینوں سے مختلف سیاسی جماعتوں اور خصوصا تحریک انصاف کے گزرے برس اکتوبر کے جلسے کے بعد مسلم لیگ نواز سونامی کے نعروں سے کچھ اس طرح گھبرائی کہ مجھے اک لمحہ کو یوں لگا جیسے عمران خان تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ نواز کا بھی قائد ہے۔
کیوں کہ جو اعلان یا اقدام عمران خان اٹھاتا کچھ دن بعد وہی مسلم لیگ نواز کچھ مختلف انداز میں کرتی نظر آتی، خصوصا جب عمران خان نے نوجوانوں کی طرف ہاتھ بڑھایا اور ان کو آگے بڑھا کر تبدیلی کا اعلان کیا تو مسلم لیگ نواز نے بھی تقلید کی اور پھر دونوں طرف سے ایک ایسا مقابلہ شروع ہوا جس نے نہ صرف شائستگی بلکہ بڑی حد تک دونوں طرف کے نظریاتی دعوؤں کو بھی ملیا میٹ کر دیا۔ سب سے پہلے اس تمام تماشے سے عمران بیزار نظر آئے کیوں کہ مد مقابل سیاسی قوتوں نے یہ طعنے شروع کر دیئے کہ تحریک انصاف جو کچھ بھی کرے۔ وڈیرے، جلے ہوئے کارتوس اور ماضی میں بار با رآزمائے جنہیں winables یا Electablesکہا جاتا ہے اور جو کہ کروڑھا روپیہ خرچ کر کے یا ذات برادری، پیری ، مریدی کی بنیاد پر اپنی انتخابی نشست جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ تو تحریک انصاف میں موجود ہی نہیں تو پھر عمران تبدیلی کیسے لائے گا۔
اگر مسلم لیگ نواز تحرک انصاف کو کاپی کر رہی ہے تو ا س سے تحریک انصاف کی اہمیت کیوں کم ہو گئی؟ اس سے تو یہی ثابت ہوتا کہ شریف برادران کو عمران خان کی سیاست سے خوف لاحق ہے۔ اور جہاں تک تحریک انصاف میں ٹکٹوں کی بات ہے تو وہ جو انکی پارٹی الیکشن میں جیتے گا اسی کو ملے گی۔ تحریک انصاف ذات برادری، پیری ، مریدی کی بنیاد پر انتخابی نشستوں کیلئے ٹکٹیں نہیں دیتی!
 

arifkarim

معطل
آثار تو کچھ ایسے ہیں جیسے عمران خان اور پروفیسر صاحب کا اتحاد ہوجائے گا ۔
اور کسی حد تک یہی دو ہستیاں موجودہ وقت میں پاکستان میں پھیلی تاریکی میں امید کے چراغ کی مثال ہیں ۔
تحریک انصاف کی پالیسیاں باقی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں سے مختلف ہیں۔ میرا نہیں خیال عمران خان جیسی شخصیت کسی کیساتھ محض اقتدار میں آنے کیلئے اتحاد کرے گی۔
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
لسانی، جغرافیائی اور مذہبی حوالے سے تقسیم در تقسیم معاشرے میں کوئی ایک فرد انقلاب تو دور کی بات، بڑی تبدیلی بھی نہیں لا سکتا ۔۔۔ سیاست نہیں، ریاست بچاؤ کا نعرہ خوش نما تو ہے لیکن کیا یہ وقت اس نعرہء مستانہ کے لیے سازگار بھی ہے؟ ہمارا خیال ہے کہ کسی ایک فرد کو تمام تر امیدوں کا مرکز مان لینا ہرگز مناسب نہیں ہو گا ۔۔۔
 
شہزاد احمد بھائی!
علامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے لیے ہمارے دل میں بہت احترام ہے لیکن انہوں نے پاکستان آنے کے لیے جس وقت کا انتخاب کیا ہے، وہ مناسب معلوم نہیں ہو رہا ہے ۔۔۔ انتخابات سے قبل آپ کا پاکستان میں تشریف لانا اور عوام کو اس وقت سیاست سے دور رہنے کا مشورہ دینا، جب کہ وہ موجودہ حکومت سے نجات کے لیے انتخابات کو ایک بڑا ذریعہ سمجھ رہے ہوں، کم از کم ہماری سمجھ سے بالاتر معاملہ ہے ۔۔۔ اللہ کرے اُن کا پاکستان واپس تشریف لانا اہلیانِ وطن کے لیے مبارک ثابت ہو ۔ اُن کے عقائد و نظریات سے اختلاف اپنی جگہ لیکن ایک عالم کی حیثیت سے وہ ہمارے لیے ، بہرحال، قابلِ احترام شخصیت ہیں ۔۔۔
اس تھریڈ کا مطالعہ کریں امید ہے آپ کو جواب مل جائے گا۔
 
