سید عمران
محفلین
سرحد کے اس پار ٭ تبصرہ جات
انٹر کا امتحان اور اس کے بعدطویل تعطیلات۔۔۔
بے کیف اور اکتاہٹ بھرے شب و روز۔۔۔
اکتا اکتا کر تھک جاتے تو کتابیں پڑھتے۔۔۔
کتابیں پڑھ پڑھ کے تھک جاتے تو اکتانے لگتے۔۔۔
تب ہی اچانک زندگی میں ہلچل مچ گئی۔۔۔
ہماری آنٹی نما پھوپھی یا پھوپھی نما آنٹی نے اعلان کیا ۔’’ہم لوگ ہندوستان جارہے ہیں، ویزہ آگیا ہے۔‘‘
ہم ان کے گھر میں داخل ہی ہوئے تھے کہ چہکتی ہوئی آواز آئی۔
’’یہ کیا مذاق ہے؟‘‘ ہم جھنجھلا گئے۔
’’ اتنا بھی خیال نہ آیا کہ چہیتا بھتیجا بور ہو ہو کر بور ہوگیا ہے، اسے بھی ساتھ لے لوں۔‘‘
ہمارا موڈ آف دیکھا تو تھوڑے رسان بھرے لہجے میں کہا ۔’’ابھی ہمارے جانے میں پندرہ دن ہیں تم ویزہ لگوا لو ساتھ چلتے ہیں۔‘‘
’’کیا؟؟؟ ‘‘ہم نے حسب ضرورت آنکھیں پھاڑیں۔
’’ویزہ کیا ہمارا تو شناختی کارڈ بھی نہیں بنا۔‘‘
’’اُف!!! ‘‘انہوں نے سر پکڑ لیا۔ ہم سے پیچھا چھڑانا آسان نہ تھا۔
’’اب کیا کریں؟؟؟ چلو سب ادھر آؤ۔ ‘‘انہوں نے آواز دے کر سارا گھر جمع کرلیا۔
’’کوئی ترکیب سوچو کہ یہ ہمارے ساتھ جاسکے۔ ‘‘
فوراً بھانت بھانت کی بولیاں شروع ہوگئیں۔ مگر کیا مجال کسی نے سنجیدہ مشورہ دیا ہو۔ ایک گھنٹے بعد ہم نے اعلان کردیا۔’’بس، بہت سن لیا۔ اب ہمیں سمجھ میں آگیا۔‘‘
’’کیا؟؟؟‘‘ سب نے پُرشوق لہجہ میں پوچھا۔ شاید یہی سمجھا کہ ان کے منہ سے بے دھیانی میں دھیان گیان کی کوئی بات نکل گئی ہے۔
’’یہی کہ یہ کام آپ لوگوں کے بس کا نہیں، ہمیں خود ہی کچھ کرنا ہوگا۔‘‘
سب کے منہ لٹک گئے۔
انہیں لٹکے ہوئے مونہوں کے ساتھ چھوڑ کر ہم گھر لوٹ آئے۔
دل میں ارادہ رچ بس گیا تھا کہ انڈیا جانا ہے، ضرور جانا ہے۔ یہ تو معلوم کرلیا تھا کہ ویزہ لگنے کے کیا مراحل ہیں۔ سب سے پہلے شناختی کارڈ بنوانا تھا۔ چناں چہ اسی رات شناختی کارڈ سے متعلق ضروری اور غیر ضروری دستاویزات کی فوٹو کاپیاں کروائیں، اماں سے پیسے اینٹھے اور صبح ہونے کے انتظار میں رات بھر میٹھے سپنے دیکھتے رہے۔
صبح اٹھے تو دیکھا گھپ اندھیرا ہے اور موسلا دھار بارش ۔۔۔
ہم سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ اماں سارے گھر میں خوشی چھپائے پھر رہی تھیں۔ ویسے بھی انہیں امید تھی کہ ہوگا کچھ نہیں، بچے کو شوق پورا کرنے دو، نہ شناختی کارڈ ہے نہ پاسپورٹ۔ ایسے میں کون جائے گا دلّی۔ یعنی دلّی کافی سے بھی زیادہ دور است!!!
