Fawad – Digital Outreach Team – US State Department
محترم،
آپکے کا کہنا ہے کہ عراق ميں تشدد کی کاروائياں "غير ملکی جارحيت" کے خلاف مسلح جدوجہد ہے۔ اگر يہ بات درست ہوتی تو يہ "جدوجہد" صرف مسلح افواج کے خلاف ہوتی، ليکن ايسا نہيں ہے۔ حقيقت يہ ہے کہ دہشت گردی کی زيادہ تر کاروائياں معصوم اور بے گناہ شہريوں پر مرکوز ہيں۔
اس وقت عراق امدادی تنظيموں کے خلاف سب سے زيادہ پرتشدد کاروائيوں کے ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں صرف 2007 ميں ايسی تنظيموں پر 51 حملے کيے گئے۔
دنيا بھر ميں امدادی تنظيموں پر براہراست حملہ اس ملک کی آبادی پر حملہ تصور کيا جاتا ہے کيونکہ يہ تنظيميں کسی مسلح کاروائ ميں ملوث نہيں ہوتيں بلکہ مقامی لوگوں کی مدد کر رہی ہوتی ہيں۔ انتہا پسند گروپوں کی جانب سے جاری يہ کاروائياں کسی جارح فوج کے خلاف مقدس جدوجہد کا حصہ نہيں بلکہ اپنے مذموم ارادوں کی تکميل کے ليے ہے۔
چند ہفتے پہلے الغزل نامی بازار ميں ذہنی معذور لڑکيوں کے ذريعے 100 سے بے گناہ عراقی شہريوں کا قتل اورعراقی عوام کے خلاف دہشت گردی کی ايسی ہی سينکڑوں کاروائياں کس "مسلح فوج" کے خلاف ہيں؟
اپنی تمام تر کمزوريوں، خاميوں اور مسائل کے باوجود اس وقت عراق ميں 12 ملين ووٹوں سے منتخب ہو کر آنے والی حکومت موجود ہے جو تمام تر مشکلات کے باوجود عراق کا نظام چلا رہی ہے۔ يہ حکومتی نظام تمام تر چيلنجز کے باوجود صدام کے دور حکومت سے بہتر ہے۔ عراق کا مستقبل اسی حکومتی ڈھانچے کی کاميابی سے وابستہ ہے جس ميں يقينی طور پر بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ ان دہشت گرد گروپوں کی کاروائياں اس حکومتی نظام کو کمزور کر رہی ہيں تاکہ اپنا نظام قائم کر سکيں۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov
عراق پر بغیر کسی قانونی جواز کے حملہ آور ہوا ہے اور اس سے آزادی حاصل کرنے کی خواہش کرنے والوں کو کسی طور بھی دہشت گرد نہیں کہا جا سکتا۔ یہ میرا خیال نہیں بلکہ اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے عین مطابق ہے کہ جارحیت کرنے والے کو روکا جائے گا۔
محترم،
آپکے کا کہنا ہے کہ عراق ميں تشدد کی کاروائياں "غير ملکی جارحيت" کے خلاف مسلح جدوجہد ہے۔ اگر يہ بات درست ہوتی تو يہ "جدوجہد" صرف مسلح افواج کے خلاف ہوتی، ليکن ايسا نہيں ہے۔ حقيقت يہ ہے کہ دہشت گردی کی زيادہ تر کاروائياں معصوم اور بے گناہ شہريوں پر مرکوز ہيں۔
اس وقت عراق امدادی تنظيموں کے خلاف سب سے زيادہ پرتشدد کاروائيوں کے ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں صرف 2007 ميں ايسی تنظيموں پر 51 حملے کيے گئے۔
دنيا بھر ميں امدادی تنظيموں پر براہراست حملہ اس ملک کی آبادی پر حملہ تصور کيا جاتا ہے کيونکہ يہ تنظيميں کسی مسلح کاروائ ميں ملوث نہيں ہوتيں بلکہ مقامی لوگوں کی مدد کر رہی ہوتی ہيں۔ انتہا پسند گروپوں کی جانب سے جاری يہ کاروائياں کسی جارح فوج کے خلاف مقدس جدوجہد کا حصہ نہيں بلکہ اپنے مذموم ارادوں کی تکميل کے ليے ہے۔
چند ہفتے پہلے الغزل نامی بازار ميں ذہنی معذور لڑکيوں کے ذريعے 100 سے بے گناہ عراقی شہريوں کا قتل اورعراقی عوام کے خلاف دہشت گردی کی ايسی ہی سينکڑوں کاروائياں کس "مسلح فوج" کے خلاف ہيں؟
اپنی تمام تر کمزوريوں، خاميوں اور مسائل کے باوجود اس وقت عراق ميں 12 ملين ووٹوں سے منتخب ہو کر آنے والی حکومت موجود ہے جو تمام تر مشکلات کے باوجود عراق کا نظام چلا رہی ہے۔ يہ حکومتی نظام تمام تر چيلنجز کے باوجود صدام کے دور حکومت سے بہتر ہے۔ عراق کا مستقبل اسی حکومتی ڈھانچے کی کاميابی سے وابستہ ہے جس ميں يقينی طور پر بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ ان دہشت گرد گروپوں کی کاروائياں اس حکومتی نظام کو کمزور کر رہی ہيں تاکہ اپنا نظام قائم کر سکيں۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov