میر انیس
لائبریرین
صفحہ 274
سے ایک نیک' ایک سے ایک حق پسند' ایک سے ایک راست باز اور پھر اہلِ مذاہب میں اس بلا کا محاسدہ ہے کہ ایک دوسرے کو دیکھ نہیں سکتا۔ جس کو دیکھو اپنے ہی تئیں بر سر حق جانتا ہے اور تمام دنیا گمراہ ۔ نہیں معلوم آپ نے مزہب کی طرف سے کیوں کر اپنا اطمینان کرلیا ہے۔ میرا خیال تو یہ ہے کہ ہر شخص تقلیدی مذہب رکھتا ہے۔ ایک مسلمان اس واسطے مسلمان ہے کہ وہ اتفاق سے مسلمان گھرمیں پیدا ہوا۔
حجۃ الاسلام: دین کے لحاظ سے دیکھا جاتا ہے تو ہم سب کی ماشاللہ بڑی تباہ حالت ہے' ایسا کون سا بندہ بشر ہے جو مبتلائے گناہ نہیں ۔ ہماری ہمت اس طرح کی ضعیف واقع ہوئی ہے کہ ہم اس دام میں بے پھنسے رہ نہیں سکتے۔ ہماری مجال نہیں کہ دنیاوی حکومتوں کے آگے ذرا بھی سر اٹھاسکیں مگر خدائے بر حق' قادر مطلق' شہنشاہِ دو جہاں کی کی حکومت کے استخاف کو ہم نے کھیل سمجھ رکھا ہے:ع
کرم ہائے تو مارا کرد گستاخ
غرض تو یوں ہر فرد بشر سے دن رات میں ہزار نالائقیاں سرزرد ہوتی ہیں مگر یہ سب سے بڑی نالائقی کی ہے کہ وہ دین کے پیرائے میں اپنی طبیعت پاجی پن کو ظاہر کرے ۔ دوسروں کو کیا الزام دے سکتا ہوںکہ میں آپ سے بدتر اور نکھتر ہوں لیکن ان مذہبی مباحثات کو تو میں نہایت ہی حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں ۔ شاید میری رائے غلط ہو' مجھ کو تو ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام کشاکش آپس کی ضد اور تعلی اور سخن پروری اور بے جا تعصب کی وجہ سے ہے۔خیر اول! تو شامتِ نفس سے میں دینیات میں بہت ہی تھوڑا وقت صرف کرسکتا ہوں اور جس قدر کرسکتا ہوں اور وہ میرے اپنے ہی نفس کے احتساب کو کافی نہیں ۔ میں مذہبی مباشات کو ذہن میں آنے نہیں دیتا' اگر کبھی ایسا خیال ہوا تو میں یہ کہ کر ٹال دیا کرتا ہوں : ع
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو
اور یہی مضمون ایک جگہ قران مجید میں بھی آیا ہے : یا ایہا الذین آمنوا علیکم انفسکم لا یضر کم من ضل انا اھدیتم الی اللہ مرجعکم جمیعاَ فینبئکم بما کنتم تعملون ۔ دوسرے پر حملہ کرنے کی مصیبت سے تو یوں بچے کہ اپنی کرنی اپنی بھرنی ' وہ