40 چہل احدیث

آبی ٹوکول

محفلین
اوپر فراہم کردہ روایات میں سے کونسی قرآن کی کسوٹی پر پوری اترتی ہیں؟‌ اگر کتب روایات قرآن کی تشریح ہے تو پھر ہر روایت قرآن کی روشنی میں پوری اترنی جاہئیے۔ کچھ لوگ ایسا نہیں چاہتے ، کیوں‌ ، مجھے اب تک کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکا اس بارے میں ۔

اب دیکھئے۔
اب نمبر 7 دیکھئے:
ٹخنوں کا جو حصہ پائجامے سے نیچے رہے گا وہ جہنم میں‌جائے گا۔


کوئی صاحب اس کی بنیادی آیت فراہم کرسکتے ہیں؟ جہنم کی سزا کا فیصلہ یقیناً اللہ تعالی کے احکامات پر منحصر ہے۔ اب یہ کس آیت کی تشریح ہے احباب مدد فرمائیں۔
السلام علیکم محترم فاروق سرور صاحب ! آپ سے یہ کس نے کہہ دیا کہ تمام کی تمام احادیث کسی نہ کسی قرآنی آیت کے مخصوص الفاظ کی ہی وضاحت میں ہی وارد ہوئی ہیں واضح رہے کہ ہم نے یہاں قرآن کے مخصوص الفاظ کی تشریح کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ یہ بھی تو ہوسکتا ہے نہ کے بہت سی احادیث قرآن کی آیات کے عمومی حکم کی تفھیم کے بطور وراد ہوئی ہوں اب یہ تو آپ جیسے صاحب فھم پر بھی روشن ہی ہوگا کہ
کسی آیت کے الفاظ کی تشریح اور کسی آیت سے استنباط شدہ حکم کی تشریح دو مختلف چیزیں ہیں اب دیکھیں ناں قرآن میں غرور و تکبر کرنے والوں کی مزمت کی گئی ہے اور اکڑ اکڑ کر چلنے سے واضح طور پر منع کیا گیا ہے تو جس حدیث کی طرف آپ اشارہ کررہے اس کی تو جیہ میں آپ یہ کیوں نہیں باور کرلیتے کہ اس سے ایسے لوگ مراد ہیں جو کہ لباس فاخرانہ بطور تکبر زیب تن کیا کرتے تھے اور نتیجتا ان کا لباس اس قدر طویل ہوا کرتا تھا کہ زمین پر گھسٹتا تھا اور میں نے بعض تاریخی خوالہ جات میں پڑھا کہ بعض امراء لباس کے معاملے میں اس قدر افراط کا شکار تھے کہ اتنا لمبا لباس زیب تن کیا کرتے تھے کہ ان کے پیچھے ان کے خادمین لباس کے فالتو حصے کو اٹھا اٹھا کر چلا کرتے تھے لہذا اس حدیث سے اس قسم کے رحجانات کی مذمت کرنا بھی تو ہوسکتا ہے اور خاص طور پر اس وقت جب کے اکثر محدثین اس کی تشریح میں غرور و تکبر کے عنصر کے نمایاں ہونے کی علت کو بیان کیا ہو ۔ ۔۔



نمبر 21 دیکھئے۔ کہ
" آدمی کا چچا اس کے باپ کی مانند ہے"
کوئی صاحب یا صاحبہ مدد فرمائیں کہ یہ کس آیت کی تشریح ہے۔

مجھے یہ روایت قرآن کے مخالف لگتی ہے، کیوں؟ ‌ دیکھئے درج ذیل آیات

[ayah]33:4[/ayah] نہیں بنائے ہیں اللہ نے کسی شخص کے لیے دو دل اس کے سینے میں اور نہیں بنایا ہے اللہ نے تمہاری ان بیویوں کو جنہیں تم ماں کہہ بیٹھتے ہو، تمہاری مائیں اور نہیں قرار دیا تمہارے منہ بولے بیٹوں کو، تمہارا حقیقی بیٹا۔ یہ باتیں محض قول ہے تمہارا جو تم اپنے منہ سے نکالتے ہو جبکہ اللہ فرماتا ہے سچی بات اور وہی ہدایت دیتا ہے سیدھے راستہ کی۔

[ayah]33:5[/ayah] پکارو انہیں ان کے باپوں کی نسبت سے یہ بات زیادہ منصفانہ ہے اللہ کے نزدیک، پھر اگر نہ جانتے ہو تم ان کے باپوں کو تو وہ تمہارے بھائی ہیں دین کے لحاظ سے اور تمہارے رفیق ہیں۔ اور نہیں ہے تم پر کوئی گرفت ان باتوں میں جو کہہ دیتے ہو تم نادانستہ لیکن وہ بات جس کا تم ارادہ کرو اپنے دل سے (اس پر گرفت ہے)۔ اور ہے اللہ درگزر کرنے والا اور مہربان۔
اگر ایک چچا یا تایا اپنے بھائی کی اولاد کو بیٹا سمجھتا ہے یا پکارتا ہے یا شفقت کا شلوک کرتا ہے تو وہ اس کا حقیقی بیٹا نہیں ہوا۔ تو ایسا ہونا بہت مشکل ہے کہ وہ لامنتہا عقل و فراست و حکمت جو اللہ تعالی نے رسول اکرم صلعم کو فراہم کی اس کی موجودگی میں بہت ہی مشکل ہے کہ ان کی زبان مبارکہ سے قران کے خلاف کوئی بات نکلے لہذا اس روایت کو اگ طرح طرح کی تاویلات سے درست ثابت کردیا جائے تو پھر قرآن کا ایک اصول کمزور ہو جاتا ہے۔ اس قسم کے کنفیوژ کرنے والے معاملات نے رسول کے اقوال کے ساتھ جگہ پائی اور اس طرح‌بعد میں طرح طرح کی مصیبتوں کی جڑ ثابت ہوئے۔

آپ خود غور فرما سکتے ہیں، کوئی صاحب اگر ان میں سے دو تین مزید روایتوں کی قران سے بنیاد فراہم کردیں تو تہہ دل سے شکر گزار ہوں گا۔

والسلام
اول بات تو یہ ہے کہ فقط آپکی سمجھ پر تو قرآن کی آیت کی تفھیم کا انحصار ہرگز نہیں آپ جو چاہے سمجھتے رہیں یہ آپکی سمجھ کا کمال ہے رہی بات یہ کہ اس حدیث میں چچا کو باپ کی مانند قرار دیا گیا ہے تو اس میں اتنی پریشانی کی کوئی بات نہیں چچا کو باب با اعتبار نسب یا با اعتبار دیگر وراثتی معاملات کہ نہیں کہا گیا بلکہ با اعتبار قدرو منزلت کہ کہا گیا ہے بطور مراتب کہا گیا اور ایسا کہنے سے یہ ہرگز مراد نہیں کہ آدمی کا چچا اس کا حقیقی باپ بن گیا بلکہ ایک طریقے سے چچا کی بھی اسی عزت اور مرتبے کا احساس دلانے کی بات کی گئی ہے کہ جو کسی بھی انسان کے دل میں اس کے حقیقی باپ کی ہوتی ہے کیونکہ چچا کو بھی ایک طرح سے نسبت نسبی حاصل ہوتی ہے کہ آدمی کا حقیقی باپ اور حقیقی چچا دونوں ایک باپ (یعنی دادا)کی اولاد ہوتے ہیں ۔ ۔ تو اس حدیث سے یہی مراد ہے کہ انسان اپنے چچا کے ادب میں بھی اسی احترام کو ملحوظ خاطر رکھے جو کہ وہ اپنے باپ کے ادب میں رکھتا ہے اور اسی ادب و احترام میں دونوں کو ایک دوسرے کی مانند کہا گیا ہے نہ کہ حقیقت نسب میں ۔ ۔ ۔ ۔
 

