23 دسمبر، مینار پاکستان ،سیاست نہیں ریاست بچاؤ اور علامہ طاہرالقادری

ش

شہزاد احمد

مہمان
لیکن یہ کوئی عقلمندی نہ ہوتی۔۔۔ :)
ویسے اگر یہ اصلاحات پیش کر دی جاتیں اور لوگ پھر بھی بڑی تعداد میں جلسہ گاہ میں آ جاتے تو اس جلسے کی فضا بھی کچھ اور ہی ہوتی اور جلسے کو تبدیلی کا سمبل بھی بنا کر پیش کیا جا سکتا تھا لیکن اب تو ناقدین یہی کہیں گے کہ ڈاکٹر صاحب کے جلسے میں لوگ بوجہ عقیدت ہی آ گئے ۔۔۔ وگرنہ اُن کو کیا خبر تھی کہ وہ ممکنہ طور پر ایسی اصلاحات تجویز کریں گے ۔۔۔
 
بات تو آپکی درست ہے، لیکن impactپیدا کرنے کیلئے ایسی چھوٹی موٹی چالاکیاں پاکستان کے عوام کی عمومی نفسیات کو مدِنظر رکھ کر کرنے میں کوئی حرج نہیں۔۔۔اور دوسری بات یہ ہے کہ کسی بات کے مؤثر ابلاغ کیلئے سیرت میں بھی اس چیز کی رہنمائی ملتی ہے۔آپ نے پڑھا ہی ہوگا کہ قریش کو دعوت دینے کیلئے کیا انداز اختیار کیا گیا تھا۔۔یعنی پہلے انکو اکٹھا کیا گیا ، بلایا گیا اور پھر دعوت دی گئی۔۔اسکے بعد جسکی مرضی اسے قبول کرلے، جسکی مرضی قبول نہ کرے :)
 

حسن نظامی

لائبریرین
شہزاد احمد بہت خوبصورت باتیں کر رہے ہیں! اور یقینا یہ اس موضوع پر مفید اضافہ کا باعث ہیں۔ڈاکٹر شاہد مسعود نے بھی اپنے کالم میں کچھ پیشین گوئیاں کی ہیں۔
اگر ڈاکٹر صاحب کے علمی حوالوں کو مدنظر رکھا جائے تو قوی امید کی جا سکتی ہے کہ وہ صرف تقریر نہیں فرمائیں گے بلکہ کوئی قابل عمل حل بھی پیش کریں گے۔ آخر ان کی ساکھ کا معاملہ ہے
اور یار لوگ اظہار کریں یا نہ کریں فی الوقت ان کی نظریں 23 دسمبر کی تقریر پر ہی لگی ہوئی ہیں۔
 

متلاشی

محفلین
جب خود قائد اعظم نے اسلامی شریعت کا پاکستان میں نفاذ نہیں کیا اور نہ ہی اپنی تقاریر میں کہیں اسکا اعلان کیا توآپ بعد میں آنے والے کون ہوتے ہیں پاکستان پر قبضہ کرنے والے؟
جناب آپ شدید قسم کی غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔ قائداعظم اور مسلمانوں نے مل کر پاکستان بنایا ہی اس لئے تاکہ مسلمان ایک ایسا خطہ ارض حاصل کر سکیں جہاں وہ اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کے مطابق اسلامی نظام نافذ کر سکیں ۔۔۔۔ ! آپ کی بے شمار تقاریر اس بات پر شاہد ہیں ۔۔۔ اگر ایسا نہیں تو یہ نعرہ کیوں لگایا گیا تھا۔۔۔۔؟ پاکستان کا مطلب کیا ۔۔۔۔؟ لا الہ الا اللہ۔۔۔۔! قائداعظم نے پاکستان کا جھنڈا مغربی پاکستان میں مولانا شبیر احمد عثمانی سے لہروایا تھا اور مشرقی پاکستان میں ان کے بھائی مولانا ظفر احمد عثمانی سے ۔۔۔۔ ! جو دونوں ثقہ عالم دیں تھے ۔۔۔۔!
 

اسد عباسی

محفلین
یہاں تو قائد اعظم سوشلم ازم اور تمام پاکستانیوں کے یکساں حقوق و فرائض کی بات کر رہے ہیں۔۔ یہاں اسلام کہاں سے آگیا؟
مطلب آپ نے سنا ھی نہیں اس کو میں نے یہ سن کر ھی پوسٹ کی ھے۔اور اس کے بعد میں کیا بحث کروں آپ سے
 

