"اس نظام میں پیسے یا نوٹ کا کوئی تصور نہیں۔ کسی بھی چیز کی قدر سونے، چاندی ، ہیرے جیسی نایاب تصوارتی مگر انسان کیلئے بیکار دھاتوں پر ہرگز نہیں رکھی جا سکتی۔ انتہائی افسوس ناک انسانی المیہ ہے کہ نت نئی ایجادات اور سائنسی کرشموں کے باوجود ہم نے ابھی تک اپنا اقتصادی قائدہ کئی ہزار سال پرانی نایاب دھاتوں پر رکھا ہوا ہے
پھر دور جدید میں اسکی ڈیجیٹل شکل جہاں پیسا محض اعداد کا ہیر پھیر اور نوٹ کاغذ کے ٹکڑوں سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ اور حیرت اس بات کی ہے کہ دنیا کے ۶ کھرب انسان اس اقتصادی نظام کو ایسے قبول کیے ہوئے ہیں جیسے اسکا متبادل بنانے کیلئے ہمیں دوسری کہکشاں سے کوئی خلائی مخلوق منگوانی پڑے گی!
"
جنابِ من ! سونا ، چاندی یا ہیرے سے زیادہ نایاب توخود "انسان" خود ہے کہ "آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا" ، اسے اس نظام کا حصہ بنانے کی کیا ضرورت ہے؟
پھر جن دھاتوں کو آپ بیکار سمجھتے ہیں، ان کی موجودہ مارکیٹ ویلیو پہ بھی غور کیجیے گا۔ آپ کے خیال میں ان معدنیات کو زمین کا سینہ پھاڑنے کے لیے جدید سائنس استعمال نہیں ہورہی؟ کیا وقت نے ثابت نہیں کردیا کہ جن دھاتوں کو آپ نے تصوراتی قرار دیا اور نایاب بھی، وہ حقیقی بھی ہیں اور دستیاب بھی۔ ان دھاتوں نے وقت کے ہر امتحان کا مقابلہ کیا ہے اور اپنی قدروقیمت کوآج بھی برقرار رکھا ہوا ہے۔ میرے خیال میں تو ان دھاتوں نے
زمان و مکاں کے ہر امتحان کا مقابلہ کیا ہے۔ دورِ پادشاہی ہو یا جمہوری تماشا، یہ دھاتیں کل بھی قیمتی تھیں اور آج بھی ہیں۔
کسی ویب سائٹ سے تحقیق فرمالیں کہ دنیا میں ان دھاتوں کے ذخائر کس تعداد میں موجود ہیں اور ہر ملک کے پاس کتنی مقداد میں یہ موجود ہیں۔