نایاب

لائبریرین
میں نے دو دن اسی وجہ سے ذرا فاصلہ رکھا ہے کہ بات عقیدے اور مذہب پر ہی آ رہی ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ عقیدہ اور مذہب میں ہم مانتے ہیں، جاننا ضروری نہیں۔ اس لئے اس دھاگے پر "نظرِ التفات" کم ڈال رہا ہوں :)
محترم قیصرانی بھائی
یہاں سعودی عرب میں قریب ہر مذہب و مسلک کے حامل سے اچھی دوستی بنا رکھی ہے ۔ آتش پرست نہیں ملا ابھی تک ۔
عقیدہ اور مذہب ہر اک کا ذاتی و باطنی معاملہ ہے ۔ لیکن علوم چونکہ " مذاہب و مسالک " قید سے آزاد ہوتے ہیں ۔ سو ان علوم پر کھلے طور بحث و مباحثہ ہوتا ہے ۔ میں نے ایسے مسلمان " عامل کامل " نہ صرف دیکھے ہیں ۔بلکہ ان سے بے تکلف دوستی بھی رکھی ہے ۔ جو کہ خباثت و شر کی انتہائی پستی میں اتر کفر کی انتہا تک پہنچے ۔ اور اس قابل ہوئے کہ سفید کاغذ پر فلم چلا کر سائل کو اس کا گھر بار دکھا دیں ۔۔۔۔۔۔۔
ایسے ہندو عامل بھی ملے جو کہ قران کی تلاوت اس جذب سے کرتے کہ اڑتا پرندہ بھی مست ہو ان کے ہاتھ پر آ بیٹھے ۔
ایسے کرسچنز بھی دیکھے جو کہ " جھاڑ پھونک " کے لیئے قرانی آیات کا نہ صرف استعمال کرتے ہیں بلکہ سائلوں کو کچھ قرانی آیات بھی پڑھنے کی ہدایت کرتے ہیں ۔۔
ہم کہیں بھی ہوں ہماری ہر بات گھوم پھر ہمارے عقیدے ہمارے مذہب پر آنی ہوتی ہے ۔ کیونکہ ہمیں ہمارے مذاہب و مسالک نے " یقین " کی رسی سے باندھ رکھا ہوتا ہے ۔ اور " عین الیقین " اور " حق الیقین " کے درجے سے ڈراتا ہے کہ پھر چھوٹ نہ ہو گی ۔۔۔۔۔۔
 

قیصرانی

لائبریرین
جب مان لیا ، تو پھر جاننا کیا ضروری ہے؟
میں اس چیز کا قائل ہوں کہ چند ممنوعات کے علاوہ، ہمیں ہر امر پر تحقیق کرنے کی اجازت بھی ہے اور بار بار کہا بھی گیا ہے۔ ممنوعات جیسا کہ روح، اللہ تعالٰی کا وجود وغیرہ۔ اگر ہم جنات پر تحقیق کرتے ہیں، ہمزاد پر یا کسی دوسری ایسی چیز پر، جو براہ راست ہمارے ایمان کی بنیادی شرط کے خلاف نہ ہو، تو میرا نہیں خیال کہ اس میں کچھ برا ہے :)
اس سلسلے میں ایک چھوٹی سی مثال ہے کہ موت برحق ہے، لیکن علاج کے لئے کیوں کہا گیا ہے؟ علم حاصل کرنے پر زور دیا جاتا ہے، آخر کس لئے؟ اگر ہمارا دین ہی سچا اور سب سے اعلٰی ہے تو پھر ہمیں تحقیق سے کیوں پہلو تہی کرنی چاہئے؟
 

ظفری

لائبریرین
میں اس چیز کا قائل ہوں کہ چند ممنوعات کے علاوہ، ہمیں ہر امر پر تحقیق کرنے کی اجازت بھی ہے اور بار بار کہا بھی گیا ہے۔ ممنوعات جیسا کہ روح، اللہ تعالٰی کا وجود وغیرہ۔ اگر ہم جنات پر تحقیق کرتے ہیں، ہمزاد پر یا کسی دوسری ایسی چیز پر، جو براہ راست ہمارے ایمان کی بنیادی شرط کے خلاف نہ ہو، تو میرا نہیں خیال کہ اس میں کچھ برا ہے :)
اس سلسلے میں ایک چھوٹی سی مثال ہے کہ موت برحق ہے، لیکن علاج کے لئے کیوں کہا گیا ہے؟ علم حاصل کرنے پر زور دیا جاتا ہے، آخر کس لئے؟ اگر ہمارا دین ہی سچا اور سب سے اعلٰی ہے تو پھر ہمیں تحقیق سے کیوں پہلو تہی کرنی چاہئے؟
تحقیق ہر لحاظ سے ، ہر معاملے میں ہونی چاہیئے خواہ وہ مذہب ہی کیوں نہ ہو ۔ رہی باقی بات تصوف اور مرئی ، غیر مرئی اور ہمزاد وغیرہ کی ۔ یہ سب فلسفے کی کھوکھ سے پھوٹے ہیں ۔ لہذا اس ضمن میں جو بھی بات کی جائے اس پر سر دُھننے کی سوا کیا کیا جاسکتا ہے ۔
 