باذوق

محفلین
فاروق صاحب محترم !
میرے بہت سے سوالات کے جوابات آپ پر ادھار باقی ہیں۔ اور ۔۔۔۔۔۔۔ جو باتیں مجھے کہنا تھا ، وہ تمام باتیں میں تفصیل سے کہہ چکا ہوں۔
اب آپ نے چونکہ کوئی نئی بات نہیں نکالی ہے لہذا میری طرف سے بھی اب خاموشی سمجھ لیں۔

ویسے یاد رہے کہ ، جو الزامات آپ نے مجھ پر لگائے ، اور جن کے ثبوت میں نے آپ سے مانگے ، وہ آپ اب تک دے نہیں پائے ہیں !!
 

آبی ٹوکول

محفلین
آبی تو کول سلام۔ ، 5:48 اور 5:49 دیکھ لیجئے ۔ شکریہ۔
وعلیکم السلام محترم مجھے یہآپکے 5:48 اور 49 کی سمجھ نہیں آئی آب بس سیدھے سے میرے سوال کا جواب دیں کہ کسی بھی آیت کو قرآن پر پیش کرنے سے آپ مراد کیا لیتے ہیں ؟ کیا ہر ہر حدیث کے الفاط کا مذکور قرآن میں ہونا ضروری ہے یا پھر آپکی مراد کسی بھی حدیث کے قرآن کے الفاظ کے خلاف‌ہونے سے ہے ؟ نیز یہ بھی کہ ہر حدیث کو جانچنے کا یہ اصول کہ اسے پہلے قرآن پر پیش کیا جائے یہ کس آیت سے استنباط شدہ ہے؟
 

بنتِ حوا

محفلین
السلام علیکم محترمہ بنت حوا صاحبہ! قطع نظر اس کے مذکورہ حدیث کی تمام کی تمام اسناد ضعیف ہیں ۔ عرض یہ ہے کہ جہاں آپ مذکروہ حدیث کی تمام کی تمام اسناد کے ضعف پر مطلع ہوگی تھیں تو وہاں آپ سے یہ خبر کیسے اوجھل رہ گئی کہ مذکورہ بالا پیش کردہ حدیث فضائل کے باب میں سے ہے اور اگر روایت صحیح نہ ہو بلکہ ضعیف ہو تو فضائل اعمال اور ترغیب (یعنی کسی کام کی طرف رغبت دلانا ) اور ترہیب (یعنی کسی کام کے کرنے سے ڈرانا یعنی منع کرنا ) کے معاملات میں قابل عمل ہوتی ہے جیسا کہ جمہور محدثین کا اس باب میں فیصلہ ہے اور محدثین کی اکثریت کی اس باب میں تصریحات ہیں ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لہذا محدثین کےجمہور کے اس فیصلہ کے پیش نظر کہ فضائل کے باب میں ضعیف حدیث بھی معتبر ہوتی ہیں اس قسم کی احادیث پر عمل کرلینا جائز ہے اور باعث برکت ہے ۔کیونکہ ضعیف حدیث عقائد و احکام کے علاوہ جمہور کے نزدیک قابل عمل ہے ، عقائد و احکام کے باب میں تشدد (یعنی سختی یعنی صرف صحیح حدیث کا قابل حجت ہونا) جب کے ترہیب و ترغیب کے باب میں تساہل (یعنی سستی و نرمی یعنی ضعیف احادیث کا بھی قابل عمل ہونا) مشھور محدث حافظ سخاوی علیہ رحمہ نے امام احمد، ابن معین ،،ابن المبارک،سفیان ثوری اور ابن عینیہ سے نقل کی ہے ۔ اور امام نووی نے تو اس پر اجماع کا دعوٰی نقل کیا ہے ۔
امام نووی کی الاربعین کی شرح میں ابن حجر مکی فرماتے ہیں کہ فضائل اعمال کے باب میں ضعیف حدیث پر عمل پر علماء کا اتفاق ہے کیونکہ اگر وہ واقعی صحیح تھی تو اس کو اسکا حق مل گیا
(یعنی اس پر عمل ہوجانے کی صورت میں) وگرنہ اس پر عمل کرنے سے نہ تو حلال کو حرام کرنا لازم آیا اور نہ ہی اس کے برعکس اور نہ ہی کسی کا حق مارا گیا ۔ ۔۔
لہزا اوپر پیش کی گئی حدیث کا فضائل کے باب میں سے ہونا بداہتا ثابت ہے کہ اس حدیث سے کوئی فرض یا واجب حکم ثابت نہیں ہورہا بلکہ دینی مسائل پر مشتمل 40 احادیث نبوی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو امت تک پہنچانے کے باب کی ترغیب دی جارہی ہے اس عمل کی فضیلت کے ساتھ ساتھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

