arifkarim
معطل
ذرا سوچیں: ایک ایسا معاشرہ جہاں ہر انسان کو بنیادی ضروریات زندگی وافر مقدار میں میسر ہوں۔ جہاں جرائم کی شرح صفر فیصد ہو۔ جہاں پیسا، دولت، فخر، غرور،قوم، مذہب، نسل ،رنگ،جنگ اور ہر وہ چیز جو ایک انسان کو دوسرے انسان سے جدا کرتی ہے، موجود نہ ہو۔جہاں ہمیں بنیادی ضروریات زندگی کے حصول کی خاطر عمر بھر کی غلام نوکری نہ کرنی پڑے۔ جہاں ہماری اولادیں چین اور اسکون کی نیندسو سکیں۔ جہاں لیٹسٹ ٹیکنالوجی ہر انسان کو میسر ہو۔ جہاں دنیا کی کوئی بھی چیز قابل فروخت نہ ہو!!!
پیش خدمت ہے دور جدید کا نیا معاشرتی و اقتصادی نظام: ’’Resource-Based Economy‘‘
اس نظام میں پیسے یا نوٹ کا کوئی تصور نہیں۔ کسی بھی چیز کی قدر سونے، چاندی ، ہیرے جیسی نایاب تصوارتی مگر انسان کیلئے بیکار دھاتوں پر ہرگز نہیں رکھی جا سکتی۔ انتہائی افسوس ناک انسانی المیہ ہے کہ نت نئی ایجادات اور سائنسی کرشموں کے باوجود ہم نے ابھی تک اپنا اقتصادی قائدہ کئی ہزار سال پرانی نایاب دھاتوں پر رکھا ہوا ہے پھر دور جدید میں اسکی ڈیجیٹل شکل جہاں پیسا محض اعداد کا ہیر پھیر اور نوٹ کاغذ کے ٹکڑوں سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ اور حیرت اس بات کی ہے کہ دنیا کے ۶ کھرب انسان اس اقتصادی نظام کو ایسے قبول کیے ہوئے ہیں جیسے اسکا متبادل بنانے کیلئے ہمیں دوسری کہکشاں سے کوئی خلائی مخلوق منگوانی پڑے گی!
اس نئےنظام میں دنیاوی وسائل اور ذرائع کی بنیاد پر معیشیت قائم ہوگی۔ جیسا کہ قرآن پاک میں خدا تعالیٰ فرماتا ہےکہ اُسنے اس زمین کو زندہ اور مردوں کیلئے ہر لحاظ سے مکمل اور کافی بنایا ہے۔ یعنی اسمیں اتنے وسائل موجود ہیں کہ یہاں پر بسنے والی ہر جان کی بنیادی ضروریات کو پورا کیا جا سکتا ہے ( ماڈرن سائنس بھی یہ ثابت کر چکی ہے)۔ اسکے باوجود آجکل کے زمانے میں بھوک ، ننگ اور اموات عام ہیں، آخر کیوں؟ جواب :موجودہ اقتصادی نظام کی وجہ سے جو محض سود اور قرض کی بنیاد پر کھڑا ہے۔ جسمیں حقیقی دولت کا کوئی تصور نہیں۔ جسکو چلانے اور قائم رکھنے والے گنتی کے سرمایہ دار بینکرز ہیں۔ اور پوری دنیا انکی غلام بنی ہوئی ہے۔
نئے اقتصادی نظام میں غلامی کی نوکریوں اور چند مخصوص افراد تک آسائیشیات زندگی کا حصول ختم ہو جائے گا، اور تمام قومیں ملکر اس زمین کے وسائل کو استعمال کریں گی۔ بازآوری کو بڑھانے کیلئے لیٹسٹ سائنٹفک ٹیکنالوجی اور نئی توانائی کی اقسام کو استعمال کیا جائے گا۔ جنکی بدولت تیل، گیس، کوئلہ، جوہر اور ان جیسی تمام ناقبل تجدید توانائیوں کا خاتمہ ہوگا۔ اور انکی جگہ شمسی، بحری، ہوائی اور آبی توانائی جیسی قابل تجدید برقی پلانٹس لے لیں گے۔ نئے اقسام کی برقی ٹرانسپورٹ کی وجہ سے حادثات میں کمی آئے گی، نیز دنیا ماحول کی آلودگی سے بچ سکے گی!
