آبی ٹوکول
محفلین
السلام علیکم محترم فاروق سرور صاحب ! آپ سے یہ کس نے کہہ دیا کہ تمام کی تمام احادیث کسی نہ کسی قرآنی آیت کے مخصوص الفاظ کی ہی وضاحت میں ہی وارد ہوئی ہیں واضح رہے کہ ہم نے یہاں قرآن کے مخصوص الفاظ کی تشریح کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ یہ بھی تو ہوسکتا ہے نہ کے بہت سی احادیث قرآن کی آیات کے عمومی حکم کی تفھیم کے بطور وراد ہوئی ہوں اب یہ تو آپ جیسے صاحب فھم پر بھی روشن ہی ہوگا کہاوپر فراہم کردہ روایات میں سے کونسی قرآن کی کسوٹی پر پوری اترتی ہیں؟ اگر کتب روایات قرآن کی تشریح ہے تو پھر ہر روایت قرآن کی روشنی میں پوری اترنی جاہئیے۔ کچھ لوگ ایسا نہیں چاہتے ، کیوں ، مجھے اب تک کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکا اس بارے میں ۔
اب دیکھئے۔
اب نمبر 7 دیکھئے:
ٹخنوں کا جو حصہ پائجامے سے نیچے رہے گا وہ جہنم میںجائے گا۔
کوئی صاحب اس کی بنیادی آیت فراہم کرسکتے ہیں؟ جہنم کی سزا کا فیصلہ یقیناً اللہ تعالی کے احکامات پر منحصر ہے۔ اب یہ کس آیت کی تشریح ہے احباب مدد فرمائیں۔
کسی آیت کے الفاظ کی تشریح اور کسی آیت سے استنباط شدہ حکم کی تشریح دو مختلف چیزیں ہیں اب دیکھیں ناں قرآن میں غرور و تکبر کرنے والوں کی مزمت کی گئی ہے اور اکڑ اکڑ کر چلنے سے واضح طور پر منع کیا گیا ہے تو جس حدیث کی طرف آپ اشارہ کررہے اس کی تو جیہ میں آپ یہ کیوں نہیں باور کرلیتے کہ اس سے ایسے لوگ مراد ہیں جو کہ لباس فاخرانہ بطور تکبر زیب تن کیا کرتے تھے اور نتیجتا ان کا لباس اس قدر طویل ہوا کرتا تھا کہ زمین پر گھسٹتا تھا اور میں نے بعض تاریخی خوالہ جات میں پڑھا کہ بعض امراء لباس کے معاملے میں اس قدر افراط کا شکار تھے کہ اتنا لمبا لباس زیب تن کیا کرتے تھے کہ ان کے پیچھے ان کے خادمین لباس کے فالتو حصے کو اٹھا اٹھا کر چلا کرتے تھے لہذا اس حدیث سے اس قسم کے رحجانات کی مذمت کرنا بھی تو ہوسکتا ہے اور خاص طور پر اس وقت جب کے اکثر محدثین اس کی تشریح میں غرور و تکبر کے عنصر کے نمایاں ہونے کی علت کو بیان کیا ہو ۔ ۔۔
اول بات تو یہ ہے کہ فقط آپکی سمجھ پر تو قرآن کی آیت کی تفھیم کا انحصار ہرگز نہیں آپ جو چاہے سمجھتے رہیں یہ آپکی سمجھ کا کمال ہے رہی بات یہ کہ اس حدیث میں چچا کو باپ کی مانند قرار دیا گیا ہے تو اس میں اتنی پریشانی کی کوئی بات نہیں چچا کو باب با اعتبار نسب یا با اعتبار دیگر وراثتی معاملات کہ نہیں کہا گیا بلکہ با اعتبار قدرو منزلت کہ کہا گیا ہے بطور مراتب کہا گیا اور