The Venus Project ایک نئے دور کی ابتداء!

x boy

محفلین
کچھ لوگ اعمال پر اور حیات بعد الموت پر یقین نہیں رکھتے، آپ انہیں کیسے سمجھائیں گے؟ وہ اپنے آپ کو ہی عقل کُل سمجھتے ہیں۔

کچھ لوگ ہو تو بات غلط نہیں جنگل میں ہر طرح کے جاندار رہتے ہیں، لیکن وہ بدترین مخلوق ہے جو اسلام کا نام لیتے ہیں اور اعمال اور عتقاد غیروں سے لیتے ہیں۔
اسلام نے کبھی کسی کو نہیں چھیڑا اللہ کے دین کی دعوت دی ہے مانے اس کی مرضی نہ مانے بھی اس کی مرضی لیکن کہہ بھی رہا میں مسلمان ہوں اور اعمال ابلس اور اس کے کارندوں کا۔
ایک ہندو نے سوال کیا کہ اسلام تلوار سے پہلا ہے
جواب دیا گیا کہ اسلام پیار محبت سے پھیلا ہے اس کا ثبوت تو خود ہے جو اپنے پاؤں پر کھڑا پتھروں کو پوچتا ہے اگر تلوار پھیلتا تو900 سال کی حکومت میں
کوئی اشوک نہیں رہتا کوئی اشلوک نہیں پڑھتا۔
انتھی۔
 

arifkarim

معطل
ایسا نظام بنانا چاہتا ہے جس نے پہلے ہی مسلمانوں کے ذخائر سیٹیلائٹ سے دیکھ کر پاگل کتا ہوا ہوا ہے
نظام سیکھا رہا ون ورلڈ آرڈر کی تیاری کررہا ہے
ان شاء اللہ وہ وقت قریب ہے جب سب جگہہ اسلام کا جھنڈا لہرایا گا، اس کمینی آرڈر کو عیسی ابن مریم علیہ السلام اپنے پاؤں سے روندے گے۔
مسلمانوں کو نظام سیکھارہے ہیں ہمارا نظام قرآن و سنہ ہے دیر ہوگئی ہے لیکن ان شاء اللہ ایک بار پورے روح زمین پر قائم ہوگا۔
جس کو دنیا کو جتنا کیش کرنا ہے کرلے، اللہ کے حکم کی نافرمانی کرلے، سب انسان ، چرند پرند، پوری کائنات بمع مخلوق کو ایک دن لپیٹ لی جائے گی۔
اس دن سے ڈرو جس دن کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا صرف اعمال کام آئے۔
تیل سے پہلے ہمارا عرب نظام انگریز چلا رہے تھے اور اس سے پہلے عثمانی ترک۔ عرب تو پچھلے کئی سو سالوں سے دنیا کے کسی نظام کا حصہ نہیں ہیں۔ تمام عرب ممالک کی کل دولت تیل کی دولت نکال کر کسی ایک یورپی ملک کے برابر بھی نہیں ہے۔ ہاہاہا۔ یہ کونسا اسلامی نظام دنیا کو دیں گے؟ عربوں کی مکمل نااہلی کا اقرار تو خود انکے بڑے بڑے شیخ کرتے پھرتے ہیں۔ خود دیکھ لیں، عربی دان:
The Muslim world has been afflicted with economic stagnation for many centuries. In 2011, U.S. President Barack Obama stated that apart from crude oil, the exports of the entire Greater Middle East with its 400 million population roughly equals that of Switzerland.[26]It has also been estimated that the exports of Finland, a European country of only five million, exceeded those of the entire 260 million-strong Arab world, excluding oil revenue.
http://en.wikipedia.org/wiki/Islamic_terrorism
 

