ظفری

لائبریرین
پہلے بصد احترام آپ کے دوسرے جملے سے ایک گزارش کے ساتھ متفق ہیں کہ اگر آپ "اس کے بعد" کی بجائے لفظ "اور" استعمال فرماتے تو شائد زیادہ مناسب لگتا ۔کیونکہ قرآن مجید بھی دراصل ارشادات نبویہ میں سے ہی ہے کہ اللہ عزوجل کے جس کلام کو آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن کہہ دیا ، ہمارے لئے وہی قرآن ہو گیا۔اسی لئے علماء کرام آقا علیہ الصلاۃ والسلام کے ارشادات کے لئے وحی متلو اور وحی غیر متلو کی اصطلاح استعمال فرماتے ہیں، یعنی ایک وہ وحی جس کی تلاوت کی جاتی ہے یعنی قرآن مجید اور دوسری وہ وحی جس کی تلاوت نہیں کی جاتی یعنی احادیث مبارکہ۔ اور اس کی دلیل آیت "وما ینطق عن الھویٰ ، ان ھو الاّ وحیً یوحیٰ " کو بناتے ہیں۔۔۔ ۔البتہ حفظ مراتب میں ہمیشہ قرآن و حدیث ہی لکھا اور پڑھا جاتا ہےیعنی قرآن اور حدیث۔ لیکن اوپر لکھے گئے انداز سے کچھ ناپختہ ذہن ابہام کا شکار ہو جاتے ہیں اور حفظ مراتب کے چکر میں لذت ادب سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ، حالانکہ ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں۔۔۔
یہ صرف ایک گزارش تھی اور متفق تو ہم ہیں ہی کہ دین کا مستند ترین ماخذ قرآن و حدیث ہی ہے۔۔۔ ہاں اوپر والی لذت کا حصول محض مباح ہے،لازمی نہیں۔ اگر کسی کو یہ نہیں چاہیئے تو اس سے کوئی جھگڑا نہیں۔۔۔ :)
آپ نے بہت بڑی بات کہہ دی ہے ۔ پہلے قرآن اور حدیث کا فرق سمجھ لیں ۔ پھر بات ہوگی۔ ماشاءاللہ یہاں بھی بڑے قابل لوگ ہیں ۔ ان سے مدد لیں ۔
 
آپ نے بہت بڑی بات کہہ دی ہے ۔ پہلے قرآن اور حدیث کا فرق سمجھ لیں ۔ پھر بات ہوگی۔ ماشاءاللہ یہاں بھی بڑے قابل لوگ ہیں ۔ ان سے مدد لیں ۔
بھائی جان آپ غور کریں الشفاء درست کہ رہے ہیں :)
انکا انداز عشق رسالت میں ڈوبا ہوا ہے۔ :)
 
اللہ ہم سب پر اپنا رحم فرمائے ۔ آمین
میری آپ سے فرمائش ہے کہ ایک مرتبہ آپ منہاج العابدین ضرور پڑھیں ۔ آپ سمجھ جائیں گے کہ صوفیا اصل میں چاہتے کیا ہیں۔ اب تک کی معلومات پر تکیہ نا کریں میں جانتا ہوں آپ ماشآاللہ صاحب علم ہیں :)
 

ظفری

لائبریرین
میری آپ سے فرمائش ہے کہ ایک مرتبہ آپ منہاج العابدین ضرور پڑھیں ۔ آپ سمجھ جائیں گے کہ صوفیا اصل میں چاہتے کیا ہیں۔ اب تک کی معلومات پر تکیہ نا کریں میں جانتا ہوں آپ ماشآاللہ صاحب علم ہیں :)
پڑھی ہوئی ہے ۔
 

قیصرانی

لائبریرین
بھائی جان آپ غور کریں الشفاء درست کہ رہے ہیں :)
انکا انداز عشق رسالت میں ڈوبا ہوا ہے۔ :)
یعنی آپ یہ فرما رہے ہیں کہ قرآن اللہ کا کلام نہیں بلکہ نبی پاک ص کا کلام ہے؟ کیا یہ کفر نہیں جسے آپ عشق رسول کی صورت دے رہے ہیں؟ الفاظ کا چناؤ بہت غیر محتاط ہے
 

ساقی۔

محفلین
بھائی جان آپ غور کریں الشفاء درست کہ رہے ہیں :)
انکا انداز عشق رسالت میں ڈوبا ہوا ہے۔ :)
تھوڑی سے وضاحت فرما دیں کہ کس طرح درست کہہ رہے ہیں ۔ عشق رسول بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا اللہ اور اس کے رسول نے اجازت دی ہے ۔ اب کوئی عشق رسول میں قبر رسول کو سجدے شروع کر دے تو اس کی یہ دلیل تو نہیں مانی جائے گی بلکہ وہ تو مشرک ہو جائے گا ۔
 
آخری تدوین:

