فکر و فن ( ٹائپنگ جاری۔۔)

عائشہ عزیز

لائبریرین
245

نوٹ:- اردو میں اضافت مقلوب ہونے پر :-
کی۔ کو ۔ کے سے بدل دیتے ہیں۔ جیسے انیس۔ع
سرمہ دیا آنکھوں میں کبھی نور نظر کے
قاعدہ کی رو سے 'نور نظر کی'ہونا چاہیے تھا۔مگر یہاں 'کے' نظم کیا ہے۔ اس کی وجہ ایک یہ بھی ہے کہ اگر ہم آنکھوں میں، مخدوف کر دیں تو کے ہی موزوں ہے۔ یعنی کبھی نور نظر کے سرمہ دیا۔
مرکب عطفی۔ وہ مرکب جو معطوف اور معطوف الیہ سے مل کر بنے جیسے زید و عمر۔ ہم اور تم۔ میرا گھر آپ کے قدم۔ واضح ہو کہ حرف عطف سے پہلے معطوف اور بعد کو معطوف الیہ آتا ہے۔
نوٹ:- معطوف الیہ اپنے معطوف سے مل کر کبھی فاعل۔ کبھی مفعول اور کبھی مبتدا ہو جاتا ہے۔ گلزار نسیم؎
وہ دسترس اور وہ پائمردی
وہ بیکسی اور وہ دشت گردی
مرکب بدلی۔ وہ دو لفظ جس میں ایک سے مراد ہو اور دوسرا اس کی وضاحت کے لئے لایا جائے جیسے میرا دوست اشرف کل سے نہیں آیا ہے۔ واضح ہو کہ جو جزو مقصود ہوتا ہے اسے بدل کہتے ہیں اور دوسرے کو مبدل منہہ۔ مبدل منہہ میں ایک قسم کا شک رہتا ہے۔ جو بدل کی وجہ سے دور ہو جاتا ہے۔ اردو میں بدل پہلے آتا ہے اور مبدل منہہ بعد کو جیسا مثال سے ظاہر ہے۔ لیکن کبھی بعد میں بھی آتا ہے جیسے زید تمہارا بھائی کل مجھے ملا تھا۔ عربی میں بدل کی چار قسمیں ہیں۔ بدل الکل۔ بدل البفص۔ بدل الاشتمال۔ بدل الغلط لیکن اردو میں صرف دو مستعمل ہیں۔ بدل الکل۔ بدل الغلط۔
بدل الکل۔ جس میں بدل اور بدل منہہ سے ایک ہی ذات مرادہو۔ جیسا مثال سابق میں ہے۔
بدال الغلط۔ یعنی غلط کے بعد صحیح لفظ بولا جائے۔ جیسے وہ بودم یعنی ملک الجہلا تشریف
 
221

جیسے اب کے سال۔ کہاں کی عید۔ء۔ مجھ سے کہاں چھپیں گے وہ ایسے کہاں کے ہیں وغیرہ۔
(۳)کہاں علاوہ استفہام کے جب بہ تکرار ایک جملہ کے الگ الگ فقروں میں آتا ہے ۔ تو اس سے تعجب یا فرق عظیم ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے جیسے کہاں آپ کہاں ہم۔
(۴)جب کہاں کہاں آتا ہے تو اس کا مفہوم جگہ جگہ اور دور دور ہوتا ہے جیسے:
اذاں دی کعبہ میں ناقوس دیر میں پھونکا
کہاں کہاں ترا عاشق تجھے پکار آیا
(۵)کہیں کے معنی جگہ کے آتے ہیں، مگر کبھی اظہارِ شک یا اندیشہ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ جیسے کہیں شیر تو نہ ہو۔ کبھی یہ لفظ مکرر بھی آتا ہے اور کبھی اس کے درمیان حرف نفی بھی آتا ہے۔ اس سے ایک کی نفی دوسرے کا اثبات مقصود ہوتا ہے۔ جیسے کہیں نہ کہیں تو ملو گے۔
(۶)ادھر ادھر کی بھی یہی صورت ہے۔ جیسے اِدھر اُدھر کہاں تک پھروگے۔ یا وہ اِدھر نہ اُدھر وغیرہ۔

طَرِیْقَہ:
(ء) بروزن وظیفہ۔ بمعنی طور۔ ڈھنگ اس کو سبب بھی کہتے ہیں۔ جیسے یوں۔ کیوں۔ کیونکر۔ کیسے۔ ٹھیک۔ لگاتار۔ برابر۔ سچ مچ۔ جھوٹ موٹ۔ جھوٹ سچ۔ ہوبہو۔ بعینہ۔ بجنسہ۔ ہرچند۔ باہم۔ الغرض۔ چونکہ۔ کیونکہ۔ چنانچہ۔ لہٰذا وغیرہ۔
نوٹ:۔ یوں ، کبھی اس طرح کے معنی میں آتا ہے اور کبھی اس خیال یا اس لحاظ کے معنی بھی دیتا ہے۔ جیسے یوں کیوں نہیں کہتے۔
 
222

یعنی اس طرح کیوں نہیں کہتے یا یوں تو ہم بھی آدمی ہیں یعنی اس لحاظ سے تو ہم بھی آدمی ہیں۔

تَعْدَاد:
(ء) بروزن ناشاد۔ بمعنی شمار۔ گنتی۔ اس کو مقدار بھی کہتے ہیں۔ جیسے ایک بار۔ ایک دفعہ۔ دو مرتبہ۔ ایک ایک۔ دو دو تخمیناً۔ قریب قریب۔ بالکل۔ کچھ کچھ۔ اس قدر۔ تھوڑا تھوڑا۔ ذرا سا وغیرہ۔

اِیْجَاب: (ء) بروزن ایثار۔ بمعنی قبول کرنا۔ مقرر کرنا۔ جیسے ہاں۔ جی ہاں۔ ہاں جی۔ جی۔ بہت مناسب۔ بہت خوب۔ بہت خوب۔ اچھا۔ ٹھیک۔ بھلا۔ واقعی۔ بجا۔ صحیح۔ بارے۔ البتہ۔ فی الحقیقت وغیرہ۔

اِنْکار: (ء) بروزن ارشاد۔ بمعنی منع کرنا۔ جیسے۔ نہیں۔ نہیں تو۔ یقیناً۔ بے شک۔ بلاشبہ۔ ہرگز۔ زنہار وغیرہ۔
نوٹ: بعض کلمات سے پہلے بے، بلا۔ بغیر لگاکر ان سے متعلق فعل کا کام لیتے ہیں۔ جیسے بے کہے۔ بلاشک۔ بغیر میرے۔ وغیرہ۔

مرَکب:
(ء) بروزن معظم۔ بمعنی ملا ہوا۔ اس کو مرکب متعلقات فعل بھی کہتے ہیں۔ کبھی دو تمیز فعل مل کر آتے ہیں جیسے کب تک۔ جب بھی۔ جہاں کہیں۔ جہاں جہاں۔ کہیں کہیں۔ کبھی نہ کبھی۔ اندر باہر وغیر۔
نوٹ: (۱) کبھی دو لفظ مل کر بطور خبر اور جملہ کے حال کا کام دیتے ہیں جیسے رفتہ رفتہ۔ خوش خوش۔ روز روز۔ اطراف و جوانب۔ آئے دن۔ گھڑی گھڑی۔ آس پاس۔ صبح و شام۔ الگ الگ۔ کما حقہ۔ حتی الامکان۔ حاصل کلام۔ طوعاً و کرہاً۔ آخر الامر۔
(۲)بعض وقت لفظ کے بعد تک یا میں سے وغیرہ بڑھا کر تمیز فعل کا کام لیا جاتا ہے۔ جیسے کب تک۔ کب سے۔ آرام میں۔
 
223

(۳)بعض فارسی الفاظ پر ب لانے سے۔ جیسے بخوشی۔ بخوبی وغیرہ بھی تمیز فعل کا کام دیتے ہیں اور کبھی اسما کے آخر میں واؤ بڑھا کر بھی اساتذہ تمیز فعل کا کام لیتے ہیں۔ جیسے ماہوار۔ نمبروار وغیرہ۔ کبھی صفت بھی تمیز فعل کا کام دیتی ہے جیسے۔ خوب۔ ٹھیک۔ درست۔ بجا وغیرہ۔
(۴)ہزار لاکھ وغیرہ کثرت کے معنوں میں تمیز فعل کا فائدہ دیتے ہیں۔ جیسے لاکھ سمجھایا۔ ہزار کوشش کی۔
(۵)کبھی اسمائے عام بھی تمیز فعل ہوتے ہیں جیسے بھوکوں کرتا ہوں۔ ہاتھوں چلتا ہے۔ گھٹنوں چلتا ہے۔ کبھی افعال بھی متعلقات کا کام دیتے ہیں جیسے۔ کھل کھلاکر ہنسنا۔ بلبلاکر رویا وغیرہ۔

حَرْف: (ء) بروزن صرف۔ یہاں اس سے وہ کلمہ مراد ہے جو تنہا کچھ معنی نہیں دیتا۔ بلکہ یہ کسی دوسرے کلمے کے ساتھ آکر معنی رکھتا ہے اور اس کا دوسرا کلمہ زیادہ تر اسم ہوتا ہے یہ حرف کئی قسم کا ہوتا ہے۔

رَبْط: (ء) بروزن خبط۔ بمعنی تعلق۔ میل جول۔ یہ وہ کلمے ہیں جو ایک لفظ کا علاقہ دوسرے لفظ سے ظاہر کرتے ہیں۔ جیسے آگے سامنے۔ روبرو۔ اندر۔ بیچ۔ درمیان۔ میں۔ ساتھ۔ سمیت۔ باہر۔ اوپر۔ پھر۔ پہ۔ بس۔ بعد۔ قبل۔ تک۔ تلک۔ سے۔ سو۔ خالی۔ صرف۔ محض۔ دور۔ طرف۔ جانب۔ سمت۔ کا۔ کے۔ کی۔ نیز۔ بھی۔ یا۔
نوٹ: (۱)آگے ۔ روبرو۔ سامنے۔ کبھی موجودگی و مقابل کے معنی ظاہر کرتے ہیں۔ جیسے وہ مرے سامنے کیا بات کرسکتے ہیں۔
(۲)کبھی آگے اور سامنے سے جیتے جی کا مفہوم بھی نکلتا ہے جیسے جو کچھ کرنا ہے میرے سامنے کرلو، خدا جانے میرے بعد کیا حشر ہو۔
 
224

(۳)آگے کبھی پیشتر کے معی میں بھی آتا ہے جیسے:
کہو بحرؔایسی بھی تھی مشکل آگے ہوئی کس کے پیچھے یہ صورت تمھاری

(۴)کبھی یہ آیندہ کے معنی میں آتا ہے جیسے صباؔ:
جو حال دیکھتا ہے وہ کہنا پیامبر آئیں نہ آئیں آگے انھیں اختیار ہے

(۵)کبھی یہ دور اس طرف کے معنی بھی دیتا ہے۔ جیسے داغؔ:
رہ گیا عرش سے ٓگے جاکر ہائے عالم مری تنہائی کا

(۶)کبھی سے کے معنی میں جیسے دائی کے آگے پیٹ چھپانا۔ یعنی دائی سے پیٹ چھپانا۔

(۷)کبھی نظر میں اور دانست میں کے معنی بھی دیتا ہے۔ جیسے قلقؔ:
میرے آگے چمن جہنم ہے محفل عیش بزم ماتم ہے

(۸)کبھی بعد کے معنی بھی مراد ہوتے ہیں۔ مومنؔ:
لذت آتی جو لفظ الفت سے پڑھتے دائم الف کے آگے تے

