صفحہ نمبر 121 تا 130
اصطلاحاتِ عِلمِ معانی
مُذَکَّرْ۔(ء) بروزن مُغَنِیّ۔ بمعنی نر۔ مادہ کی ضد اس کو تذکیر بھی کہتے ہیں۔ اصطلاحا وہ لفظ جو نر ہوں۔ جیسے کُتا ، گدھا ، بخار ، جاڑہ وغیرہ۔
مُوَنَّثْ۔(ء) بروزن معلقّ۔ بمعنی مادہ۔ وہ الفاظ جو مذکر کی ضد ہوں۔ اس کو تانیث بھی کہتے ہیں۔ جیسے کتیا ، گدھی ، گرمی ، خاک وغیرہ۔
وَاْحِدْ۔ (ء) بروزن زاہد۔ بمعنی ایک۔ وہ لفظ جس کی تعداد ایک ہو۔ جیسے اونٹ مر گیا۔ یہاں اونٹ بطور واحد مستعمل ہے۔
جَمَعْ۔(ء) بروزن شام۔ بمعنی بہت ۔وہ لفظ جو ایک لفظ سے زیادہ تعداد ظاہر کرے۔ جیسے بہت سے گھوڑے موجود تھے۔ یہاں گھوڑے جمع کا صیغہ ہے۔
تَثْنِیَہ۔ (ء) بروزن پرنیہ۔ بمعنی دو۔ عربی وہ لفظ جو صرف دو کی تعداد ظاہر کرتے ہیں اور عموما یائے مجہول اور نون کے اضافہ سے اس کو بناتے ہیں جیسے قمر سے قمرین ۔ واضح ہو کہ یہ نون ہمیشہ اعلان کے ساتھ بولا جائے گا اور اس کے ماقبل حرکت مفتوخہ ہو گی۔
مُخْتَلِفْ فِیہْ۔ (ء) وہ الفاظ جو تذکیر و تانیث میں دونوں طرح سے مستعمل ہیں ۔ جیسے نقاب اُلٹی اور نقاب اُلٹا دونوں طرح سے لکھتے ہیں۔
مُتَکَلِّمْ۔ (ء) بر وزن متقاضی۔ بمعنی کلام کرنے والا۔ اردو میں صرف دو لفظ ہیں، میں اور ہم۔
صفحہ نمبر 122
مُخَاْطِبْ۔ (ء) بروزن مداری۔ بمعنی جس سے تخاطب کیا جائے۔ اس کو حاضر بھی کہتے ہیں۔ اردو میں تو اور تم دو لفظ ہیں لیکن آپ ، جناب ، سرکار ، حضور جیسے لفظ بھی اسی ضِمن میں شامل ہیں۔
غَاْئِبْ۔ (ء) بروزن نائب۔ بمعنی چھپا ہوا۔ اصطلاحا وہ لفظ جس سے غیر حاضر کی جانب اشارہ ہو اور وہ لفظ اردو میں دو ہیں۔جیسے یہ ، وہ ۔ لیکن یہ بعض حالات میں اسمِ اشارہ ہو کر قربت ظاہر کرتا ہے جیسے۔ آپ سے معلوم کیجئے۔یہ تو وہاں خود موجود تھے۔
اِشْتِقَاْق۔ (ء) بروزن اتفاق۔ بمعنی نکالنا۔ پیدا کرنا۔ ایک چیز کا دوسری چیز سے۔ اصطلاحا ایک کلمہ سے دوسرا کلمہ نکالنا۔ جیسے ملنا سے ملاپ۔ کھانسنا سے کھنکار- اس کو مشتق منہہ اور جو کلمہ نکالا جائے اسے مشتق کہتے ہیں یعنی ملنا مشتق منہہ اور ملاپ مشتق ہے۔
وَزْن۔ (ء) بروزن شرم- بمعنی ناپ تول - اصطلاحا ایک لفظ کی حرکات و سکنات دوسرے لفظ کے برابر ہوں ۔ جیسے دل کا وزن سر۔ کتے کا وزن بلی۔ پاس کا وزن پیار وغیرہ۔ اس کی دو قسمیں ہیں۔ صرفی و عروضی۔