’’او بھائی کدھر؟؟؟‘‘ ہم دروازہ کھول کر باہر نکل رہے تھے تبھی اماں پیچھے سے دھاڑیں ۔
’’شناختی کارڈ کے دفتر۔‘‘ ہم نے اپنے پیچھے دروازہ بند کرتے ہوئے جواب دیا۔
کسی ڈرامے کا سین ہوتا تو یقیناً اماں کو بے ہوش ہوکر گرتے ہوئے دکھایا جاتا یا گر کر بے ہوش ہوتے۔ ویسے بھی نہ یہ ڈرامہ تھا نہ اماں ایکٹنگ کررہی تھیں۔ خیر اماں ڈرامے تو خوب کرتی ہیں مگر افسوس وہ نشر نہیں ہوپاتے۔
باہر موسلادھار بارش، تند و تیز ہوائیں اور بجلیاں تڑپاتے گرج دار بادل تھے۔ادھر ہمارے دل کی تڑپ کہ ایک ایک دن قیمتی ہے، ہمارے پاس ضائع کرنے کے لیے کوئی وقت نہیں۔
گلیاں ویران تھیں اور سڑکیں سنسان۔ دوکانیں کھلی تھیں مگر گاہک اکا دُکا۔ نہ جانے کون لوگ ہوتے ہیں جو ہر صورت حال میں نظر آتے ہیں۔ کیا مجال کبھی سڑکوں پر کوئی بھی نظر نہ آئے، ہر وقت کوئی نہ کوئی موجود رہتا ہے۔ اور جسے موجود ہونا چاہیے وہ غیر حاضر یعنی رکشا ٹیکسی۔
کافی انتظار کے بعد ایک کھٹارہ ٹیکسی ہارن بجاتی، چولیں ہلاتی، وائپر چلاتی نظر آئی۔ اس وقت وہ ہمیں ہزار مرسڈیز سے زیادہ قیمتی لگی۔ ہم نے فوراً ہاتھ دے کر روکا، اور وہ رک بھی گئی، جھٹ دروازہ کھولا اور اندر گھس کر بیٹھ گئے۔
’’او بھئی کدر جائے گا؟؟؟‘‘ ٹیکسی ڈرائیور نے بے زاری سے پوچھا۔
’’شناختی کارڈ کے دفتر جائے گا۔‘‘
’’اتنا برسات میں ہم صرف اپنے گھر جائے گا۔‘‘ ٹیکسی والے بابا نے صاف انکار کردیا۔
’’دیکھو بابا ام کو بہت جلدی انڈیا جانا ہے، اس کے لیے جلدی میں بوت جلدی شناختی کارڈ بنوانا ہے ورنہ امارا آنٹی ام کو چوڑ کے چلاجائے گا۔‘‘ بس ہمارے رونے کی کسر رہ گئی تھی کہ ٹیکسی والے بابا کا دل پسیج گیا اور وہ ہمارے لارے لپے میں آگیا۔ ٹیکسی خراماں خراماں، گاہ گڑھوں سے بچتی گاہ پھنستی کھڑکھڑاتی ہوئی جانب منزل چلی، یہاں تک کہ شناختی کارڈ کے دفتر جا اتارا۔وہاں لوگ اپنا کام چھوڑ کے ہمیں دیکھنے لگے، کون اس برسات میں آسمان سے برس گیا۔ خیر برستی برسات میں وہی لوگ تھے جو بارش سے پہلے آگئے تھے۔ اب ہمارا کام آسان ہوگیا تھا۔ دفتری بابوؤں کے اللے تللے برداشت کیے، کئی فارموں کی خانہ پری کی، ان کے کہے پر جگہ جگہ قیمتی آٹو گراف دئیے اور ارجنٹ کا آرڈر دے کر فاتحانہ انداز میں باہر نکل آئے۔ گویا لال قلعے پر ہرا جھنڈا لہرا ہی دیا ہو!!!
اس سارے ہنگامے میں صبح سے دوپہر ہوچکی تھی، فضاؤں میں ظہر کی اذان کی آواز تھی اور ہمارے دل میں خوشیوں کا طوفان۔ خدا خدا کرکے ایک مرحلہ طے ہوا۔ اب ہفتہ دس دن کے لیے راوی آرام ہی آرام لکھ رہا ہے۔۔۔
آپ بھی کل تک کے لیے تھوڑا آرام کرلیں، کیوں کہ آگے بہت کام کرنا ہے۔۔۔
ہمارا سفرنامہ پڑھنے کا!!!
