پاکستانی سائنس تو بس ایسی ہی ہے

جاسم محمد

محفلین
پاکستانی سائنس تو بس ایسی ہی ہے
18/05/2019 سید اقبال حسین رضوی



بفضل خدائے بزرگ و برتر، مملکت خداداد پاکستان میں رمضان مبارک اپنے پورے آب و تاب سے سایہ فگن ہے۔ اس ماہ مبارک میں کلمہ گو اپنی استطاعت کے مطابق اللہ کی اطاعت و بندگی میں روز و شب بسر کر رہے ہیں۔ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی، مختلف نجی چینلز پر تکلف رمضان ٹرانسمیشن کا اہتمام کرتے نظر آرہے ہیں۔ چند دن پہلے کا قصہ ہے کہ راقم سحری کی برکتیں سمیٹنے کے ساتھ ساتھ ایک نجی چینل پر سحری کی نشریات کا لطف اٹھا رہا تھا۔ پروگرام کی خاتون میزبان، اپنے صاحب علم و عرفان مہمانوں کے ساتھ دینی تعلیمات پر پر مغز گفتگو میں مصروف تھیں۔

اسی اثنا میں ایک لائیو کالر کو شامل نشریات کیا گیا جن کا سوال پروگرام میں موجود مہمانوں میں سے ایک نورانی بزرگ سے تھا جو ہمہ وقت زیر لب ذکر و اذکار میں مشغول نظر آتے ہیں۔ سوال سائل کا یہ تھا کہ ان کے والد محترم کو ذیابیطس/ شوگر کا مرض لاحق ہے اور اس سلسلے میں معزز مہمان سے شفا کے لیے نسخہ کی طلبگار تھیں۔ اس کے جواب میں معزز مہمان نے ایک قرآنی آیت کو خاص تعداد میں ایک مخصوص انداز میں پڑھنے کا مشورہ دیا اور ساتھ ہی کھجور کی گھٹلیوں، شہد اور پتہ نہیں کن اجزاء پر مشتمل ایک معجون بنانے کا نسخہ بھی یہ کہہ کر عطا کیا، کہ اللہ نے چاہا تو اس نسخے کے استعمال سے شوگر سے شفائے کاملہ مل جائے گی۔ اللہ اکبر!

اسی پروگرام میں راقم نے بلڈ پریشر، کینسر، کاروبار میں منافع، گھریلو ناچاقی، بچوں کے امتحانات میں کامیابی وغیرہ کے ایسے ایسے گوھر نایاب نسخے انہیں نورانی بزرگ سے سنے جن پر عمل کرنے سے آپ کے ہر مسئلہ کا حل چٹکی بجاتے ہی ہوجائے۔

ان جیسے بے شمار مناظر، آپ کو ہمارے ٹی وی چینلز اور معاشرے میں جا بجا ملیں گے۔ دنیا میڈیکل سائنس میں تحقیق اور جستجو میں کہاں سے کہاں نکل گئی اور ہم آج بھی شہد اور کلونجی سے تمام بیماریوں کے علاج کے درپے ہیں۔ Pseudoscience (جعلی سائنس) پر یقین صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ تمام دنیا میں اہل علم کے لیے ایک چیلنج سے کم نہیں۔

ہم میں سے کئی لوگوں کو یاد ہوگا کہ کیسے ایک جعلساز نے آج سے چند سال قبل پانی سے گاڑی چلانے کا حیرت انگیز دعوی کیا۔ جی ہاں، میں شہرہ آفاق آغا وقار صاحب کی بات کر رہا ہوں۔ ہمارے معاشرے کے فکری انحطاط اور علمی تہی دامنی کا یہیں سے اندازہ لگا لیں کہ بزعم خود دانشور صحافی حضرات ان صاحب کی گاڑی میں بیٹھ کر پروگرام کرتے پائے گئے۔ حیرانگی کی بات یہ تھی کہ ان کے اس دعوے کی ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ڈاکٹر ثمر مبارک مند جیسے سائنسدانوں نے تصدیق کی۔ وہ تو اللہ کا لاکھ لاکھ شکر، کہ آغا وقار صاحب کا پچھلا مجرمانہ ریکارڈ منظر عام پر آیا جس کی وجہ سے نام نہاد دنیا کی ذہین ترین قوم آغا صاحب کے مضحکہ خیز دعوے سے دستبردار ہوئی۔ سائنس کے ایک ادنی سے طالب علم کی حیثیت سے میرے لیے یہ سب دیکھنا اور سننا سوہان روح تھا۔