ظفری

لائبریرین
میں نے مکاشفۃ القلوب تو بہت دفعہ پڑھی ہے۔ اور منہاج العابدین بھی زیادہ مرتبہ :) میں نے شریعت اور طریقت کے درمیان کوئی شرط بیان نہیں کی شاید کسی اور دوست نے یہ بات کی ہوگی۔ البتہ طریقت کے بارے میں یہ کہ سکتا ہوں کہ کشف المحجوب میں سید علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ جو صوفی کہے کہ مجھے قرآن و سنت (یا شریعت کا لفظ استعمال کیا تھا) کی حاجت نہیں وہ صوفی نہیں کافر ہے۔
شہاب الدین سہروردی تو اپنے الہام کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ وہ اس درجے میں پہنچ جاتا ہے کہ " لاء یتی باطل البین یدھ خفلیہ " یہ ان کے الفاظ ہیں۔
یہ بات میں نے واقعی کسی کتاب میں نہیں پڑھی اس لئے تبصرہ نہیں کرسکتا۔
البتہ صوفیا کی کچھ باتیں واقعی اتنی مشکل ہوتی ہیں کہ عوام کی سمجھ میں نہیں آتیں۔ لیکن وہ بھی قرآن و سنت کے خلاف نہیں ہوسکتیں۔
شریعت اور طریقت کے درمیان تعلق یہ ہے کہ طریقت بھی شریعت کا حصہ ہے۔ جو طریقت کی بات شریعت کے خلاف جاتی ہو وہ قابل قبول نہیں ہے۔
مجھے اس سے اتفاق ہے کہ جب صوفیاء کی باتوں کی تاویل کریں تو ان کی ساری بات پیشِ نظر ہونی چاہیئے ۔ مگر بہت ساری ایسی باتیں ہیں کہ ان کی کوئی تاویل نہیں ہیں ۔ یعنی ان کتابوںمیں جو عبارتیں آئیں ہیں اور جن سیاق و سباق میں آئیں ہیں ۔ ان کی آپ کوئی تاویل نہیں کرسکتے ۔ مجھے بتائیں کہ اس کی کیا تاویل کریں گے کہ" عام لوگ بھی یعنی خواص میں سے ( میں نبی کے معاملے میں عام لوگ کہہ رہا ہوں ) اس درجے پر پہنچ جاتے ہیں وہ وہیں سے ہدایت اخذ کرتے ہیں جہاں سے پیغمبراخذ کرتے ہیں ۔ ان کے الہام کو ان کے شیخ کے پاس امانت کے طور پر رکھا جاتا ہے ۔ جس طرح جبرئیل پیغمبر کے الہام میں کسی قسم کی خیانت نہیں کرتے ۔ وہ بھی اسی طرح اس الہام میں کوئی خیانت نہیں کرتے ۔ ان کے مریدین کے اس الہام کو پہنچانا ان کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ ان کو یہ الہام عصمت کے مقام پر فائز کرتا ہے ۔ "۔بلکل یہی الفاظ شہاب الدین سہروردی نے استعمال کیئے ہیں ۔ یہ صرف ایک شخص کا معاملہ نہیں ہے ۔ سب نے انہی افکار کو اپنی کتب میں بیان کیا ہے ۔
باقی آپ نے لکھا کہ صوفیوں کی باتیں مشکل ہوتیں ہیں ۔ عام شخص نہیں سمجھ سکتا ۔ مگر وہ قرآن و سنت کے خلاف نہیں ہوسکتیں ۔ جب ایک عام آدمی ان باتوں کو سمجھ ہی نہیں سکتا تو وہ یہ فیصلہ کیسے کرسکتا ہے کہ یہ قرآن و سنت کے منافی نہیں ہیں ۔
 
مجھے اس سے اتفاق ہے کہ جب صوفیاء کی باتوں کی تاویل کریں تو ان کی ساری بات پیشِ نظر ہونی چاہیئے ۔ مگر بہت ساری ایسی باتیں ہیں کہ ان کی کوئی تاویل نہیں ہیں ۔ یعنی ان کتابوںمیں جو عبارتیں آئیں ہیں اور جن سیاق و سباق میں آئیں ہیں ۔ ان کی آپ کوئی تاویل نہیں کرسکتے ۔ مجھے بتائیں کہ اس کی کیا تاویل کریں گے کہ" عام لوگ بھی یعنی خواص میں سے ( میں نبی کے معاملے میں عام لوگ کہہ رہا ہوں ) اس درجے پر پہنچ جاتے ہیں وہ وہیں سے ہدایت اخذ کرتے ہیں جہاں سے پیغمبراخذ کرتے ہیں ۔ ان کے الہام کو ان کے شیخ کے پاس امانت کے طور پر رکھا جاتا ہے ۔ جس طرح جبرئیل پیغمبر کے الہام میں کسی قسم کی خیانت نہیں کرتے ۔ وہ بھی اسی طرح اس الہام میں کوئی خیانت نہیں کرتے ۔ ان کے مریدین کے اس الہام کو پہنچانا ان کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ ان کو یہ الہام عصمت کے مقام پر فائز کرتا ہے ۔ "۔بلکل یہی الفاظ شہاب الدین سہروردی نے استعمال کیئے ہیں ۔ یہ صرف ایک شخص کا معاملہ نہیں ہے ۔ سب نے انہی افکار کو اپنی کتب میں بیان کیا ہے ۔
باقی آپ نے لکھا کہ صوفیوں کی باتیں مشکل ہوتیں ہیں ۔ عام شخص نہیں سمجھ سکتا ۔ مگر وہ قرآن و سنت کے خلاف نہیں ہوسکتیں ۔ جب ایک عام آدمی ان باتوں کو سمجھ ہی نہیں سکتا تو وہ یہ فیصلہ کیسے کرسکتا ہے کہ یہ قرآن و سنت کے منافی نہیں ہیں ۔
حضرت سہروردی رحمۃ اللہ علیہ نے جو فرمایا میں اس پر تبصرہ نہیں کر سکتا جب تک وہ کتاب خود پڑھ کر سمجھ نا لوں تو معذرت ، البتہ عام آدمی صوفیا کی جن باتوں کو سمجھ نہیں سکتا ۔ وہ بھی اور جن کو سمجھ سکتا ہے اس کا بھی قرآن و سنت کے مطابق ہونے کا فیصلہ کرنا علماء کا کام ہے آدمی کا تو یہ کام ہی نہیں۔ کیونکہ یہ نازک کام ہے۔
 