اسد عباسی

محفلین
کاش وہ ایک دو ماہ قبل یہ اصلاحات عوام کے سامنے رکھ دیتے تاکہ اُن کے جلسے میں وہی لوگ شریک ہوتے جو ان اصلاحات سے متفق ہوتے ۔۔۔ اب جو لوگ آئیں گے وہ تو اُن کے عقیدت مند ہی ہوں گے ۔۔۔
نہیں شہزاد بھائی یہی تو غلط فہمی ھے اکثر لوگوں کو وہ اصلاحات کے بارے میں بتانے آ رھے ھیں نہ کہ اپنا جلسہ کامیاب کروانے کے لئے جو یہ تحریک والے اتنی محنت کر رھے ھیں اپنے لئے نہیں کہ انہوں نے تو الیکشن ھی نہیں لڑنا۔وہ تو فرف لوگوں کو یہ بتانا چاہ رھے ھیں کہ الیکشن ضرور ھوں مگر اس سے پہلے نظام بدلا جائے اور میری گزارش ھو گی آپ سب سے کہ ان کو سننے جائیں یا پھر ٹی پر ضرور سدیں
تا کہ سب کو ان کی بات کی سمجھ سکے اور بعد میں بحث برائے بحث کرنے والوں کی بات پر تکیہ نہ کرنا پڑے۔
 

سید ذیشان

محفلین
جب اصلاحات تحریری شکل میں آجائیں تو ان کو پوسٹ کر کے مجھے بھی ٹیگ کر دیجئے گا۔ اس کے بعد ہی کوئی رائے دینے کے قابل ہو سکوں گا۔
 

اسد عباسی

محفلین
علامہ صاحب ماضی میں بھی بڑے بڑے جلسے کرتے رہے ہیں ۔۔۔ اُن کے لیے اس نوع کے عوامی اجتماعات کرنا چنداں دشوار نہیں ۔۔۔ لوگ ہزاروں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں اُمڈے چلے آتے ہیں لیکن مسئلہ اتنا سیدھا نہیں ہے ۔۔۔ اس سے قبل وہ روایتی سیاست کے ذریعے بڑی تبدیلی کے خواہش مند تھے لیکن اب صورتِ حال کافی مختلف ہے ۔۔۔ اب جب کہ سبھی بڑی سیاسی جماعتیں ( جن میں مذہبی رجحان رکھنے والی سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں ) ۔۔۔ انتخابات میں حصہ لینے کے لیے آمادہ ہیں تو ایسے موقع پر ۔۔۔ صرف علامہ صاحب کو ہی ریاست کی فکر کیوں لاحق ہو گئی ہے؟ ریاستی اداروں کی بات کی جائے تو عدلیہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہو گئی ہے ۔۔۔ بلکہ ضرورت سے بھی کچھ زیادہ ۔۔۔ صوبوں کے بڑے مطالبات کو مختلف آئینی ترامیم کے ذریعے ایڈریس کر لیا گیا ہے ۔۔ ملک ایک فطری انداز میں الیکشن پراسس کی طرف جا رہا ہے ۔۔۔ مارشل لاء کے لگنے کے امکانات بھی نہایت معدوم ہیں ۔۔۔ ایسے میں علامہ صاحب ملکی معاملات چلانے کے لیے موجودہ سیاسی عمل کو بھی بے کار تصور کر رہے ہیں ۔۔۔ سوال یہ ہے کہ اُن کے چاہنے والوں کے ذہن میں بھی آخر ریاست کی بقا کے لیے کوئی لائحہ عمل ہے یا وہ صرف تئیس دسمبر کی تقریر کا ہی انتظار کر رہے ہیں؟
میرے بھائی ۔
سب سے پہلے تو میں یہ بتا دوں کہ میں تحریک کا نمائندہ یا کارکن نہیں ہوں۔بلکہ میرا تعلق ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں میں سے ایک کے ساتھ ھے۔اور الحمدللہ میرے جونیئر اس وقت ایم این اے ہیں۔اور ایک صاحب تو ایسے بھی ہیں جو میرے ساتھ گلیوں میں پوسٹر بھی لگاتے رہے ہیں۔لیکن سوال یہ ھے کہ اگر کوئی ملک کے لئے اچھا سوچنا چاہتا ھے یا سوچنے کا دعوہ کر رہا ہے تو ہم اس کی بات سننے سے پہلے ہی اس کے مخالف کیوں ہو رہے ہیں۔
اور جو آپ نے بات کی کہ سسٹم سہی چل رہا ہے تو کیا خاک سہی چل رہا ہے جمہوریت کو پانچ سال تو پورے کرنے دئیے گئے مگر ملک کو کیا ملا سوائے مہنگائی
بے روزگاری لوڈشیڈنگ گیس سی این جی کی کمی آٹے اور چینی کی قلت بم دھماکے ڈرون اٹیک سلالہ چیک پوسٹ پر دہشت گردی ریمنڈ ڈیوس کی باعزت اپنے وطن روانگی اور پتہ نہیں کیا کیا۔
اور جہاں تک آپ نے بات کی کہ عدلیہ مضبوط ہو رہی ہے تو وہ بھی تو سب سے پہلے عدلیہ کو ہی مخاطب کرتے ہیں کہ اس ملک کا نظام سہی کیا جائے اور پھر الیکشن
کروائے جائیں۔تو آپ ہی بتائیں کہ وہ کون سا خوبصورت اور فائدے مند نظام ہے جو ان کےکہنے سے تلپٹ ہونے جا رہا ہے۔
اس نظام نے آخری پانچ سالوں میں حکمرانوں کو تو عیاشی کرنے دی مگر سوال یہ ہے کہ آپ کو اور مجھے ایسا کیا ملا جو مشرف دور میں ہم سے چھین لیا گیا تھا۔اگر اب بھی آپ کا خیال ہو کہ جمہوریت ملی تو پھر میں یہ سمجھوں گا کہ جمہوریت کسی لالی پاپ کا نام لے اور عوام ایک بچہ ہے جو اس پر ہی خوش ہو جاتا ہے۔
باقی آپ نے کہا کہ کیا ان کے چاہنے والوں کے ذہن میں ریاست بچانے کا کوئی فارمولا ہے یا وہ صرف تقریر کا ہی انتظار کر رہے ہیں۔تو جناب اگر ہر ایک کا ذہن ایک پی ایچ ڈی ڈاکٹر والا ہوتا تو رونا کس بات کا تھا۔جناب یہ لوگ صرف تقریر کا انتظار نہیں کر رہے بلکہ اس تقریر کا انتظار کر رہے ہیں جس میں وہ ان کو وہ لائحہ عمل بتانے جا رہے ہیں جو ہر ایک کے ذہن میں نہیں آ سکتا۔
 