عمل کی فضیلت صرف اللہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے سے ہوگی ہمارے کہنے سے نہیں اس کا رسول اللہ صلی اللہ وسلم سے ثابت ہونا ضروری ہے۔۔ضعیف حدیث ثابت ہی نہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتی ہی نہیں تو اس پر عمل کیسے کر سکتے ہیں؟ ضعیف حدیث بیان کرتے وقت اس کا ضعف ضرور بیان کرنا چاہیے تا کہ اگلے سننے والے کے علم میں آسکے کہ یہ روایت ضعیف ہے تا کہ وہ آگے پہنچاتے وقت بھی اسی احتیاط سے کام لے۔۔۔
ان میں سے صرف اس پر عمل ہو سکتا ہے جو شریعت کی نفی نہیں کرتی اور جس میں اس کی فضیلت نہ بیان کی گئی ہو صرف عمل کرنے کی طرف ترغیب دلائی گئی ہو بغیر فضیلت بیان کیے کیوں کہ فضیلت کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہونا ضروری ہے۔۔۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
عمل کی فضیلت صرف اللہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے سے ہوگی ہمارے کہنے سے نہیں اس کا رسول اللہ صلی اللہ وسلم سے ثابت ہونا ضروری ہے۔۔ضعیف حدیث ثابت ہی نہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتی ہی نہیں تو اس پر عمل کیسے کر سکتے ہیں؟ ضعیف حدیث بیان کرتے وقت اس کا ضعف ضرور بیان کرنا چاہیے تا کہ اگلے سننے والے کے علم میں آسکے کہ یہ روایت ضعیف ہے تا کہ وہ آگے پہنچاتے وقت بھی اسی احتیاط سے کام لے۔۔۔
ان میں سے صرف اس پر عمل ہو سکتا ہے جو شریعت کی نفی نہیں کرتی اور جس میں اس کی فضیلت نہ بیان کی گئی ہو صرف عمل کرنے کی طرف ترغیب دلائی گئی ہو بغیر فضیلت بیان کیے کیوں کہ فضیلت کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہونا ضروری ہے۔۔۔
محترمہ انتہائی معذرت کے ساتھ کہ آپ سے کس نے کہہ دیا کہ یہاں فضیلت کی نسبت عام انسانوں کی طرف کی گئی ہے جب کسی کا یہ دعوٰی ہی نہیں تو پھر خوامخواہ میں ایک ایسی بحث کو چھیڑ کر کیوں خلط مبحث کررہی ہیں آپ ؟
یہاں جو حدیث پیش کی گئی ہے اس میں جو عمل بیان ہوا ہے اس کی ترغیب اور فضیلت دونوں کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے فرمان کی تصریح ہے ۔
رہ گئی ضعیف حدیث پر عمل کرنے یا نہ کرنے کی بات تو اس کے لیے ہمیں آپکی رائے درکار نہیں جب کے امت کے جید محدثین اور فقھاء اس بات میں متفق ہیں کہ ضعیف حدیث اعمال اور ترغیب و ترہیب کے باب میں معتبر ہے ۔ ۔ ۔
رہا آپکا یہ فرمانا کہ ضعیف روایت سے جس عمل کی فضیلت ثابت کرنا مقصود ہوتا ہے وہ عمل اس روایت کے ضعیف ہوجانے کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پایہ ثبوت کو ہی نہیں پہنچتا تو یہ بھی آپ کا قلت فھم ہے کہ ضعیف روایت کا مفاد عدم ثبوت متن(یعنی مذکورہ عمل کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک عدم ثبوت کو ) نہیں چاہتا بلکہ اس روایت کا ضعف عدم صحت پر دلالت کرتا ہے اور روایت حدیث ہی کہلاتی ہے(اسی لیے موضوع حدیث جو کہ ضعیف کا سب سے نچلا درجہ ہے اسکو بھی حدیث ہی کہتے ہیں) اور اس روایت سے جس مسئلہ کا استنباط ہو وہ مسئلہ اپنے ثبوت کے اثبات کے بطور اپنے رفع میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی فعلی یا تقریری حدیث ہی کہلائے گا لیکن یہ الگ بات ہے کہ اس کے ثبوت میں وہ قوت نہیں جو کہ صحیح حدیث کا خاصہ ہوا کرتی ہے ۔ ۔ ۔ لہزا یہ بات یاد رکھیے کہ ضعیف حدیث ہمیشہ اپنی صحت کے اعتبار سے ضعیف ہوتی ہے اور اسکا ضعف اس کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک ثبوت کو مستلزم نہیں بلکہ عدم صحت کو مفاد ہے یعنی ایسی حدیث سے ثابت ہونے والا عمل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی ثابت ہوگا مگر قوت یعنی صحیح کی بجائے ضعف یعنی کمزوری سے پایہ ثبوت کو پہنچے گا
 
السلام علیکم محترم فاروق سرور صاحب ! آپ سے یہ کس نے کہہ دیا کہ تمام کی تمام احادیث کسی نہ کسی قرآنی آیت کے مخصوص الفاظ کی ہی وضاحت میں ہی وارد ہوئی ہیں واضح رہے کہ ہم نے یہاں قرآن کے مخصوص الفاظ کی تشریح کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ یہ بھی تو ہوسکتا ہے نہ کے بہت سی احادیث قرآن کی آیات کے عمومی حکم کی تفھیم کے بطور وراد ہوئی ہوں اب یہ تو آپ جیسے صاحب فھم پر بھی روشن ہی ہوگا کہ
کسی آیت کے الفاظ کی تشریح اور کسی آیت سے استنباط شدہ حکم کی تشریح دو مختلف چیزیں ہیں اب دیکھیں ناں قرآن میں غرور و تکبر کرنے والوں کی مزمت کی گئی ہے اور اکڑ اکڑ کر چلنے سے واضح طور پر منع کیا گیا ہے تو جس حدیث کی طرف آپ اشارہ کررہے اس کی تو جیہ میں آپ یہ کیوں نہیں باور کرلیتے کہ اس سے ایسے لوگ مراد ہیں جو کہ لباس فاخرانہ بطور تکبر زیب تن کیا کرتے تھے اور نتیجتا ان کا لباس اس قدر طویل ہوا کرتا تھا کہ زمین پر گھسٹتا تھا اور میں نے بعض تاریخی خوالہ جات میں پڑھا کہ بعض امراء لباس کے معاملے میں اس قدر افراط کا شکار تھے کہ اتنا لمبا لباس زیب تن کیا کرتے تھے کہ ان کے پیچھے ان کے خادمین لباس کے فالتو حصے کو اٹھا اٹھا کر چلا کرتے تھے لہذا اس حدیث سے اس قسم کے رحجانات کی مذمت کرنا بھی تو ہوسکتا ہے اور خاص طور پر اس وقت جب کے اکثر محدثین اس کی تشریح میں غرور و تکبر کے عنصر کے نمایاں ہونے کی علت کو بیان کیا ہو ۔ ۔۔




اول بات تو یہ ہے کہ فقط آپکی سمجھ پر تو قرآن کی آیت کی تفھیم کا انحصار ہرگز نہیں آپ جو چاہے سمجھتے رہیں یہ آپکی سمجھ کا کمال ہے رہی بات یہ کہ اس حدیث میں چچا کو باپ کی مانند قرار دیا گیا ہے تو اس میں اتنی پریشانی کی کوئی بات نہیں چچا کو باب با اعتبار نسب یا با اعتبار دیگر وراثتی معاملات کہ نہیں کہا گیا بلکہ با اعتبار قدرو منزلت کہ کہا گیا ہے بطور مراتب کہا گیا اور ایسا کہنے سے یہ ہرگز مراد نہیں کہ آدمی کا چچا اس کا حقیقی باپ بن گیا بلکہ ایک طریقے سے چچا کی بھی اسی عزت اور مرتبے کا احساس دلانے کی بات کی گئی ہے کہ جو کسی بھی انسان کے دل میں اس کے حقیقی باپ کی ہوتی ہے کیونکہ چچا کو بھی ایک طرح سے نسبت نسبی حاصل ہوتی ہے کہ آدمی کا حقیقی باپ اور حقیقی چچا دونوں ایک باپ (یعنی دادا)کی اولاد ہوتے ہیں ۔ ۔ تو اس حدیث سے یہی مراد ہے کہ انسان اپنے چچا کے ادب میں بھی اسی احترام کو ملحوظ خاطر رکھے جو کہ وہ اپنے باپ کے ادب میں رکھتا ہے اور اسی ادب و احترام میں دونوں کو ایک دوسرے کی مانند کہا گیا ہے نہ کہ حقیقت نسب میں ۔ ۔ ۔ ۔