صَرْفِیْ۔ (ء) بروزن برفی۔ بمعنی وہ لفظ جس میں جس میں ایک لفظ کی حرکات و سکنات دوسرے لفظ کے حرکات و سکنات کے برابر ہوں اور یکساں ہوں۔ جیسے دل۔مل۔ نظر۔ اثر وغیرہ
عَرُوْضِیْ۔ (ء) بروزن ضروری- بمعنی وہ وزن جس کی حرکات و سکنات تو یکساں ہوں مگر ان کا برابر ہونا لازمی نہیں۔ جیسے کتا بلی اور نظر۔ قوی کا وزن ایک شمار ہو گا۔
شکل صفحہ نمبر 122
صفحہ نمبر 123
تَعْرِیفْ۔ (ء) بروزن تاریخ۔ بمعنی خوبی بیان کرنا۔ اصطلاحا کسی چیز کی ذاتی صفات اس طرح بیان کرنا کہ سننے والا اس بیان سے بالکل اسی شے کو تصور کرے۔ جیسے آم بہت میٹھا ہے۔ یہا لفظ میٹھا آم کی صفت کو ظاہر کرتا ہے۔
سَمَاْعِیْ۔ (ء) بروزن کمائی۔ بمعنی سنی ہوئی۔ اصطلاحا وہ کلمہ جو اصول قواعد کے خلاف ہو۔ جیسے جانا مصدر سے گیا۔ ماضی مطلق بنا لیا ہے۔ یا بھونک سے بھونکا اسم فاعل سماعی بنا لیں۔
قِیَاْسِیْ۔ (ء) بروزن سیاسی۔ بمعنی منسوب بہ قیاس۔ اصطلاحا وہ کلمہ جو اصول قواعد کے موافق ہو جیسے دئکھنا مصدر سے دیکھا ماضی مطلق بنا لیا ہے۔
مَاْقَبلْ۔ (ء) جو کچھ پہلے موجود ہو خواہ وہ لفظ ہو یا کوئی حرف۔ جیسے آج کل میں کل ماقبل کا واقع ہوتا ہے یا دل میں دٓ ماقبل لٓ ہے۔
مَاْبَعْد۔ (ء) جو کچھ بعد میں ہو خواہ وہ کوئی لفظ ہو یا کوئی حرف جیسے آج کل میں کل مابعد آج ہے یا سر میں میں را ما بعد س ہے۔
مَعْنِیْ۔ (ء) بروزن فانی۔ بمعنی مفہوم ۔مطلب۔ اصطلاحا کسی کلمہ سے جو بات سمجھی جائے وہی اس کے معنی مراد ہوتے ہیں۔ اگر کسی کلمہ کے بغیر کوئی مطلب سمجھ میں آ جائے تو اس لفظ کے معنی مستقل ہو گے ورنہ غیر مستقل۔ اس کی دو صورتیں ہیں لغوی یا اصطلاحی۔
لُغْوِیْ۔ (ء) بروزن کرسی ۔بمعنی لغت سے متعلق۔ اصطلاحا لفظ کے اصل معنی جیسے قلب بمعنی دل۔
اِصْطِلاَحِیْ۔ (ء) بروزن تلملائی۔ بمعنی مجازی۔ یعنی لفظ کے وہ معنی جو تعریف کے ساتھ مستعمل ہوں جیسے آفتاب بمعنی شراب۔
صفحہ نمبر 124
شکل صفحہ نمبر 124
خواص الحروف۔ اساتذہ نے اس باب میں بہت مدلل اور بہت مفصل کتابیں تحریر کی ہیں۔ مگر میں یہاں صرف ان باتوں کا ذکر کروں گا جو اردو میں مستعمل ہیں۔ محققین علم معانی نے ہر ایک حرف کے متعلق اس کے خواص بیان کئے ہیں۔
اَلِفْ۔ (ء) بروزن قوی- بمعنی مرد مجرد۔ کنایتہ ذات احدیت۔ قامت دلبر۔ سروبسی۔ اس کے علاوہ حسب ذیل صورتوں میں بھی آتا ہے۔