x boy

محفلین
تیل سے پہلے ہمارا عرب نظام انگریز چلا رہے تھے اور اس سے پہلے عثمانی ترک۔ عرب تو پچھلے کئی سو سالوں سے دنیا کے کسی نظام کا حصہ نہیں ہیں۔ تمام عرب ممالک کی کل دولت تیل کی دولت نکال کر کسی ایک یورپی ملک کے برابر بھی نہیں ہے۔ ہاہاہا۔ یہ کونسا اسلامی نظام دنیا کو دیں گے؟ عربوں کی مکمل نااہلی کا اقرار تو خود انکے بڑے بڑے شیخ کرتے پھرتے ہیں۔ خود دیکھ لیں، عربی دان:
The Muslim world has been afflicted with economic stagnation for many centuries. In 2011, U.S. President Barack Obama stated that apart from crude oil, the exports of the entire Greater Middle East with its 400 million population roughly equals that of Switzerland.[26]It has also been estimated that the exports of Finland, a European country of only five million, exceeded those of the entire 260 million-strong Arab world, excluding oil revenue.
http://en.wikipedia.org/wiki/Islamic_terrorism
کیا اپنے مالکان کی ہمدردی میں منہ میں پانی آگیا،، غور سے پڑھوں میں نے مسلمانوں کے ذخائر کہا ہے اور آپ کو عربوں سے ویسی ہی دشمنی جسطرح یہودی اسی دن سے رکھتے ہیں جب انکا پتا چلا کہ آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم عرب سے بنی اسمائیل سے ہیں۔
 

arifkarim

معطل
کچھ لوگ اعمال پر اور حیات بعد الموت پر یقین نہیں رکھتے، آپ انہیں کیسے سمجھائیں گے؟ وہ اپنے آپ کو ہی عقل کُل سمجھتے ہیں۔
700 - 1300 عیسوی تک جو مسلمان عربوں، فارسیوں اور بربروں نے قابل تعریف سائنسی ایجادات کیں جنکی بنیاد پر مغربی سائنس پڑوان چڑھی، کیا یہ مسلمان سائنسدان صرف بعدالموت والی زندگی پر ہی ساری زندگی گزار دیتے تھے؟ اسلام میں میانہ روی کا حکم ہے۔ صرف بعد الموت والی زندگی ہی کافی نہیں ہے۔ یہ زندگی اور اسمیں بہتری بھی ضروری ہے، آنے والی نسلوں کیلئے۔
Science in the medieval Islamic world, also known as Islamic science or Arabic science, is the science developed and practised in the Islamic world during the Islamic Golden Age (c.750 CE – c.1258 CE). During this time, Indian, Asyriac, Iranian and especially Greek knowledge was translated into Arabic. These translations became a wellspring for scientific advances, by scientists from the Islamic civilization, during the Middle Ages.[1]

Scientists within the Islamic civilization were of diverse ethnicities. Most werePersians,[2][3][4][5] Arabs,[4] Moors, Assyrians, and Egyptians. They were also from diverse religious backgrounds. Most were Muslims,[6][7][8] but there were also someChristians,[9] Jews[9][10] and irreligious.[11][12]
http://en.wikipedia.org/wiki/Islamic_science
پھر بالآخر آسمان کے نیچے بد ترین مخلوق یعنی علما نے اس اسلامی سائنسی دور کا مکمل خاتمہ کر دیا؛
The 11th-century theologian al-Ghazali epitomised the traditionalist Ashari school that came to dominate Sunni Islam. His Incoherence of the Philosophers attacked philosophy on 20 counts of heresy. These included the idea that nature had its own, internally-consistent laws and ways of operating – this was heretical because only God is truly independent, and nature must be dependent on God. The theologians missed an obvious mystical solution: nature reflects the names of God, so for example, the beauty and precision of natural, scientific laws reflects the divine names of God as the Beautiful and the Determiner.

The Asharis also denied causality, or the principle of cause and effect, even though their position negates free will and personal responsibility. If I were to punch you in the face, I could argue that God and his angels had actually broken your nose: it was purely a coincidence that my fist was nearby, and any imagined connection between my punch and your injury was just an illusion!

The Asharis were trying to justify miracles, such as that of Abraham remaining unharmed when thrown into a large fire. Fire burned objects, they reasoned, not because of an innate burning quality but because God created this quality in fire at every instant. If God willed, he could suspend the burning action of fire, as he did to save Abraham. al-Ghazali extended this reasoning to other familiar situations: "Water does not quench thirst, bread does not satisfy hunger and medicine does not cure illness" – it is always God who mediates what we think is cause and effect.
http://www.theguardian.com/commentisfree/belief/2009/nov/27/islam-science-ghazali
12 ویں صدی کے ان علماء نے 7 صدی عیسویں سے لیکر 12 ویں عیسوی تک کی ہونی والی عظیم الشان سائنسی کاوشوں پر ایسی کاری ضرب لگائی جو آج تک عالم اسلام کو 21 ویں صدی میں ہونے کے باوجود 12 ویں صدی کے مقام پر رکھے ہوئے ہے!
This may sound like the punch line of a bad joke, but when Nature magazine published a sketch of science in the Arab world in 2002, its reporter identified just three scientific areas in which Islamic countries excel: desalination, falconry, and camel reproduction.
http://www.thenewatlantis.com/publications/why-the-arabic-world-turned-away-from-science
 