ساقی۔

محفلین
باقی آپ نے لکھا کہ صوفیوں کی باتیں مشکل ہوتیں ہیں ۔ عام شخص نہیں سمجھ سکتا ۔ مگر وہ قرآن و سنت کے خلاف نہیں ہوسکتیں ۔ جب ایک عام آدمی ان باتوں کو سمجھ ہی نہیں سکتا تو وہ یہ فیصلہ کیسے کرسکتا ہے کہ یہ قرآن و سنت کے منافی نہیں ہیں ۔

واقعی ظفری ٹھیک کہہ رہے ہیں ۔ جب عام آدمی کے لیے وہ نہیں ہیں تو انہین چھپوانے کی کیا ضرورت ہے ۔ بلکہ انہیں بائی ہینڈ ان تک پہنچا دینا چاہیے جو ان کے اہل ہیں ۔ اور اگر چھپوائی بھی ہیں تو اوپر لکھ دیں کہ "عام آدمی دور سے سلام کر کے گزر جائے اس کے بس کی بات نہین"

میں نے اکثر مولوی حضرات کو یہ بات کرتے ہوئے دیکھا ہے کہ یہ بات عوام کے لیے ہے اور یہ خواص کے لیے ۔ اسلام میں عام اور خاص کہاں سے در آئے؟ دین تو سب کے لیے ایک ہے چاہے وہ لالو جٹ ہو یا کو ئی عالم
 

ظفری

لائبریرین
حضرت سہروردی رحمۃ اللہ علیہ نے جو فرمایا میں اس پر تبصرہ نہیں کر سکتا جب تک وہ کتاب خود پڑھ کر سمجھ نا لوں تو معذرت ، البتہ عام آدمی صوفیا کی جن باتوں کو سمجھ نہیں سکتا ۔ وہ بھی اور جن کو سمجھ سکتا ہے اس کا بھی قرآن و سنت کے مطابق ہونے کا فیصلہ کرنا علماء کا کام ہے آدمی کا تو یہ کام ہی نہیں۔ کیونکہ یہ نازک کام ہے۔
تبصرہ تو آپ نے کیا ہے ۔
 