نوٹ۔(۲) اندر۔ بیچ ۔ درمیان اور میں حرف ربط ہیں۔ مگر بعض اوقات ظرفیت کے معنی بھی دیتے ہیں۔ جیسے صندوق کے اندر بند کردو۔ وہ دامِ الفت میں گرفتار ہے۔ میرے اور ان کے درمیان جھگڑا ہے۔ صحراکے بیچ۔ واضح ہو کہ فصحائے حال نے بیچ کو اس معنی میں ترک کردیا ہے۔

نوٹ۔(۳) اوپر۔ پھر۔ پہ۔ واضح ہو کہ پہ مخفف ہے پر کا۔ بعض شعراء اس کو متروک کرچکے ہیں، لیکن عام طور پر اس کا استعمال موجود ہے۔ کچھ اساتذہ اب تک بالا خانے پر لکھنا فصیح ہے۔ پہلے اکثر استادوں نے پرکی جگہ اوپر بھی لکھا ہے جیسے کیف:
داغ دل میرا وہ سورج ہے کہ جس کے اوپر
انگلیاں سیکڑوں اٹھتی ہیں کرن کی صورت
 
225

لیکن اب اس کا استعمال غیر فصیح ہے پر حسب ذیل صورتوں میں مستعمل ہے۔
(۱)آسرا۔ بھروسہ۔ جیسے۔ تیری رحمت پر عاصی نازاں ہیں۔
(۲)جانب۔ طرف۔ جیسے۔ میری بات پر دھیان دینا چاہیے۔
(۳)واسطے اور لئے۔ جیسے اپنے نام پر تو گھر بھی لٹا دیتے ہیں۔
(۴)ظرفیت کے معنی ہیں۔ جیسے تم عین وقت پر آگئے۔

اوپر کا استعمال ان صورتوں میں ہوتا ہے۔
(۱)ظرفیت کے لئے۔ جیسے زلف یار کے اوپر ناگن کا دھوکا ہوتا ہے۔ اگر یہاں کے محذوف کردیا جائے تو پر ہی فصیح ہے۔ لیکن پھر بھی فصاحت میں کے اوپر لکھنا اچھا نہیں معلوم ہوتا۔
(۲)بالا کے معنی میں جیسے ناسخؔ:
زمیں اوپر ہے نیچے آسماں ہے
(۳)کبھی کوٹھے اور بالا خانے کا مفہوم بھی پیدا ہوتا ہے۔ جیسے سرکار اوپر ہیں تشریف لے چلئے۔
(۴)کبھی باہر کے معنی مراد ہوتے ہیں۔ جیسے جو کپڑے اوپر تھے چور لے گئے۔
(۵)اس پہلے کی جگہ بھی استعمال ہوتا ہے جیسے میں اوپر لکھ چکا ہوں کہ وہ نہیں آئے۔
(۶)اپنی ذات پر۔ جیسے اس حقیقت کو اپنے اوپر قیاس کرلو۔
(۷)اوپر اوپر بھی مستعمل ہے جیسے تم اوپر اوپر اڑتے پھرتے ہو۔

نوٹ۔(۴) سے حسبِ ذیل معنوں میں مستعمل ہے۔
(۱)ابتدا کو ظاہر کرتا ہے اور یہ ابتدا کبھی مکان اور کبھی زمان سے متعلق ہوتی ہے، جیسے وہ جنگل سے آیا ہے۔
(۲)سبب کے معنی میں جیسے آوازِ جرس سے آنکھ کھل گئی۔
 
226

(۳)استعانت و مدد۔ جیسے پھولوں سے روح کو تازگی ملتی ہے۔
(۴)بجائے علامت مفعول۔ جیسے میں نے ان سے کہا کہ فوراً چلے آؤ۔
(۵)بیان کے لئے۔ جیسے دل سے ناک میں دم ہے۔
(۶)متعدی بنانے کے لئے۔ جیسے اٹھوائے تو ان سے اٹھوائے۔
(۷)شمول کے لئے۔ جیسے سر سے پانک ان کو بغور دیکھا۔
(۸)کبھی سے محذوف کرکے ماقبل اسم کے آخر دن بڑھادیتے ہیں۔ جیسے دل کے ہاتھوں مرگئے۔
(۹)کبھی سے کو قطعی محذوف کردیتے ہیں۔ جیسے اپنی خوشی آن، اپنی خوشی جانا۔

نوٹ۔(۵) تک۔ تلک۔ تا۔ تلک قطعی متروک ہے اب صرف تک ہی مستعمل ہے۔ فارسی میں مستعمل ہے جیسے تابہ نظر۔ تا بہ فلک وغیرہ۔ اس کے علاوہ انتہا کا مفہوم بھی ادا کرتا ہے جیسے دل سے تا جگر تک کا محل استعمال حسبِ ذیل ہے۔
(۱)انتہا کا مفہوم ظاہر کرتا ہے جیسے حشر تک کون جئے گا۔
(۲)مبالغہ کے موقع پر۔ جیسے دل تک زخمی ہوگیا۔

نوٹ۔(۶) نے۔ یہ فعل متعدی کے فاعل کی علامت ہے جو فاعل کے بعد ماضی مطلق۔ ماضی قریب۔ ماضی بعید۔ ماضی احتمالی میں استعمال ہوتاہے جو ماضی مطلق اور ”ہونا“ کی مدد سے بنایا جاتا ہے۔ جیسے اس نے میرا حال پوچھا۔ مثال ماضی مطلق ناسخؔ:
پوچھا جو روکے یار نے ناسخ کے حال کو
ہنس کر کہا رقیب شقی نے گزر گئے

مثال ماضی قریب۔ آتشؔ۔ ء
 
227

نہیں دیکھا ہے لیکن تجھ کو پہچانا ہے آتش نے

مثال ماضی بعید۔ مصحفی:
بت بنایا تھا خدا نے اس کو پر اس پر بھی ہائے

مثال ماضی احتمالی۔ منیر:
مرے رشک یوسف کو دیکھ اے زلیخا
کبھی خواب میں تو نے دیکھا نہ ہوگا

مثال ماضی شرطی۔ ظفر:
اپنا دیوانہ بنایا مجھے ہوتاتو نے
کیوں خرد مند بنایا نہ بنایا ہوتا