محترم آبی ٹو کول:
یہ خیالات آپ کے کنجیکچرز (تکے) ہیں ہیں یا رسول اللہ صلعم نے "آدمی کا چچا باپ کی مانند ہے:" کی تشریح اس طرح ‌فرمائی تھی؟
 

arifkarim

معطل
فاروق بھائی کیا آپ جانتے ہیں کہ شاید مرزا غلام احمد قادیانی نے بھی آج سے 100 سال قبل یہ کہا تھا کہ ہم مسلمانوں‌ کو حق ہے کہ جو حدیث قرآن کریم کی تعلیمات کی منافی ہیں، انہیں‌ رد کر دیا جائے؟ :eek:
 

آبی ٹوکول

محفلین
محترم آبی ٹو کول:
یہ خیالات آپ کے کنجیکچرز (تکے) ہیں ہیں یا رسول اللہ صلعم نے "آدمی کا چچا باپ کی مانند ہے:" کی تشریح اس طرح ‌فرمائی تھی؟
میرے محترم پہلے معذرت چاہوں گا میں آپکی بات سمجھ نہیں سکا کہ آپ نے کیا فرمایا ہے اور پوچھنا کیا چاہ رہے ؟ ہین
 
اول بات تو یہ ہے کہ فقط آپکی سمجھ پر تو قرآن کی آیت کی تفھیم کا انحصار ہرگز نہیں آپ جو چاہے سمجھتے رہیں یہ آپکی سمجھ کا کمال ہے رہی بات یہ کہ اس حدیث میں چچا کو باپ کی مانند قرار دیا گیا ہے تو اس میں اتنی پریشانی کی کوئی بات نہیں چچا کو باب با اعتبار نسب یا با اعتبار دیگر وراثتی معاملات کہ نہیں کہا گیا بلکہ با اعتبار قدرو منزلت کہ کہا گیا ہے بطور مراتب کہا گیا اور ایسا کہنے سے یہ ہرگز مراد نہیں کہ آدمی کا چچا اس کا حقیقی باپ بن گیا بلکہ ایک طریقے سے چچا کی بھی اسی عزت اور مرتبے کا احساس دلانے کی بات کی گئی ہے کہ جو کسی بھی انسان کے دل میں اس کے حقیقی باپ کی ہوتی ہے کیونکہ چچا کو بھی ایک طرح سے نسبت نسبی حاصل ہوتی ہے کہ آدمی کا حقیقی باپ اور حقیقی چچا دونوں ایک باپ (یعنی دادا)کی اولاد ہوتے ہیں ۔ ۔ تو اس حدیث سے یہی مراد ہے کہ انسان اپنے چچا کے ادب میں بھی اسی احترام کو ملحوظ خاطر رکھے جو کہ وہ اپنے باپ کے ادب میں رکھتا ہے اور اسی ادب و احترام میں دونوں کو ایک دوسرے کی مانند کہا گیا ہے نہ کہ حقیقت نسب میں ۔ ۔

برادر محترم۔ یہ آپ کے اپنے خیالات ہیں یا رسول اکرم کی فرمائی ہوئی تشریح اس روایت کی؟
روایت یہ ہے کہ "آدمی کا چچا باپ کی مانند ہے"

میں یہ اپنا نکتہ نظر حوالہ کے ساتھ پیش کرچکا ہوں‌کہ یہ توریت کی ایک مفروضہ آیت ہے ؟ جس کی توثیق قرآن نے نہیں‌کی۔
 
آپ کی آسانی کے لئے میں نے اپنے جملے ہرے رنگ سے لکھے ہیں ۔ باقی سب کٹ پیسٹ ہے تاکہ آپ کو پیلے سے موجود ریفرنس کی شناخت میں آسانی رہے۔

قرآن واضح طور پر بہت ہی صاف الفاظ میں تعین کرتا ہے کہ کوئی فیصلہ کیسے کیا جائے گا۔
قرآن:
[AYAH]5:48[/AYAH] اور (اے نبئ مکرّم!) ہم نے آپ کی طرف (بھی) سچائی کے ساتھ کتاب نازل فرمائی ہے جو اپنے سے پہلے کی کتاب کی تصدیق کرنے والی ہے اور اس (کے اصل احکام و مضامین) پر نگہبان ہے، پس آپ ان کے درمیان ان (احکام) کے مطابق فیصلہ فرمائیں جو اﷲ نے نازل فرمائے ہیں اور آپ ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں، اس حق سے دور ہو کر جو آپ کے پاس آچکا ہے۔ ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لئے الگ شریعت اور کشادہ راہِ عمل بنائی ہے، اور اگر اﷲ چاہتا تو تم سب کو (ایک شریعت پر متفق) ایک ہی امّت بنا دیتا لیکن وہ تمہیں ان (الگ الگ احکام) میں آزمانا چاہتا ہے جو اس نے تمہیں (تمہارے حسبِ حال) دیئے ہیں، سو تم نیکیوں میں جلدی کرو۔ اﷲ ہی کی طرف تم سب کو پلٹنا ہے، پھر وہ تمہیں ان (سب باتوں میں حق و باطل) سے آگاہ فرمادے گا جن میں تم اختلاف کرتے رہتے تھے

[AYAH]5:49[/AYAH] اور (اے حبیب! ہم نے یہ حکم کیا ہے کہ) آپ ان کے درمیان اس (فرمان) کے مطابق فیصلہ فرمائیں جو اﷲ نے نازل فرمایا ہے اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں اور آپ ان سے بچتے رہیں کہیں وہ آپ کو ان بعض (احکام) سے جو اللہ نے آپ کی طرف نازل فرمائے ہیں پھیر (نہ) دیں، پھر اگر وہ (آپ کے فیصلہ سے) روگردانی کریں تو آپ جان لیں کہ بس اﷲ ان کے بعض گناہوں کے باعث انہیں سزا دینا چاہتا ہے، اور لوگوں میں سے اکثر نافرمان (ہوتے) ہیں


اس آیت کی روشنی میں احادیث نبوی:
حوالہ
http://hadith.al-islam.com/Display/Display.asp?Doc=1&Rec=6851
‏حدثنا ‏ ‏هداب بن خالد الأزدي ‏ ‏حدثنا ‏ ‏همام ‏ ‏عن ‏ ‏زيد بن أسلم ‏ ‏عن ‏ ‏عطاء بن يسار ‏ ‏عن ‏ ‏أبي سعيد الخدري ‏
‏أن رسول الله ‏ ‏صلى اللہ عليہ وسلم ‏ ‏قال ‏ ‏لا تكتبوا عني ومن كتب عني غير القرآن فليمحہ وحدثوا عني ولا حرج ومن كذب علي ‏ ‏قال ‏ ‏همام ‏ ‏أحسبه قال متعمدا ‏ ‏فليتبوہ ‏ ‏مقعدہ من النار
اردو مفہوم :
[ARABIC]هداب بن خالد الأزدي ‏ ‏حدثنا ‏ ‏همام ‏ ‏عن ‏ ‏زيد بن اسلم ‏ ‏عن ‏ ‏عطاء بن يسار ‏ ‏عن ‏ ‏أبي سعيد [/ARABIC]سے مروی ہے کہ یقیناَ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری طرف سے نہ لکھو، اور جسنے میری طرف سے کچھ بھی لکھا قرآن کے علاوہ، وہ اس کو تلف کردے اور میرے طرف سے بتا دو ایسا کرنے (تلف کرنے) میں کوئی حرج نہیں اور جس کسی نے مجھ (رسول پرنور) سے کوئی بھی غلط بات منسوب کی - اور حمام فرماتے ہیں کہ انہوں نے "جانتے بوجھتے" ہوئے کا لفظ بھی استعمال کیا - اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔

انگریزی:
University of Southern Califofornia
http://www.usc.edu/dept/MSA/fundamen....html#042.7147
Abu Sa'id Khudri reported that Allah's Messenger (may peace be upon him) said: Do not take down anything from me, and he who took down anything from me except the Qur'an, he should efface that and narrate from me, for there is no harm in it and he who attributed any falsehood to me-and Hammam said: I think he also said:" deliberately" -he should in fact find his abode in the Hell-Fire.
From Printed Book:​

صحیح مسلم کتاب 1، صفحہ 211، حدیث 594
پرنٹر: مکتبہ عدنان، بیروت، 1967
Saheeh Muslim, vol 1 pg 211 Hadith number 594, Printer Maktab a Adnan, Beirut 1967
The Prophet (S) commanded, La taktabu ‘anni ghair-al-Qur’an; wa mun kataba ‘anni ghair-al-Qur’an falyamhah. (Write from me nothing but the Qur’an and if anyone has written, it must be obliterated​


کتاب اللہ کی روشنی میں جانچ ایک اور حدیث
"اذا روی عنی حدیث فاعر ضوہ علی کتاب اللہ فان وافق فاقبلوہ و الا تذروہ "
کوئی روایت کی جائے میری طرف سے تو اس کوکتاب اللہ کی روشنی میں جانچ کرلیں۔ اگر موافق ہے تو اس کو قبول کرلیں ورنہ اس کو پھینک دیں۔

یہ روایت بن باز نے ڈاکٹر شبیر احمد کو لکھی، اصل خط کا میں خود گواہ ہوں۔ اس کی سکین شدہ کاپی ان کی اجازت سے پیش کرچکا ہوں۔ ڈاکٹر شبیر احمد ، جناب مترجم اور مفسر القرآن ہیں ۔ باقاعدہ تبلیغ‌کرتے ہیں اور ایک نیک انسان ہیں۔ کسی پیری مریدی پر یقین نہیں رکھتے ۔ اپنی کمائی ہوئی دولت سے تبلیغ کرتے ہیں۔

مزید لنک:

[ARABIC]أخبرنا ‏ ‏يزيد بن هارون ‏ ‏أخبرنا ‏ ‏همام ‏ ‏عن ‏ ‏زيد بن أسلم ‏ ‏عن ‏ ‏عطاء بن يسار ‏ ‏عن ‏ ‏أبي سعيد الخدري ‏
أن النبي ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏قال ‏ ‏لا تكتبوا عني شيئا إلا القرآن فمن كتب عني شيئا غير القرآن فليمحه ‏[/ARABIC]

اردو مفہوم:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مت لکھو مجھ سے کوئی شے علاوہ قرآن کے اور جس نے لکھا ہے مجھ سے کوئی شے قرآن کے علاوہ وہ اس کو تلف کردے۔


اس مد میں اللہ تعالی کی مزید آیات جو اس اصول کو بہت ہی وضاحت سے بیان کرتی ہیں۔ یہ سب لنک ہیں 23 تراجم کی طرف، تاکہ آسانی رہے۔
قرآن ہی مفصل کتاب ہے۔:

[ayah]6:114[/ayah] (فرما دیجئے:) کیا میں اﷲ کے سوا کسی اور کو حاکم (و فیصل) تلاش کروں حالانکہ وہ (اﷲ) ہی ہے جس نے تمہاری طرف مفصّل (یعنی واضح لائحہ عمل پر مشتمل) کتاب نازل فرمائی ہے، اور وہ لوگ جن کو ہم نے (پہلے) کتاب دی تھی (دل سے) جانتے ہیں کہ یہ (قرآن) آپ کے رب کی طرف سے (مبنی) برحق اتارا ہوا ہے پس آپ (ان اہلِ کتاب کی نسبت) شک کرنے والوں میں نہ ہوں (کہ یہ لوگ قرآن کا وحی ہونا جانتے ہیں یا نہیں)

قرآن ہے ہر فیصلے کے لئے:
[ayah]6:19[/ayah] آپ (ان سے دریافت) فرمائیے کہ گواہی دینے میں سب سے بڑھ کر کون ہے؟ آپ (ہی) فرما دیجئے کہ اﷲ میرے اور تمہارے درمیان گواہ ہے، اور میری طرف یہ قرآن اس لئے وحی کیا گیا ہے کہ اس کے ذریعے تمہیں اور ہر اس شخص کو جس تک (یہ قرآن) پہنچے ڈر سناؤں۔ کیا تم واقعی اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ اﷲ کے ساتھ دوسرے معبود (بھی) ہیں؟ آپ فرما دیں: میں (تو اس غلط بات کی) گواہی نہیں دیتا، فرما دیجئے: بس معبود تو وہی ایک ہی ہے اور میں ان(سب) چیزوں سے بیزار ہوں جنہیں تم (اﷲ کا) شریک ٹھہراتے ہو

[ayah]7:52[/ayah] اور بیشک ہم ان کے پاس ایسی کتاب (قرآن) لائے جسے ہم نے (اپنے) علم (کی بنا) پر مفصّل (یعنی واضح) کیا، وہ ایمان والوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے

مسلمانوں کے لئے ہدایت:
[ayah]16:89[/ayah] اور (یہ) وہ دن ہوگا (جب) ہم ہر امت میں انہی میں سے خود ان پر ایک گواہ اٹھائیں گے اور (اے حبیبِ مکرّم!) ہم آپ کو ان سب (امتوں اور پیغمبروں) پر گواہ بنا کر لائیں گے، اور ہم نے آپ پر وہ عظیم کتاب نازل فرمائی ہے جو ہر چیز کا بڑا واضح بیان ہے اور مسلمانوں کے لئے ہدایت اور رحمت اور بشارت ہے

اسی کتاب سے فیصلے کرو:
[ayah]4:105[/ayah] بےشک ہم ہی نے نازل کی ہے تمہاری طرف (اے نبی!) یہ کتاب حق کے ساتھ تاکہ تم فیصلے کرو لوگوں کے درمیان اس (علم و حکمت) کے مطابق جو سکھائی ہے تم کو اللہ نے۔ اور مت بنو تم خیانت کرنے والوں کے طرف دار۔
 
فاروق بھائی کیا آپ جانتے ہیں کہ شاید مرزا غلام احمد قادیانی نے بھی آج سے 100 سال قبل یہ کہا تھا کہ ہم مسلمانوں‌ کو حق ہے کہ جو حدیث قرآن کریم کی تعلیمات کی منافی ہیں، انہیں‌ رد کر دیا جائے؟ :eek:

