E=mc2
آئن سٹائن کا یہ مشہور سا کلیہ ہے
کہ ای مساوی ایم سی اسکوئیر کے ہوتا ہے
یعنی مادہ نور کی چاہت میں
خود کو نور بنا سکتا ہے چاہے تو
بس اپنی رفتار بڑھانی ہے اس کو
اور یوں مادہ خود بھی نور ہی بن جاتا ہے
تیری میری پیار کہانی بھی کچھ ایسی ہے
یعنی تو اک نور کا پیکر ہے
اور میں مادہ، جو بس تجھ سا بننے کو
شب و روز رفتار بڑھائے جاتا ہے
واہہہہہہہہہہ
کیا خوب نظم کیا ہے سائنس اور روحانیات کو بٹ صاحب
فزکس سے تو انجان ہوں اس لیئے اس مساوات سے بھی تشریحی تعارف نہیں ہے میرا ۔
مادہ جب سفر میں ہو تو کیسے رگڑ کا شکار ہوتا ہے اور جل کر روشن لکیر بنتا ہے ۔
بچپن میں تارہ ٹوٹتے دیکھتے تو بڑے بزرگ بتاتے کہ شیطانوں کو گرز پڑ رہے ہیں ۔
کچھ بڑے ہوئے تو یہ شہاب ثاقب کا گرنا ٹھہرا ۔
میرے خیال سے آپ نے
" اس کائنات کی ازلی و ابدی اس پراسرار طاقت کو جو کہ " مادے اور توانائی " پر اثر انداز ہوتے اس کی حالت بدل دیتی ہے ۔
اپنی نظم کا استعارہ بناتے " انسانی " جسم خاکی میں مقید روح " سے کلام کیا ہے ۔ کہ اگر " بظاہر بے جان مادہ جب روشنی کی رفتار کا تعاقب کرتا ہے تو اس رفتار کو پاتے پاتے اپنا وجود جلا کر راکھ کر دیتا ہے ۔ اور اک شعلہ سے جل کر خود روشنی کی مثال ٹھہرتا ہے ۔
تو یہ جسم خاکی جو مادیت کی علامت ہے اگر روشنی بننا چاہے تو اسے اپنے مرکز نور کے اتباع میں اپنی خواہش نفس سے چھٹکارہ پانے کے لیئے کڑی ریاضت میں الجھنا لازم ہے ۔