مگر بولنا۔ بھولنا۔ لانا۔ سمجھنا۔ ہارنا۔ جیتنا کے فاعل کے بعد فصحا نے نہیں لاتے لیکن سمجھا کے فاعل کے ساتھ کبھی نے استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً آتش کے دو شعر ملاحظہ ہوں۔
خاک میں مل کے بھی میں اس و نہ دشمن سمجھا
گردش چرخ کو اک گردش دامن سمجھا
بسکہ تھی اس سے عیاں سینۂ عارف کی ضیا
پہرۂ یار کو میں نے دل روشن سمجھا

چلنا اور کھیلنا فعل لازم ہیں مگر کبھی فعل متعدی بھی ہوتے ہیں اور ان کے فاعل کے بعد فصح اکثر نے نہیں لاتے۔ آتشؔ:
ہم سا بھی اس بساط پہ کم ہوگا بدقمار
جو چال ہم چلے وہ نہایت بری چلے
مصرعہ۔ ہم ایسے کھیل کھیل کے نادار ہوگئے

شرماتا بھی کبھی لازم ہے کبھی متعدی
لازم: اقرار میں تھی جو بے حیائی شرمائی لجائی مسکرائی
متعدی: کیوں آنکھیں جھپکتی ہیں کس نے تجھے شرمایا

نوٹ۔(۷) جانب۔ سمت۔ طرف۔ بظاہر متقدمین کے استعمال میں یہ الفاظ مترادف معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن اب فصحائے حال میری
 
228

طرف کی جگہ میری سمت نہیں لکھتے۔ ان کے استعمال کی حسبِ ذیل صورتیں ہیں۔
میری جانب سے یہ کہنا اے صبا ہند میں اب جی نہیں لگتا ذرا
اس سمت خدائی تھی ادھر نامِ خدا تھا
دولت تھی ادھر اور ادھر ایک گدا تھا
کیا خاک ہوگی پرسش اعمال حشر میں
شان کرم تو خود ہے گنہگار کی طرف

پہلے طرف کو بسکون رائے مہملہ بھی لکھتے تھے میر حسن:
سراسر وہ مشعل کے ہر طرف جھاڑ کہ جوں نور کے متصل ہوں پہاڑ

نوٹ۔(۸) نزدیک۔ اس کا استعمال دو طرح ہوتا ہے۔ قریب اور رائے۔ جیسے ان کا مکان نزدیک ہے۔ میرے نزدیک آپ غلطی پر ہیں۔ فارسی میں یہ لفظ کے نامہ نوشتن۔ (کسی کے نام خط لکھنا) کے معنی میں متعمل ہے۔ مگر اردو میں ایسا نہیں ہے۔ حافظ۔ ء
از خون دل نوشتم نزدیک یار نامہ

نوٹ۔(۹) کا۔ کی۔ کے۔ یہ بالعموم اضافت کا کام دیتے ہیں۔ کا کے بعد جو لفظ آئے گا وہ واحد مذکر ہوگا۔ کے کے بعد جمع مذکر کی کے بعد مؤنث خواہ واحد ہو یا جمع۔ ان کے استعمال کی صورتیں یہ ہیں۔
(۱)کثرت کے لئے جیسے سب کے سب چلے گئے۔
(۲)فوراً کے معنی میں جیسے آن کی آن میں آگئے۔
(۳)تمام۔ کل۔ جیسے صف کی صف نے ایک ساتھ حملہ کیا۔
(۴)بالکل۔ بلا تغیر۔ جیسے تم دیوانے کے دیوانے رہے۔
(۵)بھی۔ جیسے طعن کی طعن اور بات کی بات۔
 
229

(۶)قلت اور ایک کے معنی میں۔ جیسے رات کی رات وہ مہمان رہے۔
(۷)ہر ایک کے معنی میں جیسے دن کے دن مزدوری مل جاتی ہے۔

واضح ہو کہ مذکور بالا مثالوں میں کا۔ کی۔ کے سے پہلے اور بعد میں لفظ کی تکرار ہوتی ہے جس سے مختلف معنی پیدا ہوتے ہیں۔

نوٹ۔(۱)
کو۔ یہ علامت مفعول ہے اس کے استعمال کی صورتیں حسبِ ذیل ہیں۔
(۱)اکثر الفاظ متعدی کو مفعولوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ جن میں ایک کوئی شخص اور دوسری کوئی چیز ہوتی ہے۔ شخص ے بعد علامت مفعول یعنی کو لاتے ہیں۔ جیسے دکھلائی جمیلہ کو وہ تصویر۔ یہاں جمیلہ مفعول شخصی ہے جس کے بعد علامت مفعول کو موجود ہے۔
(۲)جب ضمیر مفعول ہوتی ہے تو کو علامت مفعول اس کے بعد ضرور لاتے ہیں مگر کو سے پہلے واحد متکلم کے واسطے مجھ۔ واحد حاضر کے لئے تجھ واحد غائب کے واسطے اس اور جمع غائب کے لئے ان لاتے ہیں کبھی کو کی جگہ واحد کے لئے یائے مجہول اور جمع کے واسطے میں اور ہیں بھی لگادیتے ہیں جیسے مجھ کو۔ ہم کو۔ تجھ کو۔ تم کو۔ اس کو۔ ان کو۔ مجھے۔ ہمیں۔ تجھے۔ تمھیں۔ اسے۔ انھیں وغیرہ۔
یہ اور وہ کو سے پہلے اِس اور اُس۔ اِن اور اُن۔ ہوجاتے ہیں اور اسم کی جمع وں سے بناتے ہیں جیسے اس روپیہ کو بھنا دو۔ یا ان لوگوں کو منع کردو۔
کبھی کو زائد بھی ہوتا ہے جیسے۔ء۔ کیسے تیر انداز ہو سیدھا تو کرلو تیر کو۔