بات آغا وقار یا ان جیسے نیم پڑھے لکھے اشخاص تک محدود رہتی تو ٹھیک تھی، لیکن جب مستند سائنسدان اس طرح کی یاوہ گوئیوں پر اتر آئیں تب آپ اپنا سر ہی پکڑ کر بیٹھ سکتے ہیں۔ 2010 میں جب پاکستان میں تاریخ کے بدترین سیلابی ریلے کا گزر ہوا، ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے سابق چئیرمین ڈاکٹر عطا الرحمن نے اپنے ایک کالم میں دعوی کیا کہ پاکستان میں سیلاب اور زلزلوں کے پیچھے امریکا کا ایک طبیعاتی تجربہ ہے جسے دنیا HAARP کے نام سے جانتی ہے۔ محترم ڈاکٹر صاحب نے اپنے دعوے کے ثبوت کے طور پر کوئی واقعاتی یا علمی دلیل نہیں دی۔ اور جب ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے ان کے اس دعوے کا بھانڈا پھوڑا تو وہ اپنے ابتدائی دعوے سے پیچھے ہٹ گئے اور پوری بات کو آئیں بائیں شائیں کر گئے۔

اسی سے مجھے ”مرد مؤمن“ ضیا الحق کے دور میں منعقدہ ایک کانفرنس کی یاد آئی۔ اکتوبر 1987 میں منعقد اس کانفرنس میں سلطان بشیر الدین محمود جو اس وقت پاکستان اٹامک انرجی کمیشن PAEC کے سینئر ڈائریکٹر کے عہدے پر براجمان تھے، کی طرف سے ایک تحقیقی مقالہ پیش کیا گیا۔ اس مقالے میں یہ تجویز پیش کی گئی کہ ”جنات“ پر قابو پا کر، ان سے حاصل شدہ توانائی کو پاکستان میں موجود توانائی کے بحران کو ختم کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے!

جعلی سائنس کے مظاہر آپ کو ہر جگہ نظر آئیں گے۔ یقین نہیں آتا تو اپنے گردو پیش اور الیکٹرانک میڈیا پر غور کریں۔ ہر دوسرے چینل کے مارننگ شوز میں، ٹیرو کارڈ ریڈر، ماہر فلکیات، نجومی، جن قابو کرنے والے، کالے علم کے ماہر، دیسی جڑی بوٹیوں سے علاج کے ماہرین بطور خاص بلائے جاتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ نجی چینلز کی اس بہتات میں بھی جہاں صرف پاکستان میں 150 سے زیادہ چینلز کام کر رہے ہیں، وہاں ایک بھی پروگرام ایسا نہیں جس میں سائنس سے متعلق بات کی جاتی ہو۔

سوشل میڈیا پر حالات اس سے بھی بدتر ہیں۔ میری طرح آپ سب بھی سوشل میڈیا پر ان لاتعداد جعلی سائنس پر مبنی مواد کا شکار رہے ہوں گے۔ مثلا، کلونجی کے ہوشربا فوائد، شہد سے ہر بیماری کا علاج، کھجور کی کرشماتی خصوصیات، روزے کے فوائد، نماز پڑھنے سے حاصل ہونے والے جسمانی فوائد، حجامہ کی افادیت اور اس قبیل کے متعدد دیگر موضوعات جن کی تصدیق کسی بھی طرح سے سائنسی طریقے سے نہیں کی جا سکتی۔