اسد عباسی

محفلین
جب اصلاحات تحریری شکل میں آجائیں تو ان کو پوسٹ کر کے مجھے بھی ٹیگ کر دیجئے گا۔ اس کے بعد ہی کوئی رائے دینے کے قابل ہو سکوں گا۔
میرے بھائی آج میڈیا کا دور ہے ہر ایک چینل یہ تقریر دکھائے گا گزارش ہی کر سکتا ہوں کہ آپ اپنے قیمتی وقت میں سے کچھ نکال کر یا تو مینار پاکستان تشریف لے جائیں یا ٹی وی پر سن لیں کہ اگر کوئی اور بتائے گا تو وہ اپنے مطلب کی ہی بات بتائے گا باقی سب سنسر اور اگر کسی چینل نے نہ دکھائی تو یہ لنک ہے اس پر جا کر سن لیجئے گا۔
 

فلک شیر

محفلین
پاکستانی قوم کی عظمت کو سلام ہے............تعصبات ہم پالتے ہیں....اور شخصیات کو پوجتے ہیں....یادداشت کمزور اور جذبات ہمہ دم ابلنے کوتیار.....صاحبزادگان کی ایک پوری کھیپ ہمارے کندھوں پہ سوار ہونے کو تیار.....اور ہم اُن کے لیے نعرے گھڑنے میں مصروف.....
 

نایاب

لائبریرین
پاکستانی قوم کی عظمت کو سلام ہے............تعصبات ہم پالتے ہیں....اور شخصیات کو پوجتے ہیں....یادداشت کمزور اور جذبات ہمہ دم ابلنے کوتیار.....صاحبزادگان کی ایک پوری کھیپ ہمارے کندھوں پہ سوار ہونے کو تیار.....اور ہم اُن کے لیے نعرے گھڑنے میں مصروف.....
محترم بھائی ۔ ہم بھی اس پاکستانی قوم کے اک فرد ہیں ۔ ہر فرد اگر خود کو تعصب شخصیت پرستی سے دور کرنے کا عزم کر لے تو بلاشبہ پاکستانی قوم عظیم ترین قرار پائے ۔ مگر مشکل یہ ہے کہ بحیثیت فرد میں یہ چاہتا ہوں کہ " مجھے چھوڑ کر سب بدل جائیں ۔ تعصب شخصیت پرستی چھوڑ دیں ۔ " تو پھر " صاحب زادگان " کیوں نہ ہم پر سوار رہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
 