جب غربت و افلاس جیسی بے حسی اس دنیا سے اٹھ جائے گی اور ہر انسان محض خدا کے فضل سے غنی ہوگا۔ یہ وہ وقت ہوگا جب تہذیب اور مذہب اپنا جوہر دکھائے گی اور انسان صحیح معنوں میں اپنے خالق کے بنائے ہوئے اصولوں پر چل سکے گا۔ کیونکہ اسلام کا مطلب ہی امن اور سلامتی ہے، جو کہ موجودہ نظام کی بدولت ہرگز ممکن نہیں۔ اب فیصلہ آپکے یعنی غلام عوام کے ہاتھ میں ہے کہ آیا ساری زندگی موجودہ گندے اور کرپٹ نظام کی صفائی کر تے گزاریں یا پھر ایک بالکل نیا نظام تشکیل دیں۔۔۔
نظام کی لاجک انتہائی آسان ہے اور ایک چین کی صورت میں چلتی ہے۔ ہر عمل کا ایک رد عمل ہے:
۱۔پیسا ختم تو اس سے منسلکہ تمام معاشرتی اور اخلاقی جرائم و گناہ ختم!
۲۔ہر شخص غنی تو تکبر،حسد، گھمنڈ اور کلاس سسٹم ختم!
۳۔قومیت ختم تو ممالک کا تصور ختم، ممالک کا تصور ختم تو ملکی حدود ختم، ملکی حدود ختم تو جنگ ختم، جنگ ختم تو ہتھیار ختم، ہتھیار ختم ، تو امن قائم! (اسکے بعد ہی قرآن پاک کی اس آیت پر عمل کیا جا سکتا ہے کہ ’’زمین میں جہاں مرضی سے کھاؤ پیو اور فساد نہ کرو!‘‘ مطلب یہ زمین حقیقتاً کسی انسان کی جاگیر نہیں ہے بلکہ خدا کی امانت ہے اور وہی اسکا اصل مالک ہے۔ یعنی ایک انسان کا حق ہے کہ جہاں جانا چاہے، جا سکتا اور اسے کسی قسم کے ’’ویزے‘‘ کی ضرورت نہیں!
الغرض ایک ایسا نظام جسکا مقصد منافع کی بجائے محض انسانیت کا حصول ہو، خواہ بہترین نظام نہ ہو لیکن موجودہ سود کی غلامی کے نظام سے بہت بہت بہتر ہے۔ میں جانتا ہوں کہ یہ سب پڑھنے کے بعد اس نظام کے تصور سے ہی کچھ لوگ راہ فرار کر چکے ہوں گے یا مجھے پاگل پن کاسرٹیفیکٹ جاری کرچکے ہوں گے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ اب ہمیں اپنی سوچ کی غلامی سے بیدار ہونا ہے، اپنی انسانی خود غرضی اور بے حسی کو ختم کرنا ہے۔ اپنے علاوہ ان تمام انسانوں کے متعلق سوچنا ہے جو اس کرپٹ نظام کے باعث روز مرتے ہیں اور روز جیتے ہیں۔ کہ اس سے پہلے خدا کا قہر ہم پر نازل ہو، ہم توبہ کر لیں! آمین۔
اگر کسی ’’اور‘‘ پاگل یا دور اندیش کو اس بارے میں مزید جانکاری چاہیے تو یہاں سے حاصل کر سکتا ہے:
http://www.thevenusproject.com/
کیا ایسے معاشرے کا وجود ممکن ہے؟؟؟
جی ہاں!
جی ہاں!
پیش خدمت ہے دور جدید کا نیا معاشرتی و اقتصادی نظام: ’’Resource-Based Economy‘‘
اس نظام میں پیسے یا نوٹ کا کوئی تصور نہیں۔ کسی بھی چیز کی قدر سونے، چاندی ، ہیرے جیسی نایاب تصوارتی مگر انسان کیلئے بیکار دھاتوں پر ہرگز نہیں رکھی جا سکتی۔ انتہائی افسوس ناک انسانی المیہ ہے کہ نت نئی ایجادات اور سائنسی کرشموں کے باوجود ہم نے ابھی تک اپنا اقتصادی قائدہ کئی ہزار سال پرانی نایاب دھاتوں پر رکھا ہوا ہے پھر دور جدید میں اسکی ڈیجیٹل شکل جہاں پیسا محض اعداد کا ہیر پھیر اور نوٹ کاغذ کے ٹکڑوں سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ اور حیرت اس بات کی ہے کہ دنیا کے ۶ کھرب انسان اس اقتصادی نظام کو ایسے قبول کیے ہوئے ہیں جیسے اسکا متبادل بنانے کیلئے ہمیں دوسری کہکشاں سے کوئی خلائی مخلوق منگوانی پڑے گی!