یہ مسئلہ ہمارے معاشرے میں اس لیے بھی زیادہ گمبھیر ہے کیونکہ ہم عادتا سائنس میں مذہب کا تڑکا لگانا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ اب کیسے کسی کو سمجھائیں، کہ ختمی مرتبت، خاتم النبیین، حضور صلعم، نے اپنے زمانے کے مطابق بہترین طرز زندگی اور طریقہ علاج اختیار کیا۔ بطور مثال، جو طریقہ علاج آج بنی نوع انسان کو میسر ہیں، اگر ان دنوں دستیاب ہوتے تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ حضور صلعم جدید ترین طریقہ علاج ہی اختیار فرماتے۔

آج ہر دوسری گلی چھوڑ کر نئے ”حجامہ“ سینٹر کھل رہے ہیں۔ حجامہ یا سائنسی زبان میں ”Cupping Therapy“ زمانہ قبل از مسیح سے دنیا کے کئی علاقوں رائج طریقہ علاج تھا۔ آج تک اس طریقہ علاج کی افادیت طبی اور سائنسی طریقوں سے ثابت نہیں ہوئی۔ پھر بھی ہمارے عوام اس طریقہ علاج کو مذہبی ارادت اور تعلق کی نسبت سے اختیار کرتے ہیں۔ رہی بات عبادات کے دنیوی اور جسمانی فوائد کی، تو محترم عبادت کو اللہ کی اطاعت اور بندگی کا مظہر سمجھ کر انجام دیجئے۔ عبادت کو عبادت رہنے دیں، جسمانی ورزش یا ایکسرسائز نا بنائیں۔

قصہ مختصر، جعلی سائنس اور توہمات سے ہماری دلچسپی اور عقیدت کی بنیادی وجہ، ہمارے نظام تعلیم میں بنیادی نقائص ہیں۔ بقول کسے، اگر ہم اپنے بچوں کو مسلمانوں کے سائنس پر احسانات سے زیادہ، سائنس پڑھانے یا سمجھانے میں وقت اور محنت صرف کریں، تو ہم ایک ایسے معاشرے کی تشکیل میں کامیاب ہوں گے، جہاں دلیل اور علم پر انحصار ہوگا۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں کسی بھی بات کو پرکھنے کے لیے تحقیق اور جستجو ہی واحد معیار قرار پائے۔ اس دن کے آنے تک، تربوز اور سبزیوں پر مقدس نام تلاش کیجیے اور ماشاءاللہ کہہ کر آگے شئیر کرتے جائیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
قصہ مختصر، جعلی سائنس اور توہمات سے ہماری دلچسپی اور عقیدت کی بنیادی وجہ، ہمارے نظام تعلیم میں بنیادی نقائص ہیں۔ بقول کسے، اگر ہم اپنے بچوں کو مسلمانوں کے سائنس پر احسانات سے زیادہ، سائنس پڑھانے یا سمجھانے میں وقت اور محنت صرف کریں، تو ہم ایک ایسے معاشرے کی تشکیل میں کامیاب ہوں گے، جہاں دلیل اور علم پر انحصار ہوگا۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں کسی بھی بات کو پرکھنے کے لیے تحقیق اور جستجو ہی واحد معیار قرار پائے۔ اس دن کے آنے تک، تربوز اور سبزیوں پر مقدس نام تلاش کیجیے اور ماشاءاللہ کہہ کر آگے شئیر کرتے جائیں۔
ہر چیز میں خیانت کرنے والی قوم نے سائنس جیسے معزز ترین ڈسپلن کو بھی نہیں بخشا۔
 