اگر تصوف، دین کا ہی اخذ کردہ ہے تو اس کا کوئی ماخذ بھی ہوگا ۔ اور ابھی تک اس ماخذ کا کوئی حوالہ سامنے نہیں آیا ہے۔ رہی بات تصوف میں لوگوں کے تصور کے مختلف پہلوؤں کی تو وہ پہلو بذات خود ایک دین کا ماخذ بن رہا ہے ۔ ( اصل مسئلہ یہ ہے )۔
آپکی بات کچھ الجھی الجھی سی لگ رہی ہے۔ معذرت چاہتا ہوں کہ آپکا مافی الضمیر اس جملے سے کچھ واضح نہیں ہورہا۔
مگر جب آپ دین میں لوگوں کے مختلف نقطِہ نظر کی بات کرتے ہیں تو وہ ایک خاص interpretation سے منسلک ہوتے ہیں ۔ مگر دین کے ماخذ پر وہ interpretationاثر انداز نہیں ہوتی کیونکہ ماخذ یعنی قرآن و سنت وہی رہتے ہیں ۔اس میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوتی ۔
شائد آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ مسلمانوں کے دیگر فرقوں کا مآخذ تو قرآن و سنت ہے، لیکن تصوف کا ماخذ قرآن و سنت نہیں کچھ اور ہے۔ بہرحال یہ ایک پرانا اعتراض یا الزام ہے جو ثابت نہیں ہوسکا۔
دین بذات خود دو بڑے مقاصد رکھتا ہے یعنی دین تزکیہ نفس کے ساتھ معاشرے کی اصلاح اور تربیت کے مواقع بھی پیدا کرتا ہے ۔اس حوالے سے دین کی حیثیت انقلاب کی سی ہے ۔ اور انقلاب کے لیئے ضروری ہے کہ اس میں ٹہراؤ نہ آئے ، جمود کا شکار نہ ہو ۔ لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ جتنے بھی انقلابات دنیا میں آئے ۔ خواہ وہ مذہبی ہوں یا معاشی ، وہ انتشار کا شکار ہوئے ۔ ان پر جمود کا غلبہ ہوا ۔ اسی نتیجے میں فرقہ پیدا ہوئے ۔ مختلف مکتبِ فکر کا وجود پذیر ہوا ۔ اختلافِ رائے نظر آئے ، اور وقت گذرنے کیساتھ ساتھ معاشرے میں بھی بہت سی تبدیلوں نے جنم لیا ۔ حکومتوں نے بھی اپنے رنگ بدلے ۔ مثال کے طور پر خلافتِ راشدہ ملوکیت میں تبدیل ہوگئی ۔ جبر اور استبداد کا عمل شروع ہوگیا ۔اس دوران جتنے بھی عالم اور مبلغ تھے ۔ ان ایک بڑی صف ملوکیت اور بادشاہت کے زیرِ اثر آگئی ۔ جس سے کئی قسم کے رویوں پیدا ہوئے ۔ جس میں اک رویہ صوفی ازم کا رویہ ہے ۔ اور میرا خیال ہے تاریخی طور پر صوفی ازم کو صوفی ازم بھی کہنا ٹھیک نہیں ہے ۔ کیونکہ یہ کوئی یونیفائید یا آرگنائزیڈ تحریک نہیں ہے ۔ اس کا کوئی مستقل ایجنڈا نہیں ہے جو اس انقلاب کو بڑھانے میں معاون ہوسکے یا ان مقاصد کو جس کا تعین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا ۔ لہذا تزکیہ نفس اس حوالے سے ایک معمولی بات رہ جاتی ہے
دین کے حوالے سے آپکے خیالات میں کچھ ابہام محسوس ہورہا ہے۔ سب سے پہلے تو یہ طے کرلیجئے کہ دین کہتے کسے ہیں؟ اور اسکا مقصد کیا ہے۔ اسکے بعد دیکھتے ہیں کہ تصوف دین کے مقاصد کے برعکس کسی اور راستے پر بندے کو لیجاتا ہے یا عین انہی مقاصد کے حصول کا نام ہے۔
دین کو ایک انقلاب قرار دینا ان معنوں میں درست ہوسکتا ہے جب دین کی وجہ سے انسان کے رویوں میں، اعمال میں، کردار میں اور زاویہ نگاہ میں تبدیلی پیدا ہوجائے۔ ا ن معنوں میں دین واقعی ایک انقلاب ہے اور تصوف بھی تو ہر لمحہ خوب سے خوب تر ہونے کا ایک پراسس ہے، ایک مسلسل انقلاب ہی تو ہے۔
اس کا کوئی مستقل ایجنڈا نہیں ہے جو اس انقلاب کو بڑھانے میں معاون ہوسکے یا ان مقاصد کو جس کا تعین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا ۔ لہذا تزکیہ نفس اس حوالے سے ایک معمولی بات رہ جاتی ہے

اور وہ مقاصد کیا ہیں جنکا تعین رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا؟ اور یہ کہ وہ کونسے حالات ہیں کہ جن میں تزکیہ نفس ایک معمولی سی بات رہ جاتی ہے؟
معذرت خواہ ہوں ، لیکن کچھ عجیب سی بات لگ رہی ہے جو آپ نے بیان فرمائی۔ قرآن پاک میں تو یہ بیان ہے کہ " وہی ہے جس نے ان پڑھوں میں اپنا رسول بھیجا جو انکے نفوس کا تزکیہ کرتا ہے، ان پر اسکی آیات پڑھتا ہے اور انکو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے، جبکہ اس سے قبل وہ کھلی گمراہی میں تھے۔"
اور ایک اور جگہ یہی بات ان الفاظ کے ساتھ کہی گئی ہے کہ " بیشک اللہ نے مومنین پر ایک احسان کیا، کہ ان میں اپنا رسول بھیجا جو انہی میں سے ہے،اور انہیں پاک کرتا ہے (یعنی تزکیہ جسے آپ ایک معمولی بات قرار دے رہے ہیں)"
جس بات کو اللہ کی طرف سے بطور احسان ذکر کیا گیا، وہ معمولی کیسے ہوسکتی ہے؟ اور وہ کونسے ایسے دیگر مقاصد ہیں جنکے سامنے یہ تزکیہ نفس والا کام معمولی قرار پاجائے؟ جبکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ " قد افلح من زکٰھا و قد خاب من دسٰؑھا" یعنی فلاح پاگیا جس نے اسکو پاک کرلیا اور نامراد ہوا جس نے اسے آلودہ کردیا۔
۔ جب معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہو ۔ دین کے راستے سے لوگ ہٹ رہے ہوں ۔ یعنی آپ اپنے مقصدِ اولیٰ سے ہٹ جاتے ہیں تو ذاتیات میں جو تزکیہ نفس ہے ۔ اس کا کیا مقصد رہ جاتا ہے ۔ صوفیوں کے ہاں اجتماعیت کے مسائل کبھی بھی زیرِ بحث نہیں آئے ۔ یعنی جب اسلامی معاشرہ دورِ انحطاط میں تھا ۔ جبر و استبداد دین اور معاشرے میں بگاڑ پیدا کر رہے تھے ۔ اس وقت صوفیاء نے دین کی اشاعت و ترویح اور معاشرے کی اصلاح کا کام نہیں کیا ۔ صرف تزکیہ ِ نفس پر اکتفا کیا ۔ جو کہ سو فیصد انفرادی عمل تھا ۔ وہ دین کی ان توجہات اور تشریحات میں الجھے رہے جن میں کسی کو بھی اختلاف نہیں تھا ۔ ان توجہات اور تشریحات پر تو جابر حکمران بھی اختلاف نہیں رکھتے تھے کہ ہم قرآن یا رسالت وغیرہ کو نہیں مانتے ۔ لہذا جو کیا جارہا تھا وہ دین کے مقصدِ اولیٰ یا بنیادی مقاصد سے مکمل انحراف تھا ۔
لگتا ہے آپکے نزدیک بھی دیگر اسلامی تحریکوں کے ارکان کی طرح ، دین کا مقصد یہی ہے کہ دنیا میں ایک سیاسی انقلاب برپا کیا جائے، یعنی اسلام کونافذ کردیا جائے۔ کیا یہی مقصدَ اولیٰ یا بنیادی مقصد ہے دین کا؟ اگر آپ دین کا مقصد یہ سمجھتے ہیں کہ معاشرے کی اصلاح ہو، تو ادب کے ساتھ عرض ہے کہ فرد کی اصلاح اور تزکئیےکے بغیر معاشرے کی اصلاح کیسے ہوسکتی ہے؟
 