١۔ اشباع کی صورت میں جیسے دامن سے داماں۔پیرہن سے پیراہن کا الف۔
٢۔ الف فاعلی- جیسے گویا۔ جویا۔ دانا اور بینا کا الف۔
٣۔اتصال کی صورت میں۔ جیسے رنگا رنگ اور شباشب کا الف۔
٤۔ عطف کی جگہ۔ جیسے شب و روز سے شبا روز۔ جامی ؎
ہمہ دور شیا روزی گرفتہ بمقصد راہ فیروزی گرفتہ
٥۔ تانیث کے لئے ۔ جیسے عقبیٰ کا الف۔
٦۔ جمع کے واسطے۔ جیسے تصویر سے تصاویر۔ ولی سے اولیا کا الف
٧۔ تنوین کی صورت میں۔ جیسے احتیاط سے احتیاطا۔
٨۔ ربط اور قسم کے لئے۔ جیسے لقا کا الف۔
٩۔ کثرت کے واسطے۔ جیسے خوشا کا الف۔
١٠۔ ندا کی صورت میں۔ جیسے ساقیا۔ لا کا الف لیکن اساتذہ اس الف کا ترک بہتر خیال کرتے ہیں۔
١١۔ ندبہ کی صورت میں ۔ جیسے حرتا کا الف۔
صفحہ نمبر 125
١٢۔ بدل کی صورت میں۔ جیسے موسیٰ و عیسیٰ بجائے یا کہیں بجائے واؤ بھی مستعمل ہے جیسے مصطفو اور مرتضو سے مصطفیٰ اور مرتضیٰ۔
١٣۔ اعضاء کے واسطے- جیسے سراپا میں بعد رائے مہملہ۔
١٤۔ وصل کی صورت میں- یہ الف ساقط ہو کر بھی لفظ اپنے حقیقی معنی دیتا ہے۔ جیسے ابراہیم سے براہیم یا اسماعیل سے سماعیل۔ اس الف کو زائد کہنا غلطی ہے۔ یہ الف جزو الف ہوتا ہے۔ ابراہیم عبرانی لفظ ہے جس کو ابراہام سے معرب کیا گیا ہے۔ اسماعیل عربی لفظ ہے۔ اس کو یشمع ایل سے معرب کیا گیا ہے۔
١٥۔ زائد کی صورت میں جیسے فارسی میں بے کی جگہ ابے۔ سعدی ؎
بدو گفتابد را بے کام تو پنویم بحویم بحر نام تو ٗ
یا بر کی جگہ ابر استعمال کریں جیسے فردوسی ؎ نے لکھا ہے۔
ابر بارہ جنگ جوئے سوار بروں آمد از قلعہ دیو سار
نوٹ۔ متذکرہ بالا تازی اور پارسی سے متعلق ہیں۔ اردو میں الف کا استعمال حسب ذیل طریقوں پر کیا جاتا ہے۔
١۔ وسط فعل میں آکر لازم کو متعدی بناتا ہے جیسے ملنا۔ چلنا اور اُٹھنا سے ملانا۔ چلانا اور اُٹھانا کا درمیانی الف۔
٢۔ امر کے بعد ماضی مطلق کی صورت میں جیسے دیکھ۔ بیٹھ سے دیکھنا اور بیٹھنا۔
٣۔ نفی کی صورت میں۔ جیسے اچھوتا کے شروع میں یعنی جو چھونے سے محفوظ ہے-
٤۔ صفت مشبہ مذکر کی صورت میں۔ جیسے کالا گورا کا الف۔
٥۔ تعین مراتب کے لئے- جیسے پہلا ۔ دوسرا۔ تیسرا۔ چوتھا اور چھٹا کا الف۔
٦۔ بزرگی اور بڑا پن ظاہر کرنے کے لئے۔ جیسے ٹوکری سے ٹوکرا کا الف۔
٧۔ تصغیر کے لئے- جیسے کلو سے کلوا کا الف۔