نایاب

لائبریرین
تحقیق ہر لحاظ سے ، ہر معاملے میں ہونی چاہیئے خواہ وہ مذہب ہی کیوں نہ ہو ۔ رہی باقی بات تصوف اور مرئی ، غیر مرئی اور ہمزاد وغیرہ کی ۔ یہ سب فلسفے کی کھوکھ سے پھوٹے ہیں ۔ لہذا اس ضمن میں جو بھی بات کی جائے اس پر سر دُھننے کی سوا کیا کیا جاسکتا ہے ۔
بلاشبہ یہ " فلسفے " کی کوکھ بہت زرخیز ہے ۔ مذہب ہو تصوف ہو یا کہ دہریت ۔۔۔۔۔۔۔۔ سب کو نہ صرف جنم دیا بلکہ ان کی بہت پرورش بھی کی ۔
اور فلسفے نے " تحقیق " کی کوکھ سے جنم لیا ۔۔۔۔۔۔ سو تحقیق سے کیا ڈر ۔۔۔۔۔۔۔۔؟
محترم ظفری بھائی سر دھنوانے آسان ہے کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
 

ظفری

لائبریرین
بلاشبہ یہ " فلسفے " کی کوکھ بہت زرخیز ہے ۔ مذہب ہو تصوف ہو یا کہ دہریت ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ سب کو نہ صرف جنم دیا بلکہ ان کی بہت پرورش بھی کی ۔
اور فلسفے نے " تحقیق " کی کوکھ سے جنم لیا ۔۔۔ ۔۔۔ سو تحقیق سے کیا ڈر ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔؟
محترم ظفری بھائی سر دھنوانے آسان ہے کیا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ؟
الہامی مذاہب ، فلسفے کی پیدوار نہیں ہیں ۔
 

نایاب

لائبریرین
الہامی مذاہب ، فلسفے کی پیدوار نہیں ہیں ۔
آپ کے جملے سے " متفق " ہوتے ہوئے بھی بہت پیچھے جانا پڑے گا محترم بھائی
فلسفے کی حقیقت کو جاننا پڑے گا ۔
کبھی سورج کبھی چاند کبھی ستاروں کی حاکمیت بارے سوچنا پڑے گا ۔
سوچ " غوروفکر " کرے گی ۔فلسفہ سامنے آئے گا ۔۔ تحقیق جستجو میں بدلے گی ۔۔۔ حق ظاہر ہوجائے گا ۔ ۔۔
آگ لینے جاؤ گے پیغمبری مل جائے گی ۔۔۔۔۔
ویران غار نور حقیقی سے جگمگا جائے گی ۔۔۔۔۔۔۔
 

ظفری

لائبریرین
آپ کے جملے سے " متفق " ہوتے ہوئے بھی بہت پیچھے جانا پڑے گا محترم بھائی
فلسفے کی حقیقت کو جاننا پڑے گا ۔
کبھی سورج کبھی چاند کبھی ستاروں کی حاکمیت بارے سوچنا پڑے گا ۔
سوچ " غوروفکر " کرے گی ۔فلسفہ سامنے آئے گا ۔۔ تحقیق جستجو میں بدلے گی ۔۔۔ حق ظاہر ہوجائے گا ۔ ۔۔
آگ لینے جاؤ گے پیغمبری مل جائے گی ۔۔۔ ۔۔
ویران غار نور حقیقی سے جگمگا جائے گی ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
وہ حادثہ نہیں تھا نایاب بھائی ۔ نبیوں اور پیغمبروں کا انتخاب اتفاقاً نہیں ہوتا ۔
ویسے آپس کی بات ہے کہ " فلسفے " کی صحیح تعریف کیا ہے ۔ ؟:)
 