سرحد کے اس پار ٭ تبصرہ جات
انٹر کا امتحان اور اس کے بعدطویل تعطیلات۔۔۔
بے کیف اور اکتاہٹ بھرے شب و روز۔۔۔
اکتا اکتا کر تھک جاتے تو کتابیں پڑھتے۔۔۔
کتابیں پڑھ پڑھ کے تھک جاتے تو اکتانے لگتے۔۔۔
تب ہی اچانک زندگی میں ہلچل مچ گئی۔۔۔
ہماری آنٹی نما پھوپھی یا پھوپھی نما آنٹی نے اعلان کیا ۔’’ہم لوگ ہندوستان جارہے ہیں، ویزہ آگیا ہے۔‘‘
ہم ان کے گھر میں داخل ہی ہوئے تھے کہ چہکتی ہوئی آواز آئی۔
’’یہ کیا مذاق ہے؟‘‘ ہم جھنجھلا گئے۔
’’ اتنا بھی خیال نہ آیا کہ چہیتا بھتیجا بور ہو ہو کر بور ہوگیا ہے، اسے بھی ساتھ لے لوں۔‘‘
ہمارا موڈ آف دیکھا تو تھوڑے رسان بھرے لہجے میں کہا ۔’’ابھی ہمارے جانے میں پندرہ دن ہیں تم ویزہ لگوا لو ساتھ چلتے ہیں۔‘‘
’’کیا؟؟؟ ‘‘ہم نے حسب ضرورت آنکھیں پھاڑیں۔
’’ویزہ کیا ہمارا تو شناختی کارڈ بھی نہیں بنا۔‘‘
’’اُف!!! ‘‘انہوں نے سر پکڑ لیا۔ ہم سے پیچھا چھڑانا آسان نہ تھا۔
’’اب کیا کریں؟؟؟ چلو سب ادھر آؤ۔ ‘‘انہوں نے آواز دے کر سارا گھر جمع کرلیا۔
’’کوئی ترکیب سوچو کہ یہ ہمارے ساتھ جاسکے۔ ‘‘
فوراً بھانت بھانت کی بولیاں شروع ہوگئیں۔ مگر کیا مجال کسی نے سنجیدہ مشورہ دیا ہو۔ ایک گھنٹے بعد ہم نے اعلان کردیا۔’’بس، بہت سن لیا۔ اب ہمیں سمجھ میں آگیا۔‘‘
’’کیا؟؟؟‘‘ سب نے پُرشوق لہجہ میں پوچھا۔ شاید یہی سمجھا کہ ان کے منہ سے بے دھیانی میں دھیان گیان کی کوئی بات نکل گئی ہے۔
’’یہی کہ یہ کام آپ لوگوں کے بس کا نہیں، ہمیں خود ہی کچھ کرنا ہوگا۔‘‘
سب کے منہ لٹک گئے۔
انہیں لٹکے ہوئے مونہوں کے ساتھ چھوڑ کر ہم گھر لوٹ آئے۔
دل میں ارادہ رچ بس گیا تھا کہ انڈیا جانا ہے، ضرور جانا ہے۔ یہ تو معلوم کرلیا تھا کہ ویزہ لگنے کے کیا مراحل ہیں۔ سب سے پہلے شناختی کارڈ بنوانا تھا۔ چناں چہ اسی رات شناختی کارڈ سے متعلق ضروری اور غیر ضروری دستاویزات کی فوٹو کاپیاں کروائیں، اماں سے پیسے اینٹھے اور صبح ہونے کے انتظار میں رات بھر میٹھے سپنے دیکھتے رہے۔
صبح اٹھے تو دیکھا گھپ اندھیرا ہے اور موسلا دھار بارش ۔۔۔
ہم سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ اماں سارے گھر میں خوشی چھپائے پھر رہی تھیں۔ ویسے بھی انہیں امید تھی کہ ہوگا کچھ نہیں، بچے کو شوق پورا کرنے دو، نہ شناختی کارڈ ہے نہ پاسپورٹ۔ ایسے میں کون جائے گا دلّی۔ یعنی دلّی کافی سے بھی زیادہ دور است!!!