شکریہ۔
مجھے قادنیوں کے جھوٹے نبی کے بارے میں‌کچھ بھی علم نہیں۔ میرا قادیانیت سے کوئی تعلق نہیں۔
البتہ اس مد میں رسول اکرم نے کیا فرمایا، وہ اس سے پیشتر پیغام میں احادیث و روایات لکھی ہیں۔
قرآن اسلامی عقائد کا مرکز ہے ۔ آپ 23 مترجمین کا ترجمہ ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ ان روایات کے لنک سعودی حکومت کی وزارۃ سے دیا گیا ہے۔ کہ اللہ تعالی کے نزدیک اور اس کے رسول کے نزدیک قران کی اسلام میں کیا اہمیت ہے۔ اسی کتاب کو پیش کرنے کے لئے اللہ تعالی نے محمد العربی کو رسول اللہ مقرر کیا۔

کچھ لوگ کیوں چاہتے ہیں کہ توریت اور انجیل سے آیات لے کر مسلمانوں کے دین کا حصہ بنا دی جائیں۔ بھائی اگر قران کو ایسے ہی توریت اور انجیل سے باندھنا ہے تو یہ لوگ صاف صاف کیوں‌نہیں کہتے؟

یہ درست ہے کہ جو رسول دیں وہ لے لو یا یہ کہ رسول کی اطاعت کرو۔ ان آیات اور روایات سے صاف ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلعم کے کسی بھی فرمان کی خصوصیات کیا ہیں؟ آپ دیکھیں گے کہ ایک طرف تو یہ روایات سعودی حکومت کی ویب سائٹ سے ہیں۔ جو سعودی علماء ‌ قبول کرتے ہیں لیکن ہمارے کچھ ساتھی جو تارک الرسول و منکر الحدیث و القرآن واقع ہوئے ہیں ، وہ اس پر اعتراضات کی اچھل پھاند مچا دیں گے۔

یاد رکھئے کہ تارک الحدیث، تارک الرسول ، منافقین کا سب سے پہلا حربہ ہے " تمہاری پیش کی ہوئی روایت ضعیف ہے" یعنی اس نے آپ کی پیش کی ہوئی روایت سے صاف انکار کردیا۔ اس طرح "ضعف "‌ کی آڑ میں ۔ معنوں کی آڑ میں ، تاویلات کی آڑ میں ہر اس روایت سے انکار کردیا جاتا ہے جو کسی بھی صحت یا اسناد کےساتھ پیش کی جائے۔ لمبی لمبی بحث کرکے ایسے شخص کو ہی مرتد قرار دیتے ہیں۔ وجہ صرف اور صرف ایک رہی ہے۔ کھانا پینا۔ زکوۃ ، صدقات اور خیرات کو اپنی طرف بہنے دینا۔ دنیاوی لالچ، اس کی بنیادی وجہ ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ایک بھی اصل کتاب روایت موجود نہیں ہے، جو بخاری نے ، یا مسلم نے لکھی ہو۔ صرف سنی سنائی ہوئی روایتوں کا یہ حال ہے کہ ایک ہی روایت کے کئی کئی متن ہیں ، مختلف اسناد ہیں اور سب سے بڑھ ، بہت سی قرآن کے خلاف ہیں۔

اور دوسری طرف یہ اگر کوئی روایت قرآن کے خلاف بھی ہو تو یہ اس کے ساتھ انسانی اسناد لگا کر اپنی پیش کردہ روایات کو مستند قرار دیتے ہیں ، چاہے وہ قران کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔

والسلام۔
 

arifkarim

معطل
یقینا یہ آخری زمانہ کی نشانیاں ہیں۔ احادیث و فقہ و قرآن کے عالم تو بغداد اور قرطوبہ میں آج سے کئی سو سال قبل تک اپنے علوم اور کرامتوں‌ سے ہم مسلمانوں‌ کو نوازتے رہے۔ اور آج ہم کہتے ہیں‌ کہ یہ حدیث مستند نہیں‌، وہ حدیث کمزور ہے وغیرہ وغیرہ۔ ہر کسی نے اپنے ڈیڑھ اینٹ کا اسلام بنایا ہوا ہے۔ اللہ تعالی ہم سب سیدھے رستے پر چلائے- اٰمین
 
یقینا یہ آخری زمانہ کی نشانیاں ہیں۔ احادیث و فقہ و قرآن کے عالم تو بغداد اور قرطوبہ میں آج سے کئی سو سال قبل تک اپنے علوم اور کرامتوں‌ سے ہم مسلمانوں‌ کو نوازتے رہے۔ اور آج ہم کہتے ہیں‌ کہ یہ حدیث مستند نہیں‌، وہ حدیث کمزور ہے وغیرہ وغیرہ۔ ہر کسی نے اپنے ڈیڑھ اینٹ کا اسلام بنایا ہوا ہے۔ اللہ تعالی ہم سب سیدھے رستے پر چلائے- اٰمین

آخری زمانہ کے بارے میں کبھی کبھی میں اس آٰیت پر سوچتا رہا ہوں۔
[ayah]9:33 [/ayah] [arabic]هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ[/arabic]
وہی ہے وہ ذات جس نے بھیجا اپنا رسُول ہدایت اور دین حق کے ساتھ تاکہ غالب کردے اسے تمام ادیان پر خواہ (یہ بات) کتنی ہی ناگوار ہو مشرکوں کو۔

ذرا غور فرمائیے، کہ دین حق یعنی سچا دین تمام ادیان پر غالب آجائے گا۔ مشرکین کو قرآن کا یہ نظام بہت ہی برا لگے گا۔ تو یہ نظام ہے کیا؟‌ اسکا سیاسی نظام کیا ہے؟ اس کا مالی نظام کیا ہے؟ اس کا سماجی نظام کیا ہے؟‌ اس کے حقوق انسانی ، صنف، رنگ ، نسل، مذہب اور علاقیت کی بنیادوں پر کیا ہیں؟ اس کا عدل و انصاف کا نظام کیا ہے؟ اس کا قانون سازی کا نظام کیا ہے؟ اور یہ غالب کیسے آتا ہے؟ کیا اس قرآنی نظام کو ہم نے مکمل طور پر شناخت کرلیا ہے؟ کیا یہ نظام دنیا میں کہیں موجود ہے؟ اگر ہے تو کس طور آگے بڑھ رہا ہے؟ جو گروہ غالب ہیں کیا وہ اس نظام پر عمل کررہے ہیں؟

ایک بات تو طے ہے کہ ہمارے ایمان کے مطابق، جب تک یہ نظام دنیا کے تمام نظاموں‌ پر غالب نہ آجائے، یہ پیشین گوئی پوری نہیں ہوگی۔ جب حق و انصاف کا یہ مکمل نظام غالب آجائے گا تو وہ وقت ہوگا کہ ہم کہہ سکیں کہ اب ہمارے ایمان کے مطابق شائد آخری وقت قریب آگیا ہے۔
اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
والسلام
 

باذوق

محفلین
باذوق صاحب۔
آپ کافی کنفیوژ ہیں ، اور بھول بھی جاتے ہیں‌کہ کیا کہا، کیا پوچھا


بقول باذوق:
میں نے کب کہا کہ :
کوئی بھی صحیح حدیث قرآن کے خلاف نہیں ہو سکتی !
(‌ باذوق ‌نہیں مانتے ہیں)
محترم فاروق صاحب سے بہت ادب کے ساتھ گذارش ہے کہ آئیندہ سے میری کوئی بات کوٹ کریں تو باقاعدہ Quote کے لنک کے ساتھ پیش کریں۔
دوسروں کے کوٹ کو "باذوق" کا قول بنا کر پیش کرنا ، صریحاَ بددیانتی ہی نہیں بہتان طرازی بھی ہے جو ہم مسلمانوں کو قطعاً زیب نہیں دیتی !!