تھوڑی سے وضاحت فرما دیں کہ کس طرح درست کہہ رہے ہیں ۔ عشق رسول بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا اللہ اور اس کے رسول نے اجازت دی ہے ۔ اب کوئی عشق رسول میں قبر رسول کو سجدے شروع کر دے تو اس کی یہ دلیل تو نہیں مانی جائے گی بلکہ وہ تو مشرک ہو جائے گا ۔
یعنی آپ یہ فرما رہے ہیں کہ قرآن اللہ کا کلام نہیں بلکہ نبی پاک ص کا کلام ہے؟ کیا یہ کفر نہیں جسے آپ عشق رسول کی صورت دے رہے ہیں؟ الفاظ کا چناؤ بہت غیر محتاط ہے
الشفاء بھائی کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن پاک بھی ہمیں نبی کریم ٖصلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ملا ہے۔ اور دوسرے احکام بھی۔ جس جس بات کو نبی کریم ٖصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ اللہ کا کلام ہے اور قرآن ہے اس کو قرآن پاک سمجھا گیا اور جس کو فرمایا کہ یہ قرآن نہیں وہ قرآن نہیں۔ زبان پاک تو ہمیشہ نبی کریم ٖصلی اللہ علیہ وسلم کی ہی تھی ۔
ایک بات اور یاد رکھنی چاہئے کہ جو بات ثابت ہو جائے کہ یہ نبی کریم ٖصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے حالانکہ وہ قرآن پاک کا حصہ نہیں تو اس کا انکار بھی کفر ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
الشفاء بھائی کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن پاک بھی ہمیں نبی کریم ٖصلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ملا ہے۔ اور دوسرے احکام بھی۔ جس جس بات کو نبی کریم ٖصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ اللہ کا کلام ہے اور قرآن ہے اس کو قرآن پاک سمجھا گیا اور جس کو فرمایا کہ یہ قرآن نہیں وہ قرآن نہیں۔ زبان پاک تو ہمیشہ نبی کریم ٖصلی اللہ علیہ وسلم کی ہی تھی ۔
ایک بات اور یاد رکھنی چاہئے کہ جو بات ثابت ہو جائے کہ یہ نبی کریم ٖصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے حالانکہ وہ قرآن پاک کا حصہ نہیں تو اس کا انکار بھی کفر ہے۔
میں نے عرض کیا نا، کہ الفاظ کا چناؤ غیر محتاط تھا۔ دوسرا یہ بات بھی کہ نبی پاک ص کے بارے آپ جانتے ہیں کہ انہوں نے وہی کہا جس کا انہیں اللہ پاک کی طرف سے حکم دیا گیا۔ یعنی بات گھوم پھر کر وہیں آتی ہے کہ اللہ کا کلام اور اللہ کا حکم ہی افضل ہے
 
تبصرہ تو آپ نے کیا ہے ۔
ایک جنرل اصول بیان کیا ہے میں نے۔
"
میں نے اکثر مولوی حضرات کو یہ بات کرتے ہوئے دیکھا ہے کہ یہ بات عوام کے لیے ہے اور یہ خواص کے لیے ۔ اسلام میں عام اور خاص کہاں سے در آئے؟ دین تو سب کے لیے ایک ہے چاہے وہ لالو جٹ ہو یا کو ئی عالم
عام طور جب یہ بات کی جاتی ہے تو اس سے مراد خاص آدمیوں کے وہ جو علم کے اس مرتبہ پر پہنچے ہوئے ہیں۔ جیسے کسی کتاب کو ایک گریجوئیٹ سمجھ سکتا ہے اور میٹرک پاس نہیں سمجھ سکتا۔
لیکن ایک نکتہ بالکل درست ہے آپ کا خواص کی بات عوام الناس کے سامنے بیان ہی نہیں کرنی چاہئیں کہ خوامخوہ کی الجھنیں پیدا ہوں۔
لیکن عام مولویوں کے علم کے معیار کا بھی آپ کو پتا ہی ہے۔ کیا کریں۔
 