حرف عطف۔ وہ حرف یا لفظ ہوتا ہے جو لفظوں یا جملوں کو ایک حال تمیں لائے جیسے ہم اور تم دونوں چلیں گے۔ اگر وہ ملتے تو میں کہتا۔ میں نے بلایا تھا مگر وہ نہیں آئے۔ اس کی حسبِ ذیل قسمیں ہیں۔

وَصْل۔ (ء) بر وزن اصل۔ بمعنی ملاپ۔ یہ بھی دو لفظوں یا دو جملوں کو ایک
 
230

حالت میں لاتا ہے۔ مثلاً قلم اور دوات خریدنا ہے۔ اک میں کیا وہ بھی شریک ہیں۔ وہ سن کر چپ رہا۔ میں کہہ کے پچھتایا۔ پہلے میں آیا پھر وہ آئے۔ جان و دل دونوں گرفتار محبت ہیں۔
واضح ہو کہ واؤ اردو الفاظ کے ساتھ نہیں آتا۔ جیسے ڈورو پتنگ غلط ہے۔ واؤ تنہا ہمیشہ فارسی اور عربی الفاظ کے ساتھ آتا ہے۔
کبھی اور دو خبروں کو جدا کرتا ہے۔ جیسے میں اور ان کی بزم میں جاؤں۔

تَرْدِیْد۔ (ء) بر وزن تقدیر۔ بمعنی رد کرنا۔ وہ حروف جن کے لانے سے معطوف اور معطوف علیہ میں سے کوئی ایک مراد ہو۔ اور وہ حروف یہ ہیں۔ یا۔ خواہ۔ چاہے۔ کہ وغیرہ۔
یا۔ اکثر دو چیزوں کے اجتماع کے روکنے اور دو میں سے ایک کا تعین ظاہر کرنے کے لئے لاتے ہیں۔ جیسے تم جاؤ گے یا میں جاؤں۔ تم چلے جاؤ یا میں جاؤں۔
خواہ۔ چاہے۔ چاہو۔ جب مکرر آتے ہیں تو مساوات ظاہر کرتے ہیں۔ جیسے خواہ یہ لو خواہ وہ لو۔ چاہے خود آؤ چاہے مجھے بلاؤ۔
کہ۔ یہ اکثر نظم میں آتا ہے جیسے ء آپ کو کچھ دل عاشق کی خبر ہے کہ نہیں
کبھی حرف تردید حذف بھی ہوجاتا ہے جیسے
مانو نہ مانو جانِ جہاں اختیار ہے ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں
یہاں مانو کہ نہ مانو مراد ہے۔

اِستدراک۔ (ء) بروزن استفسار۔ بمعنی طلب کرنا۔ وہ حروف جن کی وجہ سے وہ شبہ جو کلام سابق میں واقع ہو دو ہوجائے اور وہ حروف یہ یں۔ مگر۔ لیکن۔ لیک۔ ولیک۔ ولیکن۔ ولے۔ البتہ۔ بلکہ۔ کہ۔ گو۔ اگرچہ۔ پہ
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
246

فرما ہیں۔
نوٹ:- بدل اور صفت میں یہ فرق ہے کہ بدل مقصود بالذات ہوتا ہے۔ اور صفت نہیں ہوتی۔ بدل مبدل منہہ سے مل کر کبھی فاعل۔ کبھی مفعول اور کبھی مبتدا ہو جاتا ہے۔
عطف بیان وہ مرکب ہے جو بغیر عطف کے ترتیب دیا جائے اور معطوف و معطوف اللہ دونوں بالذات ہوں اور دوسرا پہلے کی توضیح کرتا ہو جیسے مینر۔ ع
متفی بے نظیر سعد اللہ
نوٹ:- عطف بیان مبین کی توضیح کئی طرح کرتا ہے مثلاََ کبھی عَلَم سے۔ کبھی خطاب یا لقب سے کبھی عرف۔ عہدے۔ پیشے یا نسبت سے۔ جیسے سربلند جنگ حمید اللہ خانصاب۔ منشی امیر احمد۔ امیر۔ موسیٰ کلیم اللہ۔ منصور حلاج۔ سعدی شیرازی وغیرہ۔
تاکید موکد۔ اسکی وجہ سے اسم میں زور پیدا ہو جاتا ہے۔ جیسے زید خود آیا۔ واضح ہو جس کی تاکید کیجاتی ہے۔ اس کو موکد کہتے ہیں۔ تاکیدی الفاظ حسب ذیل ہیں۔ سب۔ سب کے سب۔ سہی۔ تمام۔ کل۔ سراسر۔ سراپا۔ سربسر۔ ہوبہو۔بعینہ۔ آپ۔ خود وغیرہ۔
نوٹ:- کبھی لفظ کی تکرار سے بھی تاکید ہوتی ہے جیسے چور چور۔ ہاں ہاں۔ نہیں نہیں۔ آہستہ آہستہ۔ چپکے چپکے۔ واضح ہو کہ تاکید کبھی فاعل کبھی مفعول
مرکب اشاری۔ وہ مرکب جو اشارہ اور مشار الیہ کو مرکب کرنے سے حاصل ہو جیسے وہ قلم۔ یہاں وہ اشارہ ہے۔ اور قلم مشار الہہ ہے
مرکب تمیزی۔ وہ مرکب جو کلمات سے ابہام دور کرے۔ واضح ہو کہ ابہام دور کرنے والے
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
247