’’او بھائی کدھر؟؟؟‘‘ ہم دروازہ کھول کر باہر نکل رہے تھے تبھی اماں پیچھے سے دھاڑیں ۔
’’شناختی کارڈ کے دفتر۔‘‘ ہم نے اپنے پیچھے دروازہ بند کرتے ہوئے جواب دیا۔
کسی ڈرامے کا سین ہوتا تو یقیناً اماں کو بے ہوش ہوکر گرتے ہوئے دکھایا جاتا یا گر کر بے ہوش ہوتے۔ ویسے بھی نہ یہ ڈرامہ تھا نہ اماں ایکٹنگ کررہی تھیں۔ خیر اماں ڈرامے تو خوب کرتی ہیں مگر افسوس وہ نشر نہیں ہوپاتے۔
باہر موسلادھار بارش، تند و تیز ہوائیں اور بجلیاں تڑپاتے گرج دار بادل تھے۔ادھر ہمارے دل کی تڑپ کہ ایک ایک دن قیمتی ہے، ہمارے پاس ضائع کرنے کے لیے کوئی وقت نہیں۔
گلیاں ویران تھیں اور سڑکیں سنسان۔ دوکانیں کھلی تھیں مگر گاہک اکا دُکا۔ نہ جانے کون لوگ ہوتے ہیں جو ہر صورت حال میں نظر آتے ہیں۔ کیا مجال کبھی سڑکوں پر کوئی بھی نظر نہ آئے، ہر وقت کوئی نہ کوئی موجود رہتا ہے۔ اور جسے موجود ہونا چاہیے وہ غیر حاضر یعنی رکشا ٹیکسی۔
کافی انتظار کے بعد ایک کھٹارہ ٹیکسی ہارن بجاتی، چولیں ہلاتی، وائپر چلاتی نظر آئی۔ اس وقت وہ ہمیں ہزار مرسڈیز سے زیادہ قیمتی لگی۔ ہم نے فوراً ہاتھ دے کر روکا، اور وہ رک بھی گئی، جھٹ دروازہ کھولا اور اندر گھس کر بیٹھ گئے۔
’’او بھئی کدر جائے گا؟؟؟‘‘ ٹیکسی ڈرائیور نے بے زاری سے پوچھا۔
’’شناختی کارڈ کے دفتر جائے گا۔‘‘
’’اتنا برسات میں ہم صرف اپنے گھر جائے گا۔‘‘ ٹیکسی والے بابا نے صاف انکار کردیا۔
’’دیکھو بابا ام کو بہت جلدی انڈیا جانا ہے، اس کے لیے جلدی میں بوت جلدی شناختی کارڈ بنوانا ہے ورنہ امارا آنٹی ام کو چوڑ کے چلاجائے گا۔‘‘ بس ہمارے رونے کی کسر رہ گئی تھی کہ ٹیکسی والے بابا کا دل پسیج گیا اور وہ ہمارے لارے لپے میں آگیا۔ ٹیکسی خراماں خراماں، گاہ گڑھوں سے بچتی گاہ پھنستی کھڑکھڑاتی ہوئی جانب منزل چلی، یہاں تک کہ شناختی کارڈ کے دفتر جا اتارا۔وہاں لوگ اپنا کام چھوڑ کے ہمیں دیکھنے لگے، کون اس برسات میں آسمان سے برس گیا۔ خیر برستی برسات میں وہی لوگ تھے جو بارش سے پہلے آگئے تھے۔ اب ہمارا کام آسان ہوگیا تھا۔ دفتری بابوؤں کے اللے تللے برداشت کیے، کئی فارموں کی خانہ پری کی، ان کے کہے پر جگہ جگہ قیمتی آٹو گراف دئیے اور ارجنٹ کا آرڈر دے کر فاتحانہ انداز میں باہر نکل آئے۔ گویا لال قلعے پر ہرا جھنڈا لہرا ہی دیا ہو!!!
اس سارے ہنگامے میں صبح سے دوپہر ہوچکی تھی، فضاؤں میں ظہر کی اذان کی آواز تھی اور ہمارے دل میں خوشیوں کا طوفان۔ خدا خدا کرکے ایک مرحلہ طے ہوا۔ اب ہفتہ دس دن کے لیے راوی آرام ہی آرام لکھ رہا ہے۔۔۔
آپ بھی کل تک کے لیے تھوڑا آرام کرلیں، کیوں کہ آگے بہت کام کرنا ہے۔۔۔
ہمارا سفرنامہ پڑھنے کا!!!
سرحد کے اس پار ٭ تبصرہ جات
مدیر کی آخری تدوین: