محمد تابش صدیقی
منتظم
مجھے یہ تو نہیں یاد کہ محفل پر بحیثیتِ مہمان پہلی دفعہ کب آیا، بہرحال اتنا ضرور ہے کہ جب بھی فیس بک پر کوئی دوست بے وزن شاعری پوسٹ کرتا، تو اوزان کی سوجھ بوجھ نہ ہونے کے باوجود محض پڑھنے کے شوق کے باعث ایک خیال سا اٹھتا تھاکہ شعر میں کچھ کمی ہے۔ اور پھر گوگل پر اس شعر کو ڈھونڈتا تھا۔ تو شروع کے نتائج میں ہی کسی urduweb نامی ویب سائٹ پر درست شعر مع شاعر مل جاتا تھا، اور مذکورہ دوست کو بتا کر ثوابِ دارین حاصل کرتا تھا۔ یہ سب نا دانستہ طور پر ہوا کہ اردو ویب کو شاعری کے حوالے سے ایک مستند ویب سائٹ ماننے لگا اور حوالوں کے لئے آنا جانا رہا۔
مگر اس کے باوجود کبھی محفل کا رکن بننے کا خیال ذہن میں نہیں آیا، اور نہ ہی کبھی محفل کو تفصیلی طور پر دیکھا۔ اور اس کی کوئی خاص وجہ نہیں کہ ایسا کیوں نہ ہوا۔ اور اس پر کبھی کبھار حیرت بھی ہوتی ہے کہ پہلے اردو محفل سے مکمل واقفیت کیوں نہ ہوئی، جبکہ ونڈوز 98 کہ زمانے سے ہی اردو کو اردو رسم الخط میں لکھنے کا شوق تھا، اور پہلا فونیٹک کی بورڈ لے آؤٹ جو باقاعدہ استعمال کیا وہ میں نے اور میرے بڑے بھائی نے خود مائکروسوفٹ کی بورڈ لے آؤٹ کرئیٹر پر بنایا۔ کیونکہ ونڈوز 98 والا اردو کیبورڈ فونیٹک نہیں تھا۔ لیکن اس شوق کے باوجود کبھی اردو محفل تک نہ پہنچا، جہاں اس پر کافی کام ہو رہا تھا۔
ستمبر 9، 2015ء کو سپریم کورٹ نے اردو کو بطورِ سرکاری زبان نافذ کرنے کا حکم دیا، تو اردو کے نفاذ کا حامی ہونے کی وجہ سے بہت خوشی ہوئی، اور سوشل میڈیا پر اس نفاذ کے حق میں پوسٹنگ بھی کی۔ اسی اثناء میں اردو محفل پر اس لڑی سے بھی گزر ہوا۔ اسی وقت محفل کا رکن بنا۔ اور اپنا پہلا کیفیت نامہ درج کیا۔
" اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دیے جانے پر یوں محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے شناخت مل گئی ہو۔"
یوں محفل سے باضابطہ تعلق کا آغاز ہوا۔ اور پھر ایسا تعلق بندھا کہ جس نے میری زندگی پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ ایسے کون سے اثرات ہیں جو ایک سال کے اندر اندر ہی اس کی زندگی پر مرتب ہو گئے۔ تو یقین جانئے کہ جیسے جیسے محفل میں موجود خزانوں سے آگہی ہوتی گئی، محفل پر جاری پراجیکٹس کے بارے میں معلوم ہوتا گیا۔ ویسے ویسے ہی میرے اندر بھی کچھ کرنے کی لگن پیدا ہوئی۔ ضروری نہیں کہ صرف سوچا جائے کہ اردو کے فروغ کے حوالے سے کام ہونا چاہیے، بلکہ آگے بڑھ کر اپنی استطاعت کے مطابق کوشش بھی کرنی چاہیے۔ اس سے بڑھ کر گہرا اثر کیا ہو سکتا ہے کہ انسان عملی کام کے لئے تیار ہو جائے۔
اس سے پہلے تک ایک خواہش تھی کہ علامہ اقبال کا کلام کہیں پر تلاش کے لئے موجود ہونا چاہیے، تاکہ جب بھی کوئی غلط شعر منسوب ہو تو تلاش کیا جا سکے۔ محفل سے جڑنے کے بعد خیال آیا کہ خود ہی یہ کام کیوں نہ کیا جائے۔ محفل پر ہی اس حوالے سے مزید رہنمائی حاصل کی۔ اور یوں یہ کام پایۂ تکمیل تک پہنچا۔
محفل پر لائبریری کا کام دیکھنے کا اتفاق ہوا، تو دیکھ کر رشک آیا کہ لوگ کس طرح بے لوث طریقے سے اردو کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں، اور ایک میں ہوں کہ دادا مرحوم غیر مطبوعہ کلام رکھا ہوا ہے اور کبھی خیال بھی نہ گزرا کہ اس کو محفوظ کیا جائے اور آگے پہنچایا جائے۔ یقین جانیے کہ اس وقت تک میں نے نعتیہ کلام کے علاوہ داداکی کچھ نظمیں ہی پڑھی تھیں اور ابو نے بتایا ہوا تھا کہ دادا نے اپنا شروع کا بہت سا کلام ضائع بھی کر دیا تھا، خیالات اور رجحان میں تبدیلی کے باعث۔ خیر، سوچا کہ جو کلام موجود ہے اس کو تو محفوظ کیا جائے۔ ابو کے سامنے تجویز رکھی تو بہت خوش ہوئے، اور دو کاپیاں اور دو ڈائریز میرے حوالے کر دیں، جن میں سے ایک ہی میں نے دیکھی ہوئی تھی۔ اللہ کا نام لے کر یہ کام بھی شروع کر دیا۔ اور اب یہ کام مکمل ہونے کا بعد ای بک کی تیاری کے مراحل میں ہے۔
پھر مختلف الخیال لیکن باہم مل جل کر رہنے والے احباب کی ایک بڑی تعداد میسر آئی۔ جن سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ ایک ارادہ باندھ کر محفل کا حصہ بنا تھا کہ اختلافی امور سے بچ کر رہوں گا اور الحمد للہ اس میں کامیاب ہوں۔
محفل نے مجھے اچھا ادب تخلیق کرنے والوں سے ملایا۔ میں جو اردو شاعری کے مستقبل سے مایوس تھا، نئے اچھے شعراء پڑھنے کو نہیں ملتے تھے۔ محفل پر گویا چھپا ہوا خزانہ مل گیا۔اردو نثر کا تو شاعری سے بھی برا حال ہے، یہاں آ کر ایسے نثر نگار ملے کہ رشک آئے۔ سخن فہموں سے بڑھ کر سخن وروں کے درمیان بیٹھنے کا موقع ملا تو ذوق میں بھی نکھار آیا۔ شاعری پڑھنے کا شوق تھا، یہاں آ کر سمجھ بھی آنی شروع ہو گئی۔
محفل نے اچھے تکنیکی ماہرین سے ملوایا کہ جنہوں نے اردو کو کمپیوٹر کی دنیا میں آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اور میرے اندر کچھ کرنے کا جذبہ بیدار کیا۔
الغرض گنواتا چلا جاؤں گا تو بوریت بڑھتی چلی جائے گی۔
بہت سے پرانے محفلین، جو میرے محفل پر آنے سے پہلے غیر فعال ہو چکے ہیں، ان کے تذکروں سے سیکھا۔ محفل پر جا بجا بکھرے موتیوں کو مکمل طور پر سمیٹنا تو وقت کی قید کے باعث ممکن نہیں، مگر وقتاً فوقتاً فیض حاصل کرتا رہتا ہوں۔
اکثر پرانے احباب یہ شکوہ کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ محفل اب وہ محفل نہیں رہی جو پہلے ہوا کرتی تھی، تو ان کا شکوہ بجا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ترجیحات بدلتی ہیں، افراد بکھرتے ہیں، کچھ جاتے ہیں، کچھ آتے ہیں۔ جن کے ساتھ کچھ وقت بیتا ہو، وہ یاد آتے ہیں۔ نئے آنے والوں کے ساتھ نیا رابطہ استوار کرنا ہر کسی کے لئے ممکن نہیں ہوتا۔
لیکن یاد رکھئے کہ محفل آپ کی ہے، اور آپ ہی سے ہے۔ جو لوگ غیر فعال ہو گئے یا چھوڑ گئے، وہ اپنے پیچھے نئے آنے والوں کے لئے بہت کچھ چھوڑ گئے۔ یہ محفل ایک امانت ہے، ایک پھل دار درخت ہے۔ جس کی حفاظت ہر محفلین نے کرنی ہے۔ کل کسی اور نے اس کی آبیاری کی، آج ہماری باری ہے۔
امید ہے کہ اپنی بوریت کو دادا مرحوم کے ان الفاظ میں میری کیفیت پڑھ کر معاف کر دیں گے۔
مگر اس کے باوجود کبھی محفل کا رکن بننے کا خیال ذہن میں نہیں آیا، اور نہ ہی کبھی محفل کو تفصیلی طور پر دیکھا۔ اور اس کی کوئی خاص وجہ نہیں کہ ایسا کیوں نہ ہوا۔ اور اس پر کبھی کبھار حیرت بھی ہوتی ہے کہ پہلے اردو محفل سے مکمل واقفیت کیوں نہ ہوئی، جبکہ ونڈوز 98 کہ زمانے سے ہی اردو کو اردو رسم الخط میں لکھنے کا شوق تھا، اور پہلا فونیٹک کی بورڈ لے آؤٹ جو باقاعدہ استعمال کیا وہ میں نے اور میرے بڑے بھائی نے خود مائکروسوفٹ کی بورڈ لے آؤٹ کرئیٹر پر بنایا۔ کیونکہ ونڈوز 98 والا اردو کیبورڈ فونیٹک نہیں تھا۔ لیکن اس شوق کے باوجود کبھی اردو محفل تک نہ پہنچا، جہاں اس پر کافی کام ہو رہا تھا۔
ستمبر 9، 2015ء کو سپریم کورٹ نے اردو کو بطورِ سرکاری زبان نافذ کرنے کا حکم دیا، تو اردو کے نفاذ کا حامی ہونے کی وجہ سے بہت خوشی ہوئی، اور سوشل میڈیا پر اس نفاذ کے حق میں پوسٹنگ بھی کی۔ اسی اثناء میں اردو محفل پر اس لڑی سے بھی گزر ہوا۔ اسی وقت محفل کا رکن بنا۔ اور اپنا پہلا کیفیت نامہ درج کیا۔
" اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دیے جانے پر یوں محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے شناخت مل گئی ہو۔"
یوں محفل سے باضابطہ تعلق کا آغاز ہوا۔ اور پھر ایسا تعلق بندھا کہ جس نے میری زندگی پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ ایسے کون سے اثرات ہیں جو ایک سال کے اندر اندر ہی اس کی زندگی پر مرتب ہو گئے۔ تو یقین جانئے کہ جیسے جیسے محفل میں موجود خزانوں سے آگہی ہوتی گئی، محفل پر جاری پراجیکٹس کے بارے میں معلوم ہوتا گیا۔ ویسے ویسے ہی میرے اندر بھی کچھ کرنے کی لگن پیدا ہوئی۔ ضروری نہیں کہ صرف سوچا جائے کہ اردو کے فروغ کے حوالے سے کام ہونا چاہیے، بلکہ آگے بڑھ کر اپنی استطاعت کے مطابق کوشش بھی کرنی چاہیے۔ اس سے بڑھ کر گہرا اثر کیا ہو سکتا ہے کہ انسان عملی کام کے لئے تیار ہو جائے۔
اس سے پہلے تک ایک خواہش تھی کہ علامہ اقبال کا کلام کہیں پر تلاش کے لئے موجود ہونا چاہیے، تاکہ جب بھی کوئی غلط شعر منسوب ہو تو تلاش کیا جا سکے۔ محفل سے جڑنے کے بعد خیال آیا کہ خود ہی یہ کام کیوں نہ کیا جائے۔ محفل پر ہی اس حوالے سے مزید رہنمائی حاصل کی۔ اور یوں یہ کام پایۂ تکمیل تک پہنچا۔
محفل پر لائبریری کا کام دیکھنے کا اتفاق ہوا، تو دیکھ کر رشک آیا کہ لوگ کس طرح بے لوث طریقے سے اردو کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں، اور ایک میں ہوں کہ دادا مرحوم غیر مطبوعہ کلام رکھا ہوا ہے اور کبھی خیال بھی نہ گزرا کہ اس کو محفوظ کیا جائے اور آگے پہنچایا جائے۔ یقین جانیے کہ اس وقت تک میں نے نعتیہ کلام کے علاوہ داداکی کچھ نظمیں ہی پڑھی تھیں اور ابو نے بتایا ہوا تھا کہ دادا نے اپنا شروع کا بہت سا کلام ضائع بھی کر دیا تھا، خیالات اور رجحان میں تبدیلی کے باعث۔ خیر، سوچا کہ جو کلام موجود ہے اس کو تو محفوظ کیا جائے۔ ابو کے سامنے تجویز رکھی تو بہت خوش ہوئے، اور دو کاپیاں اور دو ڈائریز میرے حوالے کر دیں، جن میں سے ایک ہی میں نے دیکھی ہوئی تھی۔ اللہ کا نام لے کر یہ کام بھی شروع کر دیا۔ اور اب یہ کام مکمل ہونے کا بعد ای بک کی تیاری کے مراحل میں ہے۔
پھر مختلف الخیال لیکن باہم مل جل کر رہنے والے احباب کی ایک بڑی تعداد میسر آئی۔ جن سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ ایک ارادہ باندھ کر محفل کا حصہ بنا تھا کہ اختلافی امور سے بچ کر رہوں گا اور الحمد للہ اس میں کامیاب ہوں۔
محفل نے مجھے اچھا ادب تخلیق کرنے والوں سے ملایا۔ میں جو اردو شاعری کے مستقبل سے مایوس تھا، نئے اچھے شعراء پڑھنے کو نہیں ملتے تھے۔ محفل پر گویا چھپا ہوا خزانہ مل گیا۔اردو نثر کا تو شاعری سے بھی برا حال ہے، یہاں آ کر ایسے نثر نگار ملے کہ رشک آئے۔ سخن فہموں سے بڑھ کر سخن وروں کے درمیان بیٹھنے کا موقع ملا تو ذوق میں بھی نکھار آیا۔ شاعری پڑھنے کا شوق تھا، یہاں آ کر سمجھ بھی آنی شروع ہو گئی۔
محفل نے اچھے تکنیکی ماہرین سے ملوایا کہ جنہوں نے اردو کو کمپیوٹر کی دنیا میں آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اور میرے اندر کچھ کرنے کا جذبہ بیدار کیا۔
الغرض گنواتا چلا جاؤں گا تو بوریت بڑھتی چلی جائے گی۔
بہت سے پرانے محفلین، جو میرے محفل پر آنے سے پہلے غیر فعال ہو چکے ہیں، ان کے تذکروں سے سیکھا۔ محفل پر جا بجا بکھرے موتیوں کو مکمل طور پر سمیٹنا تو وقت کی قید کے باعث ممکن نہیں، مگر وقتاً فوقتاً فیض حاصل کرتا رہتا ہوں۔
اکثر پرانے احباب یہ شکوہ کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ محفل اب وہ محفل نہیں رہی جو پہلے ہوا کرتی تھی، تو ان کا شکوہ بجا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ترجیحات بدلتی ہیں، افراد بکھرتے ہیں، کچھ جاتے ہیں، کچھ آتے ہیں۔ جن کے ساتھ کچھ وقت بیتا ہو، وہ یاد آتے ہیں۔ نئے آنے والوں کے ساتھ نیا رابطہ استوار کرنا ہر کسی کے لئے ممکن نہیں ہوتا۔
لیکن یاد رکھئے کہ محفل آپ کی ہے، اور آپ ہی سے ہے۔ جو لوگ غیر فعال ہو گئے یا چھوڑ گئے، وہ اپنے پیچھے نئے آنے والوں کے لئے بہت کچھ چھوڑ گئے۔ یہ محفل ایک امانت ہے، ایک پھل دار درخت ہے۔ جس کی حفاظت ہر محفلین نے کرنی ہے۔ کل کسی اور نے اس کی آبیاری کی، آج ہماری باری ہے۔
امید ہے کہ اپنی بوریت کو دادا مرحوم کے ان الفاظ میں میری کیفیت پڑھ کر معاف کر دیں گے۔
ہو کوئی حال اہلِ محفل کا
آج میں حالِ دل سنا گزرا
آج میں حالِ دل سنا گزرا