اس نئےنظام میں دنیاوی وسائل اور ذرائع کی بنیاد پر معیشیت قائم ہوگی۔ جیسا کہ قرآن پاک میں خدا تعالیٰ فرماتا ہےکہ اُسنے اس زمین کو زندہ اور مردوں کیلئے ہر لحاظ سے مکمل اور کافی بنایا ہے۔ یعنی اسمیں اتنے وسائل موجود ہیں کہ یہاں پر بسنے والی ہر جان کی بنیادی ضروریات کو پورا کیا جا سکتا ہے ( ماڈرن سائنس بھی یہ ثابت کر چکی ہے)۔ اسکے باوجود آجکل کے زمانے میں بھوک ، ننگ اور اموات عام ہیں، آخر کیوں؟ جواب :موجودہ اقتصادی نظام کی وجہ سے جو محض سود اور قرض کی بنیاد پر کھڑا ہے۔ جسمیں حقیقی دولت کا کوئی تصور نہیں۔ جسکو چلانے اور قائم رکھنے والے گنتی کے سرمایہ دار بینکرز ہیں۔ اور پوری دنیا انکی غلام بنی ہوئی ہے۔
نئے اقتصادی نظام میں غلامی کی نوکریوں اور چند مخصوص افراد تک آسائیشیات زندگی کا حصول ختم ہو جائے گا، اور تمام قومیں ملکر اس زمین کے وسائل کو استعمال کریں گی۔ بازآوری کو بڑھانے کیلئے لیٹسٹ سائنٹفک ٹیکنالوجی اور نئی توانائی کی اقسام کو استعمال کیا جائے گا۔ جنکی بدولت تیل، گیس، کوئلہ، جوہر اور ان جیسی تمام ناقبل تجدید توانائیوں کا خاتمہ ہوگا۔ اور انکی جگہ شمسی، بحری، ہوائی اور آبی توانائی جیسی قابل تجدید برقی پلانٹس لے لیں گے۔ نئے اقسام کی برقی ٹرانسپورٹ کی وجہ سے حادثات میں کمی آئے گی، نیز دنیا ماحول کی آلودگی سے بچ سکے گی!
جب غربت و افلاس جیسی بے حسی اس دنیا سے اٹھ جائے گی اور ہر انسان محض خدا کے فضل سے غنی ہوگا۔ یہ وہ وقت ہوگا جب تہذیب اور مذہب اپنا جوہر دکھائے گی اور انسان صحیح معنوں میں اپنے خالق کے بنائے ہوئے اصولوں پر چل سکے گا۔ کیونکہ اسلام کا مطلب ہی امن اور سلامتی ہے، جو کہ موجودہ نظام کی بدولت ہرگز ممکن نہیں۔ اب فیصلہ آپکے یعنی غلام عوام کے ہاتھ میں ہے کہ آیا ساری زندگی موجودہ گندے اور کرپٹ نظام کی صفائی کر تے گزاریں یا پھر ایک بالکل نیا نظام تشکیل دیں۔۔۔
نظام کی لاجک انتہائی آسان ہے اور ایک چین کی صورت میں چلتی ہے۔ ہر عمل کا ایک رد عمل ہے:
۱۔پیسا ختم تو اس سے منسلکہ تمام معاشرتی اور اخلاقی جرائم و گناہ ختم!
۲۔ہر شخص غنی تو تکبر،حسد، گھمنڈ اور کلاس سسٹم ختم!
۳۔قومیت ختم تو ممالک کا تصور ختم، ممالک کا تصور ختم تو ملکی حدود ختم، ملکی حدود ختم تو جنگ ختم، جنگ ختم تو ہتھیار ختم، ہتھیار ختم ، تو امن قائم! (اسکے بعد ہی قرآن پاک کی اس آیت پر عمل کیا جا سکتا ہے کہ ’’زمین میں جہاں مرضی سے کھاؤ پیو اور فساد نہ کرو!‘‘ مطلب یہ زمین حقیقتاً کسی انسان کی جاگیر نہیں ہے بلکہ خدا کی امانت ہے اور وہی اسکا اصل مالک ہے۔ یعنی ایک انسان کا حق ہے کہ جہاں جانا چاہے، جا سکتا اور اسے کسی قسم کے ’’ویزے‘‘ کی ضرورت نہیں!
الغرض ایک ایسا نظام جسکا مقصد منافع کی بجائے محض انسانیت کا حصول ہو، خواہ بہترین نظام نہ ہو لیکن موجودہ سود کی غلامی کے نظام سے بہت بہت بہتر ہے۔ میں جانتا ہوں کہ یہ سب پڑھنے کے بعد اس نظام کے تصور سے ہی کچھ لوگ راہ فرار کر چکے ہوں گے یا مجھے پاگل پن کاسرٹیفیکٹ جاری کرچکے ہوں گے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ اب ہمیں اپنی سوچ کی غلامی سے بیدار ہونا ہے، اپنی انسانی خود غرضی اور بے حسی کو ختم کرنا ہے۔ اپنے علاوہ ان تمام انسانوں کے متعلق سوچنا ہے جو اس کرپٹ نظام کے باعث روز مرتے ہیں اور روز جیتے ہیں۔ کہ اس سے پہلے خدا کا قہر ہم پر نازل ہو، ہم توبہ کر لیں! آمین۔
اگر کسی ’’اور‘‘ پاگل یا دور اندیش کو اس بارے میں مزید جانکاری چاہیے تو یہاں سے حاصل کر سکتا ہے:
http://www.thevenusproject.com/