آصف اثر

معطل
قصہ مختصر، جعلی سائنس اور توہمات سے ہماری دلچسپی اور عقیدت کی بنیادی وجہ، ہمارے نظام تعلیم میں بنیادی نقائص ہیں۔ بقول کسے، اگر ہم اپنے بچوں کو مسلمانوں کے سائنس پر احسانات سے زیادہ، سائنس پڑھانے یا سمجھانے میں وقت اور محنت صرف کریں، تو ہم ایک ایسے معاشرے کی تشکیل میں کامیاب ہوں گے، جہاں دلیل اور علم پر انحصار ہوگا۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں کسی بھی بات کو پرکھنے کے لیے تحقیق اور جستجو ہی واحد معیار قرار پائے۔ اس دن کے آنے تک، تربوز اور سبزیوں پر مقدس نام تلاش کیجیے اور ماشاءاللہ کہہ کر آگے شئیر کرتے جائیں۔
مصنف کا وہی دیسی غصہ۔ مشورہ مفت ہے کہ ٹی وی چینل کھول دو اور
ارتقا کی کہانیاں شروع کردو۔ سب سائنسدان بن جائیں گے۔
 

آصف اثر

معطل
سائنس کی دنیا نے فیس بک پر ارتقا کی کہانیاں پڑھا کر جو انقلاب برپا کردیا ہے وہ کافی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
سائنس کی دنیا نے فیس بک پر ارتقا کی کہانیاں پڑھا کر جو انقلاب برپا کردیا ہے وہ کافی ہے۔
سائنس میں متنازعہ موضوعات سے ہٹ کر پڑھنے کو اور بہت کچھ ہے۔ اگر قوم صرف اس پر توجہ دینا شروع کر دے تو ملک میں Skilled Labor کے ساتھ ساتھ ایکسپورٹس میں بھی اضافہ ہوگا۔
 

آصف اثر

معطل
سائنس میں متنازعہ موضوعات ہٹ کر پڑھنے کو اور بہت کچھ ہے۔ اگر قوم صرف اس پر توجہ دینا شروع کر دے تو ملک میں Skilled Labor کے ساتھ ساتھ ایکسپورٹس میں بھی اضافہ ہوگا۔
ہائے اب کردی نا بات۔ یہ بات ان پاکستانی دیسیوں کو سمجھ آجائے تو کیا نہیں ہوسکتا۔
ہمارے گاؤں میں ایک لندن پلٹ بی ایس سی آیا۔ ایک اسکول میں بائیو پڑھانا شروع کردیا۔ پوری بائیو میں جو باتیں بچوں کو ذہن نشین رہی وہ یہ فساد تھا کہ انسان چمپنزی کا رشتہ دار ہے یا نہیں۔ اس خدا کے بندے نے اپنا فریضہ بنایا ہوا تھا کہ بائیو کو انسان اور بندروں کی رشتہ داری پکا کرنے والی ارتقا پرستی کا ڈھول بنادیا۔ آخر کار گاؤں کے بڑوں نے رعایت رکھتے ہوئے کہا کہ سبق پڑھاؤ فساد نہیں۔ ورنہ بوریاں بستر سمیٹو۔ عقل ٹھکانے آئی۔ اب بھی بائیو پڑھاتا ہے لیکن ارتقا کو ایک چیپٹر کے طور پر نیوٹرل ہوکے۔ اب بھی بچے اسی طرح ڈاکٹر بن رہے ہیں اور زیادہ بن رہے ہیں لیکن فساد نہیں ہے۔
لہذا میں کہتا ہوں فسادی نہ بنو، استاد بنو، پروفیشنل بنو، کنویں کا مینڈک نہیں بلکہ کھلے دماغ کا مالک بنو۔ قوم کو خیر دو۔
ہم نے خود بائیو پڑھی۔ لیکن استاد نے ارتقا کے ڈھول نہیں پیٹے۔ ڈارون کا نظریہ، اس کی تاریخ۔ اس بیچ کے 11 بچے آج میڈیکل فیلڈ میں ہیں۔ دو انجینئر اور دو آرٹس۔
 