ظفری

لائبریرین
آپکی بات کچھ الجھی الجھی سی لگ رہی ہے۔ معذرت چاہتا ہوں کہ آپکا مافی الضمیر اس جملے سے کچھ واضح نہیں ہورہا۔
بہت آسان فہم میں کچھ کہنے کی جسارت کی تھی کہ اگر آپ تصوف کو دین قرار دے رہے ہیں تو ظاہر ہے اس میں کچھ عقائد اور اصول بیان ہوئے ہونگے ۔ اور پھر ان عقائد و اصول کا کوئی ماخذ ہوگا ۔ جبکہ ہم جانتے ہیں دین کا ماخذ صرف قرآن و سنت ہے ۔ اس بارے میں استفار کیا تھا ۔
دوسرا یہ کہ جب تصوف کا مطالعہ کیا جائے تو وہاں قرآن و سنت ماخذ نہیں نظر آتے بلکہ تصوف خود ہی ایک دین کی شکل اختیار کیئے ہو تا ہے ۔
میرا خیال ہے الجھن دور ہوگئی ۔

شائد آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ مسلمانوں کے دیگر فرقوں کا مآخذ تو قرآن و سنت ہے، لیکن تصوف کا ماخذ قرآن و سنت نہیں کچھ اور ہے۔ بہرحال یہ ایک پرانا اعتراض یا الزام ہے جو ثابت نہیں ہوسکا۔
اس پر کیا کہا جائے ۔ میں کوشش کروں گا کہ صوفیاء کرام کی کتابوں میں سے ان کے چند اقتباسات یہاں شئیر کروں پھر پوچھوں کہ ان کی تشریح کیجیئے ۔
دین کے حوالے سے آپکے خیالات میں کچھ ابہام محسوس ہورہا ہے۔ سب سے پہلے تو یہ طے کرلیجئے کہ دین کہتے کسے ہیں؟ اور اسکا مقصد کیا ہے۔ اسکے بعد دیکھتے ہیں کہ تصوف دین کے مقاصد کے برعکس کسی اور راستے پر بندے کو لیجاتا ہے یا عین انہی مقاصد کے حصول کا نام ہے۔
دین کو ایک انقلاب قرار دینا ان معنوں میں درست ہوسکتا ہے جب دین کی وجہ سے انسان کے رویوں میں، اعمال میں، کردار میں اور زاویہ نگاہ میں تبدیلی پیدا ہوجائے۔ ا ن معنوں میں دین واقعی ایک انقلاب ہے اور تصوف بھی تو ہر لمحہ خوب سے خوب تر ہونے کا ایک پراسس ہے، ایک مسلسل انقلاب ہی تو ہے۔
دین کے بارے میں کہہ چکا ہوں کہ اللہ اور رسول کے احکامات کا نام ہے ۔ تصوف دین کے مقاصد کے برعکس کہاں جاتا ہے ۔ یہ بعد کی بحث ہے پہلے یہ دیکھنا ہے کہ تصوف نے جو راستہ بقول آپ کے کہ دین کے لیئےاپنایا ہوا ہے ۔ وہ کیا ہے ۔ ؟ورنہ طریقیت پر جائیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ کسی بُت کی پوجا کرکے بھی لوگ خدا کی معرفت تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

اور وہ مقاصد کیا ہیں جنکا تعین رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا؟ اور یہ کہ وہ کونسے حالات ہیں کہ جن میں تزکیہ نفس ایک معمولی سی بات رہ جاتی ہے؟
معذرت خواہ ہوں ، لیکن کچھ عجیب سی بات لگ رہی ہے جو آپ نے بیان فرمائی۔ قرآن پاک میں تو یہ بیان ہے کہ " وہی ہے جس نے ان پڑھوں میں اپنا رسول بھیجا جو انکے نفوس کا تزکیہ کرتا ہے، ان پر اسکی آیات پڑھتا ہے اور انکو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے، جبکہ اس سے قبل وہ کھلی گمراہی میں تھے۔"
اور ایک اور جگہ یہی بات ان الفاظ کے ساتھ کہی گئی ہے کہ " بیشک اللہ نے مومنین پر ایک احسان کیا، کہ ان میں اپنا رسول بھیجا جو انہی میں سے ہے،اور انہیں پاک کرتا ہے (یعنی تزکیہ جسے آپ ایک معمولی بات قرار دے رہے ہیں)"
جس بات کو اللہ کی طرف سے بطور احسان ذکر کیا گیا، وہ معمولی کیسے ہوسکتی ہے؟ اور وہ کونسے ایسے دیگر مقاصد ہیں جنکے سامنے یہ تزکیہ نفس والا کام معمولی قرار پاجائے؟ جبکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ " قد افلح من زکٰھا و قد خاب من دسٰؑھا" یعنی فلاح پاگیا جس نے اسکو پاک کرلیا اور نامراد ہوا جس نے اسے آلودہ کردیا۔
تزکیہ نفس ایک انفرادی عمل ہے ۔ آپ تک محدود رہتا ہے ۔ جن آیتیوں کے ترجمے آپ نے کوٹ کیئے ہیں ۔ اس پر عمل بھی کرتے ہیں تو اس پر کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے ۔ مگر جب آپ اس تزکیہ نفس کا اطلاق معاشرے پر رکھتے ہیں تو پھر آپ سے اس تزکیہ نفس کی بابت سوال بھی ہوگا کہ یہ کیا ہے اور اس کا ماخذ کیا ہے ۔ کوئی ابہام ہوگا تو وہ بھی پوچھ لیا جائے گا ۔ اگر آپ مطمئن نہ کرسکیں تو تزکیہ نفس آپ تک ہی محدود رہ جائے گا ۔ اس سے دیگر خلق کو کیا فائد ہ پہنچ سکتا ہے ۔یہ سوال تو رہے گا ۔ ( معمولی کا لفظ اس ضمن میں کہا تھا ۔ اس کا مطلب تزکیہ ِ نفس کا ماخذ ہر گز نہیں تھا ۔ )