کلمات جو وعدہ نہیں ہوتے۔ تمیز ہیں اور جس کلمے سے ابہام دور کیا جاتا ہے اس کو ممیز کہتے ہیں۔ جیسے تمام رات۔ چنداحباب۔ کئی آدمی وغیرہ۔
مرکب تفصیلی۔ یہ مرکب اسم کی تفصیل یا تنقیص کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جیسے یہ سب سے عمدہ قلم ہے۔ چوری نہایت برا کام ہے۔
مرکب امتزاجی۔ جب دو یا زیادہ الفاظ مل کر ایک ہی اسم ہو جائیں تو ایسے مرکب کو مرکب امتزاجی کہتے ہیں جیسے غلام علی۔ اعظم گڈھ وغیرہ۔
نوٹ:- اسم فاعل ترکیبی۔ اسم مفعول ترکیبی۔ اسم صفت ترکیبی۔ اسم مکبر مرکب۔ اسم مبالغہ۔ اسم تفضیل۔ یہ سب مرکب ناقص ہیں۔ جو جزو جملہ ہوتے ہیں۔
تابع مہمل۔ ایک لفظ کی تکرار اس طرح کی جائے کہ یا تو پہلا حرف گرا دیں یا پہلے حرف کی جگہ کوئی دوسرا حرف لے آئیں۔ یا درمیانی حرف علت میں کوئی تبدیلی کر دی جائے جیسے روٹی ووٹی۔ پانی وانی۔ غلط سلط وغیرہ واضح ہو کہ یہ طریقہ قیاسی ہے جو ہر لفظ میں لایا جا سکتا ہے۔ باقی طریقے سماعی ہیں مثلاََ
(1) کبھی ایک لفظ کے معنی یا قافیہ کے لحاظ سے دوسرا مہمل لفظ لایا جائے۔ جیسے بچا۔ کھچا۔ میل۔ کچیل۔ ٹال مٹول۔ طعنے۔ مینے وغیرہ۔
(2) بعض حالات میں پہلے لفظ کے شروع میں ایک یا دو حرف دوسرے لفظ کے شروع میں آئیں جیسے گالی گلوچ۔ سودا سلف وغیرہ۔
(3) کبھی لفظ یا معنی کے درمیان کچھ تصرف کرکے تابع مہمل بنا لیتے ہیں جیسے ٹھیک ٹھاک۔ ڈیل ڈول وغیرہ۔
(4) کبھی بامعنی الفاظ بھی تابع مہمل کے طور پر بولے جاتے ہیں۔ جیسے رونا دھونا۔ چال ڈھال وغیرہ۔
نوٹ:- تابع مہمل اکثر متبوع کے بعد آتا ہے جیسے گالی گلوچ۔ مگر کبھی
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
248

پہلے ہی آ جاتا ہے۔ جیسے آمنے سامنے۔ رگڑا جھگڑا۔ ارد گرد وغیرہ۔
[TODO: Add Chart]
مرکب تام کا بیان۔ عربی میں مفرد جملے دو قسم کے ہوتے ہیں۔ خبریہ۔ انشائیہ۔
خَبَریَہ۔ وہ جملہ جس میں کوئی خبر پائی جائے۔ اور اس کو جھوٹا یا سچا کہہ سکیں۔
اَنْشَائیہ۔ وہ جملہ جس کو جھوٹا یا سچا نہ کہہ سکیں اس کی بارہ قسمیں اور وہ یہ ہیں۔
(1) اَمر۔ وہ جملہ جس میں حکم پایا جائے۔ چلے آؤ بزم یار میں کوئی نہیں ہم ہیں۔
(2) نہی۔ وہ جملہ جس میں ان کار پایا جائے جیسے۔ اب نہ دین اپنا نہ دنیا اپنی۔
(3) اِسْتَفہَام۔ وہ جملہ جس میں استفہام پایا جائے جیسے۔ خدا معلوم کتنے آدمی ہیں۔
(4) تَعجُّبْ۔ وہ جملہ جس میں تعجب کا پہلو ہو جیسے۔ اللہ رے اے دل یہ تیری عجز نوازی۔
(5) تَحسِین۔ وہ جملہ جس میں تحسین پائی جائے جیسے۔ واہ واہ شاباش لڑکے واہ وا
(6) اِنبسَاط۔ وہ جملہ جس میں خوشی پائی جائے جیسے۔ واہ کیا جود و سخاہے شہ بطحٰی تیرا
(7) نِدَا۔ وہ جملہ جس میں ندائیہ کیفیت ہو جیسے۔ اے درد دل یہ محفل دشمن ہے غور کر۔
(8 ) ندبہ و تاسف۔ وہ جملہ جس میں افسوس ہو جیسے۔ ہے ہے میرا پھول لے گیا کون۔
(9) قَسَمْ۔ وہ جملہ جس میں قسم یا واسطہ ہو جیسے۔ نیک بندوں کا تصدق کار برتر کی قسم۔
(10) غرض۔ وہ جملہ جس میں غرض ہو جیسے۔ اچھا نہیں زمانے کے واسطے۔
(11) تَمنّا۔ وہ جملہ جس میں تمنا کا پہلو ہو جیسے۔ میں جسے پیار سے دیکھوں وہ
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
249

ابھی تو ہو جائے۔
(12) تَنْبِیْہہ۔ وہ جملہ جس میں تاکید یا تنبیہہ پائی جائے جیسے۔ دیکھو یہ راز دل ہے کہیں فاش ہو نہ جائے۔
[TODO: Add Chart]
جملے کے اجزا۔ اردو میں بھی جملہ کے دو عنصر ہیں۔ مبتدا اور خبر۔ عربی میں ان کو مسند و مسند اللہ کہتے ہیں۔ واضح ہو کہ جب ایک جز جملہ کا مفہوم ادا کرے جیسے پڑھو۔ اس کے یہ معنی ہوئے کہ دوسرا جز تم محذوف ہے۔
مُبتِدا۔ (ء) وہ شخص یا شے جس کا ذکر کیا جائے جیسے زید آیا۔ یہاں زید مبتدا ہے۔
خَبَر (ء) وہ جز جو اس شخص یا شے کی نسبت ہو جیسے زید آیا۔ یہاں آیا خبر ہے۔
[TODO: Add Chart]
نوٹ :- (1) اردو میں کوئی جملہ فعل سے خالی نہیں ہوتا۔
(2) بعض جملوں میں فعل ناقص ہوتا ہے اور بعض جملوں میں فعل تام۔
(3) مبتدا ہمیشہ اسم ہوگا۔ خبر کبھی اسم ہوگی مع فعل ناقص۔ کبھی تام۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
250