الف نظامی

لائبریرین
مشمولات

مہلک قومی امراض
  • کیا پاکستان آزاد ملک ہے؟
  • مہلک قومی اَمراض کی شناخت
  • جمہوریت اور عدلیہ
  • مختلف ممالک میں عدلیہ کی برتری اور اس کی امتیازی حیثیت
  • آزاد میڈیا کی بے توقیری
  • کرپشن اور پاکستان
  • اِفراطِ زر اور پاکستان
  • پاکستان میں GDP کی شرحِ نمو
  • قرضہ جات کا حجم
  • بیروز گاری اور پاکستان
  • پاکستان کا تعلیمی بجٹ
  • قومی بجٹ اور صحت
  • غربت
  • لمحہ فکریہ!
قوم دشمن نظام کے اجزائے ترکیبی
  • نظامِ سیاست اور دجالی پنجہ اِستبداد
  • سیاسی اِجارہ داریاں
  • Status quo کے مختلف مہرے
  • مختلف نعروں کی سیاست
  • حقِ نمائندگی یا کاروبار؟
  • انتخابی ڈرامہ عوام کا سب سے بڑا دشمن ہے
نام نہاد پاکستانی جمہوریت کا بدنما چہرہ
  • حقیقی جمہوریت اور اُس کے تقاضے
  • ’جمہوریت‘ یا ’مجبوریت‘
  • جمہوریت کی مضبوطی کے تین طریقے
  • ترقی یافتہ ممالک میں جمہوریت کا سفر
  • جمہوریت کی ضروری شرائط
  • جمہوریت یا طاقت ور گھوڑوں کا مقابلہ؟
  • اسٹیبلشمنٹ کی دخل اندازی
  • Split مینڈیٹ اور حکومتی پارٹیوں کا مفاداتی ایجنڈا
تبدیلی کے ممکنہ راستے
  • تبدیلی لانے کے تین ممکنہ راستے
  • جمہوریت کی گاڑی
  • تبدیلی کا عمل کہاں سے شروع ہو؟
  • اگر یہ نظام ہے تو پھر بد نظمی کیا ہوتی ہے؟
موجودہ نظام سیاست و انتخابات کے خلاف جدوجہد کی ناگزیریت
  • کرپٹ نظامِ اِنتخابات اور اس کے بھیانک نتائج
  • آئندہ اِنتخابات کا متوقع نقشہ
  • تبدیلی کا صرف ایک راستہ ہے
  • ابھی وقت ہے!
  • فساد کہاں سے جنم لیتا ہے
  • اِجتماعی اِصلاح کی ناگزیریت
  • اِجتماعی اِصلاح کو نظر انداز کرنے کے نقصانات
  • عذابِ اِلٰہی کا نزول
سیاست یا ریاست؟
 

arifkarim

معطل
جناب آپ شدید قسم کی غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔ قائداعظم اور مسلمانوں نے مل کر پاکستان بنایا ہی اس لئے تاکہ مسلمان ایک ایسا خطہ ارض حاصل کر سکیں جہاں وہ اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کے مطابق اسلامی نظام نافذ کر سکیں ۔۔۔ ۔ ! آپ کی بے شمار تقاریر اس بات پر شاہد ہیں ۔۔۔ اگر ایسا نہیں تو یہ نعرہ کیوں لگایا گیا تھا۔۔۔ ۔؟ پاکستان کا مطلب کیا ۔۔۔ ۔؟ لا الہ الا اللہ۔۔۔ ۔! قائداعظم نے پاکستان کا جھنڈا مغربی پاکستان میں مولانا شبیر احمد عثمانی سے لہروایا تھا اور مشرقی پاکستان میں ان کے بھائی مولانا ظفر احمد عثمانی سے ۔۔۔ ۔ ! جو دونوں ثقہ عالم دیں تھے ۔۔۔ ۔!
تحریک پاکستان میں دیگر مذاہب کے لوگ بھی شریک تھے۔ کیا یہ بھی غلط فہمی ہے؟ قائد اعظم کی پہلی کابینہ میں ہر مذہب کے لوگ تھے۔ کیا اسے غلط فہمی کہتے ہیں؟ پاکستان کا پہلا وزیر قانون ایک ہندو، اور پہلا وزیر خارجہ ایک قادیانی تھا۔ کیا یہ تھا قائد اعظم کا اسلامی نظام؟ اگر تھا تو پھر آج پاکستانی اقلیتیں اقتدار میں کیوں نہیں، اور در بدر کی ٹھوکریں کیوں کھا رہی ہیں؟ اور اگر نہیں تھا تو پھرہم دن اور رات قائد اعظم کے نعرے کیوں لگاتے ہیں؟ پاکستان کو قائداعظم کی وفات کے بعد ہی مولویان پاکستان نے یرغمال بنا لیا تھا۔ اسکا عملی مظاہرہ 1951 کے Objective Resoltion نے لیاقت علی خان کی سربراہی میں کرکے دکھایا جسکے جواب میں وزیر قانون جوگيندرا ناتھ ماندل پاکستان کو چھوڑ کر چلے گئے۔
When Prime Minister Liaquat Ali Khanpublicly supported a proposal to make Islam the official state religion, Mandal denounced it as a rejection of Jinnah's secular vision for Pakistan. Mandal continued to attack the proposed Objectives Resolution, which outlined an Islamic state as completely disregarding the rights of religious and ethnic minorities. He grew increasingly isolated, and came increasingly under verbal and physical attack; fleeing to Kolkata, he sent his letter of resignation in October 1950(dated 8 October 1950). In his resignation letter, he openly assailed Pakistani politicians for disregarding the rights and future of minorities, as well as the vision of Pakistan's founder,Muhammad Ali Jinnah.
 

arifkarim

معطل
اس پر صرف ہم یہ کہیں بقولِ اقبال:
جدا دیں ہو سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی ۔۔۔ ۔!
تو یہ چنگیزی ترکی اور اذربائجان میں کیوں نظر نہیں آتی۔ صرف کٹر اسلامی حکومتوں میں ہی کیوں یہ قتل و غارت، لوٹ مار کی چنگیزی ہوتی ہے؟
 