اوپر کے کوٹ میں ، میں نے جن الفاظ کو بڑے حرفوں میں بتایا ہے ، اس کا ثبوت فراہم کیجئے کہ کہاں میں نے ایسا لکھا ہے؟
اور اس سے پہلے بھی میں کئی مراسلوں میں ناظمین کے علم میں یہ بات لا چکا ہوں کہ محترم فاروق صاحب بار بار مجھ سے ایسے اقوال منسوب کر دیتے ہیں جو میں نے کہیں بھی لکھے نہیں ہوتے۔ اور جب ثبوت مانگتا ہوں تو کبھی نہیں دیتے۔
پلیز ۔۔۔ پلیز ۔۔۔ آئیندہ سے ایسا نہ کیا جائے تو آپ کی بڑی مہربانی ہوگی۔ اگر میری کسی بات کو کوٹ کرنا اتنا ہی ضروری ہو تو باقاعدہ Quote کے لنک کے ساتھ پیش کیجئے گا ، آپ کی بہت بہت نوازش ہوگی !
 

آبی ٹوکول

محفلین
اول بات تو یہ ہے کہ فقط آپکی سمجھ پر تو قرآن کی آیت کی تفھیم کا انحصار ہرگز نہیں آپ جو چاہے سمجھتے رہیں یہ آپکی سمجھ کا کمال ہے رہی بات یہ کہ اس حدیث میں چچا کو باپ کی مانند قرار دیا گیا ہے تو اس میں اتنی پریشانی کی کوئی بات نہیں چچا کو باب با اعتبار نسب یا با اعتبار دیگر وراثتی معاملات کہ نہیں کہا گیا بلکہ با اعتبار قدرو منزلت کہ کہا گیا ہے بطور مراتب کہا گیا اور ایسا کہنے سے یہ ہرگز مراد نہیں کہ آدمی کا چچا اس کا حقیقی باپ بن گیا بلکہ ایک طریقے سے چچا کی بھی اسی عزت اور مرتبے کا احساس دلانے کی بات کی گئی ہے کہ جو کسی بھی انسان کے دل میں اس کے حقیقی باپ کی ہوتی ہے کیونکہ چچا کو بھی ایک طرح سے نسبت نسبی حاصل ہوتی ہے کہ آدمی کا حقیقی باپ اور حقیقی چچا دونوں ایک باپ (یعنی دادا)کی اولاد ہوتے ہیں ۔ ۔ تو اس حدیث سے یہی مراد ہے کہ انسان اپنے چچا کے ادب میں بھی اسی احترام کو ملحوظ خاطر رکھے جو کہ وہ اپنے باپ کے ادب میں رکھتا ہے اور اسی ادب و احترام میں دونوں کو ایک دوسرے کی مانند کہا گیا ہے نہ کہ حقیقت نسب میں ۔ ۔

برادر محترم۔ یہ آپ کے اپنے خیالات ہیں یا رسول اکرم کی فرمائی ہوئی تشریح اس روایت کی؟
روایت یہ ہے کہ "آدمی کا چچا باپ کی مانند ہے"

میں یہ اپنا نکتہ نظر حوالہ کے ساتھ پیش کرچکا ہوں‌کہ یہ توریت کی ایک مفروضہ آیت ہے ؟ جس کی توثیق قرآن نے نہیں‌کی۔

محترم یہاں آپ توثیق سے کیا مراد لے رہے ہیں ؟کیا آپ واضح کرنا پسند کریں گے؟ کیا توثیق سے آپکی مراد اس آیت کا بھی قرآن میں بعینہ مذکور ہونا ہے یا اور کچھ اور ؟
رہی یہ بات کے ہمارا بیان کردہ مذکورہ حدیث کا مفھوم کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح ہے تو جناب ہم نے کب کہا کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح ہے ہم نے تو بالکل اسی طرح اس حدیث کا ایک مفھومی اور مرادی معنٰی بیان کیا جس طرح آپ ایک مفھوم مراد لیکر حدیث کی غلط تشریح کرکے حدیث کو مخالف قرآن ٹھرانے کی کوشش کررہے تھے اگر آپ کا بیان کردہ حدیث کا وہ مفھوم کسی قرآن کی آیت سے بعینہ الفاظ کی صورت میں اخذ کردہ یا پھر سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اخذ کردہ ہے تو برائے مہربانی وہ‌ آیت یا حدیث یہاں بطور استدلال پیش کی جائے
اور دوسرا یہ کہ ابھی تک آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا مجھے کہ ہر ہر حدیث کو قرآن پر پیش کرو یہ اصول قرآن کی کس آیت سے آپ نے استنباط کیا ہے؟ مجھے آیت چاہیے کہ جس کہ یہ الفاظ ہوں کے جو بھی تمہیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم دیں اسے پہلے قرآن پر پرکھو پھر قبول کرو ۔ ۔ ۔ ۔ وہ بھی واضح الفاظ میں بغیر کسی بھی تاویل کے یعنی فقط قرآن کے ظاہری الفاظ کے مطابق الفاظ کے ہیر پھر سےپاک انداز میں بغیر معنوی اعتبار اختیار کیے ہوئے نیز تشبیہات سے پاک ۔ ۔ ۔ ۔امید کرتا ہوں آپ جواب سے جلد نوازیں گے
 

آبی ٹوکول

محفلین
اور دوسری طرف یہ اگر کوئی روایت قرآن کے خلاف بھی ہو تو یہ اس کے ساتھ انسانی اسناد لگا کر اپنی پیش کردہ روایات کو مستند قرار دیتے ہیں ، چاہے وہ قران کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔

والسلام۔
معاف کیجئے گا محترم اگر آپ کے نزدیک احادیث کو انسانی اسناد لگا کر مستند بنا کر پیش کیا جاتا ہے تو کیا میں یہ پوچھ سکتا ہوں کہ قرآن کونسی الہامی (یعنی غیر انسانی )اسناد کے زریعے آپ تک پہنچا ہے؟
 

باذوق

محفلین
معاف کیجئے گا محترم اگر آپ کے نزدیک احادیث کو انسانی اسناد لگا کر مستند بنا کر پیش کیا جاتا ہے تو کیا میں یہ پوچھ سکتا ہوں کہ قرآن کونسی الہامی (یعنی غیر انسانی )اسناد کے زریعے آپ تک پہنچا ہے؟
بہت خوب آبی ٹو کول ! یہی سوال میں نے ذرا تفصیل سے یہاں واضح کیا تھا۔
لیکن اب بہتر یہی ہے کہ محترم فاروق صاحب آپ کے اس مختصر سوال کا مختصر جواب ہی عنایت فرمائیں۔
 