arifkarim

معطل
کیا اپنے مالکان کی ہمدردی میں منہ میں پانی آگیا،، غور سے پڑھوں میں نے مسلمانوں کے ذخائر کہا ہے اور آپ کو عربوں سے ویسی ہی دشمنی جسطرح یہودی اسی دن سے رکھتے ہیں جب انکا پتا چلا کہ آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم عرب سے بنی اسمائیل سے ہیں۔
یہود نے تو عرب کو دربدر نہیں کیا تھا۔ عرب نے یہود کو انکے زمانہ اسلام سے قبل یثرب اور خیبر سے نکالا تھا! کونسی تاریخ پڑھی ہے آپنے مدرسے والوں سے؟
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
درج بالا پوسٹ میں امام ابو حنیفہ کا ذکر غلط جگہ ہو گیا ہے، اس سے محسوس یوں ہوتا ہے جیسے میں نے کہا کہ امام ابو حنیفہ کی دینی حالت قابل رشک نہیں بلکہ قابل غور تھی اور اس کو بہتر کرنے کی ضرورت تھی۔ یہ تاثر غلط ہے ۔ امام ابو حنیفہ کا ذکر اس اقتباس میں کہیں نہیں ہے، اس لیے اسے الگ ہی سمجھا جائے یعنی امام ابو حنیفہ کبار تابعین میں سے تو ہیں، لیکن وہ اس وقت وہیں بیٹھے تھے اور امام زین العابدین کے ساتھ تھے، یہ غلط ہے۔ ایک اور غلطی اس میں امام زین العابدین کے نام کی ہے۔ کیونکہ میرے ذہن میں یہ بات کھٹک رہی ہے کہ یہ بات خواجہ حسن بصری نے کہی اور میں نے امام زین العابدین لکھ دیا۔۔۔ بہرحال اگر مجھے کبھی تذکرۃ الاولیاء میسر آئی تو اس پوسٹ کو دوبارہ درست کرنا میرے ذمہ ادھار رہا۔ بصدمعذرت۔۔۔
واقعی یہ امام زین العابدین کا واقعہ نہیں ہے ۔۔ خواجہ حسن بصری کا ہے ۔۔۔ ۔یاد آگیا ہے۔۔
 
"اس نظام میں پیسے یا نوٹ کا کوئی تصور نہیں۔ کسی بھی چیز کی قدر سونے، چاندی ، ہیرے جیسی نایاب تصوارتی مگر انسان کیلئے بیکار دھاتوں پر ہرگز نہیں رکھی جا سکتی۔ انتہائی افسوس ناک انسانی المیہ ہے کہ نت نئی ایجادات اور سائنسی کرشموں کے باوجود ہم نے ابھی تک اپنا اقتصادی قائدہ کئی ہزار سال پرانی نایاب دھاتوں پر رکھا ہوا ہے:( پھر دور جدید میں اسکی ڈیجیٹل شکل جہاں پیسا محض اعداد کا ہیر پھیر اور نوٹ کاغذ کے ٹکڑوں سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ اور حیرت اس بات کی ہے کہ دنیا کے ۶ کھرب انسان اس اقتصادی نظام کو ایسے قبول کیے ہوئے ہیں جیسے اسکا متبادل بنانے کیلئے ہمیں دوسری کہکشاں سے کوئی خلائی مخلوق منگوانی پڑے گی!:laughing:"