الف نظامی

لائبریرین
فرموداتِ قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ
Q001_thumb%5B15%5D.jpg
آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے اجلاس منعقدہ 15 نومبر 1942 ء میں قائد اعظم نے وہ بصیرت افروز اور چشم کشا خطاب کیا جس کی ضیا باری سے آج بھی تاریخ پاکستان روشن ہے۔ قائد اعظم نے فرمایا :-​
" مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہوگا؟ پاکستان کے طرز حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں۔ مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے تیرہ سو سال قبل قرآن کریم نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا تھا۔ الحمد للہ ، قرآن مجید ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا "​
6دسمبر 1943 کو کراچی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے 31 ویں اجلاس سے خطاب کے دوران قائد اعظم نے فرمایا:-
" وہ کون سا رشتہ ہے جس سے منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں ، وہ کون سی چٹان ہے جس پر ان کی ملت کی عمارت استوار ہے ، وہ کون سا لنگر ہے جس پر امت کی کشتی محفوظ کر دی گئی ہے ؟ وہ رشتہ ، وہ چٹان ، وہ لنگر اللہ کی کتاب قرانِ کریم ہے۔ مجھے امید ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے ، قرآنِ مجید کی برکت سے ہم میں زیادہ سے زیادہ اتحاد پیدا ہوتا جائے گا۔ ایک خدا ، ایک کتاب ، ایک رسول ، ایک امت "

قائد اعظم نے 17 ستمبر 1944ء کو گاندھی جی کے نام اپنے ایک خط میں تحریر فرمایا:-
" قرآن مسلمانوں کا ضابطہ حیات ہے۔ اس میں مذہبی اور مجلسی ، دیوانی اور فوجداری ، عسکری اور تعزیری ، معاشی اور معاشرتی سب شعبوں کے احکام موجود ہیں۔ یہ مذہبی رسوم سے لے کر جسم کی صحت تک ، جماعت کے حقوق سے لے کر فرد کے حقوق تک ، اخلاق سے لے کر انسدادِ جرائم تک ، زندگی میں سزا و جزا سے لے کر آخرت کی جزا و سزا تک غرض کہ ہر قول و فعل اور ہر حرکت پر مکمل احکام کا مجموعہ ہے۔ لہذا جب میں کہتا ہوں کہ مسلمان ایک قوم ہیں تو حیات اور مابعد حیات کے ہر معیار اور پیمانے کے مطابق کہتا ہوں "

10 ستمبر 1945 ء کو عید الفطر کے موقع پر قائد اعظم نے فرمایا :-
" ہمارا پروگرام قرآنِ کریم میں موجود ہے۔ تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ قرآن غور سے پڑھیں۔ قرآنی پروگرام کے ہوتے ہوئے مسلم لیگ مسلمانوں کے سامنے کوئی دوسرا پروگرام پیش نہیں کر سکتی"

1947 ء کو انتقالِ اقتدار کے موقع پر جب حکومت برطانیہ کی نمائندگی کرتے ہوئے لارڈ ماونٹ بیٹن نے اپنی تقریر میں کہا کہ :
" میں امید کرتا ہوں کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ ویسا ہی سلوک ہوگا اور ویسے ہی اصول پیش نظر رکھے جائیں گے جن کی مثالیں اکبر اعظم کے دور میں ملتی ہیں "
تو اس پر قائد اعظم نے برجستہ فرمایا :
" وہ رواداری اور خیر سگالی جو شہنشاہ اکبر نے غیر مسلموں کے حق میں برتی کوئی نئی بات نہیں۔ یہ تو مسلمانوں کی تیرہ صدی قبل کی روایت ہے۔ جب پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہودیوں اور عیسائیوں پر فتح حاصل کرنے کے بعد ان کے ساتھ نہ ّ صرف انصاف بلکہ فیاضی کا برتاو کرتے تھے۔ مسلمانوں کی ساری تاریخ اس قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ ہم پاکستانی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں ہی پاکستان کا نظام چلائیں گے"

2 جنوری 1948 ء کو کراچی میں اخبارات کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے قائد اعظم نے ارشاد فرمایا :-
" اسلامی حکومت کے تصور کا یہ امتیاز پیش نظر رہنا چاہیے کہ اس میں اطاعت اور وفا کا مرکز اللہ تعالی کی ذات ہے جس کی تعمیل کا عملی ذریعہ قرآن کے احکام و اصول ہیں۔ اسلام میں اصلا نہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے نہ پارلیمنٹ کی نہ کسی شخص یا ادارے کی۔ قرآن کریم کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کی حدیں مقرر کر سکتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اسلامی حکومت قرآنی احکام و اصولوں کی حکومت ہے "