لگتا ہے آپکے نزدیک بھی دیگر اسلامی تحریکوں کے ارکان کی طرح ، دین کا مقصد یہی ہے کہ دنیا میں ایک سیاسی انقلاب برپا کیا جائے، یعنی اسلام کونافذ کردیا جائے۔ کیا یہی مقصدَ اولیٰ یا بنیادی مقصد ہے دین کا؟ اگر آپ دین کا مقصد یہ سمجھتے ہیں کہ معاشرے کی اصلاح ہو، تو ادب کے ساتھ عرض ہے کہ فرد کی اصلاح اور تزکئیےکے بغیر معاشرے کی اصلاح کیسے ہوسکتی ہے؟
یہ بات آپ نے اپنی طرف سے اختراع کرلی ہے ۔ میں کیا کہہ سکتا ہوں
 
ان کے عقائد اور قرآن و سنت کے کی تعلیمات میں کیا مماثلت ہے ۔ ؟ آپ نے شریعت اور طریقت کے درمیان جس شرط کو بیان کیا ہے ۔ مجھے بتائیں کہ ان کی طریقت کس طرح شریعت کے احکامات سے مماثلت رکھتی ہے ۔ شہاب الدین سہروردی تو اپنے الہام کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ وہ اس درجے میں پہنچ جاتا ہے کہ " لاء یتی باطل البین یدھ خفلیہ " یہ ان کے الفاظ ہیں ۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ تصوف کوئی عقائد کا مجموعہ نہیں ہے کہ فلاں فلاں عقیدے پر ایمان رکھیں۔ نا ہی تصوف یہ کہتا ہے کہ قرآن و سنت کی فلاں فلاں بات پر ایمان نا رکھیں ۔
جہاں تک شہاب الدین سہروردی کے قول کا مطلب ہے تو یہ بھی کوئی انوکھی اور ناقابلِ قبول بات نہیں ہے۔ بخاری و مسلم کی مستند حدیث قدسی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا " میرا بندہ جن طریقوں سے مجھ سے قرب حاصل کرتا ہے ان میں فرائض سے زیادہ مجھے اور کوئی محبوب نہیں ہیں۔ اور میرا بندہ نوافل کیلئے مجھے سے قریب ہوتا جاتا ہے حتی کہ میں اسکی سماعت بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، میں اسکی بصارت بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، میں اسکا ہاتھ بن جاتا ہے جس سے وہ پکڑتا ہے اور میں اسکا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے"۔۔۔سبحان اللہ یہی تو تصوف کی معراج ہے۔ جب ایسے کسی بندے کی سماعت، بصارت اور تصرف اللہ کی طرف سے ہوجائیں تو پھر وہ وہی سنے گا جوحق ہے، وہی دیکھے گا جو حق ہے، وہی کرے گا جو حق ہے۔۔۔یعنی باطل نہ اسکے آگے سے اور نہ پیچھے سے آسکتا ہے۔ اس مقام پر ڈیلوژنز کیسے ہوسکتی ہیں جب بندہ اپنے نفس سے نہیں بلکہ اللہ سے دیکھے۔۔۔یہ بات اسلامی مفکروں کو اور فلاسفروں کو سمجھ نہیں آتی کیونکہ وہ اپنی عقل سے سوچتے ہیں اور بہرحال اپنی عقل سے نتائج اخذ کرنے میں ہمیشہ غلطی کا احتمال تو رہتا ہی ہے۔۔۔۔
یہی مطلب ہے شہاب الدین سہروردی کے قول کا جسے آپ نے تعجب کے ساتھ پیش کیا۔
میرا خیال ہے صوفیاء کی کتابیں ہم نے نہیں پڑھیں ہیں ۔اور ہم کو معلوم ہی نہیں ہے کہ انہوں‌نے کیا کچھ لکھا ہے ۔ میں سے سب سے پہلے بنیادی ایمان " توحید " پر بات کرتا ہوں ۔ اور جب آپ توحید کی پہلی ، دوسری اور تیسری قسموں کو بیان کرتے ہیں تو میں پوچھوں گا کہ اس توحید کا ماخذ کیا ہے ۔ ؟ یعنی میں یہ بات تو جانتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے ۔ اور مجھے اس کے سامنے ہی سربجود ہونا ہے ۔ وہ زمیں‌و آسماں‌کا خالق ہے ، کوئی ا سکا ثانی نہیں ہے ۔ یہ ساری توحید تو قرآن میں بیان ہوئی ہے ۔ اس کی تفصیر صوفیاء آٹھ ، دس صفحات میں کردیں کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے ۔ مگر اس کے بعد یہ ساری توحید جو قرآن میں بیان ہوئی ہے اس کو نقل کرکے کہتے ہیں کہ یہ توحید " توحیدِ عامہ " ہے ۔ آؤ اب ہم بتاتے ہیں کہ " اخصا الاخواص " کی توحید کیا ہے ۔ اور اگر آپ اس توحید کو قرآن و سنت کی روشنی میں دیکھیں تو آپ پر یہ بات واضع ہوجائے گی کہ صوفیاء کرام نے کس طرح دین کی حدود سے باہر قدم رکھا ہے ۔ اگر آپ چاہیں گے تو میں اس پر بھی گفتگو کرنے کے لیئے تیار ہوں ۔ مگر شرط صرف یہ ہے کہ موضوع اپنے پیرائے میں رہے ۔
یہ بھی درست بات ہے۔۔۔ اس میں ایسی کونسی عجیب بات ہے؟۔۔۔جب آپکا زاویہ نگاہ عوام والا نہ رہے ( یعنی سطحی زاویہ نظر) اور آپ تزکئیے کے نتیجے میں زیادہ لطافت کے ساتھ امور کو دیکھ سکیں تو جو کچھ دیکھیں گے وہ اس سطحی منظر سے مختلف ہوگا جو اس سے پہلے نظر آتا تھا۔۔۔
 