جنابِ من ! سونا ، چاندی یا ہیرے سے زیادہ نایاب توخود "انسان" خود ہے کہ "آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا" ، اسے اس نظام کا حصہ بنانے کی کیا ضرورت ہے؟
پھر جن دھاتوں کو آپ بیکار سمجھتے ہیں، ان کی موجودہ مارکیٹ ویلیو پہ بھی غور کیجیے گا۔ آپ کے خیال میں ان معدنیات کو زمین کا سینہ پھاڑنے کے لیے جدید سائنس استعمال نہیں ہورہی؟ کیا وقت نے ثابت نہیں کردیا کہ جن دھاتوں کو آپ نے تصوراتی قرار دیا اور نایاب بھی، وہ حقیقی بھی ہیں اور دستیاب بھی۔ ان دھاتوں نے وقت کے ہر امتحان کا مقابلہ کیا ہے اور اپنی قدروقیمت کوآج بھی برقرار رکھا ہوا ہے۔ میرے خیال میں تو ان دھاتوں نے
زمان و مکاں کے ہر امتحان کا مقابلہ کیا ہے۔ دورِ پادشاہی ہو یا جمہوری تماشا، یہ دھاتیں کل بھی قیمتی تھیں اور آج بھی ہیں۔
کسی ویب سائٹ سے تحقیق فرمالیں کہ دنیا میں ان دھاتوں کے ذخائر کس تعداد میں موجود ہیں اور ہر ملک کے پاس کتنی مقداد میں یہ موجود ہیں۔
 
آزمودہ حل ہمارے پاس اسلامی تعلیمات کی صورت میں موجود ہے اور مکمل بھی ہے۔ لیکن چونکہ ہم فرقہ واریت اور نہ جانے کیسی کیسی مشرکانہ عادات میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ ایسے میں "سب" کو "ایک" قسم کا مسلمان بنانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ اسلئے اگر مسلمانیت کی بجائے صرف انسانیت کو بنیاد بنایا جائے جو ہر انسان کے دل میں یکساں ہیں۔ تو مجھے امید ہے کہ موجودہ معاشرے کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
لیکن آپ کو یہ کون بتائے گا کہ "انسان" کون ہے اور کون نہیں ہے۔ اہلِ مغرب کے لیے نہ عراقی انسان ہیں، نہ فلسطینی، نہ کشمیری، نہ افغانی اور شاید پاکستانی بھی نہیں۔ ذرا سا پیچھے دیکھیں تو بوسنیا والے بھی انسان نہیں تھے۔ یاد ہے نا؟
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
"
کسی ویب سائٹ سے تحقیق فرمالیں کہ دنیا میں ان دھاتوں کے ذخائر کس تعداد میں موجود ہیں اور ہر ملک کے پاس کتنی مقداد میں یہ موجود ہیں۔
اس بات کی تحقیق کون فرمائے گا کہ وہ ویب سائٹ سچ کہہ رہی ہے یا پھر کوئی مجھ جیسا جاہل اپنی مرضی کے دھاتوں کے ذخائر ہر ملک کو خود ہی تفویض کرتا چلا جارہا ہے ؟؟؟
 

x boy

محفلین
انسانیت کا واحد حل صرف قرآن کریم اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں پر ہے
باقی سب نظام اور اس کو چلانے والا، اس کی تبلیغ و اشاعت میں زرہ برابر حصہ ڈالنے والے سب جہنم میں ڈالے جائے گی۔
کیونکہ میں متعدد بار حدیث سنی اور پڑھی جسکا مفہوم ہے کہ جو کوئی اسلام چھوڑکر اور کوئی دین اختیار کرے گا وہ قبول نہیں کی جائے گی
اور جو مسلمان غیروں کی مشابہت کرے وہ ان میں سے ہے

پھر سے کہہ رہا ہوں غیروں کی مشابہت کرنے والے انہی میں سے ہے
عارف کریم صاحب ہم اس بات پر تنقید ضرور کرینگے جو آپ نے حل دکھایا اس کو انکار کرنے کے لئے ہمارے پیارے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم
(((( ان کے بعد کوئی نبی یا پیغمبر نہیں آئے گا اگر کسی نے ایسا کرنے کی کوشش کی وہ مردود ہے))))
نے بہت زیادہ باتیں بتائیں جو الحمدللہ ثم الحمدللہ صحیح حدیث کی صورت میں موجود پے
ایک بہت ہی عام سی عادت ڈالنے کو کہا گیا ہے کہ جو شخص سورہ کہف ہر جمعے باقاعدگی سے پڑھے گا وہ فتنہ دجال (فری میسن،زیونیسٹ ، سیکولر، یہود و نصارا کا نظام) سے بچتا رہے گا۔
 