دین اور ریاست دو الگ چیزیں ہیں۔ عالم دین کو ریاستی عمور میں عمل دخل کرنے کی اجازت نہیں۔
عارف بھائی!
1۔دین
2۔ریاست
3۔دین و ریاست دو الگ چیزیں!

4۔عالم دین
5۔ریاستی امور
6۔عالم دین کی ریاستی امور میں دخل اندازی!

بہت کچھ وضاحت طلب ہے!
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
شعبان نظامی صاحب! معلوم نہیں آپ کس تھریڈ کے مطالعے کی دعوت دے رہے ہیں ۔۔۔ عرض یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے "سیاست نہیں، ریاست بچاؤ" کے نعرے کے ہم بھی دل و جان سے قائل ہیں لیکن معاملہ فقط اتنا ہے کہ جب عام انتخابات سر پر آ گئے ہیں تو اس وقت ہی یہ نعرہ کس لیے بلند کیا جا رہا ہے؟ ہمیں خدشہ ہے کہ اگر عام انتخابات وقت پر نہ ہوئے تو معاملات مزید بگڑ سکتے ہیں ۔۔۔ پارلیمانی جمہوریت کے متبادل کون سا ایسا نظام ہے جس کے رائج ہونے سے ملک میں یکا یک بہت بڑی تبدیلی آ جائے گی ۔۔۔ صدارتی نظام کے تو دُور دُور تک کوئی آثار نظر نہیں آتے ۔۔۔ مارشل لاء کا فی زمانہ چلن نہیں ہے ۔۔۔ تو پھر ریاست کو بچانے کے لیے ، خدا جانے، کون سا لائحہء عمل اختیار کیا جائے گا؟
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
زیادہ سے زیادہ یہ ہو جائے گا کہ ڈاکٹر صاحب لاہور میں ایک بہت بڑا جلسہ کر لیں گے ۔۔۔ لیکن چونکہ وہ سیاست کے میدان میں اُترنے نہیں جا رہے اس لیے اس عظیم الشان اکٹھ سے آخر کیا حاصل ہو گا؟ گمان غالب ہے کہ 23 دسمبر کا جلسہ لاہور کی تاریخ کا ایک بڑا جلسہ ہو گا لیکن "ریاست بچانے" کے لیے جمع ہونے والے یہ افراد "سیاست" کے میدان میں کودے بغیر ریاست کو کیسے بچائیں گے؟
 

arifkarim

معطل
عارف بھائی!
1۔دین
2۔ریاست
3۔دین و ریاست دو الگ چیزیں!

4۔عالم دین
5۔ریاستی امور
6۔عالم دین کی ریاستی امور میں دخل اندازی!