ظفری

لائبریرین
تصوف فلسفہ نہیں ہے۔۔۔ یہ تو تزکیہ ہے نفس کا، تصفیہ ہے قلب کا، تجلیہ ہے روح کا، تخلیہ ہے سرّ کا، درجہ احسان ہے دین کا۔۔۔
تصوف کا معاملہ وہ نہیں ہے ۔ جو دین کا ہے ۔ دین کے حوالے سے آپ کچھ پوچھیں گے تو میں کہوں گا کہ مذہب کی مستند چیز قرآن مجید ہے ۔ اس کے بعد رسالت مآب ص کے ارشادات ہیں ۔ اگر مجھے اس سے پہلے کے بھی الہامی مذاہب پر بات کرنی ہو تو وہاں بھی میرے پاس تورات ، انجیل اور زبور ہے ۔ لہذا اگر میں کسی چیز کے بارے میں یہ کہوں کہ یہ دین ہے تو میرے پاس اصطلاحات کے ذرائع موجود ہیں ۔ جبکہ تصوف میں ایسا نہیں ہے ۔ چونکہ تصوف کے بارے میں بڑے جید علماء نے لکھا ہے اس لیئے تصوف علم کی دنیا میں قابلِ اعتناء ہوا ہے ۔جب شیخ ابنِ عربی ، امام غزالی ، ابو طالب مکی ،ابو اسماعیل حروی ، شہاب الدین سہروردی ،شاہ ولی اللہ شاہ اسماعیل کی کتب کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو پھر تصوف قابلِ اعتناء بھی بنتا ہے اور قابلِ تبصرہ بھی ۔ کیونکہ یہ صرف علماء نہیں بلکہ جلیل وا لقدر علماء بھی ہیں ۔ لہذا جب اس پائے کے علماء تصوف کی بات کرتے ہیں تو پھر یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ قرآن و سنت سے تصوف کا کیا تعلق بنتا ہے ۔ قرآن و سنت سے تعلق دیکھنے کے لیئے چند چیزوں کو سامنے رکھنا ضروری ہے ۔ ایک چیز تو یہ ملوحظ رہنا چاہیئے کہ خوداربابِ تصوف کے ہاں یہ تقسیم موجود ہے کہ جب وہ عوام کے سامنےدین کی بات کرتے ہیں ۔ تو وہ وہی دین ہوتا ہے جو میں اور آپ بیان کرتے ہیں ۔ وہی روزہ ، نماز ، حج ، روزہ وہی عقائد ۔ مگر جب وہ خواص کے لیئے دین کو بیان کرتے ہیں تو پھر وہ وہاں اپنا خاص نقطہ ِ نظر بھی لاگو کرتے ہیں ۔ اب اگر خواص کے لیئے بات بیان کی جا رہی ہے اور وہ دین کے دائرے میں ہے تو پھر تصوف کوئی قابلِ اعتراض چیز نہیں ہے ۔ لیکن جب وہ خاص نقطہ نظر ایک الگ دنیا پیش کردیتی ہے ( جو کہ کردیتی ہے ) ۔ تو پھر ایک طالب علم کے طور پر اس پر ضرور غور کرنا چاہیئے کہ اس بات کی دین کیساتھ کیا مناسبت پیدا ہوتی ہے ۔
دین دو چیزوں کا نام ہے ۔ ایمان اور عمل ۔ ایمانیات کی بنیاد توحید ہے ۔ رسالت ہے او ر قیامت کا تصور ہے ۔ عمل میں سب سے پہلے یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ دین نے کیا اصول مرتب کردیئے ہیں کہ ہم اس جگہ کھڑے ہوتے ہیں ۔ جہاں ہم نجات پائیں گے ۔ اور وہ جگہ کیا ہے جہاں دین کا جمال و کمال ظہور پذیر ہوتا ہے ۔ یہ ساری باتیں قرآ ن و سنت میں بیان ہوگئیں ہیں ۔ان کی روشنی میں جب آپ جائزہ لیتے ہیں ۔ تو تصوف کی کوئی اور ہی شکل سامنے آتی ہے ۔
 
میرے خیال میں تصوف ہی دین ہے۔۔۔۔اور دین کیا ہے؟ دین کا مقصد کیا ہے؟ یہی کہ اللہ کے ساتھ تعلق، اسلام کا تحقق (Realization)...
آپکی یہ بات درست ہے کہ مختلف لوگوں کا تصوف مختلف ہے جیسا کہ آپ نے مثال بھی دی بعض جلیل القدر شخصیات کی۔۔۔ (لیکن یہی بات تو مذہب کے بارے میں کہی جاسکتی ہے کہ ہر عام وخاص کا مذہب کے بارے میں نقطہ نظر تھوڑا سا مختلف ہوتا ہے۔ پور ی دنیا کو تو ایک طرف رکھئیے محض پاکستان مین ہی قرآن و سنت کے نام پر کتنی زیادہ رنگا رنگی اور ورائٹی پیش کی جاتی ہے دین کی تعبیرات کی)
 
محمود احمد غزنوی جی آپ پر سخت قسم کا غصہ اور طیش آرہا ہے تصوف کی تشریح کی آپ کو ضرورت کیا ہے اگر کسی نے تصوف کی کھچ مار ہی دی ہے تو آپ کو جوابا کھچیاں مارنے کی کیا ضرورت ہے جناب تصوف ایک عملی راہ ہے۔ میاں محمد بخش رحمۃ اللہ علیہ کی یہ بات ذہن میں رکھیں۔
خاصاں دی گل عاماں اگے نہیں کرنی مناسب
 
Top