14 فروری 1948 ء کو قائد اعظم نے بلوچستان میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا :-
" میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات کا واحد ذریعہ اس سنہری اصولوں والے ضابطہ ء عمل میں ہے جو ہمارے عظیم واضع قانون پیغمبر اسلام نے ہمارے لیے قائم کر رکھا ہے۔ ہمیں اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچے اخلاقی اصولوں اور تصورات پر رکھنی چاہئیں۔ اسلام کا سبق یہ ہے کہ مملکت کے امور و مسائل کے بارے میں فیصلے باہمی بحث و تمحیص اور مشوروں سے کیا کرو۔"

13 اپریل 1948 ء کو اسلامیہ کالج پشاور میں تقریر کرتے ہوئے بانی پاکستان نے فرمایا:-
" ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا بلکہ ہم ایسی جائے پناہ چاہتے تھے جہاں ہم اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کر سکیں"

یکم جولائی 1948 ء کو سٹیٹ بنک آف پاکستان کا افتتاح کرتے ہوئے قائد اعظم نے فرمایا :-
" میں اشتیاق اور دل چسپی سے معلوم کرتا رہوں گا کہ آپ کی ریسرچ آرگنائزیشن بینکاری کے ایسے طریقے کس خوبی سے وضع کرتی ہے جو معاشرتی اور اقتصادی زندگی کے اسلامی تصورات کے مطابق ہوں۔ مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کے لیے بے شمار مسائل پیدا کر دیے ہیں اکثر لوگوں کی یہ رائے ہے کہ مغرب کو اس تباہی سے کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے۔ یہ تباہی مغرب کی وجہ سے ہی دنیا کے سر منڈلا رہی ہے۔ مغربی نظام انسانوں کے مابین انصاف اور بین الاقوامی میدان میں آویزش اور چپقلش دور کرنے میں ناکام رہا ہے "


مغرب کے اقتصادی نظام پر تنقید کرتے ہوئے اسی خطاب میں آپ نے فرمایا:-
" اگر ہم نے مغرب کا معاشی نظریہ اور نظام ہی اپنا لیا تو عوام کی خوشحالی حاصل کرنے کے لیے ہمیں کوئی مدد نہ ملے گی۔ اپنی تقدیر ہمیں اپنے منفرد انداز میں بنانا پڑے گی۔ ہمیں دنیا کے سامنے ایک مثالی معاشی نظام پیش کرنا ہے جو انسانی مساوات اور معاشی انصاف کے سچے اسلامی تصورات پر قائم ہو۔ ایسا نطام پیش کر کے ہم بحیثیت مسلمان اپنا مشن پورا کریں گے۔ انسانیت کو حقیقی امن کا پیغام دیں گے۔ صرف ایسا امن ہی انسانیت کو جنگ سے بچا سکتا ہے۔ صرف ایسا امن ہی بنی نوع انسان کی خوشی اور خوشحالی کا امین و محافظ ہے"

25 جنوری 1948 ء کراچی بار ایسوسی ایشن کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :-
" آج ہم یہاں دنیا کی عظیم ترین ہستی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو نذرانہ ء عقیدت پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عزت و تکریم کروڑوں عام انسان ہی نہیں کرتے بلکہ دنیا کی تمام عظیم شخصیات آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے سر جھکاتی ہیں۔ وہ عظیم مصلح تھے ، عظیم رہنما تھے ، عظیم واضع قانون تھے ، عظیم سیاستدان تھے اور عظیم حکمران تھے ، ہم ان کی تعلیمات پر عمل کرتے رہے تو کسی میدان میں کبھی بھی ناکامی نہ ہوگی"

آخر میں ہم قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کا وہ خطاب آپ کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں جو ان کے کردار کی سچائی کی سچی اور کھری شہادت کے طور پر تاریخ کے سینے پر چمک رہا ہے۔ یہ خطاب آپ نے 30 جولائی 1948 ء کو لاہور میں اسکاوٹ ریلی سے کیا تھا۔ آپ نے فرمایا :-
" میں نے بہت دنیا دیکھ لی۔ اللہ تعالی نے عزت ، دولت ، شہرت بھی بے حساب دی۔ اب میری زندگی کی ایک ہی تمنا ہے کہ مسلمانوں کو باوقار و سر بلند دیکھوں۔ میری خواہش ہے کہ جب مروں تو میرا دل گواہی دے کہ جناح نے اللہ کے دین اسلام سے خیانت اور پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت سے غداری نہیں کی۔ مسلمانوں کی آزادی ، تیظیم ، اتحاد اور مدافعت میں اپنا کردارٹھیک ٹھیک ادا کیا اور میرا اللہ کہے کہ اے میرے بندے! بے شک تو مسلمان پیدا ہوا۔ بے شک تو مسلمان مرا "

یہ متن کتاب بعنوان "پاکستان بنانے کا مقصد ( افکار اقبال و قائد اعظم کی روشنی میں)" از حکیم سید محمود احمد سرو سہارنپوری سے لیا گیا
 