یہ لیجئے
ساری کتاب کا لب لباب ، اس کا ویڈیو
یہ صاحب تو پھر کہتےہیں کہ قرآن، یا حافظ شیرازی یا ابن صفی کے ناولوں کو ہونٹوں ہی ہونٹوں میں بدبدا کر سب کچھ ہو سکتا ہے، اس کتاب کی مصنفہ تو اس سے بھی چار ہاتھ آگے بڑھ گئی ہیں کہ بس خیالوں کی ٹکٹکی باندھ لو اور جب چاہو جمبو جیٹ بن جائے گا، دنیا قدموں میں آجائے گی، صحت ٹھیک ہو جائے گی، رب سامنے اتر آئے گا۔ وغیرہ وغیرہ ۔ اب عمر کے اس حصے میں سوچتا ہوں کہ میں کتنا بڑا "کھوتے دا کھر " ہوں کہ یہ "سائینس نہیں سیکھی" ۔۔ بس خیالوں کی ٹکٹکی باندھنے کی ضرورت ہوتی اور کروڑوں کا ڈھیر، سائینسی ایجادات، آٹھواں بحیری بیڑہ ، ہوائی جہازوں کی قطار، چاند پر جانے کے راکٹ ، سب سامنے کھڑے ہوتے ، اور انڈیا، انڈیا کا تو وجود بھی نا ہوتا، کہ سارے پاکستانی صرف خیالات کی ٹکٹکی باندھ کرہی اس کو تباہ و بربا کردیتے ، ہی ہی ہی ، لیکن انڈٰین خیالات کی ٹخٹکی کیا گل کھلاتی؟ وہ کیا کچھ کرلیتے بس ایک خیال کی ٹکٹکی باندھ کر ، تعداد میں تو وہ زیادہ ہیں :)

بہت ہی غلطی ہوگئی کہ ہم خواہ مخواہ اسکولوں اور کالجوں میں وقت برباد کرتے رہے :)
 

جاسم محمد

محفلین
سارے پاکستانی صرف خیالات کی ٹکٹکی باندھ کرہی اس کو تباہ و بربا کردیتے
جب ملک کا وزیر اعظم ہی تیل نکلوانے کیلئے عوام سے ’دعائیں‘ منگوا رہا ہو۔ اور نتیجہ پھر بھی صفر نکلے تو ایسے میں پوری قوم کا بندہ کیا کرے :)
 

آصف اثر

معطل
جب ملک کا وزیر اعظم ہی تیل نکلوانے کیلئے عوام سے ’دعائیں‘ منگوا رہا ہو۔ اور نتیجہ پھر بھی صفر نکلے تو ایسے میں پوری قوم کا بندہ کیا کرے :)
قوم دعائیں دے گی تو پھر یہ سوال بنے گا۔ بددعاؤں کا اثر تو مان لیا نا اب!:) ساری بدنامی سمیٹ کر بھی سمجھ نہیں آرہی اس کو۔
 
جب ملک کا وزیر اعظم ہی تیل نکلوانے کیلئے عوام سے ’دعائیں‘ منگوا رہا ہو۔ اور نتیجہ پھر بھی صفر نکلے تو ایسے میں پوری قوم کا بندہ کیا کرے :)
اچھا،حوالہ دیکر ثابت کریں کہ ناروے کا تیل بغیر دعاؤں کے نکلا تھا۔
 