(4) جس جملہ کے دونوں جز اسم ہوں اس کو جملہ اسمیہ کہتے ہیں۔ لیکن جس کا ایک جز فعل تام ہو اس کو جملہ فعلیہ کہتے ہیں۔
(5) اردو میں مبتدا منصلہ ذیل اجزائے کلام ہو سکتے ہیں۔
(الف) ایک اسم یا ضمیر حالت فاعلی میں جیسے محمود آگیا۔ وہ گیا۔
(ب) دو یا دو سے زائد اسم یا ضمیر حالت فاعلی میں جیسے شیر اور بکری ایک گھاٹ پانی پیتے ہیں۔ ہم تم مل کر جائیں گے۔
(ج) صفت یا اعداد حالت فاعلی ہیں جیسے کوئی پرہیز گار ایسا نہ کرے گا۔ یا دو یہاں تھے، چار وہاں تھے۔
(د) مصدر کی حالت میں جیسے مجھے جانا ہے۔ رونا اچھا نہیں۔
(ہ) کوئی فقرہ یا جملہ جیسے دلّی پہنچنا آسان نہیں۔
(و) کبھی اسم حالت ظرفی میں اور اکثر تک کے ساتھ مبتدا ہوتا ہے جیسے گھر تک بک گیا۔
نوٹ:- جملہ بھی مبتدا ہوتا ہے۔ اس کا ذکر مرکب جملوں کے بیان میں آئیگا۔
(2) خبر۔ مفصلہ ذیل اجزائے کلام ہو سکتے ہیں۔
(الف) فعل، جیسے میں جاتا ہوں، وہ آتا ہے۔ زید اٹھا وغیرہ۔
(ب) اسم یا ضمیر حالت اضافی میں جیسے اس کا نام کلو ہے۔ وہ عابد ہے۔ وہ چھت پر ہے۔ وہ گھر کس کا ہے۔
(ج) صفت۔ جیسے وہ شخص بڑا جری ہے۔
(د) عدد۔ جیسے اس کا قدچھ فٹ کا ہے۔
(ہ) کوئی لفظ یا فقرہ جو بطور اسم استعمال ہو جیسے میں منعم صاحب کا بھیجا ہوا ہوں۔
نوٹ:- جن جملوں میں مبتدا اور خبر دونوں اسم ہوں اس میں اسم ذات
 
251

اور اسم خاص مبتدا ہوگا۔ اور اسمِ صفت اور اسمِ عام خبر۔ لیکن جب دونوں اسم عالم یا اسمِ صفت ہوں تو جس میں خصوصیت پائی جائے گی وہ مبتدا ہوگا۔ اگر دونوں اسمِ ذات ہوں تو ان میں معرفہ مبتدا ہوگا۔ اور نکرہ خبر۔ جیسے ہوا گرم ہے۔ خالد عقلمند ہے۔ کبوتر پرند ہے۔ زمین گول ہے۔ زید انسان ہے۔
(۲)وہ دو اسمِ ذات کہ ایک اسم صفت کے معنی دیتا ہو۔ اس میں جو خاص اسمِ ذات ہوگا وہی مبتدا ہوگا۔ جیسے ؎
سائے کو پتہ نہ تھا شجر کا عنقا تھا نام جانور کا
(۳)اگر دونوں اسمِ خاص ہوں تو پہلا مبتدا دوسرا خبر ہوگا۔ جیسے اسد اللہ خان بزمِ سخن کے بادشاہ ہیں۔
(۴)اگر مشبہ اور مشبہ بہ ہوں تو مشبہ مبتدا ہوگا اور مشبہ خبر جیسے۔
رزم کی داستاں اگر سنئے ہے زباں میری تیغ جوہر دار
(۵)اگر ایک ہی جملہ میں ایک لفظ مکرر آئے اور اس میں ایک اسمِ ذات کے معنی دیتا ہے اور دوسرا اسمِصفت کے تو پہلا مبتدا اور دوسرا جملہ خبر ہوگا جیسے ؎
آدمی آدمی ہے اور ہے حیواں حیاں تیری رفتار جدا کبک کی رفتار جدا
(۶)مبتدا پہلے آتا ہے مگر نثر میں کبھی خبر مقدم ہوکر خصوصیت کا فائدہ دیتی ہے جیسے عقلمند تو خالد ہے۔
(۷)نظم میں کھی خبر پہلے آتی ہے اور کبھی فعل ناقص سب کے پہلے آجاتا ہے جیسے ؎
غنیمت ہے صحت علالت سے پہلے
(۸)ہے۔ کلام میں مبتدا اور خبر دونوں کے بعد آتا ہے مگر نطم میں اس کی پابندی ضروری نہیں جیسے ؎
 
252

ضروری ہے دریا دلی بہرِ نام کبھی ناؤ خشکی میں چلتی نہیں

نوٹ:۔ حسبِ ذیل صورتوں میں مبتدا محذوف ہوتا ہے۔
(۱)جہاں مبتدا بہ آسانی معلوم ہوسکے مثلاً خطاب اور استفہام کی حالت میں جیسے بیٹھو۔ آئیے۔ یعنی تم بیٹھو۔ آپ آئیے۔ یا سید کب آئے۔ جواب میں پرسوں یعنی سیدپرسوں آئے۔
(۲)جب صورت فعل سے فاعل ظاہر ہو جیسے۔ اسیر شام ہجراں ہوں۔ رہین صبح کلفت ہوں۔ یعنی میں اسر شام ہوجراں ہوں۔۔۔
(۳)ضرب الامثال اور اسی قسم کے دوسرے جملوں میں اختصار کے خیال سے جیسے مان نہ مان میں تیرا مہمان۔ یعنی تو مان نہ مان۔۔۔