اس بات کی تحقیق کون فرمائے گا کہ وہ ویب سائٹ سچ کہہ رہی ہے یا پھر کوئی مجھ جیسا جاہل اپنی مرضی کے دھاتوں کے ذخائر ہر ملک کو خود ہی تفویض کرتا چلا جارہا ہے ؟؟؟
خوش گمان رہنا، بد گمان رہنے سے بہتر ہے۔
بہت سے امور میں ہم ویبب سائٹ اور میڈیا سے "علم" حاصل کرکے بلا تحقیق مان لیتے ہیں۔ مسئلہ یہ نہیں کو معلومات مستند ہیں یا نہیں(تقابلی مطالعہ کرکے درست معلومات مل بھی جاتی ہے) ۔ میرے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ کیا ان دھاتوں نے ہزاروں سالوں سے اپنی افادیت اور قدر و قیمت ثابت نہیں کر دی؟
 

قیصرانی

لائبریرین
"اس نظام میں پیسے یا نوٹ کا کوئی تصور نہیں۔ کسی بھی چیز کی قدر سونے، چاندی ، ہیرے جیسی نایاب تصوارتی مگر انسان کیلئے بیکار دھاتوں پر ہرگز نہیں رکھی جا سکتی۔ انتہائی افسوس ناک انسانی المیہ ہے کہ نت نئی ایجادات اور سائنسی کرشموں کے باوجود ہم نے ابھی تک اپنا اقتصادی قائدہ کئی ہزار سال پرانی نایاب دھاتوں پر رکھا ہوا ہے:( پھر دور جدید میں اسکی ڈیجیٹل شکل جہاں پیسا محض اعداد کا ہیر پھیر اور نوٹ کاغذ کے ٹکڑوں سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ اور حیرت اس بات کی ہے کہ دنیا کے ۶ کھرب انسان اس اقتصادی نظام کو ایسے قبول کیے ہوئے ہیں جیسے اسکا متبادل بنانے کیلئے ہمیں دوسری کہکشاں سے کوئی خلائی مخلوق منگوانی پڑے گی!:laughing:"

جنابِ من ! سونا ، چاندی یا ہیرے سے زیادہ نایاب توخود "انسان" خود ہے کہ "آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا" ، اسے اس نظام کا حصہ بنانے کی کیا ضرورت ہے؟
پھر جن دھاتوں کو آپ بیکار سمجھتے ہیں، ان کی موجودہ مارکیٹ ویلیو پہ بھی غور کیجیے گا۔ آپ کے خیال میں ان معدنیات کو زمین کا سینہ پھاڑنے کے لیے جدید سائنس استعمال نہیں ہورہی؟ کیا وقت نے ثابت نہیں کردیا کہ جن دھاتوں کو آپ نے تصوراتی قرار دیا اور نایاب بھی، وہ حقیقی بھی ہیں اور دستیاب بھی۔ ان دھاتوں نے وقت کے ہر امتحان کا مقابلہ کیا ہے اور اپنی قدروقیمت کوآج بھی برقرار رکھا ہوا ہے۔ میرے خیال میں تو ان دھاتوں نے
زمان و مکاں کے ہر امتحان کا مقابلہ کیا ہے۔ دورِ پادشاہی ہو یا جمہوری تماشا، یہ دھاتیں کل بھی قیمتی تھیں اور آج بھی ہیں۔
کسی ویب سائٹ سے تحقیق فرمالیں کہ دنیا میں ان دھاتوں کے ذخائر کس تعداد میں موجود ہیں اور ہر ملک کے پاس کتنی مقداد میں یہ موجود ہیں۔
صاحبِ دھاگہ اپنے خیالات سے رجوع کر چکے ہیں :)
 

arifkarim

معطل
یا گوگل کروم نیا تھا۔ خود اپنی موت مر رہا ہے۔
اب کیا خیال ہے؟ :)

صاحبِ دھاگہ اپنے خیالات سے رجوع کر چکے ہیں :)
ہیں، یہ کب ہوا؟ حال ہی میں نامور فرانسیسی ماہر معاشیات Thomas Piketty کی نیویورک ٹائمز بیسٹ سیلر Capital in the Twenty-First Century پڑھ کر فارغ ہوا ہوں جو کہ 700 صفحات پر مبنی ہے اور وینس پراجیکٹ میں اٹھائے گئے اس فرسودہ سرمایہ دارانہ نظام پر اعتراضات کا اثبوتوں اور دلائل کیساتھ جواز فراہم کرتی ہے:
http://www.amazon.com/Capital-Twenty-First-Century-Thomas-Piketty/dp/067443000X
http://en.wikipedia.org/wiki/Capital_in_the_Twenty-First_Century#Publication_and_initial_reception
حیرت انگیز طور پرا س کتاب کو دنیا کے امیر ترین انسان بل گیٹس نے بھی پڑھا اور اپنے بلاگ پر تبصرہ کیا:
http://www.gatesnotes.com/Books/Why-Inequality-Matters-Capital-in-21st-Century-Review

تھامس کا نکتہ نظر پوری کتاب میں یہ ہے کہ عدم مساوات موجودہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا بنیادی عنصر ہے اور اگر اسے ایسے ہی بے لگام چلنے دیا گیا تو معاشی و اقتصادی مساوات کی دھجیاں بکھر جائیں گی جسکی وجہ سے مغربی جمہوری نظام کو بھی مستقبل میں خطرہ لاحق ہے۔ امریکی و یورپی معیشت کی حالیہ بدحالی سے کون واقف نہیں؟ حالانکہ یہ علاقے دنیا میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ کہلاتے ہیں۔ اگر دنیا کے سب سے ترقی یافتہ ممالک 2007،2008 میں آنے والے معاشی و اقتصادی بھونچا سے ابھی تک نبٹنے میں کامیاب نہیں ہو سکے بلکہ مزید اس دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں تو کہاں گئے اس نظام کو بچانے والوں کے بلند و باند دعوے؟
http://theeconomiccollapseblog.com/...n-workers-make-less-than-28031-dollars-a-year
 

محمدصابر

محفلین
اب کیا خیال ہے؟ :)


ہیں، یہ کب ہوا؟ حال ہی میں نامور فرانسیسی ماہر معاشیات Thomas Piketty کی نیویورک ٹائمز بیسٹ سیلر Capital in the Twenty-First Century پڑھ کر فارغ ہوا ہوں جو کہ 700 صفحات پر مبنی ہے اور وینس پراجیکٹ میں اٹھائے گئے اس فرسودہ سرمایہ دارانہ نظام پر اعتراضات کا اثبوتوں اور دلائل کیساتھ جواز فراہم کرتی ہے:
http://www.amazon.com/Capital-Twenty-First-Century-Thomas-Piketty/dp/067443000X
http://en.wikipedia.org/wiki/Capital_in_the_Twenty-First_Century#Publication_and_initial_reception
حیرت انگیز طور پرا س کتاب کو دنیا کے امیر ترین انسان بل گیٹس نے بھی پڑھا اور اپنے بلاگ پر تبصرہ کیا:
http://www.gatesnotes.com/Books/Why-Inequality-Matters-Capital-in-21st-Century-Review

تھامس کا نکتہ نظر پوری کتاب میں یہ ہے کہ عدم مساوات موجودہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا بنیادی عنصر ہے اور اگر اسے ایسے ہی بے لگام چلنے دیا گیا تو معاشی و اقتصادی مساوات کی دھجیاں بکھر جائیں گی جسکی وجہ سے مغربی جمہوری نظام کو بھی مستقبل میں خطرہ لاحق ہے۔ امریکی و یورپی معیشت کی حالیہ بدحالی سے کون واقف نہیں؟ حالانکہ یہ علاقے دنیا میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ کہلاتے ہیں۔ اگر دنیا کے سب سے ترقی یافتہ ممالک 2007،2008 میں آنے والے معاشی و اقتصادی بھونچا سے ابھی تک نبٹنے میں کامیاب نہیں ہو سکے بلکہ مزید اس دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں تو کہاں گئے اس نظام کو بچانے والوں کے بلند و باند دعوے؟
http://theeconomiccollapseblog.com/...n-workers-make-less-than-28031-dollars-a-year
اس کا جواب دینے کے لئے مجھے پورا دھاگا پڑھنا پڑے گا۔ جو انتہائی فضول کام لگ رہا ہے۔ اس لئے معذرت
 

اردوساگر

محفلین
عارف بھائیکی باتیں نئے سسٹم کے متعلق ہے ، لہذا یہ ضروری نہیں کہ اسے مذہبی رنگ دیا جائے
مثلا اگر ہم اکنومکس کے لیکچر میں بیٹھے ہیں تو یہاں اسلامیات کی ڈشکشن کرنا مفید نہیں ہوگا ، اگرچہ اس کی افادیت سے انکار نہیں
 
Top