محمد سعد

محفلین
ہم میں سے کئی لوگوں کو یاد ہوگا کہ کیسے ایک جعلساز نے آج سے چند سال قبل پانی سے گاڑی چلانے کا حیرت انگیز دعوی کیا۔ جی ہاں، میں شہرہ آفاق آغا وقار صاحب کی بات کر رہا ہوں۔ ہمارے معاشرے کے فکری انحطاط اور علمی تہی دامنی کا یہیں سے اندازہ لگا لیں کہ بزعم خود دانشور صحافی حضرات ان صاحب کی گاڑی میں بیٹھ کر پروگرام کرتے پائے گئے۔ حیرانگی کی بات یہ تھی کہ ان کے اس دعوے کی ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ڈاکٹر ثمر مبارک مند جیسے سائنسدانوں نے تصدیق کی۔ وہ تو اللہ کا لاکھ لاکھ شکر، کہ آغا وقار صاحب کا پچھلا مجرمانہ ریکارڈ منظر عام پر آیا جس کی وجہ سے نام نہاد دنیا کی ذہین ترین قوم آغا صاحب کے مضحکہ خیز دعوے سے دستبردار ہوئی۔ سائنس کے ایک ادنی سے طالب علم کی حیثیت سے میرے لیے یہ سب دیکھنا اور سننا سوہان روح تھا۔
یہاں میرے لیے یہ سوہان روح بنا ہوا ہے کہ ثمر مبارک مند صاحب شاید پہلے آدمی تھے جنہوں نے پبلک ٹی وی پر آغا وقار کی جعل سازی پکڑ کر دکھائی تھی، اور ابھی تک مجھے یہ سننے کو ملتا ہے کہ انہوں نے اس کی تصدیق کی۔ حتی کہ ایک بار پرویز ہودبھائی صاحب کے ایک لیکچر میں بھی یہ سننے کو ملا تو بعد میں ان سے مل کر انہیں بتایا کہ ایسا نہیں ہوا تھا بلکہ ثمر صاحب نے اس کو ٹی وی پر پکڑ کر دکھایا تھا۔ یہ الگ بات کہ چونکہ یہ واقعہ نشر پی ٹی وی پر ہوا تھا تو کسی نے دیکھا نہیں۔
افسوس کہ اب وہ پی ٹی وی کا کلپ بھی یوٹیوب پر نہیں مل رہا، مل رہا ہے تو ایک ادھورا سا ٹکڑا کامران خان کی درد بھری کمنٹری کے ساتھ مل رہا ہے۔
خیر، بات واضح کرنے کو کافی ہونا چاہیے۔
 

محمد سعد

محفلین
بات آغا وقار یا ان جیسے نیم پڑھے لکھے اشخاص تک محدود رہتی تو ٹھیک تھی، لیکن جب مستند سائنسدان اس طرح کی یاوہ گوئیوں پر اتر آئیں تب آپ اپنا سر ہی پکڑ کر بیٹھ سکتے ہیں۔ 2010 میں جب پاکستان میں تاریخ کے بدترین سیلابی ریلے کا گزر ہوا، ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے سابق چئیرمین ڈاکٹر عطا الرحمن نے اپنے ایک کالم میں دعوی کیا کہ پاکستان میں سیلاب اور زلزلوں کے پیچھے امریکا کا ایک طبیعاتی تجربہ ہے جسے دنیا HAARP کے نام سے جانتی ہے۔ محترم ڈاکٹر صاحب نے اپنے دعوے کے ثبوت کے طور پر کوئی واقعاتی یا علمی دلیل نہیں دی۔ اور جب ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے ان کے اس دعوے کا بھانڈا پھوڑا تو وہ اپنے ابتدائی دعوے سے پیچھے ہٹ گئے اور پوری بات کو آئیں بائیں شائیں کر گئے۔
کیا اس کالم کا لنک ملے گا، یا یہ بھی اسی طرح کی بات نکلے گی جیسے ثمر مبارک مند صاحب والی تھی؟
 

محمد سعد

محفلین
مصنف کا وہی دیسی غصہ۔ مشورہ مفت ہے کہ ٹی وی چینل کھول دو اور
ارتقا کی کہانیاں شروع کردو۔ سب سائنسدان بن جائیں گے۔
سائنس کی دنیا نے فیس بک پر ارتقا کی کہانیاں پڑھا کر جو انقلاب برپا کردیا ہے وہ کافی ہے۔
مصنف کو تو پتہ نہیں دیسی غصہ ہے یا انگریزی غصہ ہے، لیکن آپ کو شاید ارتقاء پر بہت غصہ ہے۔ :ROFLMAO:
 
Top