ایسا کہنے سے یہ ہرگز مراد نہیں کہ آدمی کا چچا اس کا حقیقی باپ بن گیا بلکہ ایک طریقے سے چچا کی بھی اسی عزت اور مرتبے کا احساس دلانے کی بات کی گئی ہے کہ جو کسی بھی انسان کے دل میں اس کے حقیقی باپ کی ہوتی ہے کیونکہ چچا کو بھی ایک طرح سے نسبت نسبی حاصل ہوتی ہے کہ آدمی کا حقیقی باپ اور حقیقی چچا دونوں ایک باپ (یعنی دادا)کی اولاد ہوتے ہیں ۔ ۔ تو اس حدیث سے یہی مراد ہے کہ انسان اپنے چچا کے ادب میں بھی اسی احترام کو ملحوظ خاطر رکھے جو کہ وہ اپنے باپ کے ادب میں رکھتا ہے اور اسی ادب و احترام میں دونوں کو ایک دوسرے کی مانند کہا گیا ہے نہ کہ حقیقت نسب میں ۔ ۔ ۔ ۔نمبر 21 دیکھئے۔ کہ
" آدمی کا چچا اس کے باپ کی مانند ہے"
کوئی صاحب یا صاحبہ مدد فرمائیں کہ یہ کس آیت کی تشریح ہے۔
مجھے یہ روایت قرآن کے مخالف لگتی ہے، کیوں؟ دیکھئے درج ذیل آیات
[ayah]33:4[/ayah] نہیں بنائے ہیں اللہ نے کسی شخص کے لیے دو دل اس کے سینے میں اور نہیں بنایا ہے اللہ نے تمہاری ان بیویوں کو جنہیں تم ماں کہہ بیٹھتے ہو، تمہاری مائیں اور نہیں قرار دیا تمہارے منہ بولے بیٹوں کو، تمہارا حقیقی بیٹا۔ یہ باتیں محض قول ہے تمہارا جو تم اپنے منہ سے نکالتے ہو جبکہ اللہ فرماتا ہے سچی بات اور وہی ہدایت دیتا ہے سیدھے راستہ کی۔
[ayah]33:5[/ayah] پکارو انہیں ان کے باپوں کی نسبت سے یہ بات زیادہ منصفانہ ہے اللہ کے نزدیک، پھر اگر نہ جانتے ہو تم ان کے باپوں کو تو وہ تمہارے بھائی ہیں دین کے لحاظ سے اور تمہارے رفیق ہیں۔ اور نہیں ہے تم پر کوئی گرفت ان باتوں میں جو کہہ دیتے ہو تم نادانستہ لیکن وہ بات جس کا تم ارادہ کرو اپنے دل سے (اس پر گرفت ہے)۔ اور ہے اللہ درگزر کرنے والا اور مہربان۔
اگر ایک چچا یا تایا اپنے بھائی کی اولاد کو بیٹا سمجھتا ہے یا پکارتا ہے یا شفقت کا شلوک کرتا ہے تو وہ اس کا حقیقی بیٹا نہیں ہوا۔ تو ایسا ہونا بہت مشکل ہے کہ وہ لامنتہا عقل و فراست و حکمت جو اللہ تعالی نے رسول اکرم صلعم کو فراہم کی اس کی موجودگی میں بہت ہی مشکل ہے کہ ان کی زبان مبارکہ سے قران کے خلاف کوئی بات نکلے لہذا اس روایت کو اگ طرح طرح کی تاویلات سے درست ثابت کردیا جائے تو پھر قرآن کا ایک اصول کمزور ہو جاتا ہے۔ اس قسم کے کنفیوژ کرنے والے معاملات نے رسول کے اقوال کے ساتھ جگہ پائی اور اس طرحبعد میں طرح طرح کی مصیبتوں کی جڑ ثابت ہوئے۔
آپ خود غور فرما سکتے ہیں، کوئی صاحب اگر ان میں سے دو تین مزید روایتوں کی قران سے بنیاد فراہم کردیں تو تہہ دل سے شکر گزار ہوں گا۔
والسلام