سید ذیشان

محفلین
مشمولات

مہلک قومی امراض
  • کیا پاکستان آزاد ملک ہے؟
  • مہلک قومی اَمراض کی شناخت
  • جمہوریت اور عدلیہ
  • مختلف ممالک میں عدلیہ کی برتری اور اس کی امتیازی حیثیت
  • آزاد میڈیا کی بے توقیری
  • کرپشن اور پاکستان
  • اِفراطِ زر اور پاکستان
  • پاکستان میں GDP کی شرحِ نمو
  • قرضہ جات کا حجم
  • بیروز گاری اور پاکستان
  • پاکستان کا تعلیمی بجٹ
  • قومی بجٹ اور صحت
  • غربت
  • لمحہ فکریہ!
قوم دشمن نظام کے اجزائے ترکیبی

  • نظامِ سیاست اور دجالی پنجہ اِستبداد
  • سیاسی اِجارہ داریاں
  • Status quo کے مختلف مہرے
  • مختلف نعروں کی سیاست
  • حقِ نمائندگی یا کاروبار؟
  • انتخابی ڈرامہ عوام کا سب سے بڑا دشمن ہے
نام نہاد پاکستانی جمہوریت کا بدنما چہرہ

  • حقیقی جمہوریت اور اُس کے تقاضے
  • ’جمہوریت‘ یا ’مجبوریت‘
  • جمہوریت کی مضبوطی کے تین طریقے
  • ترقی یافتہ ممالک میں جمہوریت کا سفر
  • جمہوریت کی ضروری شرائط
  • جمہوریت یا طاقت ور گھوڑوں کا مقابلہ؟
  • اسٹیبلشمنٹ کی دخل اندازی
  • Split مینڈیٹ اور حکومتی پارٹیوں کا مفاداتی ایجنڈا
تبدیلی کے ممکنہ راستے

  • تبدیلی لانے کے تین ممکنہ راستے
  • جمہوریت کی گاڑی
  • تبدیلی کا عمل کہاں سے شروع ہو؟
  • اگر یہ نظام ہے تو پھر بد نظمی کیا ہوتی ہے؟
موجودہ نظام سیاست و انتخابات کے خلاف جدوجہد کی ناگزیریت

  • کرپٹ نظامِ اِنتخابات اور اس کے بھیانک نتائج
  • آئندہ اِنتخابات کا متوقع نقشہ
  • تبدیلی کا صرف ایک راستہ ہے
  • ابھی وقت ہے!
  • فساد کہاں سے جنم لیتا ہے
  • اِجتماعی اِصلاح کی ناگزیریت
  • اِجتماعی اِصلاح کو نظر انداز کرنے کے نقصانات
  • عذابِ اِلٰہی کا نزول
سیاست یا ریاست؟



بہت شکریہ نظامی صاحب۔

اس سے تو بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ قادری صاحب کی کوشش ہوگی کہ کسی طرح سے عوام یونین کونسل سطح پر، ضلعی سطح پر گھروں سے نکل آئیں اور الیکشن نہ ہونے دیں۔ اس صورت میں سپریم کورٹ کو ایکشن لینا پڑے گا اور ایک عبوری حکومت قائم ہو گی جو بقول قادری صاحب "اعلیٰ کردار کی بے داغ سیاسی شخصیات، یا عدلیہ کے اچھی شہرت کے ایماندار ریٹائرڈ جج صاحبان، فوجی، سماجی حلقوں کے صالح اور اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں کے حامل اشخاص اور مذہبی حلقوں سے خوف خدا رکھنے والے مصلحین شامل ہوں جو مل بیٹھ کر آئین پاکستان کے تحت ایک نیا social contract وضع کریں: جو ملک سے برائیوں کا قلع قمع کریں۔ ۔۔۔"
 
اے کاش کہ واقعی ہم تعصبات سے پاک ہو کر سوچیں!
پچھلے دنوں جب محفلین نے شاکرالقادری صاحب اور اشتیاق علی بھائی کے اعزاز میں ایک بیٹھک کا انتظام کیا تو وہاں ساجد بھائی یہی فرما رہے تھے کہ جس سیکشن میں آپ جائیں وہاں اس سیکشن کے لوازمات کو پورا کیجئے۔
اب اگر سیاست کے سیکشن میں آکر کوئی شخص مذہبی تعصب کو انڈیلنا شروع کر دے تو اس میں کیا کیا جا سکتا ہے۔


اب آتے ہیں اصل مسئلہ کی طرف

بات ڈاکٹر طاہرالقادری یا کسی اور شخص کی نہیں، صرف اصول اور ضابطے کی ہے۔میرے خیال میں ڈاکٹر صاحب کا مقصد انتخابی نظام میں اصلاحات کی تنفیذ ہے۔ اگر ملکی تاریخ کو دیکھا جائے تو ہر شخص بآسانی یہ جان سکتا ہے کہ عوامی نمائندگان حقیقت میں عوام کے نمائندے نہیں ہوتے۔
غریب کی نمائندگی کے لیے سرمایہ دار اور امیر طبقہ قانون سازی بلکہ فراڈ سازی کر رہا ہوتا ہے(الا ماشاءاللہ) کسان کی نمائندگی جاگیردار کر رہا ہوتا ہے اور علاقے میں ایک آدھ ٹیوب ویل لگوا کر سارے کے سارے ووٹ ہضم کر جاتا ہے۔
دیگر سیاسی لوگ بھی جو انہی لوگوں کے چاچے، مامے، بھانجے، بھتیجے، پتر سبھی کے سبھی ایوان بالا و زیریں کی زینت بنے ہوتے ہیں۔