باذوق

محفلین
کچھ لوگ کیوں چاہتے ہیں کہ توریت اور انجیل سے آیات لے کر مسلمانوں کے دین کا حصہ بنا دی جائیں۔ بھائی اگر قران کو ایسے ہی توریت اور انجیل سے باندھنا ہے تو یہ لوگ صاف صاف کیوں‌نہیں کہتے؟

یہ درست ہے کہ جو رسول دیں وہ لے لو یا یہ کہ رسول کی اطاعت کرو۔ ان آیات اور روایات سے صاف ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلعم کے کسی بھی فرمان کی خصوصیات کیا ہیں؟ آپ دیکھیں گے کہ ایک طرف تو یہ روایات سعودی حکومت کی ویب سائٹ سے ہیں۔ جو سعودی علماء ‌ قبول کرتے ہیں لیکن ہمارے کچھ ساتھی جو تارک الرسول و منکر الحدیث و القرآن واقع ہوئے ہیں ، وہ اس پر اعتراضات کی اچھل پھاند مچا دیں گے۔

یاد رکھئے کہ تارک الحدیث، تارک الرسول ، منافقین کا سب سے پہلا حربہ ہے " تمہاری پیش کی ہوئی روایت ضعیف ہے" یعنی اس نے آپ کی پیش کی ہوئی روایت سے صاف انکار کردیا۔ اس طرح "ضعف "‌ کی آڑ میں ۔ معنوں کی آڑ میں ، تاویلات کی آڑ میں ہر اس روایت سے انکار کردیا جاتا ہے جو کسی بھی صحت یا اسناد کےساتھ پیش کی جائے۔ لمبی لمبی بحث کرکے ایسے شخص کو ہی مرتد قرار دیتے ہیں۔ وجہ صرف اور صرف ایک رہی ہے۔ کھانا پینا۔ زکوۃ ، صدقات اور خیرات کو اپنی طرف بہنے دینا۔ دنیاوی لالچ، اس کی بنیادی وجہ ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ایک بھی اصل کتاب روایت موجود نہیں ہے، جو بخاری نے ، یا مسلم نے لکھی ہو۔ صرف سنی سنائی ہوئی روایتوں کا یہ حال ہے کہ ایک ہی روایت کے کئی کئی متن ہیں ، مختلف اسناد ہیں اور سب سے بڑھ ، بہت سی قرآن کے خلاف ہیں۔

اور دوسری طرف یہ اگر کوئی روایت قرآن کے خلاف بھی ہو تو یہ اس کے ساتھ انسانی اسناد لگا کر اپنی پیش کردہ روایات کو مستند قرار دیتے ہیں ، چاہے وہ قران کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔

والسلام۔
جناب محترم ، آپ یہ تمام باتیں کافی مرتبہ یہاں محفل پر دہرا چکے ہیں۔ صرف اپنی پرانی پوسٹس کا لنک دے دیتے تو بھی کافی تھا ، کم سے کم دوسروں کو بھی پتا چل جاتا کہ آپ کی ان تمام باتوں کا جواب بھی دیا جا چکا ہے۔
خیر آپ بقول فلاں فلاں ایک منظور نظر شخصیت ہیں ، سو پچاس بار بھی محفل پر اپنی ہی باتوں کو دہراتے جائیں تو ہم بھلا آپ کا کیا بگاڑ سکتے ہیں؟
بہرحال ۔۔۔

reminder/rejoinder
1۔ طریقۂ نماز سے متعلق آپ نے ایک تھریڈ پیش کیا ، جس پر میرے یہ سوالات ہیں ، جن کے جواب آپ کب عنایت فرمائیں گے؟

2۔ سورة الانعام : 6 ، آیت : 145 کے متعلق میں نے تفصیل سے ثابت کیا ہے کہ اگر صحیح حدیث کو حجت نہ مانا جائے تو وہ ظاہراً قرآن سے ٹکراتی نظر آئیں گی۔
آپ آیت بالا سے متعلق ٹو دی پوائینٹ تبصرہ تو کر دیں۔

3۔ آپ نے فرمایا کہ قرآن کچھ معاملات پر خاموش ہے۔ پھر آپ یہ بھی کہتے ہیں کہ :
قرآن ایک مکمل کتاب اور ایک کسوٹی ہے تمام احکامات کے لئے۔
یہاں اسی لیے میں نے پوچھا ہے کہ قرآن اگر تمام احکامات کے لیے کسوٹی ہے تو پھر وہ نماز جیسی اہم عبادت کی ہئیت و طریقہ کار کے متعلق کیوں کچھ نہیں بتاتا؟

محترم فاروق صاحب ، آپ یہ مت سمجھئے کہ محفل کے کسی رکن بنام فاروق سرور خان سے یہ ذاتی سوالات کئے جا رہے ہیں۔
نہیں ! بلکہ یہ سوالات ، اسی تھریڈ میں آپ کے پیش کردہ افکار و نظریات کے نتیجے میں اٹھ کھڑے ہوئے ہیں جس کا آپ نے ضرور جواب دینا ہے (بشرطیکہ دینا چاہیں ۔۔۔)۔
شکریہ۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
بہت خوب آبی ٹو کول ! یہی سوال میں نے ذرا تفصیل سے یہاں واضح کیا تھا۔
لیکن اب بہتر یہی ہے کہ محترم فاروق صاحب آپ کے اس مختصر سوال کا مختصر جواب ہی عنایت فرمائیں۔

شکریہ باذوق بھائی میں ابھی تفصیل سے آپ کا مہیا کردہ لنک پڑھتا ہوں ۔ ۔۔
 

قسیم حیدر

محفلین
آپ ، نعوذ باللہ ، رسول اکرم اور ازواج مطہرات کو ایک ہی ٹب میں نہلا رہے تھے اور تاویلات سے اصرار کررہے تھے کہ ایسا کرنا درست ہے جبکہ اس کا تعلق نہ تو ایمان سے ہے اور نہ ہی قرآن سے۔ میں کس طور اس بے شرم اور بے حیائی کے کام میں آپ کا شریک بن سکتا ہوں۔ لہذا اس مد میں کوئی بحث کرنا بے کار سمجھا۔
[/color]
اس قسم کی علمی بد دیانتیوں کی نشاندہی میں نے پہلے بھی کی تھی کہ حدیث کی اندھا دھند مخالفت میں صحیح احادیث کا مفہوم بدل کر پیش کیا جاتا ہے۔ جناب، ذرا حوالہ دے کر بتائیں کہ میں نے کب یہ لکھا تھا اور کونسی حدیث میں ہے کہ ایک ہی ٹب میں نہایا جاتا تھا؟ جس صحیح حدیث کو آپ توڑ مروڑ کر پیش کر رہے ہیں اس میں تو کہیں ایک ٹب میں نہانے کا ذکر نہیں۔
 
Top