بہت کچھ وضاحت طلب ہے!
کس قسم کی وضاحت درکار ہے؟ سیکولرازم کا مطلب ہے کہ سیاستی امور عوامی ہونے چاہئے نہ کہ مذہبی۔ مطلب بے شک کسی ملک میں عیسائی، مسلمان یا یہود کی اکثریت ہو، وہاں کا دستور و آئین جمہوری اور سیکولر ہونا چاہئے۔ جیسے ہمسایہ ملک بھارت میں ہندوؤں کی اکثریت ہے لیکن اسکے آئین میں بھارت کا مذہب ہندومت نہیں ہے کیونکہ بھارتی آئین یا دستور مذہب کے نام پر ملکی سیاست یا قوانین میں عمل دخلی کی اجازت نہیں دیتا، جیسا کہ پیشتر اسلامی ممالک بشمول پاکستان میں ایک عرصہ دراز سے ہوتا آرہا ہے:
India is a secular country as per the declaration in the Preamble to the Indian Constitution. It prohibits discrimination against members of a particular religion, race, caste, sex or place of birth. The Indian notion for the term secularism is different from the French nation for the term.[1]
The word secular was inserted into the preamble by the Forty-second Amendment.(1976)[2] It implies equality of all religions and religious tolerance & respect. India, therefore does not have an official state religion. Every person has the right to preach, practice and propagate any religion they choose. The government must not favour or discriminate against any religion. It must treat all religions with equal respect. All citizens, irrespective of their religious beliefs are equal in front of law. No religious instruction is imparted in government or government-aided schools.​
یاد رہے کہ ہمارا وطن عزیز ہمیشہ سے اسلامی نہیں تھا۔ قائد اعظم کی پہلی کابینہ میں عیسائی، ہندو، قادیانی، مسلمان، سکھ وغیرہ سب شامل تھے۔ وہ تو اللہ بخشے بعد میں آنے والے مولویوں کو جنہوں نے پاکستان کو ایک سیکولر ملک سے کافر فیکٹری بنا دیا!​
جیسے قائد اعظم کے ہوتے ہوئے پاکستان کوئی اسلامی مملکت نہیں تھا۔ یہ کارنامہ لیاقت علی خان نے 1951 میں سر انجام دیا جسکے بعد ہمارا پہلا وزیر قانون جو کہ ہندو تھا ملک چھوڑ کر بھاگ گیا:​
However, Mandal grew increasingly disillusioned with Pakistan following theIndo-Pakistani War of 1947 and a communal crisis in East Pakistan, where his origins lay, and where close to 4 million Hindus were forced to flee into India within the space of a few years. When Prime Minister Liaquat Ali Khanpublicly supported a proposal to make Islam the official state religion, Mandal denounced it as a rejection of Jinnah's secular vision for Pakistan. Mandal continued to attack the proposed Objectives Resolution, which outlined an Islamic state as completely disregarding the rights of religious and ethnic minorities. He grew increasingly isolated, and came increasingly under verbal and physical attack; fleeing to Kolkata, he sent his letter of resignation in October 1950(dated 8 October 1950). In his resignation letter, he openly assailed Pakistani politicians for disregarding the rights and future of minorities, as well as the vision of Pakistan's founder,Muhammad Ali Jinnah.
ہم ہر سال یوم قائد تو مناتے ہیں لیکن جس سوچ کیساتھ قائد اعظم نے یہ ملک بنایا تھا اسکو پچھلے 65 برس سے پامال کئے جا رہے ہیں۔ ہماری 2012 کی کابینہ میں کتنے عیسائی، ہندو، قادیانی اور دیگر مذاہب کے لوگ ہیں؟ :biggrin:
 

arifkarim

معطل
زیادہ سے زیادہ یہ ہو جائے گا کہ ڈاکٹر صاحب لاہور میں ایک بہت بڑا جلسہ کر لیں گے ۔۔۔ لیکن چونکہ وہ سیاست کے میدان میں اُترنے نہیں جا رہے اس لیے اس عظیم الشان اکٹھ سے آخر کیا حاصل ہو گا؟ گمان غالب ہے کہ 23 دسمبر کا جلسہ لاہور کی تاریخ کا ایک بڑا جلسہ ہو گا لیکن "ریاست بچانے" کے لیے جمع ہونے والے یہ افراد "سیاست" کے میدان میں کودے بغیر ریاست کو کیسے بچائیں گے؟
ہو سکتا ہے یہ عالم دین ایک اجتماعی دعا کے بعد یہ جلسہ برخواست کر دیں۔
 

سویدا

محفلین
دین ، سیاست اور ریاست جیسی فضول مباحثوں کے بجائے
وطن ، قوم اور انسانوں کو بچانے کی فکر کی جائے
اب چاہے یہ کام دین سے ہو یا سیاسیت سے ہو یا ریاست سے ہو
یا ان سب کے اشتراک سے ہو
 

arifkarim

معطل
دین ، سیاست اور ریاست جیسی فضول مباحثوں کے بجائے
وطن ، قوم اور انسانوں کو بچانے کی فکر کی جائے
اب چاہے یہ کام دین سے ہو یا سیاسیت سے ہو یا ریاست سے ہو
یا ان سب کے اشتراک سے ہو
دین، سیاست اور ریاست کا آپس میں اشتراک ممکن نہیں۔ جبھی تو مغرب میں سیکولرازم رائج ہے تاکہ ریاست کے تمام شہریوں کے جان و مال کی حفاظت بلا کسی مذہبی تفرقہ کے کی جا سکے!
 

سویدا

محفلین
موجودہ حالات میں یہ بحث برائے بحث ہے
انسانیت ، ملک اور قوم کو بچانا اولین فرض ہے چاہے وہ کسی بھی صورت میں ہو
 

arifkarim

معطل
موجودہ حالات میں یہ بحث برائے بحث ہے
انسانیت ، ملک اور قوم کو بچانا اولین فرض ہے چاہے وہ کسی بھی صورت میں ہو
جو چیز عملیاتی طور پر ناممکن ہے یعنی دین، سیاست اور ریاست کی شراکت تو اسکو آپ بحث برائے بحث کیسے کہہ سکتے ہیں؟ جیسا کہ 2 جمع 2 ہمیشہ 4 ہی آئے گا۔ 5 یا 6 نہیں ہو جائے گا!
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
ہمارا خیال ہے کہ ڈاکٹر صاحب لاہور میں ایک عظیم الشان جلسہ کرنے میں تو کامیاب ہو جائیں گے لیکن اُن کا یہ نعرہ ۔۔۔ بدقسمتی سے ۔۔۔ محض ایک نعرہ ہی رہے گا ۔۔۔ ہاں، یہ امکان ضرور ہے کہ اگر اگلی حکومت نے بھی برسرِ اقتدار آ کر عوام کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا، جیسا کہ موجودہ حکومت نے روا رکھا ہوا ہے، تو پھر، اس جلسے کی معنویت اُبھر کر سامنے آنے کا امکان ہے ۔۔۔ اس لیے اس جلسے کے اثرات دیرپا بھی ہو سکتے ہیں ۔۔۔ اور یہ جلسہ بہرحال لاہور کی تاریخ کا ایک اہم جلسہ ہو گا ۔۔۔ امکان تو یہی ہے ۔۔۔
 

اسد عباسی

محفلین
آثار تو کچھ ایسے ہیں جیسے عمران خان اور پروفیسر صاحب کا اتحاد ہوجائے گا ۔
اور کسی حد تک یہی دو ہستیاں موجودہ وقت میں پاکستان میں پھیلی تاریکی میں امید کے چراغ کی مثال ہیں ۔
محترم بھائی آپ سمجھے نہیں شاید ان دونوں کا اتحاد فی الحال ممکن نہیں ھے کیونکہ خان صاحب الیکشن کی تیاری میں مصروف ھیں اور ڈاکٹر صاحب پہلے نظام بدلنے پھر الیکشن کروانے کی بات کر رھے ھیں۔
 

اسد عباسی

محفلین
دین اور ریاست دو الگ چیزیں ہیں۔ عالم دین کو ریاستی عمور میں عمل دخل کرنے کی اجازت نہیں۔ ہاں وہ اپنی قابل رائے سے قوانین ریاست میں مدد تو دے سکتا ہے لیکن اپنی مرضی کا جمہوری نظام جوکہ رائج پارلیمانی نظام کے منافی ہو کو عوام پر تھوپ نہیں سکتا۔ اسوقت بہت کم مسلمان اکثریت ممالک ہیں جہاں 100 فیصد مغربی طرز کا پارلیمانی یا صدارتی نظام کافی عرصہ سے قائم ہے، اور ان میں سر فہرست ترکی، اذربائجان ، کوسووو اور البانیہ ہے:
http://en.wikipedia.org/wiki/Islam_and_secularism#Europe

ترکی اور اذربائیجان ایک کامیاب مغربی طرز کی جمہوریت ہے جہاں سنی اور شیعہ مسلمانوں کی اکثریت ہے۔



اگر مسلم لیگ نواز تحرک انصاف کو کاپی کر رہی ہے تو ا س سے تحریک انصاف کی اہمیت کیوں کم ہو گئی؟ اس سے تو یہی ثابت ہوتا کہ شریف برادران کو عمران خان کی سیاست سے خوف لاحق ہے۔ اور جہاں تک تحریک انصاف میں ٹکٹوں کی بات ہے تو وہ جو انکی پارٹی الیکشن میں جیتے گا اسی کو ملے گی۔ تحریک انصاف ذات برادری، پیری ، مریدی کی بنیاد پر انتخابی نشستوں کیلئے ٹکٹیں نہیں دیتی!
دین اور ریاست الگ چیزیں اور جگہ ھوں گی مسلمانوں میں اور خصوصاّ پاکستان میں ایسا کبھی نہیں ھو سکتا کہ یہ ملک تو بنا ھی لاالہ اللہ پر ھے۔
 
Top