لیکن جس چوٹ کا نشانہ دل ہو ، تو اس کے لئے کیا پہنا جائے؟ایسی صورت حال میں ہیلمیٹ پہننا واجب ہے۔
لیکن جس چوٹ کا نشانہ دل ہو ، تو اس کے لئے کیا پہنا جائے؟ایسی صورت حال میں ہیلمیٹ پہننا واجب ہے۔
اتنی سنگین صورت حال میں سر پہ پاؤں رکھ کے بھاگنا فرض عین ہے۔لیکن جس چوٹ کا نشانہ دل ہو ، تو اس کے لئے کیا پہنا جائے؟
اتنی سنگین صورت حال میں سر پہ پاؤں رکھ کے بھاگنا فرض عین ہے۔
اگر تصوف، دین کا ہی اخذ کردہ ہے تو اس کا کوئی ماخذ بھی ہوگا ۔ اور ابھی تک اس ماخذ کا کوئی حوالہ سامنے نہیں آیا ہے۔ رہی بات تصوف میں لوگوں کے تصور کے مختلف پہلوؤں کی تو وہ پہلو بذات خود ایک دین کا ماخذ بن رہا ہے ۔ ( اصل مسئلہ یہ ہے )۔ مگر جب آپ دین میں لوگوں کے مختلف نقطِہ نظر کی بات کرتے ہیں تو وہ ایک خاص interpretation سے منسلک ہوتے ہیں ۔ مگر دین کے ماخذ پر وہ interpretationاثر انداز نہیں ہوتی کیونکہ ماخذ یعنی قرآن و سنت وہی رہتے ہیں ۔اس میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوتی ۔میرے خیال میں تصوف ہی دین ہے۔۔۔ ۔اور دین کیا ہے؟ دین کا مقصد کیا ہے؟ یہی کہ اللہ کے ساتھ تعلق، اسلام کا تحقق (Realization)...
آپکی یہ بات درست ہے کہ مختلف لوگوں کا تصوف مختلف ہے جیسا کہ آپ نے مثال بھی دی بعض جلیل القدر شخصیات کی۔۔۔ (لیکن یہی بات تو مذہب کے بارے میں کہی جاسکتی ہے کہ ہر عام وخاص کا مذہب کے بارے میں نقطہ نظر تھوڑا سا مختلف ہوتا ہے۔ پور ی دنیا کو تو ایک طرف رکھئیے محض پاکستان مین ہی قرآن و سنت کے نام پر کتنی زیادہ رنگا رنگی اور ورائٹی پیش کی جاتی ہے دین کی تعبیرات کی)
محمود احمد غزنوی بھائی روحانی بابا کا ایک نرالا سٹائل ہے کہ جب وہ بات سمجھاتے ہیں تو انکے ایک ہاتھ میں کتاب ہوتی ہے اور دوسرے میں ڈنڈا
کتاب کا نام ہے:محمود بھائی تو خیر اچھی سیر حاصل بحث ہوجاتی ہے مگر روحانی بابا کا نہیں پتا کہ یہ اپنی بات کس ہوا کے رخ پر کرتے ہیں۔ ویسے یہ کیفیت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب آپ کے پاس کوئی استدلال اور دلیل موجود نہیں ہوتی ۔ لہذا پھر زبردستی کا عنصر عود کر آتا ہے ۔ ویسے آپ کس کتا ب کی بات کر رہے ہیں ۔ کیونکہ ڈنڈے کا تو مجھے علم ہے
بلکہکتاب کا نام ہے:
ڈنڈا استعمال کرنے کے انوکھے طریقے
میں تو جن بڑے بڑے صوفیا کو جانتا ہوں وہ سب تبلیغ دین اور اشاعت اوراصلاح ہی کا کام کرتے رہے، شیخ عبدالقادر گیلانی رحمۃ اللہ علیہ، داتا گنج بخش سید علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ اور امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ۔اگر تصوف، دین کا ہی اخذ کردہ ہے تو اس کا کوئی ماخذ بھی ہوگا ۔ اور ابھی تک اس ماخذ کا کوئی حوالہ سامنے نہیں آیا ہے۔ رہی بات تصوف میں لوگوں کے تصور کے مختلف پہلوؤں کی تو وہ پہلو بذات خود ایک دین کا ماخذ بن رہا ہے ۔ ( اصل مسئلہ یہ ہے )۔ مگر جب آپ دین میں لوگوں کے مختلف نقطِہ نظر کی بات کرتے ہیں تو وہ ایک خاص interpretation سے منسلک ہوتے ہیں ۔ مگر دین کے ماخذ پر وہ interpretationاثر انداز نہیں ہوتی کیونکہ ماخذ یعنی قرآن و سنت وہی رہتے ہیں ۔اس میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوتی ۔
دین بذات خود دو بڑے مقاصد رکھتا ہے یعنی دین تزکیہ نفس کے ساتھ معاشرے کی اصلاح اور تربیت کے مواقع بھی پیدا کرتا ہے ۔اس حوالے سے دین کی حیثیت انقلاب کی سی ہے ۔ اور انقلاب کے لیئے ضروری ہے کہ اس میں ٹہراؤ نہ آئے ، جمود کا شکار نہ ہو ۔ لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ جتنے بھی انقلابات دنیا میں آئے ۔ خواہ وہ مذہبی ہوں یا معاشی ، وہ انتشار کا شکار ہوئے ۔ ان پر جمود کا غلبہ ہوا ۔ اسی نتیجے میں فرقہ پیدا ہوئے ۔ مختلف مکتبِ فکر کا وجود پذیر ہوا ۔ اختلافِ رائے نظر آئے ، اور وقت گذرنے کیساتھ ساتھ معاشرے میں بھی بہت سی تبدیلوں نے جنم لیا ۔ حکومتوں نے بھی اپنے رنگ بدلے ۔ مثال کے طور پر خلافتِ راشدہ ملوکیت میں تبدیل ہوگئی ۔ جبر اور استبداد کا عمل شروع ہوگیا ۔اس دوران جتنے بھی عالم اور مبلغ تھے ۔ ان ایک بڑی صف ملوکیت اور بادشاہت کے زیرِ اثر آگئی ۔ جس سے کئی قسم کے رویوں پیدا ہوئے ۔ جس میں اک رویہ صوفی ازم کا رویہ ہے ۔ اور میرا خیال ہے تاریخی طور پر صوفی ازم کو صوفی ازم بھی کہنا ٹھیک نہیں ہے ۔ کیونکہ یہ کوئی یونیفائید یا آرگنائزیڈ تحریک نہیں ہے ۔ اس کا کوئی مستقل ایجنڈا نہیں ہے جو اس انقلاب کو بڑھانے میں معاون ہوسکے یا ان مقاصد کو جس کا تعین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا ۔ لہذا تزکیہ نفس اس حوالے سے ایک معمولی بات رہ جاتی ہے ۔ جب معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہو ۔ دین کے راستے سے لوگ ہٹ رہے ہوں ۔ یعنی آپ اپنے مقصدِ اولیٰ سے ہٹ جاتے ہیں تو ذاتیات میں جو تزکیہ نفس ہے ۔ اس کا کیا مقصد رہ جاتا ہے ۔ صوفیوں کے ہاں اجتماعیت کے مسائل کبھی بھی زیرِ بحث نہیں آئے ۔ یعنی جب اسلامی معاشرہ دورِ انحطاط میں تھا ۔ جبر و استبداد دین اور معاشرے میں بگاڑ پیدا کر رہے تھے ۔ اس وقت صوفیاء نے دین کی اشاعت و ترویح اور معاشرے کی اصلاح کا کام نہیں کیا ۔ صرف تزکیہ ِ نفس پر اکتفا کیا ۔ جو کہ سو فیصد انفرادی عمل تھا ۔ وہ دین کی ان توجہات اور تشریحات میں الجھے رہے جن میں کسی کو بھی اختلاف نہیں تھا ۔ ان توجہات اور تشریحات پر تو جابر حکمران بھی اختلاف نہیں رکھتے تھے کہ ہم قرآن یا رسالت وغیرہ کو نہیں مانتے ۔ لہذا جو کیا جارہا تھا وہ دین کے مقصدِ اولیٰ یا بنیادی مقاصد سے مکمل انحراف تھا ۔