نوٹ:۔ حسبِ ذیل صورتوں میں خبر محذوف ہوتی ہے۔
(۱)جب خبر بہ اآسانہ معلوم ہوسکے مثلاً سوال و جواب کی صورت میں جیسے خالد کب آیا۔ جواب میں پرسوں یعنی پرسوں آیا یا تمھارے پاس روپیہ ہے جواب میں ہاں یا ہے یعنی روپیہ ہے۔
نوٹ:۔ کبھی ایک مبتدا کی کئی خبریں ہوتی ہیں جیسے غالب شاعر تھا۔ ادیب تھا۔ موحد تھا۔ متقی تھی۔ اور پرہیز گار تھا۔
(۲)کبھی مبتدا اور خبر دونوں محذوف ہوتے ہیں جیسے تمھارے پاس روپیہ ہے۔ جواب میں ہاں یعنی میرے پاس روپیہ ہے۔

نوٹ:۔ فعل ناقص جسے بعض لوگ حرفِ ربط بھی کہتے ہیں جو مبتدا اور خبر کے ملانے کے واسطے آتاہے۔ حسبِ ذیل صورتوں میں محذوف ہوتا ہے۔
(۱)مفرد بیان میں جہاں اس کا حذف آسانی سے سمجھ میں آسکتا ہے جیسے ادھر دل نے ادھر جگر نے یعنی ادھر دل ہے ادھر جگر ہے۔
 
آخری تدوین:
253

(۲)مقابلے میں۔ ایسی صورت جیسے چودھویں کا چاند۔
(۳)نفی جملوں میں جیسے۔ اسے خود علم نہیں۔
(۴)ضرب الامثال میں جیسے۔ اونچی دکان پھیکا پکوان۔
(۵)نظم میں بھی محذوف ہوجاتا ہے جیسے اقبالؔ ؎
التجائے ارنی سرخی افسانۂ دل قصہ دار و رسن بازی طفلانۂ دل

تَقْوِیْمُ التَراکِیْب۔ فارسی اور دیگر زبانوں میں ترکیب نحوی کا طریقہ آسان ہے لیکن اردو کی ترکیب بہت مشکل ہے کیونکہ اردو زبان میں دیگر زبانوں کے الفاظ و محاورات بکثرت ہیں۔ مصرعہ یا شعر کی ترکیب نحوی کرنے سے پہلے بامحاورہ نثر کرنا چاہئے۔
نوٹ۔ جملہ خبریہ کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔ اسمیہ اور فعلیہ

جملہ اسمیہ۔ جملہ ہمیشہ فعل ناقص سے بنتا ہے۔ مبتدا اس میں مسندالیہ ہو اور خبر فعل ناقص مل کے مسند جیسے۔ ء
ثمر ہے قلم کا حمد باری
اس کی نثر یہ ہوئی۔ قلم کا ثمرہ حمدباری ہے۔ ترکیب نحوی حسب ذیل ہے۔ قلم۔ مضاف الیہ۔ کا ۔ حرفِ اضافت۔ ثمرہ۔ مضاف۔ پس مضاف اور مضاف الیہ مل کر مبتدا اور مسند الیہ ہوا۔ حمد مضاف۔ باری مضاف الیہ چنانچہ مضاف اور مضاف الیہ مل کر خبر ہوئی۔ ہے۔ فعل ناقص۔ یعنی فعل ناقس اور خبر مل کر مسند ہوااور مسند و مسند الیہ مل کر جملہ اسمیہ بن گیا۔

جملہ فعلیہ۔ اس جملہ میں فاعل اور فعل کا ہونا ضروری ہے خواہ مفعول ہو یا نہ ہو۔ جیسے تم آئے۔ یہاں تم فاعل اور آئے فعل۔ یہ دونوں مل کر جملہ فعلیہ ہوا۔ تم نے بات کہی۔ اس میں تم فاعل نے علامت فاعل بات مفعول اور کہی
 
254

فعل ہے۔ چنانچہ فاعل اور مفعول مل کر جملہ فعلیہ ہوا۔

[TODO: Add Chart][/quote]

جملہ مرکب۔ اس کو جملہ ہائے مطلق بھی کہتے ہیں۔ اس کی چار قسمیں ہیں۔ جمع۔ تردیدیہ۔ استدراکیہ۔ معللہ۔ یہ جملے دو یا دو سے زیادہ ہوتے ہیں۔ اور ایک دوسرے سے تتابع رکھتے ہیں۔

جملہ جمع۔ اس کو جملۂ معطوفہ بھی کہتے ہیں اور ان جملوں کے درمیان حرف عطف ہوتا ہے۔ حرف عطف سے پہلا جملہ معطوف الیہ اور بعد کا جملہ معطوف ہوتا ہے۔ جیسے تم آئے اور وہ گیا۔ یہاں اور حرف عطف تم آئے معطوف علیہ۔ وہ گیا معطوف ہے۔

جملۂ تردیدیہ۔ اہل قواعد اس کو بھی جملہ معطوفہ کہتے ہیں لیکن اس کا ایک جملہ دوسرے جملہ کی ضد ہوتا ہے اور ان جملوں کے درمان عموماً یا آتا ہے جیسے تم آؤ یا وہ آئے۔ واضح ہو کہ کبھی ۔ کہ نہیں۔ نہیں تو۔ ورنہ۔ خواہ۔ چاہے اور نہ بھی تردید کا کام دیتے ہیں۔ جیسے وہ گیا کہ نہیں گیا۔ تم نہیں آؤ تو میں خود آؤں گا۔ تم کو آنا چاہیے ورنہ مجھے خود آنا پڑے گا۔ تم آؤ خواہ وہ آئے۔ تم آؤ چاہے وہ آئے۔ تم آؤ نہ وہ آئیں۔

جملہ استدراکیہ۔ جملہ شرطیہ جمع کی ایک قسم ہوتا ہے۔ اس کا پہلا جملہ شرط دوسرا جملہ جزا ہوتا ہے اور درمیان میں رف شرط آتا ہے۔ جیسے میں نے بتایا لیکن وہ نہ سمجھے۔ یہاں لیکن حرف شرط ہے۔ میں نے بتایا شرط۔ وہ نہ سمجھے جزا۔ شرط اور جزا مل کر جملہ استدراکیہ ہوا۔ واضح ہو کہ نظم میں اکثر حرفِ شرط محذوف ہوتا ہے ؎
 
Top