آخری تدوین:

نایاب

لائبریرین
وہ حادثہ نہیں تھا نایاب بھائی ۔ نبیوں اور پیغمبروں کا انتخاب اتفاقاً نہیں ہوتا ۔
ویسے آپس کی بات ہے کہ " فلسفے " کی صحیح تعریف کیا ہے ۔ ؟:)
میرے محترم بھائی
وقت کرتا ہے پرورش برسوں ۔۔ حادثہ یکدم نہیں ہوتا ۔
وہ جو اس کائنات کا پیدا کرنے والا ہے ۔ وہی " حادثات " کو بھی پیدا کرتا ہے ۔
اس کائنات میں " عظیم انسانوں " کا انتخاب بلاشک اس کارخانہ قدرت کے مالک کے ہاتھوں ہوتا ہے ۔
اور عام انسانوں تک اس انتخاب کی آگہی " اچانک " ہی ہوتی ہے ۔
مزید اس بارے گفتگو " مرتد " کے خطاب تک پہنچا دے گی ۔
جناب موسی علیہ السلام اپنی دنیاوی ضرورت پورا کرنے کے لیئے آگ کی تلاش میں نکلتے ہیں ۔ اور اللہ ان سے کلام فرماتے انہیں " نبوت " سے نواز دیتا ہے ۔
جناب داؤد علیہ السلام اک ظالم " جالوت " کو کیفر کردار تک پہنچاتے ہیں ۔ اور بادشاہت و نبوت سے سرفراز ہوتے ہیں ۔
جناب عیسی علیہ السلام بن باپ کے پیدا ہوتے مہد سے ہی اپنی نبوت کا اعلان فرماتے ہیں ۔
نبی پاک جناب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم چالیس سال تک اک غار میں " غوروفکر " کرتے جناب جبرائیل علیہ السلام سے وحی کا پہلا سبق حاصل کرتے ہیں ۔۔
کیا یہ " نبوت " سے سرفرازی ان تمام نیک و عظیم انسانوں اور ان کے اقربا کے لیئے " اچانک " واقع نہیں ہوتی ۔۔۔۔ ؟
میرے محترم بھائی آپ نے پوچھا کہ " آپس کی بات فلسفے کی جامع و فصیح تعریف کیا ہے " ؟
میرے بھائی ۔ آپس کی بات ہی سمجھآپ جیسی صاحب علم ہستیوں کی تحاریر پڑھتے " فلسفے" کے بارے جو آگہی پائی ہے ۔ وہ اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ
۔ علم و دانش سے لگاؤ رکھتے مشاہدے پر غوروفکر کرتے تلاش حقیقت کے لیئے ظاہری و باطنی تجربات میں الجھتے جو آفاقی اصول انسان کے سامنے روشن ہوتے ہیں ۔ فلسفہ کہلاتے ہیں ۔۔ اور یہ فلسفہ ہر اس انسان کے ذہن میں جنم لیتا ہے جو اس کائنات رنگ و بو میں آنکھ کھولتا ہے اور اپنے اردگرد وقوع پذیر ہونے والے واقعات پر حیرانگی و تجسس کے ساتھ غور و فکر کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔ فلسفہ جواب ہے " کیا کیوں کیسے " ایسے ان سوالوں کا جو انسان کے اندر سے ابھرتے ہیں ۔ فلسفے کا سفر یونان سے شروع ہوتے آج تک جاری و ساری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
کہ آرہی ہے " دما دم " صدائے کن فیکون ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بات " ہمزاد " سے چلی ۔۔ جنات تک پہنچی ۔ اور فلسفے کی اسیر ہوئی ۔۔۔۔۔۔
اب جانے کہاں پہنچے اور پہنچائے ہمیں ۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
 
Top