صفحہ نمبر 126
٨۔ نسبت کے لئے ۔جیسے مونگیا- دودھیا کا الف۔ کبھی دو کلموں کے درمیان بھی نسبت کے لئے آتا ہے جیسے بھیڑیا دہسان میں۔
الف تازی اور پارسی شکل صفحہ نمبر 126
الف اردو شکل صفحہ نمبر 126
ب۔ ١۔ فارسی میں ربط کلام کے لئے اور بمعنی "کو" سعدی ؎
بدو و گفت سالار بیت الحرام کہ اے حامل وحی برتر خرام
یہاں بدو بمعنی اور مستعمل ہے۔
٢۔ علّت کی صورت میں اور سبب کے معنی میں۔ سعدی ؎
بہ نطق آدمی بہترست از عذاب دواب از توبہ گرنگوئی مواب
یہاں بہ بمعنی بسبب نطق مراد ہے۔
٣۔ قربت کی صورت میں۔ جیسے بدرخت گل رسیدم یعنی اے نزد درخت گل۔
٤۔ صحبت کی صورت میں۔ جیسے باہوش و خرد۔ یعنی ہوش و خرد کے ساتھ۔
٥۔ ظرف کی صورت میں۔ جیسے خسرو ؎
صفحہ نمبر 127
٦۔ قسم کے واسطے۔ جیسے بہ یزداں۔ بمعنی قسم ہے یزداں کی۔
٧۔ زیادت کی صورت میں اور ماضی مضارع۔ امر کے ساتھ لیکن معنی نہیں دیتی جیسے بگفت۔ بجائے گفت۔
٨۔ استعانت کے لئے- جیسے نظامی ؎ کے یہاں۔
بہ لشکر تواں کرد ایں کار زار بہ تنہا چہ بر خیز دازیک سرمار
٩۔عوض کی صورت میں نظامی۔
چود و یا خرد گوہر از کان تنگ دہد کشتیء دربہ یکپارہ سنگ
دوسرے مصرع میں بہ بمعنی عوض مراد ہیں۔
١٠۔ ۔۔۔۔ اور برکت کی صورت میں۔ جامی ؎
خداوندا بہ پیران جواں بخت بود تا آسماں چترو زمیں تخت
١١۔ توسط کے لئے ۔ نظامی ؎
نہر پر کجا یافت قدرے تمام بدولت ذرائے بر آورد نام
١٢۔ ابتداء کے لئے- سعدی ؎
بنامِ جہاندار جاں آفریں کلیمے سُخن بر زباں آفریں
١٣۔ تا کے معنی میں جیسے۔ء
زمشرق بہ مغرب کشیدہ ظناب
١٤۔ مطابق کے معنی میں جیسے ۔ بہ فرمان قاضی۔ یعنی فرمان قاضی کے مطابق۔
١٥۔ طرف و جانب کے معنی میں۔ نظامی ؎
ہمہ پُشت بر مہر و ماہ آورند بہ دین حقیقی پناہ آورند
بہ دین حقیقی سے مراد ہے سوئے ملت ابراہیم۔
١٦۔ تعدیہ کی صورت میں۔ یعنی علامت مفعول "کو" کے معنی میں نظامی کا شعر ؎
صفحہ نمبر 128
بخوا ہندگان بخشم از مال و گنج کہ از باز دادن نیابم بہ رنج
نوٹ۔ فارسی میں ب کا استعمال کئی طرح سے ہے۔ یہاں صرف ان باتوں کا ذکر کر دیا گیا ہے جو بہت عام ہیں ۔۔۔ اردو میں فارسی کا تتبع کیا گیا ہے۔ فصحاء اردو میں اس کے استعمال کو زیادہ پسند نہیں کرتے تاہم حسب ذیل صورتوں میں مستعمل ہے۔
١۔ ''سے '' کے معنی میں جیسے بسرو چشم۔
٢۔ مقابل کے معنی میں جیسے روبقیلہ۔ روبرو۔
٣۔ اتصال کے واسطے جیسے روز بروز۔ ماہ بماہ۔ رنگ برنگ۔
٤۔ قَسْمِیَہ۔ جیسے بخدا۔
٥۔مطابقت کے لئے جیسے ء
آئینہ بروئے دوست آیا
٦۔ توسل کے لئے۔ جیسے حزیں کا شعر ؎
یا رب بہ نشید سینہ ریشاں یا رب بہ نیاز مہر کیشاں
شکل صفحہ نمبر 128
صفحہ نمبر 129
پ۔ یہ فارسی اور اردو میں مشترک ہے۔ اس کے استعمال کی صورتیں حسب ذیل ہیں۔
١۔ بدل کی صورت میں۔ اس کی دو قسمیں ہیں۔
١۔ ف سے تبدیل ہو جاتی ہے جیسے پیل و فیل۔ سپید و سفید۔
٢۔ بائے موحدہ سے جیسے اسپ کی جگہ اسب۔
٢۔ لفظ کے آخر میں مصدری معنی دیتی ہے ۔ جیسے ملاپ میں۔ یہ استعمال اردو میں ہوتا ہے۔
شکل صفحہ نمبر 129
نوٹ۔ بائے موحدہ بھی بدل کی صورت میں آتی ہے۔ اور اس کی بھی دو صورتیں ہیں۔
١۔ میم سے بدل جاتی ہے جیسے غشرب سے غشرم بمعنی دانہ انگور۔
٢۔واؤ سے بدلتی ہے جیسے سیب سے سیو۔ نہیب سے نہیو۔
٣۔ ف سے تبدیل ہوتی ہے جیسے تب و تف۔ شب و شف۔ چونکہ یہ بہت پرانی تقلید ہے۔ اور متاخرین اس کو ترک کر چکے ہیں اس لئے شجرہ میں ظاہر نہیں کی گئی۔
ت۔ اس کے لغوی معنی ضمیر کے آتے ہیں۔ اس کا استعمال حسب ذیل صورتوں میں ہوتا ہے۔
صفحہ نمبر 130
1۔ ضمیر حاضر ملحق۔ جیسے کویت کی ت۔ یہ فاعلی۔ مفعولی اور اضافی حالت میں آتی ہے۔
2۔ ضمیر حاضر مفعولی۔ یہ علامت مفعول سے پیشتر آتی ہے۔ اور مذکورہ بالا کلمہ فاعلی کے آخر میں آتی ہے جیسے تُرا میں ت ہے۔
3۔ زائد۔ بعض الفاظ میں اساتذہ نے اس کو آخر میں زیادہ کر دیا ہے جیسے فرامش فرامشت یا بالش سے بالشت۔
4۔ بدل کے لئے۔ اس کی چار صورتیں ہیں۔
(١) بصورت جیم۔ جیسے تارات سے تاراج۔
(٢) بصورت دال مہملہ جیسے توت سے تود۔زرتشت زادشت و گنبد سے گنبت و دیدید (فعل جمع حاضر) سے دیدیت لیکن یہ صورت شازونادر مستعمل ہے۔
(٣) بصورت طا مہملہ۔ جیسے بستر سے سطر۔
(٤) بصورت کاف جیسے چاشت سے چاشک وغیرہ۔
(٥) تا کے معنی میں جیسے تا قیام یعنی قیام تک۔
(٦) شرط کے لئے اور اس کی صورت بھی نا ہوتی ہے۔ نظامی ؎
تا نفگسندند مزست از امید تا نشکتند نشد رو سپید
(٧) ابتدا کی صورت میں جیسے نا با خیال۔
(٨) انتہا کی صورت میں جیسے تا سدرہ۔
(٩) علّت کی صورت میں جیسے تا ہمدم۔
(١٠) کاف بیانیہ کے معانی میں۔ نظامی ؎
صُبح بدال می دہدت طشت زر تا توز خود دست بشوئی مگر