پہلے بصد احترام آپ کے دوسرے جملے سے ایک گزارش کے ساتھ متفق ہیں کہ اگر آپ "اس کے بعد" کی بجائے لفظ "اور" استعمال فرماتے تو شائد زیادہ مناسب لگتا ۔کیونکہ قرآن مجید بھی دراصل ارشادات نبویہ میں سے ہی ہے کہ اللہ عزوجل کے جس کلام کو آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن کہہ دیا ، ہمارے لئے وہی قرآن ہو گیا۔اسی لئے علماء کرام آقا علیہ الصلاۃ والسلام کے ارشادات کے لئے وحی متلو اور وحی غیر متلو کی اصطلاح استعمال فرماتے ہیں، یعنی ایک وہ وحی جس کی تلاوت کی جاتی ہے یعنی قرآن مجید اور دوسری وہ وحی جس کی تلاوت نہیں کی جاتی یعنی احادیث مبارکہ۔ اور اس کی دلیل آیت "وما ینطق عن الھویٰ ، ان ھو الاّ وحیً یوحیٰ " کو بناتے ہیں۔۔۔۔البتہ حفظ مراتب میں ہمیشہ قرآن و حدیث ہی لکھا اور پڑھا جاتا ہےیعنی قرآن اور حدیث۔ لیکن اوپر لکھے گئے انداز سے کچھ ناپختہ ذہن ابہام کا شکار ہو جاتے ہیں اور حفظ مراتب کے چکر میں لذت ادب سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ، حالانکہ ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں۔۔۔تصوف کا معاملہ وہ نہیں ہے ۔ جو دین کا ہے ۔ دین کے حوالے سے آپ کچھ پوچھیں گے تو میں کہوں گا کہ مذہب کی مستند چیز قرآن مجید ہے ۔ اس کے بعد رسالت مآب ص کے ارشادات ہیں ۔
تصوف کا معاملہ وہ نہیں ہے ۔ جو دین کا ہے ۔ ۔
میرے محترم بھائی
آپ جیسی ہستی اور روشنی کے منتظر۔۔۔ ۔۔۔ ۔؟
جوابی دلائل نا ہونے کی صورت میں ذاتی حملوں کو تو میں خود بھی بھگت چکا ہوں روحانی بابا سے نہیں کچھ دوسرے احباب سے جب وہ جھوٹے الزامات لگانا شروع کر دیتے ہیں۔محمود بھائی تو خیر اچھی سیر حاصل بحث ہوجاتی ہے مگر روحانی بابا کا نہیں پتا کہ یہ اپنی بات کس ہوا کے رخ پر کرتے ہیں۔ ویسے یہ کیفیت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب آپ کے پاس کوئی استدلال اور دلیل موجود نہیں ہوتی ۔ لہذا پھر زبردستی کا عنصر عود کر آتا ہے ۔ ویسے آپ کس کتا ب کی بات کر رہے ہیں ۔ کیونکہ ڈنڈے کا تو مجھے علم ہے
سبحان اللہ ۔ کیا تصوف کی تشریح فرمائی ہے آپ نے ۔ہمارے خیال میں دین پر کما حقہ عمل کرنے کا نام ہی تصوف ہے۔اور یہ دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں۔۔۔ لمبی چوڑی بحث سے بچتے ہوئے (قیصرانی بھائی کی دلجوئی کی خاطر) اگر اختصار کے ساتھ صرف حدیث جبرائیل کے ایک حصے پر غور کر لیں تو امید ہے کہ بات واضح ہو جائے گی۔۔۔ جب حضرت جبرائیل علیہ السلام کچھ سوالات کے ساتھ حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی خدمت میں انسانی شکل میں حاضر ہوئے تو ان کے جانے کے بعد صحابہ کرام کے پوچھنے پر آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ جبرائیل تھے اور تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے۔آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے حضرت جبرائیل کے سوالات کے مجموعے کو دین کا نام دیا ہے۔ اور یہ سوالات اسلام، ایمان اور احسان کے بارے میں تھے۔۔۔ اسلام اور ایمان کے بارے میں تو آپ اس جاہل سے زیادہ جانتے ہوں گے۔ اور احسان کی تعریف آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے کچھ یوں بیان فرمائی کہ ان تعبداللہ کانک تراہ، فان لم تکن تراہ ، فانہ یراک۔۔ او کما قال صل اللہ علیہ وآلہ وسلم۔۔۔ یعنی احسان یہ ہے کہ تم اللہ عزوجل کی عبادت ایسے کرو جیسے اسے دیکھ رہے ہو (سبحان اللہ سبحان اللہ۔ ذرا اس جملے میں گھلی شیرینی تو چکھیں۔) جیسے تم اسے دیکھ رہے ہو۔ اور اگر تم اسے نہیں دیکھتے تو وہ تو تمہیں دیکھتا ہی ہے۔۔۔ بس یہی تصوف ہے۔اب چاہے آپ اسے احسان و طریقت کا نام دے دیں یا تصوف و سلوک کا۔۔۔
کیا یہ کتب یا باتیں دین کا ماخذ ہیں ۔ ؟جوابی دلائل نا ہونے کی صورت میں ذاتی حملوں کو تو میں خود بھی بھگت چکا ہوں روحانی بابا سے نہیں کچھ دوسرے احباب سے جب وہ جھوٹے الزامات لگانا شروع کر دیتے ہیں۔
کتاب سے میری مراد ان کی تصوف کی باتیں ہے۔
دین کا ماخذ تو قرآن و سنت ہی ہیں جناب اور تصوف کا ماخذ بھی قرآن و سنت ہیں۔کیا یہ کتب یا باتیں دین کا ماخذ ہیں ۔ ؟
تصوف کا ماخذ قرآن و سنت ہے ۔ اسے ثابت کیجیئے ۔ نیز یہ کہ تصوف سے آپ کیا مراد لیتے ہیں ۔ آپ نے تصوف کی کتابیں پڑھیں ہیں ۔ ؟دین کا ماخذ تو قرآن و سنت ہی ہیں جناب اور تصوف کا ماخذ بھی قرآن و سنت ہیں۔
میں نے تصوف کی جو کتابیں پڑھیں ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں۔تصوف کا ماخذ قرآن و سنت ہے ۔ اسے ثابت کیجیئے ۔ نیز یہ کہ تصوف سے آپ کیا مراد لیتے ہیں ۔ آپ نے تصوف کی کتابیں پڑھیں ہیں ۔ ؟
میرا خیال ہے آپ میرے اس تبصرے کے بعد دوبارہ یہ کتب پڑھیں ۔ اور پھر بتائیں کہ ان کے عقائد اور قرآن و سنت کے کی تعلیمات میں کیا مماثلت ہے ۔ ؟ آپ نے شریعت اور طریقت کے درمیان جس شرط کو بیان کیا ہے ۔ مجھے بتائیں کہ ان کی طریقت کس طرح شریعت کے احکامات سے مماثلت رکھتی ہے ۔ شہاب الدین سہروردی تو اپنے الہام کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ وہ اس درجے میں پہنچ جاتا ہے کہ " لاء یتی باطل البین یدھ خفلیہ " یہ ان کے الفاظ ہیں ۔ میرا خیال ہے صوفیاء کی کتابیں ہم نے نہیں پڑھیں ہیں ۔اور ہم کو معلوم ہی نہیں ہے کہ انہوںنے کیا کچھ لکھا ہے ۔ میں سے سب سے پہلے بنیادی ایمان " توحید " پر بات کرتا ہوں ۔ اور جب آپ توحید کی پہلی ، دوسری اور تیسری قسموں کو بیان کرتے ہیں تو میں پوچھوں گا کہ اس توحید کا ماخذ کیا ہے ۔ ؟ یعنی میں یہ بات تو جانتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے ۔ اور مجھے اس کے سامنے ہی سربجود ہونا ہے ۔ وہ زمیںو آسماںکا خالق ہے ، کوئی ا سکا ثانی نہیں ہے ۔ یہ ساری توحید تو قرآن میں بیان ہوئی ہے ۔ اس کی تفصیر صوفیاء آٹھ ، دس صفحات میں کردیں کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے ۔ مگر اس کے بعد یہ ساری توحید جو قرآن میں بیان ہوئی ہے اس کو نقل کرکے کہتے ہیں کہ یہ توحید " توحیدِ عامہ " ہے ۔ آؤ اب ہم بتاتے ہیں کہ " اخصا الاخواص " کی توحید کیا ہے ۔ اور اگر آپ اس توحید کو قرآن و سنت کی روشنی میں دیکھیں تو آپ پر یہ بات واضع ہوجائے گی کہ صوفیاء کرام نے کس طرح دین کی حدود سے باہر قدم رکھا ہے ۔ اگر آپ چاہیں گے تو میں اس پر بھی گفتگو کرنے کے لیئے تیار ہوں ۔ مگر شرط صرف یہ ہے کہ موضوع اپنے پیرائے میں رہے ۔میں نے تصوف کی جو کتابیں پڑھیں ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں۔
مکاشفۃ القلوب مصنف امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ
کیمائے سعادت مصنف امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ
منہاج العابدین مصنف امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ
کشف المحجوب مصنف سید علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ
تذکرۃ الاولیا مصنف شیخ فرید الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ
ان ساری کتابوں کا ماخذ قرآن و سنت ہی ہے۔ ان سب کتابوں میں تصوف کی ہی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ مختصر لفظوں میں آپ سکتے ہیں کہ ایسا بندہ بننا جو اللہ کو پسند آجائے۔
کیا آپ نے ان کتابوں کو پڑھا ہے؟
کم از کم آپ منہاج العابدین مصنف امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کا ضرور مطالعہ کریں۔
میں نے مکاشفۃ القلوب تو بہت دفعہ پڑھی ہے۔ اور منہاج العابدین بھی زیادہ مرتبہ میں نے شریعت اور طریقت کے درمیان کوئی شرط بیان نہیں کی شاید کسی اور دوست نے یہ بات کی ہوگی۔ البتہ طریقت کے بارے میں یہ کہ سکتا ہوں کہ کشف المحجوب میں سید علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ جو صوفی کہے کہ مجھے قرآن و سنت (یا شریعت کا لفظ استعمال کیا تھا) کی حاجت نہیں وہ صوفی نہیں کافر ہے۔میرا خیال ہے آپ میرے اس تبصرے کے بعد دوبارہ یہ کتب پڑھیں ۔ اور پھر بتائیں کہ ان کے عقائد اور قرآن و سنت کے کی تعلیمات میں کیا مماثلت ہے ۔ ؟ آپ نے شریعت اور طریقت کے درمیان جس شرط کو بیان کیا ہے ۔ مجھے بتائیں کہ ان کی طریقت کس طرح شریعت کے احکامات سے مماثلت رکھتی ہے۔