عوام کہاں ہوتی ہے!:nailbiting:

ان حالات میں ڈاکٹر صاحب نے نعرہ لگایا کہ ملک کا انتخابی نظام ڈھونگ اور ڈرامہ ہے اس بات کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے زیادہ تردد نہیں ہونا چاہیے صرف اتنا کہوں گا کہ جن ممالک میں اسمبلیوں میں عوامی نمائندگان ہوتے ہیں وہاں مارشل لاء نہیں لگتا۔ کیونکہ ملک کی اکثریتی تائید حاصل کرنے والی جماعت کے لیڈر کو جب کوئی جنرل کرنل دھکا دے کے اقتدار کی کرسی سے گراتا ہے تو اس وقت ان کے ساتھ ساری کی ساری عوامی حمایت غبارے کی ہوا کی طرح نکل چکی ہوتی ہے۔

لہذا یہ بات سمجھنا کوئی مشکل نہیں کہ اسمبلیوں میں پہنچنے والے لوگ حقیقی عوامی نمائندے نہیں ہوتے!

ایسی صورتحال میں ڈاکٹر صاحب چاہتے ہیں کہ ملک میں ایسا انتخابی نظام ہو جس میں عام آدمی آسانی سے حصہ لے سکے اور کامیابی بھی حاصل کر سکے، سیاسی جماعتیں وننگ ہارسز کی محتاج نہ رہیں بلکہ قابل اور باکردار شخص کو انتخاب کے لیے کھڑا کیا جا سکے وغیرہ وغیرہ

اب یہاں تک اگر کسی کو کوئی اعتراض ہو تو وہ لکھے پھر آگے کی سوچتے ہیں۔


نوٹ: سیاست کے سیکشن میں مذہبی تعصب کی بھڑاس مت نکالیے:sleep:
 

arifkarim

معطل
1947 ء کو انتقالِ اقتدار کے موقع پر جب حکومت برطانیہ کی نمائندگی کرتے ہوئے لارڈ ماونٹ بیٹن نے اپنی تقریر میں کہا کہ :
" میں امید کرتا ہوں کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ ویسا ہی سلوک ہوگا اور ویسے ہی اصول پیش نظر رکھے جائیں گے جن کی مثالیں اکبر اعظم کے دور میں ملتی ہیں "
تو اس پر قائد اعظم نے برجستہ فرمایا :
" وہ رواداری اور خیر سگالی جو شہنشاہ اکبر نے غیر مسلموں کے حق میں برتی کوئی نئی بات نہیں۔ یہ تو مسلمانوں کی تیرہ صدی قبل کی روایت ہے۔ جب پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہودیوں اور عیسائیوں پر فتح حاصل کرنے کے بعد ان کے ساتھ نہ ّ صرف انصاف بلکہ فیاضی کا برتاو کرتے تھے۔ مسلمانوں کی ساری تاریخ اس قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ ہم پاکستانی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں ہی پاکستان کا نظام چلائیں گے"
اکبر کے دور میں بھارتی ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین قریبی تعلقات پیدا ہوئے۔ اتنے قریبی کہ اس دور کے واقعات کو کئی بھارتی ہدایت کاروں نے بلاک بسٹر فلموں کا درجہ دے دیا۔ اسکے برعکس پاکستان کے قیام کے بعد وہاں پر موجود ہندوؤں سے کیا اسلوک رواں رکھا گیا۔ اسکی تفصیل درج ذیل:
There are a number of instances of persecution of Hindus in Pakistan. Minority members of the Pakistan National Assembly have alleged that Hindus were being hounded and humiliated to force them to leave Pakistan.[86] In 1951, Hindus constituted 22 percentage of the Pakistani population (that includes the modern day Bangladesh);[87][88] Today, the share of Hindus are down to 1.7 percent in Pakistan,[89] and 9.2 percent in Bangladesh[90] (In 1951, Bangladesh alone had 22% Hindu population[91
یثرب میں آنحضور صللہعلیہسلم کی آمد سے قبل یہود کے تین قبائل آباد تھے۔ آج سعودی عرب میں سوائے اسلام کے اور کسی مذہب پر عمل کرنے کی اجازت نہیں۔ نجران جہاں کسی زمانہ میں بڑی تعداد میں عرب عیسائی آباد تھے، آج ملیا میٹ ہو چکے ہیں۔
 
Top